1,318

حضرت میاں محمد بخش جہلمی عارف کھڑی ؒ

انجم سلطان شہباز

آپ 1246ھ بمطابق 1830ء میں جہلم کے علاقہ کھڑی کے گائوں ’’ چک ٹھاکرہ ‘‘ میں پیدا ہوئے جو دریائے جہلم سے تقریباً دو میل اور منگلا سے لے کر جڑی کس تک پھیلے ہوئے پہاڑی سلسلے کے دامن میں واقع ہے۔ اس وقت یہ علاقہ میر پور آزاد کشمیر میں ہے جبکہ پہلے جڑی کس تک کا علاقہ جہلم میں شامل تھا اور ہٹیاں میر پور سے ریاست جموں و کشمیر شروع ہوتی لیکن جب عہد انگریزی میں مری، ہری پور ، مانسہرہ اور ایبٹ آباد کو کشمیر سے الگ کر لیا گیا تو مہارا جا کشمیر نے مطالبہ کیا کہ اس کا رقبہ پورا کیا جائے جس پر سیالکوٹ سے چھمب ، گجرات سے بھمبر اور جہلم سے جا تلاں، جڑی کس تک کا علاقہ کشمیر میں شامل کر دیا گیا ۔ یہ تقسیم 1850ء کے لگ بھگ عمل میں آئی تھی جبکہ حضرت میاں محمد بخش ؒ 1830ء میں اس وقت کے علاقہ جہلم میں پیدا ہوئے تھے اور بعدازاں انتظامی تقسیم کے تحت ان کا علاقہ کشمیر میں ملا دیا گیا جس کی بنا ء پر اب انہیں ’’ رُومی کشمیر ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ سیف الملوک کے ایک ایڈیشن پر ’’ میاں محمد جہلمی ‘‘ لکھا ہوا ہے ۔ آپ خود اپنے مسکن کا تعارف یوں کراتے ہیں۔
جہلم گھاٹوں پر بت پاسے میر پورے تھیں دکھن
کھڑی ملک وِچہ لوڑن جہڑے طلب بندے دی رکھن
سجادہ نشین اوّل حضرت بابا دین محمدؒ آپ کے پر دادا تھے۔ جو حضرت پیر شاہ قلندرؒ کے خلیفہ اور مقرب خاص تھے۔ حب حضرت پیر شاہؒ کو موہال کے نزدیک موضع مالدیو کے سامنے چوروں نے شدید گھائل کر دیا تو انہیں بوڑا جنگل میں بغرض علاج منتقل کیا گیا۔ جہاں سے بابا دین محمد ان کو چک ٹھاکرہ (کھڑی شریف )لے گئے۔
حضرت میاں محمد بخش ؒ کے والد محترم میاں شمس الدین ؒ ، حضرت پیر شاہ غازی قلندر المعروف دمڑی والی سرکار ؒ کے دربار کے سجادہ نشین تھے ، منصب خلافت اور دستار سجادگی کا اعزاز شروع ہی سے آپ ؒ کے خاندان میں چلا آ رہا تھا۔ حضرت میاں شمس الدین ؒ ، حضرت میاں بہاول بخش ، حضرت میاں محمد بخشؒ اور سب سے چھوٹے علی بخش تھے ۔ حضرت میاں محمد بخش ؒ کا سلسلہ نسب حضرت عمر فاروق ؓ تک پہنچتا ہے۔ حضرت میاں محمد بخش ؒ کا تعلق پسوال گوت سے تھا جو گوجر مشہور ہے۔
حصول تعلیم کے لیے حضرت میاں محمد بخش ؒ روزانہ سموال شریف جاتے اور حافظ محمد علی سے درس لیتے ، حضرت حافظ ناصر ؒ ، ولی کامل بھی آپ پر شفقت فرمایا کرتے تھے ، وہ سماع سے بڑی رغبت رکھتے تھے ۔ جن دنوں حضرت میاں محمد بخشؒ مولانا جامیؒ کی ’’ یوسف زلیخا ‘‘ کا سبق پڑھتے ، آپ ؒ اس کے ابیات کچھ اس قدر پر درد اور پرسوز انداز میں پڑھتے کہ حضرت حافظ ناصرؒ پہ محویت و انہماک کا عالم طاری ہو جاتا اور وہ زار وقطار رونے لگتے۔ ایک دن حسب معمول حافظ صاحب مسجد میں تشریف لائے اور میاں صاحبؒ سے زلیخا کے ابیات سنانے کی فرمائش کی۔ آپ ؒ نے عرض کیا کہ پہلے آپ دعا فرمائیں کہ مجھے جلد حصول علم نصیب ہو۔ حافظ صاحب نے اسی وقت دل کی گہرائیوں سے دعا فرمائی کہ اللہ تمہیں علم لدنی سے سرفراز کرے اور ہر کتاب تمہارے لئے آسان ہو جائے۔ حافظ صاحب کی دعا سے مشکل سے مشکل کتاب آپؒ کے سامنے آسان ہو گئی۔
آپ نے تفسیر ، حدیث ، فقہ ، اصول ، منطق، ادب ، نظم اور دیگر علوم و فنون سموال شریف کی مشہور دینی درسگاہ میں علامہ غلام حسین ؒ سے پڑھیں اور فارسی اور عربی زبان پر یدطولیٰ حاصل کیا۔ علم حصولی کی تکمیل کے بعد علم حضوری بھی حاصل کر لیا۔ آ پ نے شادی نہیں کی اور ساری زندگی تجرد میں گزار دی ۔
ایک روز دوپہر کے وقت حضرت میاں صاحب ؒ کے والدبزرگوار پلنگ پر محواستراحت تھے ۔ حضرت میاں صاحب ؒ آکر پائنتی کی طرف بیٹھ گئے اور ان کے پائوں دابنے لگے۔ انہوں نے پوچھا کہ کون ہے ؟ آپ نے عرض کی کہ محمد بخش ہوں، جسے سچا فقر درکار ہے۔ آپ ؒ کی اس بات نے ان پر گہرا اثر کیا ۔وہ اٹھ کر بیٹھ گئے آپ ؒ کو سینے سے لگایا اور آبدیدہ ہو کر رب کریم کی بارگاہ عظیم میں دعا فرمائی ۔
’’ اے اللہ تو علیم و بصیر ہے، میرا یہ لخت جگر کسی دنیا دی دولت اور حاجت کا طلبگار نہیں ہے۔ صرف تیری محبت اور رضا کا طالب ہے میں اس کو تیرے سپرد کرتا ہوں۔ تو اپنے بندوں پر رحمت بھیجنے والا ہے اے اللہ !اس بچے کو اپنے خاص بندوں کی صف میں کھڑا کر ۔ ‘‘ (آمین )
حضرت میاں شمس الدین ؒ جب زیادہ بیمار پڑے تو قرب و جوار کے علما اور رئوسائے وقت کو طلب فرمایا اور حاضرین کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ انسان کی زندگی ناپائیدار ہے۔ اس لیے میں اپنی زندگی میں ہی دستار سجادگی اور منصب خلافت دربار شریف حضرت میاں محمد بخش ؒ کو عطا کر تا ہوں ۔ کیونکہ ہمارے خیال میں یہی فرزند اس بار گراں کا متحمل ہو سکتا ہے ۔ آپ کے ارشاد گرامی کو سنتے ہی حاضرین کی طرف سے تائیدی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ اس پر حضرت میاں محمد بخش ؒ نے اپنے والد بزرگوار کی رو برو مئودب کھڑے ہو کر ایک تقریر کی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضور نے اس ناچیز کو شفقت پدرانہ اور ذرہ نوازی سے جس عالی منصب کے لیے منتخب فرمایا ہے۔ اس اعزاز کے لیے شکریہ ادا کرنے کے لیے نیاز مند کو موزوں الفاظ نہیں مل رہے۔ حضرت قبلہ آپ کو قلب آئینہ جہاں نما سے ظاہری اور باطنی علم حاصل ہے آ پ کی فرمانبرداری کرنا سعادت دارین اور آپ کی ارشاد کی تکمیل میں برکات کا خزینہ ہے۔ مگر میں سوچتا ہوں کہ کہیں برادرکلاں حضرت میاں بہاول بخشؒ کی دل شکنی نہ ہو اور دوسری عرض یہ ہے کہ منصب سجادگی میں شان امیری پائی جاتی ہے ۔ حکام اور امراء سے میل جول ، کاروبار دنیا کا رہار گراں اور اسی طرح کے مشاغل مقصود حقیقی کی راہ میں حائل ہو جاتے ہیں اس ناچیز کو ان وجوہات کی بنا پر معذور جان کر اس منصب سے سبکدوش فرمایا جائے اور صرف دولت فقر خزانہ الہٰی سے عنایت فرمائی جائے۔

حضرت میاں شمس الدین ؒ نے اپنے عزیز فرزند کی یہ گزارش سن کر فرمایا : ’’میرے پیارے فرزند !تیرے دونوں بازو شہنشاہ ِ بغداد نے تھام لیے ہیں ‘‘ ۔ اس کے بعد انہوں نے آپ کو دعائوں سے سرفراز فرمایا ۔
میاں محمد بخش ؒ ابھی اس امر کے منتظر تھے کہ وہ کس سلسلہ میں بیعت کریں کہ ایک شب استخارہ کے بعد خواب وبیداری کے عالم میں حضرت غازی قلندر پیر شاہ دمڑی والا (م 1163ھ بمطابق 1749ء) نے آپ کا بازو پکڑ کر ارشاد فرمایا : اے فرزند !تو میرا مرید ہے او ر میں تیرا پیر ہوں‘۔ میاں صاحب ؒ کو باطنی و روحانی طورپر حضرت جناب پیر شاہ غازی قلندرؒ نے بیعت فرما کر اپنا مرید کر لیا اور ظاہری بیعت کے لیے آپ کو سلسلہ عالیہ قادریہ میں حضرت ولی کامل سائیں غلام محمد (م 1281ھ بمطابق 1864ء ) بمقام کلرڑ وی کے پاس جانے کا حکم دیا جو مرید بابا بدوح ؒ اور وہ مرید میاں حاجی بگا شیرؒ ساکن درکالی شریف اور وہ مرید پیر اشاہ غازی قلندر ؒ کے تھے ۔ سائیں غلام محمد ؒ کامل واکمل اور صاحب کشف و کرامات ولی تھے۔ دنیا و مافیہا سے کنارہ کش ہو کر صرف یاد الہٰی میں مستغرق تھے ۔ شب و روز ریاضت و مجاہدہ میں مشغول رہتے اور پیری و مریدی کا طریق اختیار نہ کیا ۔ آپ کا تعلق معزز اور امیر خاندان سے تھا مگر آپ نے دنیا وی مال و متاع اور عیش و عشرت کو ٹھکرا کر اپنے مرشد کے قدموں میں بسر اوقات کرنے کو بہتر سمجھا۔ جب حضرت میاں محمد بخش ؒ نے جا کر قدم بوسی کی اور پیر شاہ غازی قلندر ؒ کے ارشاد کے مطابق اپنا مدعا عرض کیا تو انہوں نے فرمایا کہ چند روز صبر کرو ۔ غرض اسی طرح چند سال گذر گئے ۔ حضرت میاں صاحب ؒ کا اضطراب بڑھتا چلا گیا ۔ دن رات بے چین اور مضطرب رہنے لگے۔ آپ فرمایا کرتے تھے اس انتظار سے جو تزکیہ ہوا اور کسی اور ریاضت سے نہ ہوا۔
آخر ایک روز حضر ت سائیں غلام محمد ؒ آپ کو اپنے پیر بدوح شاہ صاحب ؒ کے مرقد مبارک پر لے گئے اور بیعت سے برفراز فرمایا ۔ شیخ کامل کی روحانی تربیت گاہ میں رہ کر آپ نے خصائل رذیلہ اور خواہشات باطلہ کے تمام رنگوں اور آلائشوں سے اپنے دل کو پاک صاف کر لیا ۔ تکمیل شرائط بیعت کے بعد آپ ؒ کو حکم دیا کہ شیخ احمد ولی قطب مدار سے کشمیر جا کر ملو اور ان سے اپنا نعمت باطنی کا حصہ وصول کرو۔ بمو جب فرمان پاپیادہ صرف ایک کمبل اوڑھے آپ ؒ عازم کشمیر ہوئے۔ تلاش بیسار کے بعد آپ ؒ اس محلہ میں پہنچے جہاں شیخ احمد ولی ؒ کا مسکن تھا۔ آپ نے دروازے پر ہاتھ رکھا تو کواڑ کھل گئے ۔ سامنے ایک چوبی تخت پر ایک نوجوان تلاوت قرآن شریف میں مصروف تھا۔ آپ ؒ اجازت لے کر اندرداخل ہوئے ۔ آپ ؒ کے دریافت کرنے سے پہلے ہی نوجوان نے کہا کہ آپ ؒ شیخ صاحب سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں ؟آپ ؒ نے اثبات میں جواب دیا تو اس نے کہا کہ یہ مکان تو شیخ صاحب کا ہی ہے مگر ان کے تشریف لانے کا کوئی وقت نہیں۔ ایک یا دو ماہ کے بعد اچانک تشریف لاتے ہیں ۔ یہ سن کر حضرت صاحب ؒ سوچ میں ڈوب گئے اچانک بیرونی دروازے سے ایک نورانی صورت بزرگ ایک آدمی کے ہمراہ دست مبارک میں عصالئے اندر تشریف لائے ۔ میاں صاحب ؒ کی طرف آتے ہی یوں متوجہ ہو گئے جیسے کوئی دیرینہ آشنا خندہ پیشانی سے ملتا ہے۔ حضرت میاں صاحب ؒ نے پہلی ہی نظر میں شناخت کر لیا اور دل میں کہا کہ جس در مقصود کی تلاش میں اس طویل سفر کی صعوبت برداشت کی ہے۔ وہ گوہر مقصود یہی ہے۔ حضرت شیخ نے فارسی زبان میں دریافت حال شروع کیا۔ حضرت میاں صاحب ؒ نے مدعا ئے سفر بیان کیا اور اپنے مقام و مسکن کا حوالہ دیا۔ جب حضرت شیخ نے پیر شاہ غازی قلندر ؒ کا اسم مبارک سنا تو تعظیماً سر کو خم کر لیا۔ دیر تک باہم گفتگو ہوتی رہی۔ حضرت میاں صاحب ؒ برہنہ پاتھے تہبند اور کرتا زیب تن کیے، اوپر ایک کمبل اوڑھے ہوئے تھے ۔ حضرت شیخؒ نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور چند روپے نکال کر فرمایا کہ آپ نمازی ہیں برہنہ پا چلنے سے پائوں گندے ہو جاتے ہیں۔ بازار سے گھاس کے بنے ہوئے پاپوش (جوتے ) خرید کر پہن لین ۔ حضرت میاں صاحب ؒ نے بہت انکار کیا مگر حضرت شیخ ؒ کے اصرار سے مجبور ہو کر روپے رکھ لیے اور عرض کی شاید دوبارہ زیارت کا موقع نہ مل سکے۔ لہذٰا اسی وقت رخصت کی اجازت مل جائے تو مناسب ہے حضرت شیخؒ سے متبسم ہو کر فرمایا ۔ جب آپ کا واپسی کا ارادہ ہو آپ اسی جگہ آ جائیں ، ان شاء اللہ ملاقات ہو جائے گی۔ جب گفتگو ہو چکی تو حضرت شیخؒ اسی آدمی کے ساتھ واپس تشریف لے گئے اور حضرت میاں محمد بخش ؒ مزارات اولیاء کی زیارت کے لیے چل پڑے۔ جب شیخ اور الدین ولی ؒ کے مقبرہ پر گئے تو حاکم کشمیر دیوان ہسپت رائے کے ایک درباری نے آپ کو شناخت کر لیا اور فوراً حاکم کشمیر کو مطلع کیا۔ وہ آپ ؒ کا غائبانہ پرستار تھا اور باذوق اور اہل علم تھا ۔ علما اور فقراسے عقیدت رکھتا تھا۔

وہ میاں صاحب ؒ کے دیدار کا مشتاق تھا۔ اسی وقت کچھ معزز افراد کے ہمراہ حاضر ہوا۔ سید ّ باقر علی بھی اطلاع پاکر تشریف لائے اور حضرت میاں محمد بخشؒ کے آرام و آسائش اور قیام و طعام کا بندوبست کیا ۔ حضرت میاں صاحب ؒ ایک ماہ تک وہیں مقیم رہے۔ جب آپ ؒ سے شرف ملاقات حاصل ہوا تھا ۔ آپ ؒ نے دیکھا کہ وہی نوجوان حسب سابق تلاوت قرآن مشغول تھا۔آپ ؒ اس کی اجازت سے اندر داخل ہوئے۔ابھی کلام بھی نہ کیا تھا کہ ماہ آسمان ولائت نے طلوع فرمایا اور آتے ہی بجلت حضرت میاں صاحب ؒ کا دست مبارک پکڑ کر حجرہ میں لے گئے ۔دروازہ بند کر دیا اور نعمت باطنی سے حصہ دے کر رخصت فرمایا ۔
آغاز عمر میں جب آ پ نے میدان طریقت میں قدم رکھا تو آپؒ جنگل میں تنہا عبادت کرتے رہتے تھے ۔ ایک مرتبہ آپ ؒ کو جنگل میں ایک نورانی صورت بزرگ نظر آئے اور سامنے آتے ہی کلام کیا ۔ حضرت میاں صاحب ؒ جان گئے کہ کوئی ولی اللہ ہیں کیوں کہ ان کی وضع اور لباس اس وقت ایسا نہ تھا جس سے ظاہر ہوتا کہ وہ فارسی جانتے ہیں وہ کافی دیر حضرت میاں صاحب ؒ سے پاکیزہ گفتگو فرماتے رہے پھر ان کا ہاتھ پکڑ کر چند قدم دور لے گئے اور ایک سبز بوٹی کو زمین سے توڑ کر فرمایا کہ اس سے خالص سونا بن سکتا ہے۔ اگر آپ کہیں تو یہ ترکیب آپ کو بتا دوں۔ آپ ؒ نے نہایت شان استغنا ء سے جواب دیا کہ روپیہ ہمارے گھر بھی ہے ، کوئی ایسی ترکیب بتائیں جس سے قلب میں تبدیلی واقع ہو۔ یہ سن کر وہ بزرگ مسکراتے ہوئے چلے گئے۔ چند دنوں بعد اچانک پھر تشریف لائے۔ میاں صاحب ؒ نے تعظیم سے سلام کیا۔ وہ بزرگ بولے قندھار سے آیا ہوں اور آپ کو ایسا عمل بتلاناچاہتا ہوں جس سے جنگل کے تمام جانور آ پؒ کے تابع ہوں گے اور سواری کے لیے شیر حاضر ہو گا۔ حضرت میاں محمد بخش ؒ نے جواب دیا کہ ہمارے گھر میں سواری کے لیے عمدہ گھوڑے کی سواری سے اعلیٰ نہیں ہے۔ یہ جواب سن کر ان بزرگ نے آ پؒ کو دعا دی ۔ کچھ نصیحتیں فرمائیں او ر کچھ عمل وظائف بتا کر رخصت ہو گئے ۔ ابن عربی اور ان کے پیر و ولادیت کی دو قسمیں مانتے ہیں:
ایک ولایت عامہ جو سب اہل ایمان کو حاصل ہے ۔ دوسری ولایت خاصہ جو اولیاء کا ملین اور واصلین کے ساتھ مخصوص ہے اور بندے کے فنافی اللہ اور بقایا اللہ سے عبارت ہے۔
یعنی بندہ اس مقام میں قید خودی سے رہا ہو کر حق تعالیٰ کی ذات میں فانی ہو جاتا ہے اور اس کی بقا کے ساتھ باقی۔ اس مقام پر فائز ہونے والا ولی حصول فنا وبقا کے ساتھ معارف الہٰیہ کا مخزن اور عارف بن جاتا ہے۔ اس وقت اس کی زبان حق ترجمان پ حقائق و معارف جاری ہوجاتے ہیں اور وہ ان کی خبر دیتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ہمیں میاں محمد بخش ؒ کھڑی نظر آتے ہیں۔ ان کاتمام کلام عرفان محمدی اور معروفت الہٰیہ سے لبریز ہے۔ میاں صاحب کے تمام کلام میں توحید ہمہ اُوست ایک منفرد تمثیلی رنگ وروپ میں نمایاں طور پرنظر آتے ہیں۔ یعنی ایک حقیقت (Divine Reality) مجاز کی صورت میں نظر آتی ہے ۔ ایک قاعدے اور قانون کے مطابق دین اسلام کا نظام روحانیت جاری و ساری ہے تمام سلاسل صوفیاء ایک ہی درخت کی شاخیںہیں۔ ‘‘
(حضرت میاں بخش کی شہرہ آفاق سی حرفیاں ، چودھری ظفر اقبال چوہان ، ص3تا 4)
ْجب کسی محب کو کوئی تحریر لکھنا مقصود ہوتی تو آپ ؒ عام طور پر منظوم ہی لکھا کرتے ۔ فارسی ، اردو ، پنجابی زبان میں بے تکلف اور سرعت سے اشعار لکھتے تھے ۔ عربی زبان میں آپ کی نظم اور نثر نہایت اعلیٰ درجے کی ہوتی تھی ۔ مگر عربی میں اشعار کہنے کا کم اتفاق ہوتا تھا۔ آپ کے اشعار کی اثر آفرینی اور ترنم سے لوگوں سر وجد طاری ہو جاتا ۔ جب آپ ؒ کے اشعار لکھنے کی طرف متوجہ ہوتے تو یوں لگتا اشعار کا دریا اُمڈ چلا آ رہا ہے۔ کوئی کیسا ہی تیز لکھنے والا ہوتا آپ ؒ کے اشعار ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا تھا۔
آپ کی 17تصانیف ہیں جن میں سیف اللوک و بدیع الجمال ، سوہنی مہینوال ، تحفہ پاک رسول ، تحفہ میراں ، قصہ شاہ منصور ، شیخ صنعاں ، شیریں و فرہاد ، نیرنگ عشق، گلزار فقر ، قصہ سخی خواص خان، مرزا صاحباں ، ہدایت المسملین ، تذکرہ مقبمی ، سی حرفی سسی پنوں ، س حرفی ہیر رانجھا ، قصیدہ بردہ شریف اور سی حرفی شامل ہیں۔
قصہ سیف الملوک حضرت میاں بخش ؒ کے عہد شباب کی تصانیف میں سے ہے آپ ؒ کی عمر مبارک اس وقت 33سال تھی۔ ذوق اور شوق کے عالم میں جنگل بیانوں میں بے باکانہ گھومتے رہتے تھے ۔ سیف الملوک کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس کے پڑھنے اور سننے والے کے دل پہ گہرا اثر ہوتا ہے۔ ہر ایک مصرعہ نشتر کی طرح دل کو لگتا تھا ۔ اہل ذوق اس کتاب کو سینے سے لگائے رکھتے تھے۔ اس قصے کا بیشتر حصہ میاں صاحب ؒ نے محلہ مستریاں جہلم شہر میں بیٹھ کر تصنیف فرمایا ۔
حضرت میاں محمد بخشؒ نے سیف الملوک کے جملہ حقوق حضرت ملک محمد ؒؒ کے نام کر دیئے تھے۔ یہ تصنیف سب سے پہلے آپ ؒ کے خلیفہ حضرت ملک محمد جہلمی العمروف مہار والی سرکار ؒ نے آپ کی حیات میں جہلم کے چھاپہ خانہ سے چھپوائی ۔ حضرت میاں محمد بخش ؒ کے وصال کے بعد ان کی سوانح عمری سب سے پہلے حضرت ملک محمد ؒ نے تحریر کی جو مستند سمجھی جاتی ہے کیونکہ حضرت میاں محمد بخش ؒ اور حضرت ملک محمد ؒ صاحب کی رفاقت کا عرصہ بیالیس سال ہے۔ حضرت میاں محمد صاحب ؒ ، ملک محمد صاحب ؒ کے گھر کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے تھے ۔ حضرت ملک محمد ؒ ، حضرت میاں محمد بخشؒ کے روحانی مقام سے آشنا اور ان کی بے شمار کرامات کے گواہ تھے۔
حضرت میاں محمد بخش ؒ کریم النفس ، حلیم طبع، روشن دماغ ، بلند ، بلند ہمت ، فصیح البیان ، عالم فاضل ، عابد و زاہد ، اہل درد اہل درد وشوق سخن فہم ، وفا شعار ، خوشنو یس ، شاہسوار اور تنو مند تھے ۔ آپ ؒ کا قد دراز متناسب جسم ، گندم گوں رنگ ، سرمبارک کلاں ، خوشنما پیشانی ، بینی بلند ، چشم مبارک خوبصورت ، سرخی مائل اندام بازو قوی ، سینہ کشادہ اور جسم توانا اور طاقتور تھا۔ پیادہ سفر میں تیز رفتار تھے۔ حضرت میاں محمد ؒ کا درجہ اولیاء اللہ میں نہایت بلند تھا لیکن اس کے باوجود آ پ کے اندر حلم ، وفا ، ایثار ، عاجزی اورانکساری بدرجہ اتم موجود تھی ۔ لہٰذا آپ ؒ فرماتے ہیں:
ہر کوئی میں تھیں چنگا میں ہی نیچ ایاناں
تھوڑا بہتا شعر سخن دا گھاٹا واہدا جاناں
٭٭٭٭٭
میں شوہدا مر خاک رلیساں جھل ہجردی کانی
جے رب سچے روشن کیتے رہسن سخن نشانی
٭٭٭٭٭
سخن بھلا جو دردوں بھریا بن دردوں کجھ ناہیں
نڑاں کماداں فرق رہو دا کیا کانے کیاکاہیں !
٭٭٭٭٭
درد منداں دے سخن محمد دیہن گواہی حالوں
جس پلے پُھل بدھے ہوون آوے بُو رُومالوں
٭٭٭٭٭
سیکڑیاں تھیں جے ہک آوے بیت پسند تسانوں
اوس ہک چنگے پچھے بخشو سارے مند اسانوں
٭٭٭٭٭
شعر میرے اس ملک اپنے وچ مول نہ پاندے قیمت
دور دراڑے جس نوں لبھن جانے بہت غنیمت
٭٭٭٭٭
کیسر سستا ہے کشمیر ے پچھو مل لاہوروں
پستہ تے بادام محمد سستے ملن پشوروں
حضرت میاں محمد ؒ نے پیر شاہؒ کا روضہ اور مسجد کی تعمیر کرائی تھی۔ دربار شریف کے گنجان درختوں کے اندر اور چار دیواری کلاں کے اندر عمارات بھی حضرت میاں محمد بخش ؒ نے اپنی حیات میں تعمیر کرائی تھیں۔ ایک مرتبہ کوہ پنجن پر حضرت میاں محمد بخش ؒ سخت علیل ہوگئے ۔ اسہال شروع ہو گئے لیکن آپ باوضو رہے اور یاد الہٰی سے غافل نہ ہوئے۔ حضرت میاں صاحب ؒ ہر سال سرور کائنات کے موئے مبارک کی زیارت کے لیے گجرات تشریف لے جایا کرتے تھے اور بعض احباب کی خواہش پر موضع دھنی بھی قیام فرماتے تھے۔
حضرت میاں محمد بخش ؒ نے زمانہ حیات ہی میں اپنی قبر کے واسطے ایک جگہ پسند فرما کر قبر کھدوارکھی تھی ۔ موسم گرما میں آپ کوہ پنجن پر قیام فرمایا کرتے تھے ۔ وہاں بھی آپ ؒ نے قبر تیار کرارکھی تھی ۔ مگر آپ کی آرزو تھی کہ آپ ؒ وفات کے بعد حضرت پیرا شاہ غازی ؒ سے دور نہ رہیں ۔
حضرت ملک محمد ؒ نے ایک بار بحالت خواب چند سفید پوش بزرگ دیکھے۔ ہر ایک کے چہرے سے کمال و جلال کا اظہار ہوتا تھا ۔ دل میں خیال آیا یہ کوئی باکمال مردان خد ا کی جماعت ہے۔ سب سے پیچھے جو بزرگ تھے ان سے حضرت ملک محمد ؒ نے سوال کیا کہ یہ بزرگ کون ہیں۔ جواب ملا کہ یہ سب ابدال ہیں۔ آپؒ نے دریافت کیا کہ ہمارے صاحب ؒ اس جماعت میں نہیں آئے ؟ جواب ملاکہ وہ پرسوں آئیںگے۔ وہ جماعت بالکل خاموش اور بخالت استغراق محو سفر تھی ، راستے میں ایک نہر آئی ۔ وہ جماعت آب رواں پر سے اسی طرح چلتی گئی جس طرح خشکی پر چل رہے تھے نہ کسی نے دامن سنبھالا اور نہ پاپوش اتارے ۔ حضرت ملک محمد ؒ نے جب یہ خواب حضرت میاں صاحب کو سنا یا تو وہ خاموش ہو گئے ۔ جب اس خواب کو چار سال سے زائد عرصہ گزر گیا تو میاں صاحب ؒ ایک روز دربار شریف پر حجرہ مبارک کے صحن میں چارپائی پر دراز تھے ۔ دوپہر کا وقت تھا۔ حضرت ملک محمد صاحب ؒ ان کے رو برو بیٹھے تھے۔ حضرت میاں صاحب ؒ نے ان کی جانب متوجہ ہو کر فرمایا ۔ ملک !تمہاری وہ ’’ پرسوں ‘‘ آج ہوئی ہے۔ حضرت ملک صاحب ؒ نے عرض کیا کہ حضور میں آپ کی بات نہیں سمجھا ۔
حضرت میاں صاحب نے فرمایا کیا تمہیں اپنا خواب یاد نہیں رہا ۔ وہ پرسوں اب برابر ہوئی ہے ۔ پھر فرمایا کہ ان کی پرسوں بڑی لمبی ہوتی ہے۔ ملک محمد صاحبؒ کو اپنا تمام خواب یاد آ گیا اور تب ان کو علم ہوا کہ آپ ؒ ابدال تھے۔ ملک محمد ؒ جہلم تشریف لائے تو کچھ دن بعد آپ ؒ کو حضرت میاں محمد بخشؒ کا ایک نامہ مبارک موصول ہوا۔ جس میں آپ ؒ نے اپنے وصال اور دائمی جدائی کا اشارہ دیا تھا۔
الف ، آوند ا دیر لگا ناہیں فیر گیا وقت پچھوں تادناتوں
دلدار تیرے جدوں دور گئے کدوں وقت ضرورت دے آونا توں
ہو یا جیو اداس نہ پاس جانی جانی میرڑے نال ستاوناتوں
چاوے رزق مہار محمد ا جاں ملکا !نال قطار دے جاونا توں
اپنے اس خط میں آپ نے یہ تاکید فرمائی ہے کہ آنے میں اگر تاخیر ہوگئی تو پھر پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا ۔ جب دوست یہاں سے چلا گیا تو پھر بوقت کب آپائو گے ۔ آج میرا دل بہت اداس ہے کیونکہ میرا محبوب میرے پاس نہیں ہے۔ اس کی جدائی سے میرا دل پریشان ہے۔ میرا رزق اس دنیا سے اٹھا لیا گیا اس لئے اے میرے محبوب ملک جلد پہنچ کر میرے جنازے میں شرکت کر ۔
حضرت ملک محمد ؒ فرماتے ہیں کہ جس دن میں شام کے وقت دربار شریف پہنچا ۔ حضرت میاں محمد بخش ؒ بے ہوشی اور غشی کے عالم میں بستر پر دراز تھے۔ آپ ؒ نے 22جنوری 1907ء بمطابق 7ذوالحجہ 1324ھ بروز منگل وصال فرمایا ۔ حضرت ملک محمد ؒ نے روضہ مبارک پختہ تعمیر فرما کر سبز گنبد تلے درج ذیل فارسی اشعار میں تاریخ تعمیر کا سال بھی بتایا:
گنبد ہم شکل ماہ آسمان مرقد قطب زماں راسائباں
از عطا ہائش بنائے سر بلند برطواف ہجوم زائراں
ہاں گر آئی بردرش امیدوار فاتحہ را از سر اخلاص خواں
بعد ازاں معروض کن حاجات را مظہر عون خدا وند ش بداں
ُ؁سال تعمیر بنائے سربلند درخیال آمد ملک رانا گہاں
باسر قول بزرگی راز داں ’’ خواب گاہ شیر یزدانی بخواں ‘‘
حضرت میاں محمد بخش ؒ سے بہت سی کرامات منسوب ہیں۔ ایک دفعہ جہلم طاعون کے عذاب کا شکار ہو گا ، اموات کثرت سے ہو نے لگیں۔ حضرت ملک محمد ؒ نے حضرت میاں محمد بخش ؒ سے جہلم تشریف لانے اور اس موذی مرض سے نجات کے لیے دعا فرمانے کی گزارش کی ۔ حضرت میاں صاحب ؒ نے جب کھڑی شریف سے آکر سر زمین جہلم پر قدم مبارک رکھا تو فیض شروع ہو گیا۔ جب آپ ؒ محلہ مستریاں حضرت محمد ملک صاحب ؒ کے گھر پہنچے تو دروازے میں کھڑے ہو کر فرمایا :
ککھ جہلم دے سکھ وسن جتھے ڈیرہ اے ساڈ ڑے یار والا
حضرت ملک محمد صاحب ؒ کے گھر کے دو دروازے تھے ۔ حضرت میاں صاحب ؒ نے فرمایا کہ مریض کو ایک دروازے سے داخل کر کے دوسرے سے نکالتے جائو۔ انشاء اللہ شفایات ہو گا لہٰذا اس طرح لوحقین مریضوں کو لانے لگے اور ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے سے نکالنے لگے۔ مریض شفایات ہونے لگے۔ جلد ہی جہلم پر طاعون کی گرفت ختم ہو گئی ۔ حضرت میاں محمد بخش ؒ کو جہلم سے حضرت ملک محمد مہار والی سرکار ؒ کی وجہ سے بہت محبت تھی۔ میاں صاحب ؒ نے اپنے محبوب کے شہر کو ہمیشہ دعائیں دی ہیں۔
حضرت میاں محمد بخش ؒ فرمایا کرتے تھے:
٭فقیر کو اغنیاء کی صحبت مردہ دل کر دیتی ہے۔
٭نفس انسان گرسنگی اور تنہائی سے راہ راست پر آتا ہے۔
٭فقیر وہ ہے جس کو فقر سے انس ہو ۔ جس طرح غنی کو فقر سے نفرت ہوتی ہے
٭فقیر کو حضور مرشد سے زیادہ کوئی چیز مفید نہیں۔
٭فقیر وہ ہے جس کی املاک نہ ہو اور ناداری میں خود سند ہو ۔
٭دل کی زندگی محبت سے ہے۔
٭جس دل میں محبت کی آگ نہ ہو وہ دل زندہ نہیں ۔
٭ایمان صرف محبت سے اور محبت ایمان سے ہوتی ہے۔
٭انسان کا خاصہ محبت ہے جس میں محبت نہیں وہ انسان ہی نہیں۔
باہروں ذہن میلے کالے اندر آب حیاتی
ہونٹ سکے ترہایاں وانگر جان ندی وچہ نہاتی
آپ کی تصانیف میں سیف الملوک شہرہ آفاق ہے اور اس کے بے شمار ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں جن میں سے چند محکمہ اوقات آزاد کشمیر نے بھی شائع کرائے ہیں۔ ادارہ بک کارنر جہلم کو یہ اعزاز ہے حاصل ہے کہ مکمل سیف الملوک کا اردو ترجمہ شائع کیا جبکہ قارئین کی سہولت کے لیے ایک الگ سے انتخاب بھی منظر عام پر لایا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی کی کتاب ’’ عارف ِ کھڑی حضرت میاں محمد بخشؒ لائق تحسین کارنامہ ہے جسے حال ہی میں بک کارنر نے نایاب تصاویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔

جنوری 1907ء کے اواخر میں ایک شام مغرب کی نماز ادا کرنے کے لیے وضو فرما کر اپنے حجرہ میں آگ تاپنے کے لئے بیٹھے تو بدن میں کمزور ی محسوس ہونا شروع ہوئی اور ایک جانب جھک گئے۔ خدام نے فوراً چارپائی پر لٹا دیا۔ یہ فالج کا ایک مہلک حملہ تھا۔ ایک دن اور رات غشی کی کیفیت طاری رہی۔ ۷ ذوالحجہ ۴۲۳۱ھ بمطابق 1907ء برو زپیر رات بارہ بجے روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی ۔آپ کا عرس 7 ذوالحجہ کو کھڑی شریف میں منایا جاتا ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں