43

علی علی ہیں!!!!

عبدالرزاق ساجد

تمام علماءو مو رخین نے بہ اتفاق لکھا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خانہ کعبہ میںپیدا ہوئے ۔
عباس بن عبدالمطلب کا کہنا ہے کہ بروز جمعہ بمطابق13 رجب، 30عام الفیل کو’’ میں اور بریدہ بن قعنب بنی ہاشم و بنی عبد العزی کے دیگر افراد کے ساتھ خانہ کعبہ کے پاس بیٹھے تھے کہ اچانک فاطمہ بنت اسد خانہ کعبہ کے( رکن یمانی) کی طرف آئیں۔ وہ نو مہینے کی حاملہ تھیں اور انھیں درد زہ اٹھ رہا تھا۔ وہ خانہ کعبہ کے برابر میں کھڑی ہوئیں اور آسمان کی طرف رخ کرکے کہاکہ’’اے اللہ! میں تجھ پر، تیرے نبیوں پر اور تیری طرف سے نازل ہونے والی تمام کتابوں پر ایمان رکھتی ہوں۔ میں اپنے جد ابراہیم علیہ السلام کے کلام کی اور اس بات کی تصدیق کرتی ہوں کہ اس گھر کی بنیاد انھوں نے رکھی۔ بس اس گھر، اس کے معمار اور اس بچے کے واسطے سے جو میرے شکم میں ہے اور مجھ سے باتیں کرتا ہے، جو کلام کے ذریعے میرا انیس ہے اور جس کے بارے میں مجھے یقین ہے کہ یہ تیری نشانیوں میں سے ایک ہے، اس کی پیدائش کو میرے لیے آسان فرما‘‘۔ عباس بن عبد المطلب اور بریدہ بن قعنب کہتے ہیں کہ” جب فاطمہ بنت اسد نے یہ دعا کی تو خانہ کعبہ کی پشت کی دیوار پھٹی اور فاطمہ بنت اسد اندر داخل ہوکر ہماری نظروں سے غائب ہوگئیں اور دیوار پھر سے آپس میں مل گئی۔ ہم نے کعبہ کے دروازے کو کھولنے کی کوشش کی تاکہ ہماری کچھ عورتیں ان کے پاس جاسکیں، لیکن در کعبہ نہ کھل سکا۔ اس وقت ہم نے سمجھ لیا کہ یہ امر الہٰی ہے۔ فاطمہ تین دن تک خانہ کعبہ میں رہیں۔ یہ بات اتنی مشہور ہوئی کہ مکہ کے تمام مرد و زن کئی دنوں تک گلی کوچوں میں ہر جگہ اسی بارے میں بات چیت کرتے نظر آتے تھے۔( کتابوں میں یہ صراحت کے ساتھ ملتا ہے کہ پشت کعبہ وہ مقام ہے جو رکن یمانی کہلاتا ہے)۔
حاکم نیشاپوری، جو اہل سنت کے بزرگ علما میں شمار ہوتے ہیں،نے اپنی کتاب مستدرک میں اس حدیث کو باسندو متواتر لکھا ہے :لکھتے ہیں’’امیر المومنین علی کرم اللہ وجہ ،فاطمہ بنت اسدکے بطن مبارک سے خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے‘‘
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اپنی کتاب ” ازالۃ الخفائی“میں اس حدیث کو اور واضح طور پر تحریرکیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پہلے اور نہ ان کے بعد کسی کو یہ شرف نصیب نہیں ہوا چنانچہ لکھتے ہیں:متواتر روایت سے ثابت ہے کہ امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ روز جمعہ تیرہ رجب تیس عام الفیل کو وسط کعبہ میں فاطمہ بنت اسد کے بطن سے پیدا ہوئے اور آپ کے علاوہ نہ آپ سے پہلے اور نہ آپ کے بعد کوئی خانہ کعبہ میں پیدا ہو‘‘
حافظ گنجی شافعی اپنی کتاب ” کفایۃالطالب“ میںحاکم سے نقل کرتے ہوئے لکھتےہیں:’’امیرالمو منین حضرت علی رضی اللہ عنہ مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر شب جمعہ 13رجب ، 30عام الفیل کو پیدا ہوئے۔ ان کے علاوہ کوئی بھی بیت اللہ میں نہیں پیدا ہوا ۔نہ اس سے پہلے اورنہ اس کے بعد ۔ یہ منزلت و شرف فقط حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ہی حاصل ہے‘‘
اس واقعہ کو تھوڑے بہت اختلاف کے ساتھ اہل سنت علماءو مو رخین نے یوں لکھا ہے: جب فاطمہ بنت اسد پر وضع حمل کے آثار ظاہر ہوئے تو انھوں نے جناب ابو طالب سے بتایا۔ جناب ابو طالب ان کا ہاتھ پکڑ کر بیت الحرام میں لائے اور خانہ کعبہ کے اندر لے گئے اور کہا:” اجلسی علیٰ اسم اللّٰہ “ خدا کا نام لے کر یہیں بیٹھ جائو۔اس کے بعد ایک بہت ہی خوبصورت بچہ پیدا ہوا جس کا نام جناب ابو طالب نے ’’علی‘‘رکھا ۔اسی سے ملتا جلتا واقعہ بعض مورخین نے کچھ اس طرح لکھا ہے :جس وقت جناب فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت اسد پر وضع حمل کے آثار ظاہر ہوئے تو وہ خود خانہ کعبہ کے قریب تشریف لے گئیں اور خدا وند عالم سے دعا کی کہ خدا یا میری اس مشکل کو آسان کردے ۔ ابھی دعا میں مشغول ہی تھیں کہ خانہ کعبہ کی دیوار پھٹی اور فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت اسد اندر داخل ہوگئیں اوروہیں پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی۔
بریدہ بن قعنب سے روایت ہے : میں عباس اور بنی ہاشم کی ایک جماعت کے ساتھ مسجد الحرام میں خانہ کعبہ کی طرف رخ کئے بیٹھا تھا کہ اچانک فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت اسد آئیں اور طواف خانہ کعبہ میں مشغول ہو گئیں، اثنائے طواف میں ان پرآثار وضع حمل ظاہر ہوئے تو خانہ کعبہ کے قریب آکر فرمایا’’خدا وندا میں تجھ پر اور تیرے تمام پیغمبروں پر اور تیری ہر اس کتاب پر ایمان رکھتی ہوں جو تیری طرف آئی ہے ۔اور اپنے جد جناب ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی تصدیق کرتی ہوں اور یہ کہ انھوں نے اس خانہ کعبہ کو بنایا ، خدایا اس شخص کا واسطہ جس نے اس گھر کی بنیاد رکھی، اور اس بچے کا واسطہ جو میرے بطن میں ہے اس کی ولادت میرے لئے آسان کر ۔ہم لوگوں نے دیکھا کہ اچانک خانہ کعبہ کی پشت کی دیوار شق ہوئی اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کعبہ کے اندر داخل ہوکر نظروں سے اوجھل ہو گئیں ۔ پھر دیوارکعبہ آپس میں مل گئی ۔ہم لوگوں نے بڑی کوشش کی کہ خانہ کعبہ کا تالا کھول کر اندرداخل ہوں لیکن تالا نہ کھلا ۔ تالے کے نہ کھلنے سے ہم لوگوں پر یہ بات ظاہر ہوگئی کہ یہ سب خدا وند عالم کی طرف سےہے اس کے علاوہ کچھ نہیں ۔جناب فاطمہ رضی اللہ عنہا چوتھے روز حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ہاتھوں پر لیے ہوئے برآمد ہوئیں۔
روایت میں ہے کہ: فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت اسد فرماتی ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ کی ولادت کے بعد جب میں خانہ کعبہ سے باہر آنے لگی تو ہاتف غیبی نے ندا دی:اے فاطمہ، اس بچہ کا نام علی رکھواس لئے کہ یہ علی و بلند ہے اور خداعلی اعلیٰ ہے : میں نے اس بچہ کا نام اپنے نام سے جدا کیا ہے اور اپنے ادب سے اس کو مو دب کیا ہے ۔اور اسے اپنے علم کی باریکیوں سے آگاہ کیا ہے ۔
ولادت علی رضی اللہ عنہ کے سلسلہ میں علماء،مو رخین و محدثین اہل سنت کا بھی یہی نظریہ ہے۔ حاکم نیشاپوری کہتے ہیں،کہ امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب خانہ کعبہ میںفاطمہ بنت اسد کے بطن مبارک سے پیدا ہوئے یہ روایت تواتر کی حد تک ہے ۔حافظ گنجی شافعی کے بقول :امیرالمو منین حضرت علی رضی اللہ عنہ مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر شب جمعہ13جب ، 30عام الفیل کو پیدا ہوئے۔ اس سے پہلے اور اس کے بعد کوئی بیت اللہ میں پیدا نہ ہوا ۔علامہ ابن صبّاغ مالکی کا کہنا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ شب جمعہ تیرہ رجب ، تیس عام الفیل، بتیس سال قبل از ہجرت مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جلالت وبزرگی اور کرامت کی وجہ سے خداوند عالم نے اس فضیلت کوان کیلئے مخصوص کیا ہے ۔احمد بن عبد الرحیم دہلوی،شاہ ولی اللہ احمد بن عبد الرحیم و معروف محدث دہلوی نقل کرتے ہیں:”بغیر کسی شک و شبہ کے یہ روایت متواتر ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ شب جمعہ 13رجب ،30عام الفیل، 32سال قبل از ہجرت ،مکہ معظمہ میںخانہ کعبہ کے اندر فاطمہ بنت اسد کے بطن مبارک سے پیدا ہوئے ۔ ان سے پہلے اور نہ ان کے بعد کوئی بھی شخص خانہ کعبہ کے اندر پیدا نہیں ہوا ۔ علامہ ابن جوزی کہتے ہیں کہ حدیث میں وارد ہے :’’جناب فاطمہ رضی اللہ عنہابنت اسد خانہ کعبہ کا طواف کررہی تھیں کہ وضع حمل کے آثار ظاہر ہوئے اسی وقت خانہ کعبہ کا دروازہ کھلااورجناب فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت اسد کعبہ کے اندر داخل ہوگئیں ۔اسی جگہ خانہ کعبہ کے اندر حضرت علی رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔
ابن مغازلی شافعی زبیدہ بنت عجلان سے نقل کرتے ہیں :’’جس وقت فاطمہ رضی اللہ عنہابنت اسد پر وضع حمل کے آثار ظاہر ہوئے اور درد شدت اختیار کرگیا ، تو جناب ابو طالب بہت زیادہ پریشان ہوگئے اسی اثناءمیںسرور کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وہاںپہنچ گئے اور پوچھا چچا جان آپ کیوں پریشان ہیں ! جناب ابو طالب نے جناب فاطمہ رضی اللہ عنہ کا قضیہ بیان کیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت اسد کے پاس تشریف لے گئے اور آپ ﷺ جناب ابو طالب کاہاتھ پکڑکر خانہ کعبہ کی طرف روانہ ہوگئے ،فاطمہ رضی اللہ عنہابنت اسد بھی ساتھ ساتھ تھیں ۔ وہاں پہنچ کر آپ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت اسد کو خانہ کعبہ کے اندر بھیج کر فرمایا : ”اجلسی علیٰ اسم اللّٰہ “ اللہ کا نام لے کر آپ اس جگہ بیٹھ جائیے ۔ پس کچھ دیر کے بعد ایک بہت ہی خوبصورت وپاکیزہ بچہ پیدا ہوا ۔ اتنا خوبصورت بچہ ہم نے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔جناب ابوطالب نے اس بچہ کا نام ” علی “رکھا ، رسول کریمﷺ اس بچہ کو ایک سفید کپڑے میں لپیٹ کر فاطمہ رضی اللہ عنہابنت اسد کے ہمراہ ان کے گھر تشریف لے گئے ۔علامہ سکتواری بسنوی کے مطابق:اسلام میں وہ سب سے پہلا بچہ ہے جس کا تمام صحابہ کے درمیان ”حیدر “ یعنی شیر نام رکھاگیاہے۔ وہ ہمارے مولا اور سید و سردار حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں ۔ جس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے اس وقت جناب ابو طالب سفر پرگئے ہوئے تھے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مادر گرامی نے ان کانام تفاول کرنے کے بعد’’اسد‘‘رکھا ۔ کیوں کہ’’ اسد‘‘ ان کے والد محترم کا نام تھا۔
عبد الحق دہلوی کا موقف ہے کہ :عبد الحق بن سیف الدین دہلوی اپنی کتاب ” مدارج النبوہ“ میں تحریر فرماتے ہیں جناب فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت اسد نے امیر المومنین کا نام حیدر رکھا ،اس لئے کہ معنی کے اعتبار سے باپ (اسد) اور بیٹے کا نام ایک ہی رہے۔ لیکن جناب ابو طالب نے اس نام کو پسند نہ کیا،یہی وجہ ہے کہ انھوں نے آپ کا نام’’علی‘‘ رکھا۔ اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو ”صدیق “ کہہ کر پکارا اور آپ کی کنیت ” ابو ریحانتین“ رکھی۔
عباس محمود عقاد کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خانہ کعبہ کے اندر پید ا ہوئے ۔ خدا وند عالم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چہرے کو پاک و پاکیزہ اور بلند قرار دیا تھا کہ وہ بتوں کا سجدہ نہ کریں لہٰذا وہ چاہتا تھا کہ ایک نئے انداز اور نئی جگہ ان کی ولادت ہو پس خانہ کعبہ کو انتخاب کیا جو عبادت گاہ تھی۔حضرت علی رضی اللہ عنہ مسلمان پیدا ہوئے ،ہم ان کی ولادت پر غور کریں تو معلوم ہوجائے گا کہ وہ فطرت اسلام پر پیدا ہوئے کیوں کہ وہ بتوں کی پرستش سے ناواقف تھے اور نہ کبھی بتوں کی پوجا کی۔ وہ اس مبارک جگہ پیدا ہوئے جہاں سے اسلام کا آغاز ہوا۔
علّامہ سعید گجراتی اہل سنت کے بزرگوں میں شمار ہوتے ہیں ،اپنی کتاب ” الاعلام با علام مسجد الحرام “ میں اس روایت کے جواب میں کہ” حضرت علی رضی اللہ عنہ ابو قبیس نامی پہاڑ کے دامن میں پیدا ہوئے“ تحریر فرماتے ہیں،’’خدا یا ! تو بہتر جانتا ہے کہ یہ بہتان دشمنان اہلبیت کی طرف سے ہے۔ دشمنان علی رضی اللہ عنہ نے اس واقعہ کو گھڑا ہے ۔ جب کہ متواتر روایتیں دلالت کرتی ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے۔ خدایا ! تو مجھے رسول اکرم ﷺ کی سنت پر باقی رکھ اور ان کے اہلبیت کی دشمنی سے دور رکھ “
تصدیق کہ تمام مکاتب فکر کے آئمہ کے بقول ، حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی وہ پہلے اور اکلوتے فرد ہیں جو مکہ میں موجود مسجد الحرام میں واقع خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے۔چنانچہ سبھی مکاتب فکر ان کو مولود کعبہ کہتے ہیں۔
روایات کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آنے تک، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آنکھیں نہیں کھولیں۔ جب آنحضرت تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی گود میں بچے کو لے لیا اور اپنی زبان مبارک بچے کے منہ میں ڈال دی، اس طرح جملہ علوم کو منتقل کر دیا۔ جب علی رضی اللہ عنہ نے زبان مبارک کو چوسنا شروع کیا تو آنکھیں کھول کر سب سے پہلے جس شخصیت کا دیدار کیا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تھے۔ سرکار دوعالم ﷺ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت اسدسے پوچھا آپ نے اس بچے کا نام رکھا ہے؟تو انھوں نے جواب دیا جب وہ خانہ کعبہ کے اندر تھیں تو ہاتف غیبی نے ندا دی:اے فاطمہ، اس بچہ کا نام علی رکھواس لئے کہ یہ علی و بلند ہے اور خداعلی اعلیٰ ہے : میں نے اس بچہ کا نام اپنے نام سے جدا کیا ہے اور اپنے ادب سے اس کو مو دب کیا ہے ۔اور اسے اپنے علم کی باریکیوں سے آگاہ کیا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں