204

اسیرِ مالٹا اور اسیرِ محبتِ مالٹا

اشتیاق گھمن..
ہمیں تحریکِ قیامِ پاکستان، ریشمی رومال تحریک اور تاریخِ جنگِ آزادی میں کالے پانی، مالٹا اور اسیرِ مالٹا کا ذکر کئی بار پڑھنے کو ملتا ہے۔ کالا پانی تو بحرِ ہند میں بنگال کے اُس جزیرے کو کہا گیا کہ جہاں انگریز آزادی کی جنگ لڑنے والوں کو بطورِ سزا بھیجا کرتے تھے۔ اسی طرح فرنگیوں نے برِصغیر کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے کی پاداش میں مولانا محمود الحسن اور مولانا سید حسین احمد مدنی کو ان کے تین ساتھیوں سمیت حجاز، مصر اور بالآخر مالٹا میں قید رکھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ آیا یہ وہی مالٹا ہے کہ جہاں ہمارے بزرگوں کو ہزاروں میل دور بھیج دیا گیا یا یورپ اور افریقہ کے عین درمیان بحیرہِ روم میں واقع یہ جزیرہ کوئی دوسرا ہے، لیکن میں یہاں صرف اسیرِ مالٹا کی نسبت سے ہی پہنچا۔ تحریکِ آزادیِ پاکستان کے لیے قید و بند کی صعوبتیں خندہ پیشانی سے برداشت کرنے والے وہ بے لوث پاک باز کہ جو اپنی جانیں اور جوانیاں ہم بے قدروں کے لیے وار گئے، تاکہ ہم آزادی کا سانس لے سکیں، ان کا ایثار ہی میرے لیے موجبِ سفر بنا اور اس سفر کے لیے اگست کا مہینہ میں نے اسی آزادی کی مناسبت سے چنا کہ جس کا مقصد ہم کھو چکے۔ ترپن لاکھ نفوس کی آبادی پر مشتمل اور تین سو سولہ کلو میٹر رقبے پر پھیلا یہ ملک پچھلے اٹھارہ سال سے یورپی یونین کا اہم ترین ملک ہے جو اٹلی کے جزیرے سِسلی اور لیبیا اور تیونس کے درمیان واقع ہے۔ جغرافیائی لحاظ سے یہ اس لیے اہم ملک ہے کہ افریقہ اور یورپ کے درمیان ہے اور بحری رستے پر ہونے والی درآمدات و برآمدات میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ یہاں ملازمت کے بہت مواقع موجود ہیں۔ قوانین بھی نرم ہیں، لہذا جنوبی ایشیائی ممالک کے لوگ یہاں تیزی سے آباد ہو رہے ہیں۔ لیبیا کے رستے کشتیوں کے ذریعے غیر قانونی طور پر یہاں پہنچنے کے خواہش مند کم و بیش دو لاکھ کی تعداد میں سمندر کی لہروں کی نذر ہو چکے ہیں۔ عین سمندر میں واقع ہونے کے باوجود اس ملک کا درجہِ حرارت سال بھر پندرہ سے چالیس کے درمیان رہتا ہے۔ پہاڑ پتھریلے اور ہریالی بہت کم ہے۔ بارشیں زیادہ نہیں ہوتیں۔ یہاں آلو، پیاز، زیتون اور انگور کافی مقدار میں پیدا ہوتے ہیں۔ پام کے درخت بہت زیادہ ہیں۔ یہ ملک سیاحت سے کافی آمدن اکٹھی کرتا ہے۔ لوگ دھیمے، سلجھے، نرم خو اور ہنس مکھ ہیں۔ یہ جزیرہ مزید کئی چھوٹے چھوٹے جزائر پر مشتمل ہے۔ مالٹا کے جو جزیرے راقم نے دیکھے اُن میں گوزو (Gozo)، کومینو (Comino) اور سانتا ماریا ہیں۔ اس کے ساحلوں کے نیلے اور سفید پانی دیکھنے والے کو ہونق کر دیتے ہیں۔ بلیو اور کرِسٹال لیگُونز (blue lagoons) ایسے پانی کہ جہاں سطحِ آب شیشے کی طرح نظر آتی ہے۔ یہاں دنیا بھر سے اُمڈے سیاح دائیں بائیں نہاتے اور اٹھکیلیاں کرتے پھرتے ہیں۔ ہم دیسی ممالک کے مدتوں سے قدرتی نظاروں کو ترسے لوگ یہاں ہر منظر دیدے پھاڑے تب تک دیکھتے ہی جاتے ہیں کہ جب تک “ایکسکیوز می” جیسی سریلی آواز انہماک کا بیڑہ غرق نہ کر دے۔
اس ملک نے اپنے تمام جزائر کو کشتیوں اور بحری جہازوں کے مربوط اوقات اور مضبوط نظام سے باہم جوڑ رکھا ہے۔ ہر جزیرے پر آپ بہ آسانی چند یورو کرایہ ادا کر کے سفر کر سکتے ہیں۔ یہ ملک پہلے کوئلے سے اپنی بجلی پیدا کرتا تھا پھر اس نے تیل سے بجلی کی پیداوار شروع کر دی اور اس کے لیے سب سے زیادہ تیل لیبیا مہیا کرتا تھا۔ لیبیا کے مخدوش حالات کے بعد اب انہوں نے شمسی توانائی سمیت متبادل توانائی کے ذرائع پر انحصار شروع کر دیا ہے۔ مالٹا نے اپنے دیگر چھوٹے جزائر کو بجلی سمندر کے نیچے بچھائی گئی تاروں کے ذریعے پہنچائی ہے۔ زمین کا یہ ٹکڑا پُر امن ہے، ہر ممکن سہولتیں میسر ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ بہت جدید، سستی اور آرام دہ ہے۔ یہاں سو فیصد بجلی سے چلنے والی مسافر بسیں بھی دوڑتی پھر رہی ہیں، جنہوں نے اس ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں لا کھڑا کیا ہے۔ یہاں کا موسم خشک، گرم اور حبس زدہ ہے۔ عمارات ہوں یا گاڑیاں، ائیر کنڈیشن کے بغیر گزارا بہت مشکل ہوتا ہے۔ میرا جس ہوٹل میں قیام تھا وہاں آپ کمرے میں ہیں یا نہیں، ائیر کنڈیشن چوبیس گھنٹے چلتا تھا۔ لندن کے سٹین سٹیڈ ہوائی اڈے سے تقریباً تین گھنٹوں کی مسافت پر واقع مالٹا کا جزیرہ اپنی ہزاروں سال پرانی تاریخ رکھتا ہے۔ یہاں ترکوں نے حملہ کیا اور یہ قوم ہر سال ایک جہاز جلا کر اس حملے کی یاد تازہ رکھتی ہے۔ مالٹی زبان کے علاوہ انگریزی یہاں کی دوسری زبان ہے، لہذا سیاحوں کو بات چیت میں کسی دقّت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
میری تکلیف کو صرف لندن میں رہنے والے ہی محسوس کر سکتے ہیں کہ جہاں اتنے پاکستانی بستے ہیں کہ ہفتہ بھر انگریزی بولے اور کوئی گورا دیکھے بغیر بھی گزارا ہو جاتا ہے۔ اب ایسے ماحول کے عادی مسافر کو جب چار پانچ دن مسلسل انگریزی بولنی پڑے، تو جان پر بن پڑتی ہے اور پھر جب اچانک پاکستانی یا ہندوستانی نہ کجا، سری لنکن یا نیپالی بھی مل جائے، تو کچھ آسودگی ضرور ملتی ہے۔ جو لذت اپنی زبان میں گپیں لگانے میں ہے، انگریزی الٹی بھی لٹک جائے وہ مزہ نہیں دے سکتی۔ آکسفورڈ ڈکشنری کے پاس ان الفاظ کا ترجمہ یا مترادفات ہیں ہی نہیں کہ جو ہم اپنی بے تکلفی میں استعمال کرتے ہیں۔ اجنبی ماحول میں “ہور کداں” یا “وِیرے” کہتے کوئی اپنا مل جائے، تو بخدا باچھیں کھِل جاتی اور آنکھیں، دماغ حتیٰ کہ پیٹ تک کھُل جاتے ہیں، طبیعتیں بحال ہو جاتی ہیں، انسان ہلکا پھلکا اور ہشاش بشاش محسوس کرنے لگتا ہے۔ چغلیاں بلاشبہ بری عادت اور حرام ہیں، لیکن اگر دو چار نہ لگائی جائیں، تو انسان بوجھل ہو جاتا ہے۔ دوستو، اندرونی سکون کے لیے سیر بھی ضروری ہے اور گپیں بھی اس لیے سیر کو جائیں، تو اپنوں کے ساتھ جائیں۔ کوئی اپنا ساتھ ہو، تو حضر و سفر میں محرومی کا احساس نہیں رہتا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں