149

تحفظ حقوق نسواں


برطانیہ میں ابھی بمشکل ایک سوسال کا عرصہ ہوا کہ خواتین کو الیکشن میں ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیالیکن یہ حق بھی مختلف شرائط کے ساتھ محدود حد تک تھا، یورپ و برطانیہ کے مابین ابھی پہلی جنگ عظیم جاری تھی یہ وہ دور تھا جب برطانوی سلطنت کا سورج غروب نہیں ہوتا تھا، چھ فروری 1918 کور “پریزینٹیشن آف دی پیپل ایکٹ” پاس ہوا جس کے تحت 30 سال سے زیادہ عمر کی عورتوں کو ووٹ کا حق دے دیا گیا جو اس طرح مشروط تھا کہ مثلا ووٹ ڈالنے والی عورت کی جائیداد کتنی ہے یا تعلیم یافتہ کتنی ہے وغیرہ وغیرہ۔ عورتوں کو ووٹ ڈالنے کے حق کے لئے برطانوی خواتین نے تقریبا پچاس سال جد و جہد کی اس تحریک کے دوران ہزاروں عورتوں کو قید و بند کی صعوبتیں جھیلنا پڑی تھیں ۔ پاکستان کے حوالے سے یہ بات آج اکیسویں صدی میں بھی افسوسناک ہے کہ اگرچہ ملکی آئین و قانون خواتین کو مردوں کے برابہ ووٹ کا حق دیتا ہے لیکن بعض علاقوں میں قبائلی رسوم ورواج کے نام پر مقامی سیاستدان اور جرگے کا نظام مقامی خواتین کو ووٹ کے حق سے محروم کر دیتا ہے۔ سعودی عرب میں تو عورتوں کو ووٹ کا حق ابھی سات سال پہلے 2015ء میں دیا گیا ہے، برطانیہ میں ابھی حال ہی میں ” جینڈر پے گیپ“ یعنی عورتوں و مردوں کے مابین تنخواہوں میں فرق کے حوالے سے خاصی بحث ہو رہی ہے یعنی ایک ہی جیسے کام یا عہدے پر ہونے کے باوجود عورت کو مرد کے مقابلہ میں کم تنخواہ ملتی ہے۔امریکہ میں یہ فرق تقریبا%4 اور برطانیہ میں ساڑھے نو سے 20 فیصد ہے۔ حالانکہ قانون کی رو سے یہ فرق نہیں ہونا چاہئے لیکن اس کے باوجود ترقی یافتہ ترین ملکوں میں جہاں عورتوں کو بہت سے معاملات میں مردوں سے زیادہ حقوق حاصل ہیں لیکن پھر بھی بہت سے معاملات میں عورتوں کی نسبت مردوں کو سبقت حاصل ہے اور عورت کو کم عقل یا آدھی عقل والی سمجھا جا تا ہے۔
کوئی چھ سال ہوئے پاکستان کے بعض بااثر حلقوں نے اس وقت کی حکومت پنجاب کی طرف سے منظور شدہ ” تحفظ حقوق نسواں بل‘‘ یکسر مستر د کر تے ہوئے اس کے خلاف اکٹھا ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔ حکومت وقت کی طرف سے اٹھایا گیا یہ قدم قدرے سیکولر سوچ کے زمرے میں آتا تھا اس وقت ہماری سمجھ سے بالاتر تھا کہ مسلم لیگ نواز جس کی وجہ شہرت ہمیشہ سے دائیں بازو کی سوچ وفکر رکھنے والی جماعت کے طور پر ہوتی ہے لیکن اس جماعت کی طرف سے ایسا ردعمل دیکھ کر ایسا لگا کہ مسلم لیگ لبرل ازم کی طرف گامزن ہے ۔مولانا فضل الرحمن نے تو صاف کہہ دیا تھا کہ پنجاب اسمبلی کے اس قانون کی شقیں خاندانی نظام تباہ کرنے کا باعث بنیں گی لہذا ہم ملک کو سیکولر نہیں بننے دیں گے اور مردوں کی آزادی پر ہر جگہ سمجھو تہ نہیں کر یں گے کیونکہ اسلام عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں ایک حد تک حقوق دیتا ہے چنانچہ اس مسئلہ پر ہم 1977 ء کی تحریک کی طرح احتجاج کریں گے۔ اس مسئلہ پر ملک کی تقریبا تمام مذہبی جماعتیں مولانا کی ہم آواز تھیں کہ مذکورہ بل قرآن وسنت کی تعلیمات سے متصادم ہے ۔ لیکن ہمیں ان کی یہ بات سمجھ نہیں آئی تھی کہ’’ تحفظ حقوق نسواں بل‘‘ پاکستان کے قانون سے کسی طرح متصادم ہے؟ کیونکہ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ پاکستان کا آئین عورت کو مرد کے برابر حقوق نہیں دیتا؟ اصل میں پنجاب حکومت نے یہ بل خواتین پر ہونے والے مردوں کے تشدد کے خلاف بنایا تھا جو با قاعدہ قانون بننے کے باوجود نافذ اعمل نہیں ہو سکا تھا۔ حکام کا کہنا تھا کہ بعض انتظامی مسائل کی وجہ سے اس ایکٹ کو قابل عمل نہیں بنایا جا سکتا ، حالانکہ اصل بات یہ تھی کہ مذہبی حلقوں کے شدید دباؤ کی وجہ سے حکومت نے اس ایکٹ کی جگہ’’ ویمن پروٹیکشن اتھارٹی‘‘ کے نام سے ایک الگ ادار ہ قائم کر دیا ، سوال یہ ہے کہ آخر ملک کی 30 سے زائد مذہبی جماعتوں نے اس بل کی مخالفت کیوں کی حالانکہ یہ قانون عورت کی حفاظت کیلئے بنایا گیا تھا تا کہ وہ گھریلوتشدد، جنسی تشدد، نفسیاتی و جسمانی زیادتی کے خلاف بلا خوف ریاستی اداروں سے انصاف کے حصول کیلئے رجوع کر سکیں، اس بل کے اہم نکات کچھ اس طرح تھے۔
1- خواتین کو اپنی جائیداد رکھنے کا حق ہوگا۔ 2۔ انہیں اپنی جائیداد سے متعلق وصیت کا حق ہوگا۔ 3۔ شوہر بیوی کو سمجھانے بجھانے کے لئے ہلکی پھلکی مار پیٹ کر سکتا ہے لیکن زیادہ مار پیٹ کی صورت میں بیوی عدالتی کارروائی کرنے کی مجاز ہوگی۔4۔ ایک ساتھ تین طلاقیں دینا جرم ہو گا۔ 5- عاقل و بالغ عورت کو نکاح کے لئے سر پرست کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوگی ۔ 6۔ اگر بیوی کو نان نفقہ نہیں ملتا تو اس کو خلع کا حق ہوگا۔ 7۔ ونی اور تنازعات کے حل کے لئے عورت کی شادی کرنا جرم ہوگا ۔ 8۔ قرآن سے لڑکی کی شادی بھی جرم ہو گا جس کی سزا دس سال ہوگی۔ 9۔ جہیز کے مطالبے اور نمائش پر پابندی ہو گی۔ 10۔ عورتوں کو سیاست میں حصہ لینے کی آزادی ہوگی ۔ 11۔ خواتین جج بن سکتی ہیں۔ 12۔ کسی خاتون کو زبر دستی مذہب تبدیل کروانے والے کو تین سال سزا ہو گی جبکہ مذہب اسلام چھوڑنے پرکسی عورت کو قتل نہیں کیا جاسکتا۔ 13-120 دن سے حمل کے بعد اسقاط کر نا قتل تصور کیا جائے گا۔ 14۔ خواتین سے جبری مشقت نہیں کی جاسکتی اور خواتین فحش اشتہاروں میں کام نہیں کرسکیں گی وغیر وغیرہ۔
اب ذکر کئے گئے ان 14 نکات میں سے کون سا نکتہ غیر اسلامی ہے، اس کا جواب کوئی نہیں دیتا ! قابل غور بات تو یہ ہے کہ بعض گھرانوں میں کوئی دو عشرے پہلے تک والدین اپنی بیٹیوں کو شادی کے وقت بہشتی زیور جیسی کتاب جہیز میں دیتے تھے اس لئے کہ اس کے مندرجات پرعمل پیرا ہو کرلڑکی شادی شدہ زندگی پُر امن طریقے سے گزارسکتی ہے، اس کتاب میں بڑے واضح طور پر مرد کو عورت پر فوقیت بلکہ اس کا حاکم بنایا گیا ہے، جس خطے میں عورتوں کو سینکڑوں سال تک مرد کی جوتی سے تشبیہ دی جاتی رہی ہو ،وہاں اچانک عورت کو مرد پر فوقیت یا اسے برابری کے حقوق کابل لا کر سابقہ حکومت نے اللہ جانے جلد بازی کی یا دانشمندی کا ثبوت دیا تھا۔ فرسودہ روایات کے بل پر عورت کو دبا کر رکھنا یا اس کی تحقیر کر نا قابل مذمت فعل تھا ہے اور رہے گا ۔ حیرت انگیز حقیقت تو یہ بھی ہے۔ ہندوستان کے مسلمانوں کیلئے پہلے روشن خیال مفکر سرسید احمد خان نے بھی تعلیم نسواں کی مخالفت کرتے ہوئے کہ تک کہہ دیا تھا کہ ان پڑھ عورت اپنے حقوق سے ناواقف رہتے ہوئے بہتر زندگی گزار سکتی ہے۔
جہاں تک پاکستان کی مذہبی جماعتوں کا یہ نکتہ ہے کہ ۔ ’’ تحفظ حقوق نسواں بل ‘‘قرآن وسنت کی تعلیمات کےمنافی ہے ۔ ان کا یہ کہنا اس حد تک تو درست ہے کہ اس ضمن میں قرآن کی سورۃ النساء کا حوالہ دیا جا سکتا ہے جسکی آیت نمبر 34 یوں ہے کہ ترجمہ: ” مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس لئے کہ اللہ نے بعض کو بعض سے افضل بنایا ہے۔اور اس لئے بھی کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں ‘‘چنانچہ جونیک بیبیاں ہیں وہ مردوں کے حکم پر چلتی ہیں اور ان کی پیٹھ پیچھے اللہ کی مدد سے ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں اور جن عورتوں کی نسبت تمہیں یعنی شوہروں کو معلوم ہو کہ وہ سرکشی اور بدخوئی کرنے لگی ہیں تو ان کو زبانی سمجھاؤ اور بستر میں انہیں جدا کر دو اگر وہ پھر بھی باز نہ آئیں تو انہیں زدوکوب کرو، اگر و ہ فر ما بر دار ہو جائیں تو پھر ان کو ایزا دینے کا کوئی بہانہ مت ڈھونڈو، بیشک اللہ سب سے اعلی اور جلیل القدر ہے۔
قرآن میں مذکور حکم کس تناظر میں دیا گیا ہے ۔ یقیناًاس پر بحث ہوسکتی ہے لیکن اس آیت سے یقینا ایک بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ بہر حال عورتوں پر تشدد کی گنجائش موجود ہے اور اسلام مخصوص حالات میں اس کی اجازت بھی دیتا ہے لیکن کیا پاکستان کا آئین و قانون اور تحفظ حقوق نسواں بل بھی کسی خاص حالت میں بیوی پر تشدد کی اجازت دیتا ہے اور اگر نہیں دیتا تو یقینا یہ بل قرآن و حدیث کی تعلیمات سے متصادم ہے۔
نا قابل سمجھ ایک اور بات بھی ہے کہ جس ملک میں شرعی اور جمہوری قوانین ایک ساتھ چل رہے ہوں ، جہاں عدالتی نظام میں ایک عورت کی گواہی آدھی اور ایک مرد کی گواہی پوری تسلیم کی جاتی ہوتو پھر اس آدھی عورت کو پورے حقوق دینے کا بل پاس کرنے اور قانون کا نفاذ چہ معنی دارد ؟ معروف دانشور اور پروفیسر وارث میر مرحوم نے آج سے تقریبا تین دہائیاں قبل عورت کی آدھی گواہی پر ایک سیر حاصل تبصرہ کیا ۔ انہوں نے اپنی تصنیف “کیا عورت آدھی ہے“ میں لکھا ہے کہ فوری طور پر حکومت پاکستان اور عوام کو ایک ایسا مسئلہ درپیش ہے جو دینی ہے اور سیاسی بھی اور اس کا تعلق امن و امان سے بھی ہے یعنی مجوزہ قانون شہادت میں عورت کی گواہی کا کیا مقام ہے کیونکہ پاکستان کی تعلیم یافتہ عورت کایہ تاثر درست ہے کہ حکومت قانون شہادت کے ذریعے عورت کی گواہی کا مرتبہ مرد کے مقابلہ میں نصف قرار دے کر عورت کی حیثیت آدھی کر دے اور اس کے لئے جن قرآنی آیات کا حوالہ یا سہارا لیا جا تا ہے ان کے سیاق وسباق یا الفاظ میں قطعاً ایسا مفہوم پوشیدہ نہیں ہے کہ اللہ کے نزدیک ہر معاملہ میں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے، پروفیسر صاحب کے نزدیک ایسے معاملات جو مالی اور دقیق ہوں اور وہاں دو مرد گواہی کیلئے موجود نہ ہوں تو انصاف کے تقاضوں کو بہتر طریقے سے پورا کیا جا سکتا ہے گویا یہ ا یک رعایت ہے اصول نہیں چنانچہ اس بات کو آگےبڑھانے سے بحث طویل ہو جائیگی۔
دو سال قبل حکومت پنجاب کا بنایا گیا یہ قانون لنگڑی لولی حالت میں آج موجود ہے یا نہیں لیکن حکومت کے ارباب بست و کشاد نے اس نکتہ پر یکسر توجہ نہیں دی کہ جس ملک میں عورت کی گواہی آدھی ہو تعلیم کی شرح شرمناک حد تک کم ہو، غیرت کے نام پرخصوصا عورتوں کاقتل معمول ہو اور سب سے بڑھ کر لڑکی کو والدین کے گھر سے ڈولی اٹھنے اور واپس جنازہ آنے جیسی ترغیبات دی جاتی ہوں وہاں تحفظ حقوق نسواں جیسے قانون بنانے کی عیاشی کیا ایفورڈ کی جاسکتی ہے؟ مشرق مغرب اور مذہبی جمہوری اقدار کے ملغوبے سے تیار شدہ پاکستانی معاشرے میں | جہاں مردخود کو حاکم و مجازی خدا سمجھتا ہو اور اس سوچ میں معاشرہ پوری طرح اس کی مددکرتا ہو، جہاں مذہب بھی اس پر کوئی قدغن نہ لگا تا ہو، جہاں باپ بیٹے کو اپنی طاقت اور بیٹی کو غیرت کا نام دے کر محکوم رکھے ، کیا ایسے ملک و معاشرے میں عورت مرد کے یکساں حقوق کا مطالبہ کر کے اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکتی ہے؟ دوسرا نکتہ یہ بھی ذہن میں رکھا جائے کہ مرد کی جسمانی برتری بھی اس راہ میں رکاوٹ ہے ۔ بہت سے مغربی معاشروں میں جہاں عورت کو یکساں بلکہ بسا اوقات مرد سے زیادہ حقوق دیئے گئے ہیں وہاں بھی مرد کی برتری قانوناً نہ سہی لیکن معاشرتی طور پر تسلیم کی جاتی ہے وہاں بھی خانگی معاملات میں کئی قسم کی خرابیاں موجود ہیں لیکن اسکے باوجود یہ تناسب انتہائی کم ہے کہ مردعورت پر تشددکرے لیکن بہر حال کسی نہ کسی طرح مرد کی برتری موجود ہے حالانکہ یہاں بیوی پر تشدد بلکہ کسی بھی انسان پر تشدد ایک بڑا جرم سمجھا جا تا ہے حتی کہ والدین بھی اگر اپنے بچے کو ہلکی سی چپت لگا دیں تو مجرم ٹھہرائے جاتے ہیں، لہذا سوال و درخواست تو یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران پہلے تو اپنے معاشرے کو تہذیب واخلاق کی ان بلندیوں پر لے جائیں جہاں آج مہذب معاشرے کھڑے ہیں تو پھر شائد اس قسم کے علیحدہ ایکٹ یا قانون لانے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہے گی۔ اس ضمن میں حوالے کیلئے اس تاریخی حقیقت کو بھی ذہن میں رکھا جائے کہ عورت کی گواہی کے معاملہ میں قرآن کے نزول کے وقت یہودی قانون میں گواہی صرف مردوں کی معتبر تھی ،عورت کو حق حاصل نہ تھا، کم از کم اسلام نے عورت کو آدھی گواہی کے قابل تو سمجھا! لیکن آج کے یہودی معاشرے نے اسلام کے اصول اجتہاد سے استفادہ کرتے ہوئے عورت کو مرد کے مقابلے میں پوری گواہی کا حق دیا ہے، تو سوال یہ ہے کہ کیا ہماری عورت آج بھی آدھی ہے؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں