45

اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے دلوں میں المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کی محبت ڈال دی ہے

کام بڑھنے کے ساتھ عطیات بھی بڑھ رہے ہیں
یہ لاچار اور بے آسرا لوگوں کی دعائیں ہیں کہ آج دنیا کے 22 ممالک میں فلاحی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ،
چیئر میں المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ عبد الرزاق ساجد کا معروف پروگرام “ایک دن جیو کے ساتھ ” ، پاکستان ، برطانیہ اور مصر کا دورہ


سجاداظہر

ایک دن جیو کے ساتھ ، پاکستان کا معروف چینل جیو کا بہت زیادہ پسند کیا جانے والا ٹی وی پروگرام ہے جس میں پاکستان میں سینکڑوں نمایاں شخصیات شرکت کر چکی ہیں ۔ اس پروگرام کی خصوصیت یہ ہے کہ ا س میں نہ صرف متعلقہ شخصیت کی زندگی ، اس کے کارنامے سامنے لائے جاتے ہیں بلکہ پروگرام کو اس انداز سے آگے بڑھایا جاتا ہے تاکہ لوگوں میں مثبت سوچ اور کچھ کرنے کا جذبہ پروان چڑھایا جا سکے ۔ اور اس پروگرام کے میزبان سہیل وڑائچ کی جملہ بازی تو اب اردو کے محاوروں میں شامل ہو چکی ہے ۔” کھلے تضاد” کے ساتھ اہم شخصیات کی زندگی کی ورق گردانی کرتے ہوئے وہ ان سے ایسی باتیں بھی اگلوا لیتے ہیں جو کہتے ہوئے وہ ہچکچاتے ہیں ۔ یہ سہیل وڑائچ کا اعجاز ہے کہ وہ صحافت کے ہر میدان میں سرفراز ہیں ۔ لکھنے سے بولنے تک وہ ایک خاص قرینے اور سفینے کے آدمی ہیں جن کے تجزیوں میں “جیو اور اور جینے دو” کا فلسفہ نظر آتا ہے ۔ انہوں نے المصطفی ٰ ویلفیئر ٹرسٹ کے چیئر مین عبد الرزاق ساجد کے ساتھ ایک دن جیو کا پروگرام کیا جو گزشتہ دنوں آن ایئر ہوا ، اس کی ریکارڈنگ ،پاکستان ، برطانیہ اور مصر میں کی گئی ۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے اس کی روداد یہاں رقم کی جا رہی ہے ۔

پاکستان :
سہیل وڑائچ : المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کے چیئرمین عبد الزاق ساجد سے ملنے ان کے آبائی گاؤں ضلع خانیوال کی تحصیل میاں چنوں کے گاؤں تلمبہ پہنچے ۔عزیز و اقارب کے ہمراہ استقبال کیا :
جنوبی پنجاب کے دور افتادہ تلمبہ کے موضع میر پور کا رہنے والا عبد الرزاق ساجد جو ایک کسان گھرانے میں پیدا ہوا، وہ کس طرح آج لندن میں بیٹھ کر دنیا کے 22 ممالک میں کام کر رہا ہے یہ سفر کتنا مشکل تھا ؟
عبد الرزاق ساجد :یہ سفر مشکل بھی تھا اور کٹھن بھی ، جب بندہ اپنا کوئی نصب العین بنا لیتا ہے پھر محنت کرتا ہے تو اللہ تعالی ٰ بڑی برکت عطا کرتا ہے ۔ میں اپنے خاندان کا پہلا فرد تھا جو دوسرے ملک گیا ۔ زمانۂ طالب عملی میں ہی فلاحی کاموں کی عادت پڑ گئی تھی شروع میں کسی ضرورت مند طالب علم کو کتابیں لے دیں ، کسی کی فیس دے دی ۔
سہیل وڑائچ : آپ نے تعلیم تو پاکستان میں ہی حاصل کی ؟
عبد الرزاق ساجد : جی بالکل ، ملتان سے ہی میں نے بی اے کیا اور ملتان یونیورسٹی سے میں نے لا کیا پھر ملک سے باہر چلا گیا ۔
سہیل وڑائچ : آپ پاکستان کی ایک بہت بڑی طلبا تنظیم انجمن طلبا اسلام کے مرکزی صدر بھی رہے وہ کیسے بن گئے ؟
عبد الرزاق ساجد :میں سمجھتا ہوں طلبا ء تنظیموں میں واحد انجمن طلبا ء اسلام ہے جس میں کسی فرد کی بجائے اس کی کارکردگی کو دیکھا جاتا ہے ۔اراکین آ کر ووٹ ڈالتے ہیں ۔ میں ایک جمہوری پراسیس سے نیچے سے اوپر گیا ۔ پہلے اپنے علاقے پھر خانیوال کا ناظم رہا پھر پنجاب کا جنرل سیکرٹری رہا ،ناظم رہا پھر جا کر مرکزی صدر بنا ۔ میرے لیے یہ اعزا ز ہے کہ اس چھوٹے سے قصبے سے اٹھ کر پورے پاکستان کی نمائندگی کی ۔ الحمد اللہ جب میں مرکزی صدر تھا تو طلبا تنظیموں کی تاریخ میں موچی دروازہ لاہور میں سب سے بڑا اجتما ع کیا۔ ایسا اجتماع نہ مجھ سے پہلے کوئی کر سکا تھا نہ آج تک کسی اور نے کیا ہے ۔ جب میں ناظم تھا تو میں نے گورنمنٹ کالج ملتا ن میں تمام طلبا ء تنظیموں اور ان کی سیاسی جماعتوں کو بلایا اور جہاں ایک پانچ نکاتی فارمولا پیش کیا ۔ ا س وقت پورے ملک میں فرقہ واریت کا عروج تھا ۔ نواب زادہ نصراللہ خان کا کہناتھا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں طلبا ء کا اتنا بڑا اجتماع نہیں دیکھا ۔
سہلی وڑائچ : خیراتی ادارہ چلانا بڑا حساس کام ہے ۔پیسے کا لین دین ہوتا ہے لوگوں کی نظریں آپ پر ہوتی ہیں ؟لوگوں کو جوابدہ ہوتے ہیں ؟آپ اس سے کیسے نمٹتے ہیں ؟
عبد الرزاق ساجد : یہ ایک مشکل اور دشوار کام ہے لوگ ہمارا جائزہ سر سے پاؤں تک لیتے ہیں ۔لیکن جب آپ کا مشن خدمت ِ خلق ہوتا ہے اور لوگ آپ کے کام کا جائزہ لیتے ہیں تو وہ آپ کی مدد کرتے ہیں ۔ الحمد اللہ آج المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ دنیا کے بائیس ممالک جن میں پاکستان ، فلسطین ، انڈونیشیا ، ترکی ، یمن ، شام وغیرہ شامل ہیں جہاں ہمارے دفاتر کام کر رہے ہیں ۔ امریکہ میں نیو یارک اور واشنگٹن ڈی سی اور کینیڈا میں بھی ہمارے دفاتر کام کر رہے ہیں ۔ہم اپنے نیٹ ورک کو یورپی ممالک تک وسعت دے رہے ہیں ۔
گھر پر معززین علاقہ کے لیے دعوت کا اہتمام کیا ،جن میں پیر اسلم بودلہ اور دیگر شخصیات نے شرکت کی ۔
پیر اسلم بودلہ : عبد الرزاق ساجد ہمارے علاقے کی بڑی معروف شخصیت ہیں میں تو بعد میں سیاست میں آیا یہ میرے سے پہلے کے لیڈر ہیں ۔یہ انجمن طلبا اسلام کے صدر رہے ۔
علاقے کے لوگوں کو پینے کے صاف پانی کے فراہمی کے لیے فلٹریشن پلانٹ لگا رکھے ہیں ۔نئے فلٹریشن پلانٹ کا افتتاح کیا اور دعا کی ۔
سہیل وڑائچ: زندگی میں مشکلات بھی آتی ہیں اورآسانیاں بھی ،آپ کو زندگی میں سب سے بڑی مشکل کب اور کیسے پیش آئی ؟
عبد الرزاق ساجد : ایک بار میں لاہور میں تھامیں اے ٹی آئی پنجاب کا ناظم تھا ۔میری والدہ فوت ہو گئیں میں ان کے جنازے میں نہیں پہنچ سکا ، میرے ذہن میں آج تک یہ قلق باقی ہے کہ کاش میں پہنچ سکتا ، اس روز ٹریفک کی ہڑتال تھی ،جب میں بس سے گھر پہنچا تو ان کا جنازہ ہو چکا تھا اور انہیں دفنا دیا گیا تھا ۔ میں آج بھی سوچتا ہوں کہ کاش میں وہاں موجود ہوتا اور اپنی ماں کو اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتارتا ۔
سہیل وڑائچ : آپ لاکھوں کروڑوں کے عطیات جمع کرتے ہیں کیا کبھی ایسا موقع بھی آیا کہ اپنے پاس ایک پونڈ بھی نہ ہو ، مشکل حالات ہوں ،بھوکے رہنا پڑا ہو؟
عبد الرزاق ساجد : ایسے موقعے تو زندگی میں کئی بار آئے ۔ میں آپ کو بتاتا چلوں کہ عطیات کے لین دین میں میرا کوئی کردار نہیں نہ ہی میں کسی چیک پر دستخط کرتا ہوں ۔یہ کام میری ٹیم کرتی ہے ،کئی موقعے ایسے آتے ہیں جب جیب میں ایک پیسہ بھی نہیں ہوتا لیکن کبھی اپنی ٹیم اور دوستوں کو یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ آج میری جیب میں پیسے نہیں ہیں ۔ اللہ کا شکر ہر حال میں ادا کرتا ہوں ۔
سہیل وڑائچ : پاکستان میں آپ کے کتنے پراجیکٹ ہیں اور سالانہ ان پر کتنا خرچ آ جاتا ہے ؟
عبد الرزاق ساجد : پاکستان میں ہمارے کئی منصوبے چل رہے ہیں ۔آنکھوں کا ایک ہسپتال ہے ، صاف پانی کے منصوبے ہیں ، فوڈ پراجیکٹ ہے ، قربانی ہے مساجد کی تعمیر ہے ،سکولز ہیں ۔آرفن ہاؤسز ہیں جن پر صرف پاکستان میں چالیس پچاس ملین کا خرچ ہے ۔باقی دنیا میں کام کرتے ہیں لیکن پاکستان تو ہماری ماں دھرتی ہے اس کا ہم پر قرض ہے ہم چاہتے ہیں کہ ہم زیادہ سے زیادہ لوگوں کی خدمت کر سکیں ۔
سہیل وڑائچ : عام طور پر جو غیر ملکی تنظیمیں کام کرتی ہیں وہ مستقل نوعیت کے پراجیکٹس نہیں بناتیں ،بلکہ ایسے بناتی ہیں جو شارٹ ٹرم ہوں ،تاکہ مستقل پیسے نہ لگانے پڑیں لیکن آپ نے تو ہسپتال بنا لیا جس پر مستقل پیسے خرچ ہو رہے ہیں دو اور ہسپتال بنا رہے ہیں ،ان کی مستقل فنڈنگ ایک مسئلہ نہیں بن جائے گی ؟
عبد الرزاق ساجد :ہسپتال میں آپریشن کے بعد جب کسی کو یہ دنیا دوبارہ دکھائی دینے لگتی ہے تو ا س کے چہرے کی خوشی دیدنی ہوتی ہے اس کے دل سے جو دعا نکلتی ہے یہ اسی کا اثر ہے کہ ہمارے عطیات بھی ہماری ضروریات کے ساتھ بڑھ رہے ہیں ۔لوگوں کو جب کام نظر آتا ہے تو وہ عطیہ بھی دیتے

ہیں ۔جب سے کام شروع کیا ہے کبھی فنڈز کی کمی نہیں ہوئی اللہ تعالی ٰ لوگوں کے دلوں میں المصطفی ٰ کے لیے محبت پیدا کرتا ہے ۔
سہیل وڑائچ : زندگی میں سب سے زیادہ اطمینان بخش اور خوشی کا لمحہ کب دیکھا ؟
عبد الرزاق ساجد :جب کسی غریب کی بینائی بحال ہوتی ہے اور اس کی آنکھوں میں خوشی سے آنسو آ جاتے ہیں تو دل کے ہاں اطمینان ہوتا ہے کہ بارگاہ الہٰی میں یہ آنسو شرف قبولیت پائیں گے ۔میرا ماننا ہے کہ غریبوں کی خدمت ہی اللہ کی سب سے بڑی عبادت ہے ۔
سہیل وڑائچ :آپ نے روہنگیا مسلمانوں کے مظالم دیکھے ، فلسطینیوں کے دکھ محسوس کیے ، ترکی کے زلزلہ سمیت ہر آفت میں لوگوں کے پاس جا کر دیکھا ، سب سے زیادہ تکلیف دہ لمحات کون سے تھے ؟
عبد الرزاق ساجد :جب میں روہنگیا 2012ء میں گیا تو بہت مشکل وقت تھا تیس ہزار مسلمانوں کو زندہ جلا دیا گیامیری آنکھوں کے سامنے گاؤں جلائے جا رہے تھے اور ہم بے بس تھے اور کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے بچے جب لپٹ کر ہمارے ساتھ روتے تھے اور عورتیں پوچھتی تھیں ہمارا قصور کیا ہے ؟ وہ لمحے میں کبھی بھول نہیں سکتا ۔اب بھی جب کبھی مجھے یاد آتا ہے تو میری نیند اڑ جاتی ہے ۔مراکش کا زلزلہ آیا تو میں اگلے دن وہاں پہنچا لیکن برما کے مسلمانوں کا دکھ بہت بڑا ہے ۔
لاہور میں المصطفی ٰ آئی ٹرسٹ ہسپتال پہنچے ،سٹاف نے استقبال کیا ،یہاں سینئر سرجن آنکھوں کا مفت علاج کرتے ہیں ،ہسپتال کے مختلف شعبوں کا دورہ کیا ۔میٹنگ روم میں آئے ،المصطفی ٰ کے ساتھ تعاون اور سرپرستی کرنے والے بورڈ ممبرز کا شکریہ ادا کیا ، المصطفی ٰ کی دنیا بھر میں کاوشوں پر ایک ڈاکو منٹری دکھائی گئی ۔
سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ محمد قاسم خان کی رہائش گاہ پہنچے ۔عبد الرزاق ساجد کے اعزاز میں عشائیے کا اہتمام کیا گیا کھانے میں چائنیز رائس ، تکہ کباب اور ماش کی دال سے تواضع کی گئی ۔

برطانیہ :
ہنسلو برطانیہ میں المصطفی ٰ ویلفیئر ٹرسٹ کے ہیڈ آفس پہنچے ،سٹاف سے ملاقات کی۔
سہیل وڑائچ :المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ دنیا کے کتنے ممالک میں کام کر رہا ہے اورآپ کا لینڈمارک پراجیکٹ کون سا ہے ؟
عبد الرزاق ساجد :الحمد اللہ المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ دنیا کے 22ممالک میں مصروفِ عمل ہے جہاں ہمارااپنا نیٹ ورک موجود ہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ قبلہ ٔ اوّل یعنی مسجد اقصیٰ جو مسلمانوں کے ساتھ تین بڑے مذاہب کے لیے مقدس ہے وہاں صرف ایک معاہدے کی رو سے ارد ن کی حکومت ہی کام کر سکتی ہے ہمارا اردن کے الہاشمی ٹرسٹ کے ساتھ معاہدہ ہوا ہے اور ہم وہاں کام کر رہے ہیں ۔یہ منصوبہ کئی ملین ڈالرز کا ہے جو کہ مرحلہ وار ہے ہم اس کے لیے عطیات جمع کر رہے ہیں تاکہ اس منصوبے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر دیا جائے اور یہ خود کار طریقے سے چلتا رہے ۔یہ کام قرآن کی خصوصی کلاسز کا ہے ۔یہاں بچے ،عورتیں اور بزرگ قرآن پڑھنے کے لیے آتے ہیں ۔ہم ان کلاسز کے شرکاء کو فی کس دو ہزارڈالرزکے خصوصی کارڈز جاری کرتے ہیں جن سے وہ مارکیٹس سے کھانے پینے کی اشیا خرید سکتے ہیں ۔اس کا مقصد قبلہ ٔ اوّل کے ارد گرد رہنے والے مسلمانوں کی حوصلہ افذائی کرنا ہے کیونکہ ان پر بہت زیادہ دباؤ ہے کہ وہ یہ جگہ چھوڑ کر چلے جائیں اس کے لیے انہیں ایک ایک کمرے کے پچاس پچاس ہزار ڈالرز بھی دینے کو لوگ تیار ہیں لیکن یہ ان کی قبلہ اوّل سے محبت اور لگاؤ ہے کہ وہ اتنے مصائب کے باوجود وہا ں رہ رہے ہیں ۔مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان خاندانوں کو سپورٹ کریں تاکہ وہاں ان کی آبادی قائم رہے ۔
سہیل وڑائچ : المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ باقی چیرٹیوں سے کتنی بڑی ہے اور اس کی رینکنگ کیا ہے ؟
عبد الرزاق ساجد : المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کا شمار برطانیہ کے بڑے خیراتی اداروں میں ہوتا ہے ۔ہماری ایک مختصر سی ٹیم نے ایک بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے جو سالانہ دس ملین پونڈ کے فلاحی منصوبے سر انجام دے رہی ہے ۔امریکہ اور کینیڈا کے عطیات الگ ہیں ۔
سہیل وڑائچ : آپ کن شعبوں میں کام کر رہے ہیں ؟
عبد الرزاق ساجد : کچھ شعبے ایسے ہیں جن میں تمام خیراتی ادارے کام کرتے ہیں جیسے ہنگامی مدد جہاں قدرتی آفتیں آتی ہیں ۔لیکن جب ہم نے یہ ادارہ بنایا تھا تو بنانے سے پہلے ہم اس بات کا تعین کرنا چاہتے تھے کہ وہ کون سا شعبہ ہے جس کی طرف باقی اداروں کا فوکس نہیں ہے اس مقصدکے لیے ہم نے باقی اداروں کے کام کا جائزہ لیا جس کے بعد ہم نے آنکھوں کے شعبے کو منتخب کیا ۔الحمد اللہ ہمارے کام کو دیکھتے ہوئے آج بڑے بڑے خیراتی ادارے بھی ا س میدان میں آکر ہمیں فالو کر رہے ہیں ۔اس وقت ہم صرف آنکھوں کے دو لاکھ سے زائد مریضوں کے آپریشن کر کے ان کی بینائی بحال کر چکے ہیں ۔
ہنسلو جامع مسجد کا دورہ اور ٹرسٹیز سے ملاقات :شفیق الرحمٰن ، چوہدری عبد المجید بھی موجود تھے ، مسجد کے دوستوں کے ساتھ مل کر فلاحی منصوبے جاری رکھنے کا عزم ، مسجد میں فوڈ بنک کے قیام پر بریفنگ دی گئی ۔
سہیل وڑائچ :جب پاکستان سے برطانیہ آئے تو شروع میں کن کن مشکلات سے گزرے ؟
عبد الرزاق ساجد :پاکستان سے یہاں آیا تو جیب میں صرف دو سو روپے تھے ۔روزگار اور چھت کے لیے جدو جہد کی ۔ الحمد اللہ یہاں محنت مزدوری کے ساتھ فلاحی کام شرو ع کیا جو آج یہاں کے بڑے اداروں میں شامل ہے ۔
لندن بارو آف ہنسلو کا دورہ :میئر افضال کیانی نے استقبال کیا ،میئر نے المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کی ٹیم کے اعزا زمیں ظہرانے کا اہتمام کیا ہواتھا ۔
سہیل وڑائچ :آپ نے المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کو میئر کی چیریٹی بھی ڈیکلیئر کیا ہوا ہے ؟
افضال کیانی : میں نے المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کے کام کو دیکھتے ہوئے یہ عزم کیا تھا کہ جب بھی مجھے میئر بنایا گیا میں المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کو اپنی آفیشل چیریٹی بناؤں گا ۔الحمد اللہ جب مجھے موقع ملا تو میں نے اپنا عزم پورا کیا آج میری ویب سائٹ اور میرے وزیٹنگ کارڈز پر بھی لکھا ہوا ہے کہ اپنے عطیات ان کو دیں ۔ میں نے اپنی زندگی میں عبد الرزاق ساجد سے زیادہ عجز و انکساری والا انسان نہیں دیکھا ۔جہاں دیکھتے ہیں کسی مصیبت زدہ کو ان کی ضرورت ہے فوراً حرکت میں آتے ہیں ۔پاکستان میں دو تین جگہوں آزاد کشمیر ، ہری پور اور ڈڈیال میں خود جاکر ان کے کام دیکھ چکا ہوں ، یہ حقیقی معنوں میں انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں ۔یہاں برطانیہ میں بھی یہ بے گھر لوگوں کی مد دکر رہے ہیں ، نوجوانوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں ۔ بھوکے لوگوں کو کھانا فراہم کررہے ہیں ۔ یہ ایک نہایت زبردست کام ہے جو عبد الرزاق ساجد کی شخصیت میں ایک ادارے میں ڈھل گیا ہے ۔
اس موقع پر میئر افضال کیانی نے سہیل وڑائچ کو خصوصی بیجز لگائے اور یادگاری سرٹیفکیٹ بھی دیا ۔
المصطفی ٰ ویلفیئر ٹرسٹ کے ڈونرز کے ساتھ میٹنگ کی ،یہ وہ ڈونرز ہیں جو ہمارے ساتھ کئی سالوں سے منسلک ہیں ،ہماری سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ ایک چھوٹی سے ٹیم کے ساتھ ہم اتنے بڑے کام کر رہے ہیں ۔ہم ہر ڈونر کو مکمل فیڈ بیک دیتے ہیں کتنے آپریشن ہوئے کن کے ہوئے ان کی تصاویر کے ساتھ مکمل تفصیلات درج ہوتی ہیں ۔
ڈونرز کے ساتھ کھانا کھایا ۔
فیملی کے ساتھ ملاقات : سہیل وڑائچ : عبد الرزاق ساجد صاحب انجمن طلبا ء اسلام کے صدر تھے اور آپ انجمن طالبات اسلام کی صدر تھیں ،دونوں کی شادی کیسے ہو گئی ؟
رضوانہ لطیف (مسز عبد الرزاق ساجد ): یہ تو آپ نے بہت مشکل سوال کر دیا ہے اور ذاتی نوعیت کا بھی ،ہمارے گھر والے رشتہ دیکھ رہے تھے اور بہت ساری جگہوں پر کہا ہوا تھا والدین کی بھی یہ خواہش تھی کہ میری طبع کا ہی جیون ساتھی ہو تاکہ میں خوش رہوں ۔اے ٹی آئی کے ہی کچھ سابقین رشتہ لے کر ہمارے گھر آئے ۔سید ریاض حسین شاہ جو ہمارے مرشد بھی ہیں ، میں ان سے بیعت بھی ہوں اور ان کی سٹوڈنٹ بھی ہوں ، وہ رشتہ لے کر آئے ۔ ساجد صاحب بھی ان کے مرید ہیں ۔ میری ساجد صاحب سے ملاقات بھی تھی اور ایک طرح سے جب رشتہ آیا تو میری پسندیدگی بھی شامل تھی ۔آج ہماری شادی کو 25سال ہو گئے ہیں ۔
سہیل وڑائچ : شادی کے بعد کتنی بار لڑائی ہوئی ؟
رضوانہ لطیف : میں ہی لڑتی ہوں ،ساجد چونکہ لڑتے نہیں ہیں اس لیے شادی کے بعد لڑائی کی 25ہزار ناکام کوششیں میری طرف سے ہیں ۔یہ بالکل جواب نہیں دیتے ۔ لڑائی کی عام وجہ ان کے گھر میں دیر سے آنا ہے ،گھر میں کھانا بنایا ہوتا ہے بچے انتظار کر رہے ہوتے ہیں لیکن ابو لیٹ آتے ہیں اور ڈنر کر کے آتے ہیں ۔ بچوں کو ڈسپلن کرنے کے لیے میں ذرا سختی کرتی ہوں اور ساجد کہتے ہیں کہ سختی نہیں کرنی ۔
سہیل وڑائچ : ساجد صاحب کی سب سے اچھی بات کون سی ہے ؟
رضوانہ لطیف : برداشت اور صلہ رحمی ،کبھی کسی کی برائی نہیں کرتے کسی پر تنقید نہیں کرتے ،یہ بہت مثبت سوچ رکھنے والے ہیں ۔
سہیل وڑائچ : اور ان کی خامی کون سی ہے بیوی سے بہتر تو کوئی نہیں جانتا ؟
رضوانہ لطیف :ہر کسی پر اعتبار کر لیتے ہیں میں سمجھاتی ہوں ہر کوئی اس قابل نہیں ہوتا ،اپنی آنکھیں بھی کھلی رکھنی چاہئیں ۔
سہیل وڑائچ : چیریٹی کا کام ویسے تو مل جل کر کرتے ہیں لیکن کس کا رول زیاد ہ ہے ؟
رضوانہ لطیف :ویسے تو سب کو لگتا ہے کہ میں ہی زیادہ کام کر رہی ہوں ، لیکن میں تسلیم کرتی ہوں کہ ساجد کا رول زیادہ ہے ۔مجھے چیریٹی سیکٹر بہت مشکل لگتا تھا میں چاہتی بھی نہیں تھی کیونکہ زندگی بہت مشکل ہو جاتی ہے ۔
سہیل وڑائچ : گھر کا خرچ کون چلاتا ہے ساجد صاحب یا آپ ؟
رضوانہ لطیف :میں چلاتی ہوں ، ان کی تنخواہ سو فیصد میرے پاس ہوتی ہے ۔ساجد فنانشیل کنٹرول نہیں رکھتے ۔
ساجد صاحب کے بیٹوں سعد حسین ،محمد علی ،محمد مصعب اور بیٹیوں فروہ اور عروہ سے بھی بات کی ۔
سہیل وڑائچ : آپ کیا سمجھتی ہیں کہ پاکستان میں بچوں کی تربیت مشکل ہے یا برطانیہ میں؟
رضوانہ لطیف : برطانیہ میں بہت مشکل ہے میرے بڑے بچے اردو بول سکتے ہیں کیونکہ بڑے بچوں کو والدین سنبھالتے ہیں ان کے ساتھ باتیں کرتے ہیں جبکہ چھوٹے بچوں کے ساتھ ان کے بہن بھائی زیادہ باتیں کرتے ہیں ۔یہ آپس میں انگلش ہی بولتے ہیں اردو سمجھ لیتے ہیں بول نہیں پاتے ۔
سہیل وڑائچ : بچوں کو اسلام کی تربیت دلانے میں آپ کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں ؟
رضوانہ لطیف :الحمد اللہ ، میں سمجھتی ہوں کہ میں اس میں کامیاب ہوں ۔ویسے لگتا ہے کہ بچے بہت مغربی ہیں لیکن آپ کو حیرت ہوگی کہ میرے پانچوں بچے بہت اسلامی ذہن رکھتے ہیں ۔
مصر :
ٹانگے پر سوار ہو کر اہرام مصر دیکھنے پہنچے ، قاہرہ میں ہلال ِ احمر کے دفتر آئے ،غزہ کے مسلمانوں کے لیے کھانے پینے کی اشیاء اور کھانے پینے کی چیزوں کی رضا کاروں کے ساتھ مل کر خو دپیکنگ کی ۔امدادی سامان کے ٹرک ہلال احمر کے حوالے کیے ۔
سہیل وڑائچ : آپ نے یہ امدادی سامان جو ہلال ِ احمر مصر کے حوالے کیا ہے یہ کب تک اور کیسے غزہ کے مسلمانوں کے پاس پہنچے گا؟
عبد الرزاق ساجد : الحمد اللہ ۔ آج ہم نے سامان کی دوسری کھیپ ہلال احمر قاہر ہ کے حوالے کی ہے ۔ یہ یہاں سے رفاع بارڈر جائے گی ۔جو ہلال احمر غزہ کے حوالے کریں گے جس کے ساتھ ہماری شراکت داری ہے وہ یہ سامان ضرورت مندوں کے حوالے کریں گے ۔ یہ تین لاکھ پینسٹھ ہزار پاؤ نڈ کاسامان ہے جو کل تک متاثرین میں تقسیم ہو جائے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں