رضوانہ لطیف / دینی عالمہ
لغت کے حساب سے محرم کا مطلب ہے: معظم محترم، معزز۔ یہ مہینہ اعزاز والا ہے، احترام والا مہینہ ہے اس لیے اس کا نام محرم ہے۔
’محرم الحرام‘‘ کی عظمت
محرم اسلامی سال کاپہلا مہینہ ہے،اس کے محترم اورمعززہونے کی بناء پراسے محر م الحرام کہاجاتا ہے۔ نیز قرآن کریم میں بارہ مہینوں میں سے جن چار مہینوں کوخصوصی حرمت اور تقدس حاصل ہے، ان چارعظمت والے مہینوں میں سے بھی پہلا بالاتفاق محرم الحرام کامہینہ ہے ۔رجب، ذی قعدہ اورذی الحجہ بھی شامل ہیں، مسلم شریف کی ایک روایت میں ماہ محرم کو اس کے شرف کی وجہ سے
’’ شہراللہ ‘‘ یعنی اللہ کامہینہ کہا گیا ہے۔ محرم الحرام کی اسی بزرگی اوربرتری کی بناء پرحدیث پاک میں ارشاد فرمایا گیا ہے: رمضان کے بعدسب مہینوں سے افضل محرم الحرام کے روزے ہیں اور فرض نمازوں کے بعد تہجدکی نماز افضل تر ہے (صحیح مسلم)۔
محرم الحرام کی حیثیت شروع ہی سے تقریبا سب ہی مذاہب کے یہاں چلی آ رہی ہے ۔اس کا تقاضا یہ ہے کہ اس مہینے میں ہم محنت کریں ۔ دن اور رات عبادات کے اندر زیادہ وقت لگانے کی فکر کر یں۔ محرم الحرام کا مہینہ رمضان المبارک کے بعد عبادت کے لیے بہت با برکت مہینہ ہے ۔ اس میں خوب عبادت کر نی چا ہیے ۔
نیکیوں کے لیے ٹارگٹ بنائیں:
محرم الحرام کے آغاز سے نیا اسلامی سال شروع ہوتا ہے۔ سال 1443ہجری ختم ہونے والا ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم نیکیوں میں آگے بڑھنے کے لیے اہداف بنائیں۔ ہم اپنے کچھ اچھے اچھے ٹارگٹ بنائیں۔ جیسے Companies جب کاروبار کرتی ہیں تو ہر سال ختم ہونے پر بتاتی ہیں کہ اس سال ان کی کارکردگی کیا رہی ۔ اور اگلے سال کا جو ٹارگٹ وہ دیتی ہیں ، وہ پہلے سے زیادہ ہوتا ہے ۔ ہم بھی اپنے اگلے سال کے لیے نیکیوں کے ٹارگٹ پہلے سے زیادہ بنائیں ۔ اب دنیا کا وقت اور کم ہو گیا ہے ۔ جو وقت ہم لے کر آئے تھے وہ اور کم ہوتا چلا جار ہا ہے ۔ روز ایک دن کم ہور ہا ہے، لہذا اور زیادہ فکر کی ضرورت ہے ۔
ہم یہ سوچیں کہ کیا اس سال میں ہم اپنے اللہ کو راضی کر پائے ہیں؟ ایک سال ہماری زندگی کا اور ختم ہونے والا ہے تو کیا اس میں ہم نے اللہ کو راضی کرلیا ہے؟ اگر نہیں کیا تو تو بہ کے ذریعے ہم اللہ تعالی کو راضی کرنے کی فکر کریں کہ ہماری زندگی سے ایک سال اور ختم ہو گیا اور ہم اپنی موت کے اور قریب ہو گئے ۔اب نیا سال شروع ہونے والا ہے تو اس میں ہم نیت اور ارادہ کریں کہ اے اللہ ! اس آنے والے سال کو ہم پہلے سے بہتر گزاریں گے ۔ اعمال کے حساب سے بھی ، اخلاق کے حساب سے اور کردار کے حوالے سے بھی ہم پہلے سے بہتر گزاریں گے۔
اہل اسلام کا سن ہجری اپنے معنی ومفہوم کے اعتبار سے منفرد حیثیت کا حامل ہے۔ دوسرے مذاہب میں جو سن رائج ہیں وہ یا تو کسی شخصیت کے یوم ولادت کی یاد دلاتے ہیں یا کسی قومی واقعہ مسرت وشادمانی سے وابستہ ہیں۔ نسل انسانی کو اس کا کوئی فائدہ نہیں لیکن اسلامی سن ہجری عہد نبویؐ کے ایسے عظیم الشان واقعہ کی یادگار ہے جس میں ایک سبق پنہاں ہے کہ اگر مسلمان پر اعلائے کلمۂ حق کے لئے مصائب وآلام کے پہاڑ ٹوٹ پڑ یں، سب لوگ دشمن ہوجائیں، عزیزواقربا بھی اس کو ختم کرنے پر تل جائیں، اس کے دوست احباب بھی اسی طرح تکالیف میں مبتلا کر دئیے جائیں، تمام سربر آوردہ لوگ اسے قتل کرنے کا عزم کر لیں، اس پر عرصہ حیات تنگ کر دیا جائے اس کی آواز کو بھی دبانے کی کوشش کی جائے تو اس وقت مسلمان کیا کریں؟اسلام یہ نہیں کہتا کہ کفر وباطل سے مصالحت کر لی جائے یا حق کی تبلیغ میں رواداری سے کام لیا جائے اور اپنے عقیدے اور نظریے میں نرمی پیدا کر کے ان کے اندر گھل مل جائے تاکہ مخالفت کا زور کم ہو جائے۔ نہیں، نہیں ۔بلکہ اسلام ایسی بستی اور شہر پر حجت تمام کر کے ہجرت کا حکم دیتا ہے۔
اسی واقعہ ہجرت پر سن ہجری کی بنیاد ہے جو نہ تو کسی انسانی فوقیت وبرتری کی یاد دلاتا ہے اور نہ ہی کسی پر شکوہ واقعہ کو بلکہ یہ مظلومی وبے بسی کی ایسی یادگار ہے جو ثابت قدمی، عزم واستقلال، صبر واستقامت اور رضائے الٰہی پر راضی ہونے کی زبردست مثال ہے۔یہ واقعہ ہجرت ہمیں یاد دلاتا ہے کہ مظلوم، بے کس ،بے بس اور لاچار مسلمان کس طرح اپنے مشن میں کامیاب ہوئے اورمنزل مقصود پر پہنچ کر دم لیا، کامرانی وشادمانی کازریں تاج اپنے سر پر رکھا اوررفعت وشہرت اور عزت وعظمت کے بام عروج پر پہنچ گئے۔
نواسئہ رسول،ؐ جگر گوشہء بتولؓ سیدنا حضرت امام حسین ؓ وہ عظیم ہستی ہیں کہ جن کے فضائل و مناقب، سیرت و کردار اورروشن کارناموں سے تاریخ اسلام کے صفحات بھرے پڑے ہیں، سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے خاندانِ نبوت، فاتح خیبر سیدنا حضرت علی المرتضی علیہ السلام کے گھر میں آنکھ کھولی۔ آپ کے نانا ہادی عالم حضرت محمد ﷺنے آپؓ کے کان میں بنفس نفیس اذان دی۔ اپنے پاکیزہ اور مبارک ہاتھوں سے شہد چٹایا۔ اپنا لعاب مبارک آپؓ کے منہ میں داخل فرمایا، دعائیں دیں اور حسینؓ نام رکھا۔ حضرت امام حسینؓ نے اپنے نانا حضور اکرم ﷺسے بے پناہ شفقت و محبت کو سمیٹا اوراپنے والدِ گرامی سیدنا حضرت علی المرتضی علیہ السلام کی آغوش محبت میں تربیت و پرورش پائی۔اسی مہینے میں میدان کربلا میں ظالم و سفاک حکمرانوں نے آپؓ کو شہید کرڈالااور یہ ایسا واقعہ ہے جسے کائنات کا ذرہ بھی کسی صورت فراموش نہیں کر سکتا اورواقعہ کربلا میں سیدنا حضرت امام حسینؓ اور ان کے رفقا کی قربانیاں رہتی دنیا تک یاد رکھی جائیں گی۔
آئو اس کے صبرو استقلال پر بھیجیں سلام
کربلا سے شام تک جس کا سفر نیزے پہ ہے
اس ماہ معظم کے ایام میں عاشورہ یعنی دسویں تاریخ کوخصوصی عظمت حاصل ہے،اوراس کی بنیادکئی واقعات ہیں،جنہیں حضرت آدم علیہ السلام کی ولادت سے قیامت کے وقوع کے دن تک بیان کیا جاتا ہے، تاریخ انسانی کے کئی بڑے اہم واقعات کواس دن کی طرف منسوب کیاجاتاہے۔یہ بھی یاد رہے محرم کی یہ شان ازلی وابدی ہے، ماہ محرم الحرام اپنے اس امتیازمیں کسی زمان ومکاں کاپابند نہیں بلکہ خودزمان ومکان کسب شان میں محرم الحرام کے پابند ہیں۔ البتہ اس مہینے کے بارے میں سرور کائنات نبی اکرم ﷺ سے دواعمال سند صحیح کے ساتھ ثابت ہیں جن کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس ماہ کی دسویں تاریخ یعنی یوم عاشورہ کاروزہ رکھنا۔اس بارے میں بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے یہ روایت منقول ہے کہ رسول اللہﷺ جب مدینہ تشریف لائے تواہل کتاب کواس دن کاروزہ رکھتے ہوئے پایا، جب اس کاسبب دریافت کیاگیاتوانہوں نے کہاکہ اس دن بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی معیت میں فرعون کے ظلم سے نجات پائی تھی اور فرعون اپنے ساتھیوں کے ساتھ دریائے نیل میں غرق ہوا ، اس لیے بطور شکرانہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس دن کاروزہ رکھاتھا۔
صحابی رسول حضرتِ سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ اور ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے یومِ عاشورہ کی صبح مدینہ منورہ کے آس پاس ان بستیوں میں جن میں انصار رہتے تھے، یہ اطلاع بھجوائی کہ جن لوگوں نے ابھی تک کچھ کھایاپیا نہیں ہے وہ آج کے دن روزہ رکھیں اور جن لوگوں نے کھا پی لیا ہے وہ باقی دن کچھ نہ کھائیں۔ وہ سارا دن روزہ کی حالت میں رہیں۔ بعد میں جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشورہ کے روزے کی فرضیت منسوخ ہو گئی اور اس کی حیثیت نفل روزہ کی رہ گئی۔‘‘ (بخاری248/1) (مسلم 340/1)
یوں تومحرم الحرام کے پورے مہینے کو خصوصی عظمت حاصل ہے چنانچہ چار وجوہ سے اس ماہ کو تقدیس حاصل ہے۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ احادیث مبارکہ میں اس ماہ کی فضیلت وارد ہوئی ہے ،چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کسی شخص نے سوال کیا کہ ماہ رمضان المبارک کے بعد کون سے مہینے کے میں روزے رکھوں؟ تو حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ یہی سوال ایک دفعہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے بھی کیا تھا اور میں آپﷺ کے پاس بیٹھا تھا، تو آپؐ نے جواب دیا تھا کہ یعنی ماہ رمضان کے بعد اگر تم کو روزہ رکھنا ہے تو ماہِ محرم میں رکھوکیونکہ وہ اللہ تعالیٰ (کی خاص رحمت) کا مہینہ ہے، اس میں ایک ایسا دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول فرمائی اور آئندہ بھی ایک قوم کی توبہ اس دن قبول فرمائے گا (ترمذی 157/1) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایایعنی ماہ رمضان المبارک کے روزوں کے بعد سب سے افضل روزہ ماہ محرم الحرام کا ہے (ترمذی157/1 )۔
اسی طرح حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا یعنی جو شخص محرم کے ایک دن میں روزہ رکھے اور اس کو ہر دن کے روزہ کے بدلے تیس دن روزہ رکھنے کا ثواب ملے گا۔(الترغیب والترہیب 114/2)۔ انبیاء علیہم السلام کی شریعتیں اس پر متفق ہیں کہ ان چار مہینوں ذی القعدہ، ذی الحجہ، محرم الحرام اور رجب میں ہر عبادت کا ثواب عام دنوں سے زیادہ ہوتا ہے اور ان میں اگر کوئی گناہ کرے، تو اس کا وبال اور عذاب بھی زیادہ ہے (معارف القران: 370/4)امام جصاصؒ نے احکام القران میں فرمایا:اس میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ ان متبرک مہینوں کا خاصا یہ ہے کہ ان میں جو شخص کوئی عبادت کرتا ہے، اس کو بقیہ مہینوں میں بھی عبادت کی توفیق اور ہمت ہوتی ہے، اسی طرح جو شخص کوشش کرکے ان مہینوں میں اپنے آپ کو گناہوں اور برُے کاموں سے بچالے، توسال کے باقی مہینوں میں اس کے لئے ان برائیوں سے بچنا آسان ہوجاتا ہے اسلئے ان مہینوں سے فائدہ نہ اٹھانا ایک عظیم نقصان ہے (معارف القرآن372-373/4، احکام القرآن 163/3)
چنانچہ حضور نبی اکرمﷺ نے اس دن کاروزہ رکھااوردوسروں کوبھی حکم فرمایا(صحیح بخاری)البتہ مسلم شریف میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے یہ بھی روایت ہے کہ جب رسول اللہﷺ نے عاشورہ کے دن خو دروزہ رکھنے کومعمول بنایا اورصحابہ کرام ؓکواس کاحکم دیا تو بعض صحابہ کرامؓ نے عرض کیاکہ یارسول اللہﷺ!اس دن کو یہود و نصاریٰ بڑے دن کی حیثیت سے مناتے ہیں (اوریہ گویاان کاقومی ومذہبی شعار ہے)توآپ ﷺنے فرمایا: ا نشاء اللہ جب اگلاسال آئے گا تو ہم نویں محرم کوبھی روزہ رکھیں گے(تاکہ شک والی بات باقی نہ رہے)۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ لیکن اگلے سال ماہ محرم آنے سے قبل ہی رسول اللہﷺ وصال فرماگئے۔ تو اس روایت میں یہودکے ساتھ اشتباہ سے بچنے کے لیے یہ بھی فرمایا کہ اگر آئندہ سال رہاتوان شاء اللہ ہم اس کے ساتھ نویں تاریخ کاروزہ بھی رکھیں گے۔اس لیے فقہاء لکھتے ہیں کہ اس کے ساتھ نویں تاریخ کاروزہ بھی ملالینا چاہیے، بہتر یہ ہے کہ نویں،دسویں تاریخ کاروزہ رکھاجائے،اگرنویں کاروزہ نہ رکھ سکیں تو پھردسویں تاریخ کے ساتھ گیارہویں تاریخ کا روزہ ملا لینا چاہیے، تاکہ مسلمانوں کا امتیاز برقرار رہے۔
اگرچہ بعض اکابرعلماء کی تحقیق یہ ہے کہ فی زمانہ چونکہ یہودونصاریٰ اس دن کاروزہ نہیں رکھتے بلکہ ان کا کوئی کام بھی قمری حساب سے نہیں ہوتا،اس لیے اب اس معاملے میں یہود کے ساتھ اشتراک اورمتشابہ نہیں رہا، لہٰذا اگر صرف دسویں تاریخ کاروزہ رکھاجائے، تب بھی حرج نہیں۔ مشکوٰۃ شریف کی روایت کے مطابق حضرت ابن مسعودؓ رسول کریم ﷺکایہ ارشادنقل فرماتے ہیں کہ جو شخص عاشورہ کے دن اپنے اہل وعیال کے خرچ میں وسعت اختیار کرے گاتو اللہ تعالیٰ سارے سال (اس کے مال وزر میں) وسعت عطافرمائے گا۔بزرگوں میں سے حضرت سفیان بن عیینہؒ فرماتے ہیں کہ ہم نے اس کاتجربہ کیا تو ایسا ہی پایا۔ماہ محرم الحرام کی اہمیت کا اندازہ ان عظیم واقعات سے بھی ہوتا ہے جومختلف انبیاء و رسل اور ان کی امتوں کے ساتھ پیش آئے۔ چنانچہ تاریخ و سیرکی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو الانبیاء سیدنا ابراہیم علیہ السلام اسی مہینے میں تولد ہوئے اور اسی مہینے میں دعوت توحید کی پاداش میں سیدنا خلیل اللہ کو آتش نمرود میں دھکیلا گیا تو وہ اللہ کے حکم سے نہ صرف ٹھنڈی ہو گئی بلکہ سلامتی والی بن گئی۔ اسی طرح سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے مظالم سے نجات ملی اور وہ غرق نیل ہو کر دنیا کے لیے سامان عبرت بن گیا اور آج بھی اس کی حنوط شدہ لاش مصر کے عجائب گھر میں درس نصیحت کے طور پر موجود ہے۔ ان کے علاوہ سیدنا یونس علیہ السلام کو اللہ نے مچھلی کے پیٹ سے نکالا‘ ادریس علیہ السلام مکان علیہا میں پہنچے اور ایوب علیہ السلام شفایاب ہوئے اوردائود علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی‘ حضرت سلیمان علیہ السلام کو عظیم سلطنت عطا ہوئی اور اسی مہینے میں اللہ تعالیٰ نے کائنات تخلیق فرما کر عرش معلی پر قرار پکڑا اور اسی مہینے میں قیامت برپا ہوگی اور بعد ازاں روز محشر میں حساب کتاب ہو گا۔