27

“روانڈا سکیم” کیاہے؟


برطانوی پارلیمنٹ نے گرما گرم بحث کے بالآخر روانڈا بل منظور کرلیا ہے، اس بل کو شاہی منظوری کے بعد قانون کا درجہ بھی مل گیا ہے۔ غیر قانونی داخل ہونے والے تارکین وطین کو برطانیہ سے باہر نکالنے کے اس منصوبہ کو “روانڈا سکیم” کانام دیا گیا ہے۔یہ سکیم برسر اقتدار ٹوری پارٹی کی اختراع ہے جسے اشرافیہ کی پارٹی کہا جاتا ہے، وزیر اعظم رشی سونک نے اس قانون پر خوشی کا اظہار کیا ہےاور کہا ہے کہ برطانیہ سے پناہ گزینوں کو لوڈ کر روانڈا بھیجنے کی پروازیں جولائی میں شروع کر دیں گے، ایک ایئر فیلڈ کو اسٹینڈ بائی پر رکھا ہے،جہاں سے کمرشل چارٹر طیارے پناہ گزینوں کو لے کر روانڈا جائیں گے اور پروازوں کے ساتھ جانے کے لئے 500 اعلیٰ تربیت یافتہ افراد بھی بھرتی کرلئے ہیں جو ہر فلائٹ میں 300 پناہ گزینوں کو ساتھ لے کرروانڈا تک جائیں گے۔غیر قانونی تارکین وطین کے متعلق روانڈا سکیم گزشتہ سال ہی نافذالعمل ہونی تھی لیکن نومبر میں سپریم کورٹ نے اس پر عملدرآمد روک دیا تاہم دسمبر میں سپریم کورٹ نے پابندی ختم کردی تھی۔ وزیر اعظم رشی سونک کو افسوس ہے کہ وہ مارچ میں پہلی پروازبھیجنا چاہتے تھے لیکن پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی مخالفت کی وجہ سے فلائٹوں میں دیر ہوگئی لیکن اب پارلیمنٹ نے اس بل کو منظور کرلیا ہے۔ٹوری پارٹی ہمیشہ امیگریشن مخالف رہی ہے اور موجودہ قانون وزیر اعظم کی ان پانچ ترجیحات کا حصہ ہے جس کے ذریعے برطانیہ میں امیگریشن کی تعداد میں کمی ہوگی،ٹوری کا ووٹ بنک بڑھے گا اورآئندہ الیکشن میں عوام دوبارہ پارٹی کو اقتدار کا موقع دیں گے اور اس طرح لیبر پارٹی کا انتخابات میں اثر ورسوخ کم ہو جائے گا۔
یہ قانون دراصل روانڈ اور برطانیہ کے درمیان ایک معاہدے کا حصہ ہے جس کا اطلاق 8 دسمبر 2023 کے بعد غیر قانونی طور پر برطانیہ پہنچنے والے مہاجرین پر ہو گا اور انھیں برطانیہ میں سکونت کی اجازت نہیں ہو گی بلکہ انھیں روانڈا میں منتقل کر دیا جائے گا۔ سیاسی پناہ حاصل کرنے والے جن مہاجرین کو روانڈا میں بھیجا جائے گا وہ برطانیہ واپس آنے کے اہل نہیں ہوں گے۔ اس معاہدہ کا مطلب ہے کہ غیر قانونی طریقوں سے نقل مکانی کرنے والے افراد کو برطانیہ کے بجائے روانڈا میں مہاجرین کے طور پر تسلیم کیا جائے گا۔روانڈا کی حکومت نے وعدہ کیا ہے کہ وہاں بھیجے گئے تارکین وطن کو شہریت کے ساتھ ملک میں رہنے کا حق دیا جائے گا،جس کا مطلب ہے کہ اس سکیم کے بعد تارکین وطن جنھیں برطانیہ کا پاسپورٹ مل جاتا تھا وہ بھی آئندہ نہیں ملے گا۔حکومت برطانیہ کا دعوی ہےکہ اس طرح انسانوں کی سمگلنگ کے کاروباری نیٹ ورک کو توڑ دیا جائے گا۔ نئی قانون سازی کے تحت تارکین وطن کو روانڈا بھیجنے کے کسی بھی فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کے لیے سات دن کا وقت ہوگا۔ وزارت انصاف انہیں ڈیوٹی امیگریشن وکلاء فراہم کرنے کی پابند ہوگی۔
اپیل کا عمل نو دن تک چل سکتا ہے۔ حکومت مبینہ طور پر توقع کرتی ہے کہ پانچ میں سے ایک کیس پر امیگریشن ٹربیونل میں اپیل ہو گی جبکہ ہر کیس کا فیصلہ 22 دنوں کے اندر کرنا ہوگا۔دی ٹیلی گراف کے مطابق، ڈیڈ لائن کو پورا کرنے کی کوشش میں 150 اضافی ججز اور درجنوں ڈیوٹی وکلاء کو بھرتی کیا جا رہا ہے۔
بظاہر تو حکومت نے روانڈا سکیم ان غیر قانونی تارکین وطن کے لئے متعارف کی تھی جو ایشیا، افریقہ ، عرب سمیت دیگر غریب ملکوں سے سرحدوں کو پار کر کے یورپ پہنچتے ہیں اور فرانس آنے کے بعد “چھوٹی کشتی” کے ذریعے معمولی سمندری راستہ عبور کر کے برطانیہ قدم رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں، برطانیہ اور فرانس کے درمیان اس سمندری راستہ کو انگلش چینل کہا جاتا ہے۔جس کا مقصد بغیر ویزا یا داخلے کی اجازت کے برطانیہ میں داخلہ ہونا ہوتا ہے -یورپ سے برطانیہ آنے کے اس عمل کوڈنگی لگانا کہتے ہیں جس میں کئی مہینے لگتے ہیں اور ہزاروں جانیں ضائع ہوتی ہیں۔روانڈا سکیم صرف ڈنکی لگانے والوں پر لاگو نہیں ہوگی بلکہ وہ تارکین وطن بھی پکڑ پر روانڈا بھیج دئیے جائیں گے جو وزٹ ویزے لے پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش سمیت افریقی اور دوسرے غریب ملکوں سے وزٹ بذریعہ جہاز لندن پہنچتے اور غائب ہو جاتے ہیں اور بذریعہ اسائلم مستقل سکونت اختیار کرلیتے ہیں۔ٹوڑی پارٹی کی کوشش ہے کہ امیگریشن کے قانونی اور غیر قانونی دونوں راستے محدود کئے جائیں، اس مقصد کے لئے رواں سال پہلے ہی سٹوڈنٹ ویزے پر آنے والے طالبعلموں کے بیوی بچوں کے داخلے کے لئے (spouse) پر پابندی لگادی گئی ۔ ورک پرمٹ کے ذریعے آنے والوں کی امیگریشن ہیلتھ فیسوں ((IHSکو بڑھا کر سالانہ 1035پونڈ کردیا جس کے بعد پانچ سال کے ویزے کے لئے ہر درخواست کے ساتھ مجموعی طور پر سات چھ ہزار پونڈ کی کثیر فیسیں ادا کرنے ہوگی۔برطانوی شہری جو اپنے ملکوں میں شادی کرکے بیوی کو برطانیہ لے کر آتے ہیں ان کا راستہ بھی محدود کرنے کے لئے کم ازکم آمدنی کی حد بڑھا کر 38ہزار سالانہ سے زائد کردی گئی جس کا بندوبست کرنا انتہائی دشوار ہوگیا ہے۔ اس طرح قانونی راستے اختیار کرنے والوں کے لئے آسانی بھی ختم ہوگئی ہے۔اس سے قبل بریگزٹ ریفرنڈم کے ذریعے برطانیہ کو یورپی یونین سے الگ کردیا گیا اور یہاں سکونت اور روزگار اختیار کرنے والے یورپی باشندوں کو اپنے ملکوں میں واپس بھیجنے پر مجبور کردیا گیا تھا۔ ان اقدامات کے بعد ٹوری پارٹی کو امید ہے کہ اس سال برطانیہ میں ہونے والے الیکشن میں وہ تیسری مرتبہ بھی کامیاب ہوگی لیبر پارٹی شکست سے دوچار ہوجائے گی۔ روانڈا سکیم پر برطانیہ کے ٹیکس دہندگان کی کثیر رقم خرچ ہوگی، حکومت برطانیہ نے روانڈا کو 50کروڑ پونڈ کی ادائیگی کا عندیہ دیا ہے ،ان میں 23کروڑ پونڈ گزشتہ سال ادا بھی کردئیے جبکہ بقایا رقم آئندہ پانچ برسوں میں اداہوگی۔ اس رقم سے وہاں دس ہزار مہاجرین کے رہائشی فلیٹ بھی بنائے جائیں گے۔نیشنل آڈٹ آفس نے تصدیق کی ہے کہ 300تارکین وطن کی چارٹرڈ فلائٹ پر 18لاکھ پونڈ خرچ ہوگا۔
برطانیہ میں انسانی حقوق اور پناہ گزینوں کو تحفظ دینے والے ادارے روانڈا سکیم پر شدید تنقید کررہے ہیں۔ یہ بل جو کئی دہائیوں میں منظور ہونے والی قانون سازی میں سب سے زیادہ متنازع ہے، اس اسکیم کو دو سال قبل اس وقت کے وزیر اعظم بورس جانسن کی طرف سے اعلان کیا گیا لیکن سکیم کو سپریم کورٹ نے غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔اس قانون کی مخالفت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ برطانیہ نے پناہ گزینوں کے کنونشن پر دستخط کیے ہیں، جس میں کہا گیا ہے کہ کسی پناہ گزین کو کسی ایسے ملک میں واپس نہیں جانا چاہیے جہاں انہیں سنگین خطرات کا سامنا ہو۔یہ قانون “بنیادی طور پر برطانیہ کی انسانی حقوق کی ذمہ داریوں سے مطابقت نہیں رکھتا” اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرے گا۔جس میں روانڈا کے متعلق عدالتوں کا دائرہ اختیار محدود ہو جائے گا۔امکان ہے کہ برطانوی مسلح افواج کے ساتھ کام کرنے والے افغان فوجیوں کو مستثنیٰ کیا جائے گا۔روانڈا مہاجرین بھی خوفزدہ ہیں کہ انہیں وہاں ظلم و ستم کا سامنا کرنے کے لیے بھیجا جا رہا ہےاس لیے یہ منصوبہ غیر قانونی ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ سکیم روانڈا تک محدود نہیں رہے گی بلکہ نقل کرنے کی کوشش کرنے والوں کے لئے کوسٹاریکا، آرمینیا، آئیوری کوسٹ اور بوٹسوانا سمیت دیگر افریقی ممالک میں بھیجنے کے لئے بھی رابطہ کیا گیا ہے۔ غیر قانونی تارکین وطن ہوشیار باش رہیں کہ ان کی اگلی منزل روانڈ ہوگی،روانڈا مشرقی افریقہ کا ملک ہے جس کی سرحدیں یوگنڈا، تنزانیہ اور کانگو سے ملتی ہیں اور کیگالی دارالحکومت ہے، روانڈا کی تاریخ بدترین نسل کشی کے حوالے سے بدنام ہے۔ ۱۹۹۴ میں مقامی قبائل توا اور توتسی کے درمیاں ہونے والے اس لڑائی میں دس لاکھ توتسی باشندے ہلاک کردئیے گئے، گرجا گھر، سکول، ہسپتال تباہ کردئیے گئے، روانڈا میں نسل کشی کے خلاف ہرسال دنیا بھر میں ساتھ اپریل کو “نشل کشی کے ماتم کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور ملک میں عام چھٹی ہوتی ہے۔ اس واقعہ کو تیس برس گزر گئے لیکن اس کے زخم ابھی تک باقی ہیں۔ یہاں سوال ہے کہ روانڈا میں برطانیہ سے بھیجے گئے مہاجرین کے جان، مال اور عزت محفوظ ہونے کی گارنٹی کون دے گا؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں