137

سورۃ البقرہ کی آیت218کی تفسیر

’’بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور وہ جنہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا تو ایسے ہی لوگ اُمید رکھ سکتے ہیں اللہ کی رحمت کی اور اللہ بخشنے والا بے حد مہربان ہے۔‘‘
شان نزول
تفسیر کبیر میں علامہ فخر الدین رازی نے لکھا کہ حضور ؐ کے مامور صحابی حضرت عبد اللہ بن جحش رضی اللہ عنہ نے حضور ؐ کی خدمت میں عرض کیا یا سیدی یا رسول اللہ ! ہماری وہ جنگ جس میں بے خبری سے ہم رجب میں لڑ بیٹھے کوئی گناہ تو نہ ہوا، کیا ہمیں کچھ ثواب کی امید بھی رکھنی چاہئے ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی (345)۔
دوسری روایت خزائن الفرقان کی ہے جسے صدر الا فاضل مولانا نعیم الدین مراد آبادی نے نقل کیا کہ حضرت عبداللہ بن جحش کے بارے میں لوگوں نے کہا کہ اس جہاد کا انہیں کوئی ثواب نہ ہوا اس پر یہ آیت اتری (346)۔
اِنَّ الَّذِين امَنُوا سے مراد
علامہ اسماعیل حقی روح البیان میں لکھتے ہیں کہ ایمان والوں سے مراد تمام مسلمان ہیں خواہ وہ کسی بھی زمانے میں ہوں (347) ۔ یہ الگ بات ہے اس آیت کا نزول ایک خاص جماعت کے بارے میں ہے اور یہاں ایمان سے مراد ایمان پر قائم رہنا ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے ارتداد کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا اور احکام الہیہ کی ہر آواز کو شوق سے سنا اور جہاد فی سبیل اللہ کو با برکت جانا۔
وَالَّذِيْنَ هَاجَرُوا
علامہ فخر الدین رازی نے کہا کہ یہ ایمان کی تفسیر ہے اور اسلامی چراغ کی روشن کرن ہے اس تعبیرکی حقیقت کو جاننے کے لئے ھجر کی لغوی تعبیرات کا مطالعہ فائدہ دے سکتا ہے (348)۔ علامه ز بیدی حنفی ’’ھجر‘‘ کا معنی الگ ہونا اور چھوڑ دینا لکھتے ہیں (349) ۔ لغو کلام کو’’ ھجر ‘‘ سے تعبیر کر دیتے ہیں اس لئے کہ وہ چھوڑنے کے قابل ہوتا ہے ۔ المفردات میں علامہ راغب اصفہانی لکھتے ہیں کہ دو پہر کے وقت کو’’ ہجیرہ‘‘ یا ’’ماجرہ ‘‘ کہہ دیتے ہیں، وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس وقت امور دنیا کو نبھانا ترک کر دیا جاتا ہے (350) ۔ ملاقات کو وصل کہتے ہیں اور فراق کو ھجر کہہ دیتے ہیں۔ مفتی احمد یار خان لکھتے ہیں کہ شریعت میں وطن، اہل و عیال اور اہل قرابت کو چھوڑ دینا ہوتا ہے اور ایسا اگر اسلام کے بلند اور عظیم مقصد کے لئے ہو تو یہ وہ ہجرت ہے جس کی فضلیت قرآن اور لسان رسول ؐ بیان ہوتی ہے۔ یہاں ایسی ہی ہجرت ایمان کی تفسیر بنا کر بیان کی گئی ۔
وَجْهَدُوا فِي سَبِيلِ الله
ِ آیت میں تفسیر و تعبیر کی تیسری جہت اللہ کی راہ میں مجاہدہ ہے ۔ یہاں مجاہدہ مفاعلہ کا باب لایا گیا ہے۔ اشارہ اس طرف ہے کہ کافر ، ڈھیٹ منکر اور یہود و نصاریٰ جس طاقت کے ساتھ اسلام کی مخالفت کریں اور دینی راہوں کو پامال کرنے کی کوشش کریں مسلمانوں کو اسی قوت اور طاقت سے ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئے اور اپنے نفس میں اطمینان رکھنا چاہئے کہ اُن کی مساعی اللہ کی راہ میں ہیں اور مسلمان جب اللہ کی راہ میں ہو وہ ایسا مہاجر ہوتا ہے جس کی مدد اللہ ضرور فرماتا ہے۔
مومنین کی ایک خاص تعریف
قرآن مجید کی یہ آیت کہتی ہے کہ مومنین ،مہاجرین اور مجاہدین اللہ کی رحمت کی توقع اور امید کی برکتوں میں گھرے ہوتے ہیں ۔ پست ہمتی ، بے یقینی ، ذھول فکری اور نا اُمیدی ان سے قریب بھی نہیں آتی۔ یہ با برکت اور با فضلیت طبقہ رجا کے عرش تلے زندگی بسر کرتا ہے۔ ان کا مقدر اللہ کی راہ میں شہادت ہو یا وہ اللہ کی راہ میں صبر و عزیمت سے مقصد کا پرچم بلند رکھیں ۔ ان کے کان میں اللہ کا وعدہ رس گھولتا رہتا ہے کہ وہ غفور ہے اور رحیم ہے۔
حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کا ایک قول
حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے لوگوں نے پوچھا آپ کے چاہنے والے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو گناہ کرتے ہیں لیکن دعوی دار ہوتے ہیں کہ ہم امید رکھتے ہیں؟
تو آپ نے فرمایا (351):
وہ جھوٹے ہیں وہ ہرگز ہمارے چاہنے والے نہیں ہو سکتے ۔ یہ وہ ہیں جنہیں آرزوؤں نے گھیر لیاوہ شخص جو رجا کے مقام پر ہوتا ہے تو اُس کے لئے وہ محنت کرتا ہے اور جس سے وہخوف کھاتا ہے اُس سے بھاگتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں