145

صحافتی بُلنگ


صحافت اس وقت زرد ہو جاتی ہے جب کسی خبر کے سنسنی خیز پہلو پر زور دینے کیلئے اصل خبر کی شکل اتنی مسخ کر دی جاتی ہے کہ اس کا اہم پہلو قاری کی نظر سے اوجھل ہو جاتا ہے اور ایسا کرنا صحافت کی پست ترین شکل ہوتی ہے۔ چنانچہ کوئی صحافی ایسااسی صورت میں کرتا ہے جب وہ اپنے کسی نہ کسی مفاد کیلئے کسی کے پریشر میں ہوتا ہے لیکن ظلم یہ ہوا کہ ہمارے ہاں تو اب کالی، نیلی صحافت بھی و دھوم دھڑکے اور دھڑلے سے جاری ہے، بات اگر یہیں تک رہتی تو بھی زیادہ تشویش نہ تھی لیکن جورحجان اصلاً ہماری صحافت کو گھن کی طرح چاٹتاجارہا ہے وہ شوقیہ اورغیر صحافی افراد کا اس شعبے میں نقب لگانا ہے یہی وہ لوگ ہیں جو صحافتی قبیلے میں گھس کر غیر صحافیانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور یوں یہ لوگ صحافتی بُلنگ کا سبب بن رہے ہیں ۔
مثال کے طور پر گزشتہ ہفتے لندن کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں دیئے گئے عشائیہ میں مہمان خصوصی کے لئے مختص کی گئی جگہ پر بعض صحافی نما افراد براجمان ہو گئے جب اوہ میزبان کی درخواست پر بھی آٹا سے مس نہ ہوئے تو اس صورت حال نے میزبان کو امتحان و مخمصے میں ڈال دیا ، یہ بات بھی درست ہےکہ بسا اوقات میزبان بھی صحافیوں کو امتحانی صورتحال میں ڈال دیتے ہیں کہ جناب! آپ سٹیج پر تشریف لائیں یا ہمارے پروگرام میں تقریر فرمائیں، پہلی گزارش تویہ ہے کہ صحافیوں کو خود اس قسم کی آفرز شکریہ کے ساتھ رد کر دینی چاہئیں ، دوسرا یہ کہ میزبانوں کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ صحافی کا کام خبر بناناہے اور رپورٹنگ کرنا ہوتا ہے لہذا انہیں مروتاً وہ کام کرنے پر مجبور نہ کیا جائے جو کہ ان کا نہیں، ہاں البتہ گپ شپ کی کوئی محفل ہو تو وہاں بغیر کسی بندش کے گفتگو ہو سکتی ہے۔
آج کی صحافت میں صحافتی زوال کا ایک اور پہلو در آیا ہے کہ جس طرح مغل بادشاہ اپنے دربار کی رونق میں اضافے کیلئے نہ صرف انواع و اقسام کے چرند و پرند پالا کرتے تھے بلکہ پہلوان ، شاعر ، عالم اور گویئے بھی سرکاری وظیفوں پر پلتے تھے، مخصوص لوگوں کو پال رکھنے کی اس شاہی رسم کو برصغیر میں انگریزوں نے نہ صرف جاری رکھا بلکہ اپنے مخالفین اور وفاداروں کی علیحدہ علیحدہ فہرستیں بھی مرتب کیں چنانچہ صحافی برادری آگاہ ہے کہ بالکل اسی طرح ہمارے بعض سیاسی، سماجی و کاروباری شخصیات صحافیوں کو اپنا کاسہ لیس بنا کر ان سے اپنے مطلب کی خبر بنوانے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ معدودے چند ایک کے صحافیوں کی اکثریت اس قسم کے رزق آتشیں سے دور ہے۔ ویسے بھی آج کے اس تیز تر صحافت کے دور میں سچ اور جھوٹ دونوں کو پردوں میں رکھنا آسان نہیں ہے لیکن اس کے باوجو د برطانیہ جیسے اس شفاف معاشرے میں بھی ایسی ایسی قسم کے صاحبانِ فن موجود ہیں جو اپنے ضمیر کی نیلامی اس سلیقے سے کرتے ہیں کہ قاری کو خبر کی آخری لائن تک اس خفیہ نیلامی کی بھنک تک نہیں پڑتی، انعام و اکرام کی خواہش رکھنے والے بڑے ذہین و فطین خوشامدیوں کی بھی یہاں کمی نہیں جنہوں نے جان پہچان تو بنالی لیکن ذہنی انحطاط کی وجہ سے ان کا بھونڈا پن یہاں وہاں صاف دیکھاجاسکتاہے۔
زیر نظر تحریر کے ذریعہ ان سیاسی، سماجی و مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں سے گزارش یہ بھی ہے کہ وہ وقت کی قدر کو پہچانیں اور اپنی مختلف تقریبات کے موقع پر دیئے گئے وقت کے مطابق شروع اور ختم کیا کریں تا کہ ان میں شرکت کرنے والے صحافیوں سمیت دیگر لوگوں کا قیمتی وقت ضائع نہ ہو اور میزبان اور مہمانوں کو بھی خواہ مخواہ کی خفت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ سوال یہ ہے کہ جو صاحبان اقتدار برطانیہ میں وزٹ پر آ کر اور عرصہ دراز تک یہاں قیام کے بعد بھی منٹوں نہیں بلکہ دیئے گئے وقت سے گھنٹوں لیٹ آنا اپنی بڑائی سمجھتے ہیں اور طرہ یہ کہ ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معذرت خواہ بھی نہیں ہوتے انہیں بھی وقت کی اہمیت کا احساس ہونا چاہیئے۔
صحافیوں کو کھانے اور پینے کی دعوتیں دینے والے بعض کرم فرماؤں سے دست بستہ عرض ہے کہ انہیں اپنی اس سوچ و فلسفے کو بدلنے کی قطعی ضرورت ہے کہ کوئی حقیقی صحافتی مزدور کسی شخص کا قرض اپنے قلمی فرض کو پس پشت ڈال کر ادا کرے گا مجھے کامل یقین ہے کہ برطانیہ میں مقیم ان پاکستان صحافیوں کی کمی نہیں جو سر راه سچائی کی شمع ضوفشاں کئے ہوئے ہیں۔ یقینا میری برادری کے ایسے ہی سقراط صفت دوستوں کے دم سے اس شعبہ کی تو قیر قائم و دائم ہے، اور پھر کالی بھیڑیں کہاں نہیں پائی جاتیں۔
میری ان مختصر گزارشات میں کچھ با ادب اشارے بھی ہیں اور چند تجاویز بھی اپنی باعزت کمیونٹی اور اپنی با وصف صحافی برادری کیلئے بھی، لیکن اس تحریر میں ان تمام پہلوانوں‘‘ اور خلیفوں‘‘ کے لئے ایک انتباہ بھی پوشیدہ ہے جو اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں اس پیشے کے تقدس کو مقدم رکھنے کی بجائے کسی نو دولتیے کی قربت کے بل پر بظاہر منور بھی ہیں اور آتش بجاں بھی، یہی لوگ ہمہ وقت اپنی دُم پر کھڑے ہو کر ادھر ادھر گھات میں بیٹھی بلیوں کو للکارنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ احترام کے قابل تمام صحافیوں سے بھی درخواست ہے کہ وہ بُلنگ نہ کریں اور اپنے پیشے کا تقدس ہر صورت عزیز رکھیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں