220

استنبول سے قونیہ تک


بازنطیوم، قسطنطنیہ، اسلامبول کے بعد اب استنبول کے نام سے جانا جانے والا آبادی کے لحاظ سے ترکی کا سب سے بڑا یہ شہر ملک کا معاشی، ثقافتی اور تمدنی مرکز ہے اسکا زیادہ تر حصہ براعظم ایشیا اور تھوڑا حصہ براعظم یورپ میں ہے یہ بحیرہ مرمرہ اور بحیرہ اسود کے درمیان آبنائے باسفورس کے دونوں کناروں پر پھیلا ہوا ہے اسے یورپ کا سب سے بڑا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ 600 سال قبل از مسیح سے سولہ سو سال تک رومن ایمپائر اور پھر عیسائیوں کے زیر تسلط رہنے والا یہ شہر 1453 میں خلافت عثمانیہ کا دارلخلافہ بن گیا اور 1923 میں سلطنت عثمانیہ کے زوال تک اس بہت بڑی سلطنت کا مرکز رہا یہاں بیشمار میوزیم موجود ہیں جن میں توپکپی پیلس میوزم کو انتظامی ، تعلیمی اور فنی مرکز کے طور پر استعمال کیا گیا۔یورال اتامان کلاسیک کار میوزیم 2،000 مربع میٹر پر مشتمل ہے جس میں 1950 اور 1960 کی دہائی کی 60 سے زیادہ گاڑیاں ،موٹرسائیکلیں اور ٹرک شامل ہیں ، استنبول ٹوائے
2005 میں ترک شاعر سنائے اکن کے قائم کردہ اس میوزیم میں 1700 عیسویں سے لے کر آج تک کھلونوں کی تاریخ کی انتہائی شاندار مثالیں موجود ہیں۔نیول میوزیم استنبول کے بیشکتاش ضلع میں واقع ہے اور محققین اور سیاحوں کا منتظر ہے، پینوراما بھی ایک تاریخی میوزیم ہے جہاں دنیا کی سب سے بڑی پینورامک پینٹینگ موجود ہے ، جو سیاحوں کو ایک ایسا ماحول فراہم کرتا ہے جہاں وہ 3 ڈی میں قسطنطنیہ کی فتح کے بارے میں بتائے یا لکھے گئے واقعات کو ایک بار پھر اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ سکتے ہیں ۔ چاکلیٹ میوزیم

25،000 مربع میٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے یہ میوزیم ایک سابقہ فیکٹری کو تبدیل کر کے بنایا گیا ہے جس میں رومی ، وان گوگ ، البرٹ آئن اسٹائن ، اتاترک اور مہمد فاتح کےمجسمے شامل تھے استنبول جدید اور عصری فن پرمشتمل ترکی کا پہلا میوزیم ہے میوزیم کی بنیاد 2004 میں رکھی گئی تھی۔ استنبول صدیوں تک دُنیا کا مالدار ترین شہر کہلاتا تھا شائد اسی لئے پورے یورپ پر سقوط قسطنطنیہ کا اتنا گہرا اثر ہے کہ وہ آج تک مسلمانوں کی اس فتح کو بھلا نہیں پایا، یونان میں تو آج بھی جمعرات کو منحوس دن سمجھا جاتا ہے کیونکہ جمعرات کو ہی قسطنطنیہ عیسائیوں کے ہاتھ سے نکل گیا تھا۔ اسی لئے یورپ ترکی کو یورپی یونین میں شامل کرنے میں لیت و لعل سے کام لیتا ہے یقیناً اس کی وجہ سلطان محمد فاتح کی قسطنطنیہ پر تاریخی فتح ہے ۔ گزشتہ کالم میں ذکر کیا تھا کہ میں “المصطفی ویلفئر ٹرسٹ” کے چئرمین عبدلرزاق ساجد ، “اے ایم ڈبلیو ٹی “ کے ڈائریکٹر مقصود احمد ،او بی ای ،اور راجہ فیض سلطان کے ساتھ ایک کانفرنس میں شرکت کے لئے استنبول میں تھا وہاں جا کر پتا چلا کہ 17 دسمبر کو مولانا جلال الدین رومی کا یوم وفات ہے اور عرس کی تقریب ان کے مزار پر قونیہ میں ہو گی ہمارے لئے یہ ایک نادر موقع تھا ۔ ہم استنبول سے قونیہ جانے کےلئے ٹرین پر بیٹھے تو خوشگوار حیرت ہوئی ایسی خوبصورت ٹرین تو یورپ اور برطانیہ میں بھی نہیں ہے اسقدر صاف ستھری آرامدہ اور 255 کلو میٹر فی گھینٹہ کر برق رفتاری سے دوڑنے والی ٹرین نے چار گھنٹے میں ہمیں قونیہ پہنچا دیا ،حالیہ ترکی اپنی بود و باش یا اطوار میں کسی بھی طرح یورپ یا برطانیہ سے کم نہیں ہے۔

مولانا جلال الدین رومی نے شہر قونیہ کو اپنا دائمی مسکن بنایا جو استنبول سے 665 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ١٦ دسمبرکو قونیہ کے ایک وسیع وعریض آڈیٹوریم میں مولانا رومی کی نسبت سے درویش رقص دیکھنے کا موقع ملا جہاں تقریبا ٨ ہزا خواتین و حضرات موجود تھے لیکن کیا مجال کہ کوئی دھکم پیل یا بد تہذیبی دیکھنے میں آئی ہو- مولانا رومی کے فرقے کے لوگ جلالیہ کہلاتے ہیں۔ چونکہ مولانا کا لقب جلال الدین تھا اس لیے ان کے انتساب کی وجہ سے یہ نام مشہور ہوا ہوگا۔ لیکن ایشیائے کوچک، شام، مصر اور قسطنطنیہ میں اس فرقے کو لوگ مولویہ کہتے ہیں۔ یہ لوگ نمد کی ٹوپی پہنتے ہیں جس میں جوڑ یا درز نہیں ہوتی، مشائخ اس ٹوپی پر عمامہ باندھتے ہیں۔ خرقہ یا کرتا کی بجائے ایک چنٹ دار پاجامہ ہوتاہے۔ ذکر و شغل کا یہ طریقہ ہے کہ حلقہ باندھ کر بیٹھتے ہیں ایک شخص کھڑا ہو کر ایک ہاتھ سینے پر اور ایک ہاتھ پھیلائے ہوئے رقص شروع کرتا ہے۔ رقص میں آگے پیچھے بڑھنا یا ہٹنا نہیں ہوتا بلکہ ایک جگہ جم کر متصل چکر لگاتے ہیں۔ سماع کے وقت دف اور نے بھی بجاتے ہیں۔ مزار مولانا روم ایک میوزیم کی صورت میں موجود ہے جو درگاہ حضرت مولانا، مسجد، درویشوں کے کمرے، لائبریری، تبرکات کے کمرے، سماع ہال، مطبخ، وسیع لان، صحن، باغیچہ اور دفاتر پر مشتمل ہے۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ قونیہ شہر کو ہم نے مدينة الاولياء کا لقب دے دیا ہے اس شہر میں ولی پیدا ہوتے رہیں گے۔ ترکی کے اسی خوبصورت و دلکش شہر میں حضرت مولانا جلال الدین رومی کا مزار موجود ہے جو خوبصورت ودلکش اور ڈیزائن کے لحاظ سے منفرد ہے، ظاہری خوبصورتی اور جاہ وجلال کے علاوہ انوار و تجلیات کے بھی کیا کہنے. مولانا روم کے مزار کے ایک حصہ میں شیشے کی ایک الماری میں مولانا کے تبرکات محفوظ ہیں جن میں حضرت مولانا کا لباس ، مولانا کی جائے نماز، کندھے پر ڈالنے والا رومال، مولانا کی تین ٹوپیاں اور دو عدد جبے سرفہرست ہے۔ مولانا کا یہ فرمان بھی زندگی کا حاصل کہا جا سکتا ہے کہ “ تاریخ میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں ہےکہ اللہ تعالی نے کسی قوم کو نماز نہ پڑھنے روزہ نہ رکھنے یا عبادات نہ کرنےپر تباہ کیا ہو، اگر اللہ نے قوموں کو تباہ کیا تو ان کی بد دیانتی‘جھوٹ ‘ غیراخلاقی اور غیرانسانی رویوں کیوجہ سے “ – مولانا کےمزار کے احاطے میں دائیں طرف جائیں تو علامہ اقبال کی قبر موجود ہے جہاں کتبہ بھی لگایا گیا ہے۔ مولانا رومی کیو نکہ علامہ اقبال
کے روحانی مرشد تھے چنانچہ اس عقیدت کو مد نظر رکھتے ہوئے قونیہ والوں نے لاہور سے علامہ اقبال کے مزار کی مٹی لا کر یہاں اُن کی علامتی قبر بنا دی تھی۔ کشف اور وجدان کے ذریعے ادراک حقیقت کے بعد صوفی صحیح معنوں میں عاشق ہو جاتا ہے کہ بہ رغبت تمام محبوب حقیقی کے تمام احکام کی پیروی کرتا ہے۔ رومی نے جوہر عشق کی تعریف اور اس کی ماہیت کی طرف معنی خیز اشارے کئے ہیں۔ صوفی کی ذہنی تکمیل کا مقام کیا ہے اس کے متعلق دو شعر نہایت دل نشیں ہیں:
”آدمی دید است باقی پوست است
دید آں باشد کہ دید دوست است
جملہ تن را در گداز اندر بصر
در نظر رو در نظر رو در نظر
“علامہ اقبال نے اس کی یوں تشریح کی ہے:
”خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں
قونیہ اور مولانا رومی کے بارے میں تو ،دفتر، لکھے جا سکتے ہیں لیکن کالم کی طوالت کیوجہ سے آخری جملہ یہ کہ مولانا کے مزار پر نہ تو کسی کے پاس جوتیاں سنبھالنے کا ٹھیکہ تھا، نہ چندے کےلئے کوئی ڈبے، نہ یہاں کوئی دیگیں کھڑک رہیں تھیں ، نہ کوئی پنڈارا تھا ، نہ پھولوں اور چڑھاوے کی چادروں والی دُکانیں تھیں ، نہ کوئی ملنگ نہ دھمال نہ ہی کوئی جوتم پیزار اور شور و غوغا۔ بس ایک پاکیزہ سا سکوت اور مولانا کی قد آدم آرام گاہ !!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں