25

غزہ اور ہماری خارجہ پالیسی


منصور آفاق
جی سیون کے وزرائے خارجہ نے اٹلی کے جزیرے کیپری پر تین روزہ اجلاس کے بعد جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ وہ اسرائیل کے خلاف ایران کے براہ راست حملے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں مگر اسرائیل کے جوابی حملے کا ذکر تک نہ کیا حالانکہ وہ حملہ اس بیان کے جاری ہونے سے پہلے ہو چکا تھا۔ اس کا اندازہ امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن کے اس بیان سے ہوتا ہے کہ امریکہ کسی بھی جارحانہ فوجی کارروائی میں ملوث نہیں۔ امریکہ اور برطانیہ نے جمعرات کو ایران پر پابندیوں کا اعلان کیا تھااور یورپی یونین نے بھی ان کی پیروی کرنےکا اظہار کیا۔
سات اکتوبر دوہزار تیئس سے آج تک کوئی چھ ماہ ہونے کو آئے غزہ میں قیامت صغریٰ بپا ہے، ہزاروں فلسطینی قتل ہو چکے ان میں تیرہ ہزار بچے بھی شامل ہیں، غزہ کی کُل بائیس لاکھ آبادی جنگ کی اس ہولناکی کا شکار ہو کر بے گھر ہو چکی ہے۔ شہر کا تمام انفراسٹرکچر تباہ و برباد ہو چکا ہے کھانے کو کچھ ہے نہ پینے کیلئے۔ زندگی گُزارنے کی بنیادی سہولتیں ہی میسر نہیں۔ یہ سارا کیا دھرا اسرائیل کا ہے مگر اسے نہ تو کچھ جی سیون کے وزیروں نے کہا اور نہ ہی امریکہ برطانیہ اور یورپ نےبلکہ جب اقوام متحدہ میں فلسطین کو باقاعدہ ممبر بنانے کی کارروائی شروع کی گئی تو اسے امریکہ نے ویٹو کر دیا۔ غزہ کے حالات کا اندازہ مجھے ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ کے سربراہ عبدالرزاق ساجد سے ہوتا رہتا ہے جو کئی سال سے غزہ اور فلسطین کے علاقوں میں اپنی رفاہی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اپنی ٹیم کے ساتھ ان علاقوں کے دورے کرتے ہیں جہاں سے غزہ امدادی کنٹینر بھجوا ئےجا سکتے ہیں۔ وہ خاص طور پر اُردن اور مصر کے کئی دورے کر چکے ہیں اور اپنی نگرانی میں امدادی سامان سے بھرے کنٹینر غزہ بھجوا نے میں کامیاب رہے ہیں۔ انہوں نےمصر اور غزہ کے مابین ایک سرحدی علاقے العریش میں ایک وسیع کچن قائم کیا ہوا ہے جہاں سے روزانہ کی بنیاد پر 20000 افراد کے لئے تازہ کھانا غزہ بھجوایا جا رہا ہے۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی اسرائیلی حملے کی۔ ایران اسے باقاعدہ کوئی حملہ تسلیم نہیں کر رہا مگر بی بی سی کے مطابق ایک سینئر امریکی اہلکار کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے ایران کے شہر اصفہان کے قریب جوہری تنصیب کو نشانہ بنایا ہے۔ اسرائیل نے وہاں تین میزائل داغے مگر دفاعی سسٹم نے انہیں ناکام بنا دیا۔ ایرانی وزیر خارجہ کے مطابق اس حملے سے کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا۔ ایک ایرانی کمانڈر کے مطابق طاقت ور ایرانی ڈیفنس سسٹم نے میزائلوں کو فضا میں تباہ کر دیا۔ عالمی جوہری توانائی ایجنسی کے سربراہ رافیل گروسی نے کہا ہے کہ جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانا افسوسناک ہے۔ خدانخواستہ حملہ کامیاب ہو گیا ہوتا تو یہ ایک انتہائی خوفناک اقدام ہوتا۔ اس نے کہا کہ میں اور میری ٹیم نے صورتحال پر نظر رکھنے کیلئے تمام رات جاگ کر گزاری۔ اس بیان سے یہ پتہ چلتا ہے کہ حملہ ہونے سے پہلے ان کے پاس اس حملے کی اطلاعات موجود تھیں۔
اسرائیل کا ایک حملہ جسے میڈیا نے بالکل اہمیت نہیں دی۔ وہ بھی خاصا بڑا حملہ تھا یہ حملہ اسرائیل نے شام پر کیا۔ شام بھی ان ممالک میں سے ہے جہاں سے اسرائیل پر ایرانی میزائل فائر ہوئے تھے۔ شام کی وزارتِ دفاع کے مطابق اسرائیلی میزائلوں نےشام کے دفاعی مقامات کو نشانہ بنایا جس سے خاصا نقصان ہوا۔ یہ حملے جنوبی شام کے فوجی اڈوں پر کیے گئے۔ اس وقت امریکہ اور اس کے حواریوں کی کوشش ہے کہ اسرائیلی جنگ غزہ تک محدود رہے۔ کیونکہ ان کے نزدیک اگر یہ پھیلتی ہے تو اسرائیل کیلئے نقصان دہ ہے۔ اگر ایران اور شام مکمل طور پر جنگ میں کود پڑتے ہیں۔یمن اور لبنان پہلے شریک ہیں تو پھر امریکہ روس اور چین کو بھی کسی نہ کسی سطح پر اس جنگ کا حصہ بننا پڑ جائے گا اور یہ دنیا کے مستقبل کیلئے بہت خطرناک ہو گا۔ امریکہ روس کو یوکرائن کی جنگ میں الجھا چکا ہے اور اب روس سوچ رہا ہے کہ وہ بھی کسی جنگ میں امریکہ کو الجھائے۔ امریکہ خود بھی جنگوں میں الجھ کر خوش ہوتا ہے۔ پینٹا گون اسی لئے نہیں چاہتا کہ ٹرمپ صدر بنے۔ ٹرمپ جنگوں کے خلاف ہے ۔وہ زندگی سے محبت کرنے والا آدمی ہے۔ سو دنیا بھر کے فوجی نمائندےاسے پسند نہیں کرتے مگر وہ عمران خان کو پسند کرتا ہے اور عمران خان اسے۔ اس وقت امریکہ کی نظریں پاکستان پر لگی ہوئی ہیں۔ وہ کئی بار پاکستان کو کہہ چکا ہے کہ ایران سے گیس نہیں لینی۔ پاکستان بھی کئی بار جواب دے چکا ہے کہ یہ ہماری مجبوری ہے۔ امریکہ نے پاکستان کو اقتصادی پابندیاں لگانے کی بھی دھمکی دی ہے۔ اس پر کام شروع بھی کر دیا ہے امریکہ نے پاکستان سے فوجی نوعیت کے کاروبار والی تین چینی اور ایک بیلا روس کی کمپنی پر پابندی لگا دی ہے۔ اسوقت جب ایرانی صدر پاکستان آ رہے ہیں۔ امریکہ کو گہری تشویش ہے۔
انقلاب ِایران کے بعد سے پاکستانی عوام دل کے ساتھ ایران کے ساتھ ہیں۔ جس پاکستانی لیڈر کا ایران میں بہت زیادہ احترام کیا جاسکتا ہے۔ وہ علامہ راجہ ناصر عباس ہیں جنہوں نے ایران اور عراق کےلئے بہت قربانیاں دی تھیں جو لبنانی مسلم لیڈرحسن نصراللہ کے گہرے دوست ہیں وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح بانی پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یقیناً امریکہ کی طرح ایران کو بھی اس بات کا علم ہے کہ موجودہ حکومت عوام کی نمائندہ نہیں۔ اس ساری صورتحال میں پاکستان خارجہ پالیسی نازک موڑ پر پہنچ چکی ہے۔ اسرائیل جو اس وقت مسلمانوں کے خلاف حالت ِ جنگ میں ہے۔ اسے اگر کسی ملک سے خطرہ محسوس ہوتا ہے تو وہ پاکستان ہے۔ اس لئے اس نے بڑی کوشش کی ہے کہ اسےپاکستان تسلیم کر لے مگر اس وقت تو وہ مسلم ممالک بھی پچھتا رہے ہیں جنہوں نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کئے۔ سو صورتحال انتہائی پیچیدہ ہےاتنی کہ چین کے ماتھے پر شکن ابھر رہی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں