25

“ بُھٹو کا قتل، ججوں کا تعصب اور عالمی آرا ’’


گزشتہ ہفتے“ جیو نیوز” پر سابق اسسٹنٹ سپرنٹینڈنٹ راولپنڈی جیل کا مفصل انٹرویو ٹیلی کاسٹ ہوا، انہوں نے برملا کہا کہ بھٹو کا قتل امریکہ اور روس کی سازش تھی کیونکہ بھٹو مسلم ورلڈ کا تھرڈ بلاک بنانا چاہتے تھے۔ حقیقتاً یہ بات درست معلوم ہوتی ہے اور اُس وقت کے حالت و واقعات اور عدالتی ٹرائل بھی گواہی دیتا ہے کہ مذکورہ عالمی طاقتوں نے ضیاالحق کے ذریعہ اور ضیا نے ججوں کے ذریعہ بھٹو کو ایک ناکردہ گناہ کی پاداش میں پھانسی چڑھا دیا جس کا نہ جواز تھا نہ ہی حقائق سے کوئی واسطہ لیکن ضیا کو اقتدار سے غرض تھی اور اپنے اسی لالچ و ہوس کے لئے اس نے پاکستان کی ایک نابِغَۂ روزگار شخصیت اور حقیقی لیڈر کو ابدی نیند سُلا دیا۔
میں نے بطور ایک صحافتی طالبعلم کی بھٹو کی پھانسی سے چھ آٹھ مہینے پہلے کے تاریخی اوراق پلٹنے شروع کئے اور جاننا چاہا کہ اُس دور میں دُنیا بھر کا میڈیا اور سرکردہ شخصیات بھٹو کے مقدمہ سے متعلق کیا رائے رکھتی تھی تو پتا چلا کہ کوئی بھی اول تو بھٹو کے ٹرائل کے منصفانہ ہونے سے مطمئن نہیں تھا، عالمی میڈیا نہ سرکردہ اور اثر انداز ہونے والی والی شخصیات ۔ مثال کے طور
ممتاز برطانوی اخبار “دی ٹائمز” لاہور ہائی کورٹ فیصلہ پر اپنے اداریے میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ “ وُہ شہید بن جائے گا” کیونکہ یہ دراصل ایک سیاسی مقدمہ ہے، کوئی عدالت گواہی کو ہر گز اتنا حتمی، یقینی اور ناقابل تغیر قرار نہیں دیتی جیسا کہ لاہور ہائیکورٹ نے کیا، اگر بھٹو کو رہا کر دیا جاتا وُہ زیادہ خطرناک سیاسی حریف ثابت ہوتے۔ ہر شخص اچھی طرح جانتا تھا کہ مارشل لا حکومت بھٹو کو مجرم قرار دلوانا چاہتی تھی، سماعت کے دوران فوجی حکومت نے اپنے مخالفین کو بڑی سختی سے دبائے رکھا یوں عدالت ایک سوچے سمجھے سیاسی دباؤ میں تھی ہو سکتا ہے انجام کار اس کے اثرات اچھے مرتب نہ ہوں لیکن ایسا کرنا ناگزیر تھا لیکن اس فیصلہ کے اثرات بھٹو کے حامیوں کیلئے ناقابل قبول اور ہر گز مثبت نہیں ہوں گے۔
معتبر برطانوی اخبار “ روزنامہ گارڈین” نے پاکستان کے اکثریتی عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے اپنے اداریے میں لکھا “ بھٹو کیلئے موت انصاف کے خفاظتی اہتمام کے ساتھ نہیں آئی بلکہ ایک چور کی طرح رات کو آئی اور بھٹو کو بے شر می ، خوف و تشویش کے عالم میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔
اس بری برطانیہ ہی کے روزنامہ “ایویننگ نیوز” کے مطابق جنرل ضیا اور اس کے رفقآ نے بھٹو کو پھانسی دے کر بدترین جُرم کا ارتکاب کیا ہے، وہ جُرم جو بھٹو نے کیا ہی نہیں تھا۔ بلکہ اس اخبار نے تو فوجی حکومت کے بارے میں یہ پیش گوئی بھی کر دی کہ مستقبل میں اگر کوئی ایسا دن آیا کہ ضیا کا تختہ اُلٹا گیا اور اسے بعض الزامات کا سامنا کرنا پڑا تو ان میں بھٹو کو قتل کا الزام سر فہرست ہو گا چنانچہ جنرل ضیا کو دو باتوں کا یقین کر لینا چاہئے کہ ایک تو اسے بہر حال مجرم قرار دیا جائیگا دوسرا یہ کہ اپنی سزا کیخلاف اس کی اپیل بھی وقت کا ضیاع ہوگا۔
جرمنی کے ایک بڑے روزنامہ “ فرینکفرٹ رالیمگرز” نے بھٹو کی سزائے موت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ “ یہ کیسے ممکن ہوا کہ بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد ان کے سب سے بڑے سیاسی حریف اور پختون رہنما خان عبدالولی خان کو رہا کر دیا گیا حالانکہ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے انہیں تخریب کاری اور سازش کا مجرم قرار دیا تھا یقین سے تو نہیں کہا جا سکتا تاہم ایسے شواہد موجود تھے کہ پاکستانی جج برسر اقتدار فوجی حکام کی منشا اور ان کی خواہش کو اچھی طرح سمجھتے ہیں، جس بینچ نے بھٹو کو موت کی سزا سنائی وُہ کوئی مواقع پر اپنے معاندانہ رویہ کا اظہار کر چکا تھا، بھٹو نے جرم کا ارتکاب کیا تھا یا نہیں یہ ایک الگ مسلۂ ہے تا ہم اس میں شک نہیں کہ بھٹو کے مقدمہ کی سماعت قطعی منصفانہ نہیں ہوئی۔
۷۰ کی دہائی میں دُنیا کی چوٹی کی سیاسی، صحافتی، عدالتی اور ادبی شخصیات نے بھی بھٹو کی سزا کو غیر منصفانہ اور عدالتی اصول وضوابط کے برعکس قرار دیا مثلا ۱۹۷۳ تک رہنے والے امریکی صدر لینڈن بی جانسن کے اٹارنی جنرل اور عالمی شہرت کے حامل امریکی قانون دان رمزے کلارک نے پاکستان جا کر ذاتی طور پر اس مقدمہ کی سماعت سُنی اور تبصرہ کیا کہ “ اب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جن دو ججوں نے بھٹو کی ضمانت منظور کی انہیں ٹرائل بنچ سے نکال کیوں دیا گیا ؟ پھر یہ کیسے ہوا کہ چیف جسٹس خود بینچ میں شامل ہو گئے جبکہ وُہ بھٹو سے اس لئے عناد رکھتے تھے کہ ترقی کے معاملہ میں بھٹو نے ان کی حق تلفی کی تھی ؟ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جو بڑے گواہ پیش کئے گئے ان کی شہادت مشکوک تھی اور آخری بات یہ کہ چیف جسٹس کا تعصب پورے 145 صفحات پر پھیلا ہوا ہے ! یاد رہے کہ رمزے کلارک ان امریکیوں میں سے تھے جنہوں نے تسلیم کیا اور اعلانیہ بھی کہا تھا کہ بھٹو کا تختہ اُلٹنے میں “سی آئی اے” کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے مشہور جریدہ “ دی نیشن” میں ایک مضمون بھی لکھا جس میں کہا گیا تھا کہ “ بھٹو کیس میں جو شہادتیں پیش کی گئیں ان پر یقین بھی کر لیا جائے تب بھی بھٹو مجرم قرار نہیں پاتے۔
اسی طرح ممتاز برطانوی ماہر قانون جان میتھیوز کیوسی 1977 کو لاہور ہائی کورٹ میں اس کیس کی کارروائی سننے کے بعد تبصرہ کیا کہ “ بھٹو کی حمایت میں جانے والے بیان کے حصہ میں بینچ کی طرف سے جس انداز میں مداخلت کی جاتی تھی میں اسے دیکھ کر حیران رہ جاتا تھا۔ گواہ کو یوں ترغیب دی جاتی اور موقع فراہم کیا جاتا کہ وہ اپنے بیان سے پھر جائے یا اس میں رد و بدل کر لے، پھر جو کچھ بھی عدالت میں ہو رہا تھا۔ ٹائپسٹ اسے ساتھ ساتھ ٹائپ نہیں کر رہا تھا بلکہ عدالت ہی اصل سوال اور اس کا جواب ڈکٹیٹ کراتی تھی، کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ گواہ کے سابقہ بیان اور عدالتی بیان میں مطابقت نہیں ہوتی تھی۔ جان میتھیوز نے جج کے رویے کو متعصبانہ، جارحانہ اور متکبرانہ قرار دیتے ہوئے کہا “ چیف جسٹس بہت جلد طیش میں آ جاتے تھے ان کے اشتعال اور رویہ میں اسقدر شدت آ گئی تھی کہ بھٹو نے مجبور ہو کر مقدمہ کسی دوسرے بینچ میں منتقل کرنے کی استدعا کی لیکن ان کی یہ درخواست بھی نہ مانی گئی تو ناچار انہوں نے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کر دیا”۔
برطانیہ ہی کے ماہر قانون جان میلویل ولیمز نے لاہور ہائی کورٹ میں اس مقدمہ کی کارروائی سننے کے بعد اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تمام گواہوں کے بیانات میں ایک طرح سے مسلسل یکسانیت پائی جاتی ہے جس سے اس شعبہ کو تقویت ملتی ہے کہ وُہ سخت دباؤ میں تھے اور کسی نہ کسی طرح اپنی جان بچانا چاہتے تھے۔
ایپلٹ کورٹ آف پیرس کے ایڈووکیٹ موسیو انیٹنی جاڈن جن کا تعلق انسانی حقوق کی بین الاقوامی فیڈریشن سے تھا، اپیل کی سماعت کے آغاز میں راولپنڈی آئے اور واپس پیرس جا کر بھٹو سے متعلق ایک طویل رپورٹ لکھی جس کا لب لباب یوں تھا کہ “ مجھ پر یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ وہ فیصلہ جو پہلے ججوں نے کیا اس میں انسانی حقوق کے ان اصولوں کی سنگین خلاف ورزی کی گئی جن میں ملزم کو یہ حق دیا گیا ہے کہ اس کے خلاف الزامات کی سماعت دیانتداری سے کی جائے۔ ایک اور فرانسیسی وکیل برنٹ باؤنٹیر جو اس کیس میں چند دنوں کی کارروائی سُنی نے کہا “ تاریخ ان ججوں کا فیصلہ کرے گی”۔
راجہ رتنم سری لنکا کے سابق چیف جسٹس اور اُس وقت رکن پارلیمینٹ بھی تھے نے بھی A Judiciary in Crisis نامی کتاب میں بڑی تفصیل سے بھٹو کیس کا تجزیہ کیا ہے انہوں نے کہا اس سے قطع نظر کہ منقسم فیصلے کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے ، یہ حقیت قابل غور ہے کہ چار فاضل ججوں نے استغاثہ کے کیس کی بابت ایسے نظریات پیش کئے جو تین دوسرے ججوں کے فیصلہ کے برعکس تھے۔ اگر جج قانون کے کسے نکتہ پر اتفاق نہ کریں تو اس سے کسی کے ضمیر کو پریشانی نہیں ہوتی لیکن جب وہ کسی ایسے نکتہ پر متفق نہ ہوں جس کا تعلق کسی انسان کی زندگی اور موت سے متعلق ہو تو وہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا اس مسئلہ میں کوئی خرابی ہے جس میں چار جج ایک نتیجہ پر پہنچیں اور تین دوسرے اس کے برخلاف فیصلہ پر ؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ سری لنکا جیسے چھوٹے اور ترقی یافتہ ملک میں یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ انتہائی سزا سے متعلق منقسم فیصلہ پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا !!
پاکستان کے نامور قانون دان جسٹس فخرالدین جی ابراہیم نے بھٹو فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا “ یہ فیصلہ پاکستان کی عدالتی تاریخ کا ایک افسوسناک باب رہے گا، میں اس اکثریتی فیصلہ کو سمجھنے سے قاصر ہوں جس کے تحت سزائے موت بحال رکھی گئی چار ججوں کی اکثریت نے بھٹو کو سزائے موت کیسے سُنا دی ؟ جبکہ اُن کے تین ساتھی بھٹو کو بیگناہ قرار دے چکے تھے چنانچہ اکثریت کو اپنے تین بھائیوں کی رائے کو ضرور ملخوظ رکھنا چاہئے تھا”۔
سابق چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس دراب پٹیل نے اس فیصلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا “ آئین کی خفاظت کی ذمہ داری صرف عدلیہ پر ہی عائد نہیں ہوتی بلکہ اس کے صحیح مخافظ عوام ہوتے ہیں مجھے پورے جنوبی ایشیا کی تاریخ میں ایسا کوئی مقدمہ نہیں ملا جس میں جرم میں مبینہ اعانت کرنے والے کو سزائے موت دی گئی ہو۔ ہمارے ہاں عدلیہ کی یہ مسلمہ روایت رہی ہے کہ جب ہائی کورٹ کے صرف ایک جج نے کسی کو مجرم قرار دیا تو حکومت وقت نے معافی کے احتیارات سے کام لیا جنکہ بھٹو کے مقدمہ میں تین ججوں کی طرف سے بری قرار دئیے جانے کے باوجود بھٹو کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔
اسی طرح ایشیا کی ایک بڑی اسلامی یونیورسٹی “دارالعلوم دیو بند” کے مفتی اعظم اور محکمۂ قضا کے مفتی احمد علی سعید نے فتویٰ دیا کہ “جناب بھٹو کو دی گئی سزائے موت اسلامی احکام کے منافی ہے “ کیونکہ اس مقدمہ میں قاتل احمد رضا قصوری کو قتل کرنا چاہتے تھے لیکن وہ تو بچ گئے ان کے والد مارے گئے۔ کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ بھٹو موقعۂ واردات پر موجود تھے یا اُنہوں نے گولی چلائی چنانچہ اسلامی قانون کے مطابق یہ قانون کے مطابق یہ قتل خطا ہے۔ اب اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ بھٹو نے قتل کا حکم دیا تھا اور اس کا شرعی ثبوت بھی فراہم کر دیا جائے تو پھر بھی اسلامی قانون کی رو سے ملزم پر قصاص بھی واجب نہیں ہوتا اور نہ ہی اُسے پھانسی دی جا سکتی ہے “۔
بھارت کے مشہور و معروف کالم نگار اور دانشور سردار خشونت سنگھ نے جو کہ بھٹو دُشمنی میں بڑی شہرت رکھتے تھے نے اس مقدمہ میں اپنی رائے دیتے ہوئے کہا “بھٹو کو شک کا فائدہ ملنا چاہئے تھا موت کے بعد بھٹو کو شہادت کا مرتبہ اور جو سرفرازی ملی ہے اس کا سبب محض ضیا الحق کی وُہ حماقت تھی جو ان سے مقدمہ کو طول دینے اور عالمی رائے عامہ کو نظر انداز کرنے کی صورت میں سرزد ہوئی۔
یہ وُہ چند حقائق اور آرا تھی جنہیں اکٹھا کر کے میں نے اپنے قارئین کے سامنے رکھ دیا ہے لیکن وسیع النظری سے دیکھا جائے تو اگر جسٹس منیر کے نظریہ ضرورت سے لے کر ابھی حال ہی میں جسٹس ثاقب نثار، آصف کھوسہ، گلزار احمد اور عمر بندیال، اعجاز الحسن اور عمر بندیال کے بعد آج کی پاکستانی عدلیہ کے رویوں میں کا رتی بھر بھی تبدیل دکھائی دیتی ہے ؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں