186

جنگ اور قتل عام میں فرق


فلاحی ادارے ’’ المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ انٹرنیشنل ‘‘ کی یمن میں موجود ٹیم نے اسی ماہ اپنی رپورٹ میں جو حقائق اپنے ادارے کو بھجوائے ہیں وُہ افسوسناک بھی ہیں اور ہوشربا بھی، لیکن عالمی رویے یوں ہیں کہ عرب صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد ساری دُنیا میں کہرام مچ گیا، امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے حالیہ دورہ سعودی عرب میں پرنس محمد بن سلیمان سے بطور خاص استفسار کیا کہ جمال خاشقجی کے کیس کا کیا ہوا ؟ افسوس کہ ایک صحافی کی موت کی وجہ سے لوگوں کےغافل ضمیر بیدار ہو گئے لیکن پچھلے کئی برسوں سے جاری یمن میں قتل عام کے سلسلہ میں کسی کو کوئی پروا نہیں تھی اور نہ آج ہے، آپ نے غور کیا ہوگا کہ کالم کی سُرخی میں قتل عام اورجنگ لکھا ہے ۔ کیونکہ جنگ تو طرفین یا کسی ایسے گروہ یا ملکوں کے درمیان ہوتی ہے جو ایک دوسرے پر حملہ کر سکیں اور دفاع بھی کر سکیں۔ یمن کے لوگ تو حملوں کے مقابلے میں اپنا دفاع بھی نہیں کر سکتے ہیں۔ سعودی عرب کے تجزیہ نگار خالد الباطر فی نے سعودی گزیٹ میں لکھا ہے کہ حوثیوں کے پاس ایران کے دئیے ہوئے میزائل ہیں جن سے وہ سعودی عرب پر حملہ کر رہے ہیں۔ درست ہے اگر ان کا کہنا مان بھی لیا جائے تو پھر وہ اس بات کا جواب دیں کہ آج سعودی عرب کے کتنے فوجی یا باشندے مارے ہیں؟ یمن میں تو کم و بیش 377,000 سے زیادہ لوگ مر چکے ہیں 10 لاکھ سے زیادہ بچوں کو کالرا ہونے کا خطرہ ہے اور80 لاکھ بچے ہیضے کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ 2.2 کروڑ لوگوں کی آبادی میں تقریبا 80 فیصد لوگ ایڈ یعنی امداد کے ذریعے گزارا کر رہے ہیں۔
2015سے جاری اس قتل عام نے یمن کی خوبصورت سرز مین کو نہ جانے کتنے لوگوں کے خون سے سینچا ہے۔ کچھ ہی دن پہلے سعودی ہوائی بمباری کی وجہ سے20 لوگ ہلاک ہوئے۔کون تھے؟ کسان! کہاں تھے؟ بازار میں !حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا کے غریب ملکوں کے لوگ انسان نہیں ہوتے ہیں فقط عدد یا نمبر ہوتے ہیں۔ مغربی ملکوں میں اگر کوئی دہشت گردی میں یا جنگ کے دوران مرجاتا ہے تو اس کا نام، اس کی اور اس کے افسردہ خاندان والوں کی تصویر میں اور اس کا پس منظر سب تفصیل سے بیان کیا جا تا ہے۔ چائنا، برما، ہندوستان، افغانستان، ایران، یمن، شام ،صومالیہ، نائجیر یا اور متعدد دیگر ممالک میں مقتول لوگوں کے لیے ایک سطر کی خبر آتی ہے۔ مثلاً ، بغداد میں72ہلاک۔ کابل میں14 لوگ قتل ہوئے ، صنعا میں 35,بچوں کی موت ، آخر اس کا سبب کیا ہے؟
تو کہنا آسان ہوگا کہ یہ سب مغربی ملکوں کی سازش کا نتیجہ ہے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ہم اپنوں کو یاد ہی نہیں کرتے ۔ کہیں نہ کہیں ہم اپنی تعصب اور تنگ نظری کے شکار خود بن جاتے ہیں۔ اگر ہمارے مسلک یا مکتب فکر کا کوئی قتل ہوتا ہے تو ہم برہم ہوتے ہیں لیکن ان تمام مظلوم لوگوں کے قتل کو نظرانداز کر دیتے ہیں جن سے ہمارا قبائلی رشتہ نہیں ہوتا ہے۔ شیعہ شیعہ کو روتے ہیں۔صوفی صوفی کو، بریلوی اور دیو بندی بس اپنوں پرغم کرتے ہیں اور سب کے سب یہ بھول جاتے ہیں کہ
انہی کے عقیدے کے مطابق حضور تمام عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم ملکوں کی سیاست کو اپنے مسلکی یا مذہبی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں چنانچہ بعض شیعہ ایران کی تنقید نہیں برداشت کر یں گے تو سعودی اور امارات کے حکمرانوں نے بعض اہل سُنت کے افراد کے ضمیر کوڑیوں کے دام خرید لیے ہیں۔ یادر ہے کہ ملک خودغرض ہوتے ہیں اور آج ہم قومیت کے دور میں رہتے ہیں۔ اس لیے آج سعودی عرب اسرائیل سے قریب ہوتا جارہا ہے کیونکہ اس کو ایران سے خطرہ ہے۔خطرےکو مذہبی جامہ ضرور پہنائے جانے کی کوشش کی جاتی ہے تا کہ سادہ لوہ مسلمان اس کو سنی شیعہ جھگڑا سمجھیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ یہ دشمنیاں اقتدار اور اقتصادکو لے کر ہیں۔ایران کے پاس تیل اور غذا کے ذخیرے ہیں اور سعود ی عرب کی خُدا داد نعمت تیل کی دولت جو اب ختم ہورہی ہے۔
اس لیے جہاں خاشقجی کی درد ناک موت سعودیوں کو گراں پڑی لیکن آخر میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ شروع میں اردگان نے بہت سینا تانا تھا اور بھپکیاں دیں تھیں لیکن آخر میں امریکہ، برطانیہ اوران دیگر ممالک کا پلا بھاری رہا جو سعودی عرب اور دیگر جابر اور عامر سلطانوں کے ہاتھ اسلحہ بیچ کر اربوں روپے کا منافع کماتے ہیں۔ افسوس کہ” بیچارے “مسلمان کو یہ سب طاقتیں اپنے پیادوں کی طرح استعمال کرتی ہیں منافقت کی حد تو یہ ہے کہ سعودی عرب کے نوجوان ولی عہد ایک طرف اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو سے گہرے تعلقات بنارہے ہیں اور دوسری طرف دعوی ہے کہ سعودی عرب
اور اسرائیل کے مابین روابط ہیں ہی نہیں ،نتیجہ اس کا یہ ہے کہ ہرٹز،اخبار نے خبر دی کہ دس لاکھ سے زیادہ مقبوضہ فلسطینی مسلمان اب حج نہیں کر پائیں گے جو کہ پہلے اردن کے عارضی پاسپورٹ کے ذریعہ حج کرتے تھے ، ایک طرف خادم الحرمین ہونے کا دعویٰ اور دوسری طرف ایسی منافقت کہ کفار مکہ اگر آج ہوتے تو وہ بھی ان سے ایک آدھ سبق سیکھ لیتے ۔ اس کے ساتھ ساتھ فلسطین کے عوام کی حق تلفی اور ان پر جاری ظلم کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ آخر سعودی عرب کے اسرائیل سے تعلقات نہ ہونے کا سبب یہی تو ہے کہ زینسٹ نے فلسطینیوں کی زمینوں کو غصب کیا تھا؟ اگر آج اسرائیلی حکومت سے رغبت بڑھ رہی ہے توفلسطینیوں کے نام پرکھوکھلی سیاست کیوں کی جارہی ہے؟ جواب آسان ہے خودغرضی ، وہی خود فرضی جس کے نقصانات کی طرف قرآن ہم کو متنبہ اور متوجہ کرتا ہے لیکن افسوس کہ قرآن مجید تو اب بس تاکوں پر رکھار ہتا ہے۔
یہ تو رہی بین الاقوامی سیاست کی بات۔ اب آیئے داخلی سیاست کا تجزیہ کر لیا جائے۔ سعودی عرب کی داخلی سیاست کی وجہ سے جمال خاشقجی کی جان گئی۔ ذرائع کے توسط سے معلوم ہوا ہے کہ کچھ مہینے قبل محمد خاتمی نے محمد بن سلمان کو پیغام بھیجا تھا کہ وہ اپنے ملک کی خدمت اوران سے تعاون چاہتے ہیں۔ ولی عہد نے صاف انکار کردیا کیونکہ اس سے قبل خاشقجی نے سعودی نظام اور حکمرانوں کی سخت مذمت کی تھی اور یمن کی جنگ پر بھی تنقید کی تھی۔ آج سعودیوں کا کہنا ہے کہ حوثیوں کی وجہ سے ان کو خطرہ ہے کیونکہ ایران ان کی پشت پناہی کرتا ہے اکثر تجزیہ نگارحوثیوں کو شیعہ کہتے ہیں ۔ لیکن اگر تحقیق کی جائے تو ثابت ہوگا کہ حوثی شیعہ تو ہیں لیکن ان معنوں میں نہیں جو ہم برصغیر میں یا لوگ عام طور پر سمجھتے ہیں۔ زیدی فقہ اور شریعت حتی الہیات حنفی سنیوں سے زیادہ قریب ہیں لیکن عقید تاً شیعہ یوں کہلائے جاتے ہیں کیونکہ وہ زیدابن علی سے اپنا سلسلہ جوڑتے ہیں جو امام حسین کے پوتے تھے۔ بحر کیف یہ سب کہنا اس لیے مقصود تھا کیونکہ گو کہ آج اس لڑائی کوشیعہ سنی رنگ دیا جارہا ہے لوگ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ علی عبداللہ صالح ،یمن کے سابق صدر، زیدی بھی تھے اور سعودیوں کی جیب میں بھی تھے۔ چنانچہ نتیجہ یہ کہتا ہے کہ مذہب اور مسلک توسب بہانہ ہے بس اتنا ہے کہ بقول جارج بش کے، یا تو آپ ہمارے ساتھ ہیں یا آپ ہمارے مخالف ہیں، سعودی حکومت کا بھی یہی نکتہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ تو شیعوں میں بین الاقوامی سطح پر اتحاد ہے اور نہ سنیوں میں ۔ ہمیں پاکستان میں بیدار ہونا چاہیے اور بلااستثنیٰ مذہب وملت رنگ و نسل اور ذات وطبقات ظالم کوظالم اور مظلوم کو مظلوم کہنا چاہیے خواہ وہ ہمارے ہی مسلک یا مذہب کا کیوں نہ ہو۔ چنانچہ اگر ایسا نقطہ نظر نہ اپنایا گیا تو ہم منتشر رہیں گے اور اوروں کی سازشوں کا شکاربنتے رہیں گے۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں