356

دین اسلام میں بیٹیوں کا مقام (دوسرا حصہ )


ایک دانشور نے اس موقع پر کہا : “اے امیر المؤمنین! اس بدو کی بات پر دھیان نہ دھریں۔ اللہ کی قسم، یہی وہ لڑکیاں ہوتی ہیں جو خاندان کے بیماروں کی تیمارداری میں لگی رہتی ہیں اور اپنے بڑے بوڈھوں کے ساتھ رحم و کرم کا معاملہ کرتی ہیں اور شوہروں کے سخت ترین ایام میں ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہوجاتی ہیں۔”
ایک شخص کے گھر لڑکی تولد ہوئی تو وہ سخت ناراض ہوا اور ایک مدت تک خود کو بیوی سے علحدہ کرلیا، چند مہینوں بعد اس نے اپنی بیوی کو یہ آیت تلاوت کرتے سنی :
“وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۗ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ” (سورۃ البقرۃ : 216)
ترجمہ ” ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو بری جانو اور دراصل وہی تمہارے لئے بھلی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو اچھی سمجھو، حالانکہ وه تمہارےلئےبری ہو،حقیقی علم اللہ ہی کوہے،تم محض بےخبرہو۔”
کتنی ایسی لڑکیاں ہوتی ہیں جو بھائیوں کے مقابلہ میں اپنے والدین کے حق میں بہت ہی مہربان اور فائدہ مند ہوتی ہیں! کتنے ہی بیٹے ایسے ہوتے ہیں جو ان کے والدین کے حق میں اس حد تک سخت ترین غم و الم کا سبب بن جاتے ہیں کہ والدین یہ تمنا کرنے لگ جاتے ہیں کہ کاش یہ لڑکاہمیں پیدا ہی نہ ہوا ہوتا۔
اس موقع پر اس موضوع کو چھیڑنے کی کیا وجہ ہے؟اس کی وجہ یہ ہے کہ حقوقِ نسواں کا دفاع کرنے کے پس پردہ اسلام اور مسلمانوں پر بہت ہی رکیک اور شیطانی حملے کئے جارہے ہیں اورحقیقت میں ان حملوں کا مقصد یہ ہے کہ مسلم خواتین کے جذبات و احساسات کے ساتھ کھلواڑ کیا جائےتاکہ وہ اپنے باپوں اور شوہروں کے تئیں باغیانہ روش اختیار کرنے والی بن جائیں اور انہیں اس بات کا حوصلہ ملے کہ وہ “آزادی” کے عنوان کے ساتھ اپنے مطالبات منوانے کے لئے گھروں سے باہر نکل پڑیں۔یہ دراصل بدی اور فحاشی و بداخلاقی کو عام کرنے کی ایک راہ ہے جس سے خواتین عمومی طور پر مائل ہوجاتی ہیں اور محرمات کا شکار ہوجاتی ہیں۔ ان پرفریب جھانسوں میں کسی مسلمان لڑکی کے پھنس جانے کی ایک وجہ یہ ہے کہ سرپرست حضرات کی جانب سے اپنی بیٹیوں کے تئیں بہت زیادہ لاپرواہی و غفلت اور ان کے حقوق کو کمزور و کھوکھلا کردینا ہے، جس کی بناء پر وہ بآسانی منافق قسم کے مرد و عورت قلمکاروں اور کالم نویسوں کے جھانسوں میں پھنس جاتی ہیں اور جن کی شدید خواہش یہی ہوتی ہے کہ وہ فحاشی اور بدکاری کے مناظر کو عام ہوتے ہوئے دیکھیں۔
لڑکیوں کے معزز و مکرم ہونے کے لئے محض اتنا ہی کافی ہے کہ تمام پیغمبروں کے ہاں بیٹیاں تھیں اور ہمارے محبوب پیغمبر اسلام محمد ؐ کےہاں بھی زینب، رقیہ، ام کلثوم اور فاطمہ رضی اللہ عنھن اجمعین نامی لڑکیوں ہی کی کثرت پائی جاتی ہے ۔
بیٹیوں کی بہترین پرورش و پرداخت کے ثمرات، آخرت میں عطا کی جانے والی نوازشوں سے قبل اس دنیا ہی میں ظاہر ہوجاتی ہیں اور یہ بات شرعی دلائل سے ثابت و مسلم ہے کہ اپنی دو بیٹیوں کی بہترین انداز میں پرورش کرنے والے صالح شخص کو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا ہی میں بہترین بدلہ عطا فرمایا اور جیسےشعیب علیہ السلام نے اپنی دو بیٹیوں کی عمدہ پرورش کی اور نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے موسی علیہ السلام جیسے جلیل القدر نبی کوان کی بیٹی کا شریک حیات بنایا ۔
بیٹیوں کے تئیں مزید تعلیمات
پیغمبر اسلام اپنی دختران کے تئیں اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے کبھی فرماتے
مسور بن مخرمہ ؓ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ؐ سے سنا ، نبی کریم ؐ ممبر پر فرما رہے تھے کہ ہشام بن مغیرہ جو ابوجہل کا باپ تھا اس کی اولاد (حارث بن ہشام اور سلم بن ہشام) نے اپنی بیٹی کا نکاح علی بن ابی طالب سے کرنے کی مجھ سے اجازت مانگی ہے لیکن میں انہیں ہرگز اجازت نہیں دوں گا یقیناً میں اس کی اجازت نہیں دوں گا ہرگز میں اس کی اجازت نہیں دوں گا ۔ البتہ اگر علی بن ابی طالب میری بیٹی کو طلاق دے کر ان کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہیں (تو میں اس میں رکاوٹ نہیں بنوں گا) کیونکہ وہ (فاطمہ ؓ ) میرے جگر کا ایک ٹکڑا ہے جو اس کو برا لگے وہ مجھ کو بھی برا لگتا ہے اور جس چیز سے اسے تکلیف پہنچتی ہے اس سے مجھے بھی تکلیف پہنچتی ہے ۔
صحیح بخاری ، کتاب نکاح کے مسائل کا بیان ، باب: آدمی اپنی بیٹی کو غیرت اور غصہ نہ آنے کے لیے اور اس کے حق میں انصاف کرنے کے لیے کوشش کر سکتا ہے، حدیث نمبر: 5230
عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے روایت ہے کہ یہ تمام ازواج مطہرات (نبی کریم ؐ کے مرض وفات میں) نبی کریم ؐ کے پاس تھیں ، کوئی وہاں سے نہیں ہٹا تھا کہ فاطمہ ؓ چلتی ہوئی آئیں ۔ اللہ کی قسم ! ان کی چال رسول اللہ ؐ کی چال سے الگ نہیں تھی (بلکہ بہت ہی مشابہ تھی) جب نبی کریم ؐ نے انہیں دیکھا تو خوش آمدید کہا ۔ فرمایا بیٹی ! مرحبا ! پھر نبی کریم ؐ نے اپنی دائیں طرف یا بائیں طرف انہیں بٹھایا ۔ اس کے بعد آہستہ سے ان سے کچھ کہا اور فاطمہ ؓ بہت زیادہ رونے لگیں ۔ جب نبی کریم ؐ نے ان کا غم دیکھا تو دوبارہ ان سے سرگوشی کی اس پر وہ ہنسنے لگیں ۔ تمام ازواج میں سے میں نے ان سے کہا کہ نبی کریم ؐ نے ہم میں صرف آپ کو سرگوشی کی خصوصیت بخشی ۔ پھر آپ رونے لگیں ۔ جب نبی کریم ؐ اٹھے تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کے کان میں نبی کریم ؐ نے کیا فرمایا تھا انہوں نے کہا کہ میں نبی کریم ؐ کا راز نہیں کھول سکتی ۔ پھر جب آپ کی وفات ہو گئی تو میں نے فاطمہ ؓ سے کہا کہ میرا جو حق آپ پر ہے اس کا واسطہ دیتی ہوں کہ آپ مجھے وہ بات بتا دیں ۔ انہوں نے کہا کہ اب بتا سکتی ہوں چنانچہ انہوں نے مجھے بتایا کہ جب نبی کریمؐ نے مجھ سے پہلی سرگوشی کی تھی تو فرمایا تھا کہ ” جبرائیل علیہ السلام ہر سال مجھ سے سال میں ایک مرتبہ دور کیا کرتے تھے لیکن اس سال مجھ سے انہوں نے دو مرتبہ دور کیا اور میرا خیال ہے کہ میری وفات کا وقت قریب ہے ، اللہ سے ڈرتی رہنا اور صبر کرنا کیونکہ میں تمہارے لیے ایک اچھا آگے جانے والا ہوں “ بیان کیا کہ اس وقت میرا رونا جو آپ نے دیکھا تھا اس کی وجہ یہی تھی ۔ جب نبی کریم ؐ نے میری پریشانی دیکھی تو آپ نے دوبارہ مجھ سے سرگوشی کی ، فرمایا
“فاطمہ بیٹی ! کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ جنت میں تم مومنوں کی عورتوں کی سردار ہو گی ، یا (فرمایا کہ) اس امت کی عورتوں کی سردار ہو گی ۔ ”
صحیح بخاری ، کتاب اجازت لینے کے بیان میں ، باب: جس نے لوگوں کے سامنے سرگوشی کی اور جس نے اپنے ساتھی کا راز نہیں بتایا پھر جب وہ انتقال کر گیا تو بتایا یہ جائز ہے ، حدیث نمبر: 6285 – 6286
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ میں نے اٹھنے بیٹھنے کے طور و طریق اور عادت و خصلت میں فاطمہ ؓ سے زیادہ رسول اللہ ؐ کے مشابہ کسی کو نہیں دیکھا ، وہ کہتی ہیں : جب وہ نبی اکرم ؐ کے پاس آتیں تو آپ اٹھ کر انہیں بوسہ لیتے اور انہیں اپنی جگہ پر بٹھاتے ، اور جب نبی اکرمؐ ان کے پاس آتے تو وہ اٹھ کر آپ کو بوسہ لیتیں اور آپ کو اپنی جگہ پر بٹھاتیں۔سنن ترمذی ، کتاب: فضائل و مناقب ، باب : فاطمہ رضی الله عنہا کی فضیلت کا بیان، حدیث نمبر: 3872، شیخ البانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا۔
ذرا غور فرمائیے کہ رسول اللہ ؐ اپنے دختران پر کس حد تک توجہ فرمایا کرتے تھے۔آپ ؐ کی دوسری دخترزینب رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے آپؐ کو ایک ایسے موقع پر یاد فرمایا جب ان کے بچے کی وفات کا وقت بہت قریب تھالیکن آپ ؐ نے انہیں یہ اپنا زبانی پیغام روانہ فرمایا کہ :
“جو لے لیا وہ اللہ ہی کا ہے، اور جو دے دیا وہ بھی اللہ ہی کا ہے، اور اس کے پاس ہر چیز کا ایک مقرر وقت ہے، انہیں چاہیئے کہ صبر کریں اور ثواب کی امید رکھیں“لڑکی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ بلا بھیجا، اور قسم دلائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور تشریف لائیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے، آپ کے ساتھ میں بھی اٹھا، آپ کے ساتھ معاذ بن جبل، ابی بن کعب اور عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہم بھی تھے، جب ہم گھر میں داخل ہوئے تو لوگ بچے کو لے آئے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیا، بچے کی جان اس کے سینے میں اتھل پتھل ہو رہی تھی، (راوی نے کہا کہ میں گمان کرتا ہوں یہ بھی کہا:)گویا وہ پرانی مشک ہے (اور اس میں پانی ہل رہا ہے): یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رو پڑے، عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان میں رکھی ہے، اور اللہ تعالیٰ اپنے رحم دل بندوں ہی پر رحم کرتا ہے ۔”
ابوقتادہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ؐ باہر تشریف لائے اور امامہ بنت ابی العاص (جو بچی تھیں) وہ آپ کے شانہ مبارک پر تھیں پھر نبی کریم ؐ نے نماز پڑھی جب آپ رکوع کرتے تو انہیں اتار دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو پھر اٹھا لیتے ۔صحیح بخاری ، کتاب اخلاق کے بیان میں ، باب: بچے کے ساتھ رحم و شفقت کرنا ، اسے بوسہ دینا اور گلے سے لگانا، حدیث نمبر: 5996 ۔
علی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ فاطمہ ؓ کو چکی پیسنے کی بہت تکلیف ہوتی ۔ پھر انہیں معلوم ہوا کہ رسول اللہ ؐ کے پاس کچھ قیدی آئے ہیں ۔ اس لیے وہ بھی ان میں سے ایک لونڈی یا غلام کی درخواست لے کر حاضر ہوئیں ۔ لیکن آپ ؐ موجود نہیں تھے ۔ وہ عائشہ ؓ سے اس کے متعلق کہہ کر (واپس) چلی آئیں ۔ پھر جب آپ ؐ تشریف لائے تو عائشہ ؓ نے آپ ؐ کے سامنے ان کی درخواست پیش کر دی ۔ علی ؓ کہتے ہیں کہ اسے سن کر آپ ؐ ہمارے یہاں (رات ہی کو) تشریف لائے ۔ جب ہم اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے (جب ہم نے آپ ؐ کو دیکھا (تو ہم لوگ کھڑے ہونے لگے تو آپ ؐ نے فرمایا کہ جس طرح ہو ویسے ہی لیٹے رہو ۔ (پھر آپ ؐ میرے اور فاطمہ ؓ کے بیچ میں بیٹھ گئے اور اتنے قریب ہو گئے کہ) میں نے آپ کے دونوں قدموں کی ٹھنڈک اپنے سینے پر پائی۔ اس کے بعد آپ ؐ نے فرمایا کہ جو کچھ تم لوگوں نے (لونڈی یا غلام) مانگے ہیں ‘ میں تمہیں اس سے بہتر بات کیوں نہ بتاؤں ‘ جب تم دونوں اپنے بستر پر لیٹ جاؤ (تو سونے سے پہلے) اللہ اکبر 34 مرتبہ اور الحمداللہ 33 مرتبہ اور سبحان اللہ 33 مرتبہ پڑھ لیا کرو ‘ یہ عمل بہتر ہے اس سے جو تم دونوں نے مانگا ہے۔صحیح بخاری ، کتاب خمس کے فرض ہونے کا بیان ، باب: اس بات کی دلیل کہ غنیمت کا پانچواں حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آپ کی ضرورتوں ( جیسے ضیافت مہمان ، سامان جہاد کی تیاری وغیرہ ) اور محتاجوں کے لیے تھا، حدیث نمبر: 3113۔
مسور بن مخرمہ ؓ نے بیان کیا کہ علی ؓ نے ابوجہل کی لڑکی کو (جو مسلمان تھیں) پیغام نکاح دیا ، اس کی اطلاع جب فاطمہ ؓ کو ہوئی تو وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ آپ کی قوم کا خیال ہے کہ آپ کو اپنی بیٹیوں کی خاطر (جب انہیں کوئی تکلیف دے) کسی پر غصہ نہیں آتا ۔ اب دیکھئیے یہ علی، ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں ، اس پر آپ ؐ نے صحابہ کو خطاب فرمایا : میں نے آپ ؐ کو خطبہ پڑھتے سنا ۔ پھر آپ ؐ نے فرمایا : امابعد : میں نے ابوالعاص بن ربیع سے (زینب ؓ کی ، آپ کی سب سے بڑی صاحبزادی) شادی کرائی تو انہوں نے جو بات بھی کہی اس میں وہ سچے اترے اور بلاشبہ فاطمہ بھی میرے (جسم کا) ایک ٹکڑا ہے اور مجھے یہ پسند نہیں کہ کوئی بھی اسے تکلیف دے ۔ اللہ کی قسم ! رسول اللہ کی بیٹی اور اللہ تعالیٰ کے ایک دشمن کی بیٹی ایک شخص کے پاس جمع نہیں ہو سکتیں ۔ چنانچہ علی ؓ نے اس شادی کا ارادہ ترک کر دیا ۔ محمد بن عمرو بن حلحلہ نے ابن شہاب سے یہ اضافہ کیا ہے ، انہوں نے علی بن حسین سے اور انہوں نے مسور ؓ سے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ؐ سے سنا ، آپ نے بنی عبدشمس کے اپنے ایک داماد کا ذکر کیا اور حقوق دامادی کی ادائیگی کی تعریف فرمائی ۔ پھر فرمایا کہ انہوں نے مجھ سے جو بات بھی کہی سچی کہی اور جو وعدہ بھی کیا پورا کر دکھایا ۔ حدیث متعلقہ ابواب: سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ۔ داماد رسول ابوالعاص بن الربیع رضی اللہ عنہ کی فضیلت ۔ صحیح بخاری ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی فضیلت ، باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دامادوں کا بیان ابوالعاص بن ربیع بھی ان ہی میں سے ہیں، حدیث نمبر: 3729۔
روایات میں آتا ہے کہ آپ ؐ نے بعدازاں لوگوں کے روبرو اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ “اللہ تعالیٰ کے حلال کردہ امور کو میں حرام نہیں کررہا ہوں اور نہ ہی تعدد ازدواج کو حرام قرار دے رہا ہوں بلکہ رسول کی بیٹی فاطمہ ہونے کی حیثیت سے ایسا کیا اور جو ایک خصوصی مسئلہ ہے کیونکہ رسول اللہ ؐ کو تکلیف پہنچانا حرام ہے۔
فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا ایک ایسی خاتونِ اسلام تھیں جن کی حوصلہ مندی اور بہادری بہت مشہور ہے۔ جیسے وہ واقعہ یاد کریں کہ محمد رسول اللہ ؐ جب کعبۃ اللہ کے روبرو نماز ادا کررہے تھے اور جس وقت آپ ؐ سجدہ ریز تھے تو مشرکین مکہ نے آپ کے سر مبارک پر اونٹ کی اوجھڑی لاد دی اور ہنستے ہوئے آپ کا مذاق اڑانے لگے۔ ایسے موقع پر یہی خاتونِ جنت تھیں جو اپنے والد کی حمایت کرتے ہوئے آگے بڑھیں اور مشرکین مکہ کو سخت و سست کہتے ہوئے اپنے معصوم ہاتھوں سے اس گندگی کو دور کیا۔
عبداللہ بن مسعود ؓ نے یہ روایت بیان کی کہ ایک دفعہ رسول اللہ ؐ کعبہ کے نزدیک نماز پڑھ رہے تھے اور ابوجہل اور اس کے ساتھی (بھی وہیں) بیٹھے ہوئے تھے تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ تم میں سے کوئی شخص ہے جو قبیلے کی (جو) اونٹنی ذبح ہوئی ہے (اس کی) اوجھڑی اٹھا لائے اور (لا کر) جب محمد ؐ سجدہ میں جائیں تو ان کی پیٹھ پر رکھ دے ۔ یہ سن کر ان میں سے ایک سب سے زیادہ بدبخت (آدمی) اٹھا اور وہ اوجھڑی لے کر آیا اور دیکھتا رہا جب آپ نے سجدہ کیا تو اس نے اس اوجھڑی کو آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان رکھ دیا (عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں) میں یہ (سب کچھ) دیکھ رہا تھا مگر کچھ نہ کر سکتا تھا ۔ کاش ! (اس وقت) مجھے روکنے کی طاقت ہوتی ۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ وہ ہنسنے لگے اور (ہنسی کے مارے) لوٹ پوٹ ہونے لگے اور رسول اللہ ؐ سجدہ میں تھے (بوجھ کی وجہ سے) اپنا سر نہیں اٹھا سکتے تھے ۔ یہاں تک کہ فاطمہ ؓ آئیں اور وہ بوجھ آپ کی پیٹھ سے اتار کر پھینکا ، تب آپ ؐ نے سر اٹھایا پھر تین بار فرمایا ۔ یا اللہ ! تو قریش کو پکڑ لے ، یہ (بات) ان کافروں پر بہت بھاری ہوئی کہ آپؐ نے انہیں بددعا دی ۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ وہ سمجھتے تھے کہ اس شہر (مکہ) میں جو دعا کی جائے وہ ضرور قبول ہوتی ہے پھر آپ نے (ان میں سے) ہر ایک کا (جدا جدا) نام لیا کہ اے اللہ ! ان ظالموں کو ضرور ہلاک کر دے ۔ ابوجہل ، عتبہ بن ربیعہ ، شیبہ بن ربیعہ ، ولید بن عتبہ ، امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط کو ۔ ساتویں (آدمی) کا نام (بھی) لیا مگر مجھے یاد نہیں رہا ۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ جن لوگوں کے (بددعا کرتے وقت) آپؐ نے نام لیے تھے ، میں نے ان کی (لاشوں) کو بدر کے کنویں میں پڑا ہوا دیکھا ۔ حدیث متعلقہ ابواب: ابوجہل ، عتبہ اور شیبہ کا انجام ۔صحیح بخاری ، کتاب وضو کے بیان میں ، باب: جب نمازی کی پشت پر ( اچانک ) کوئی نجاست یا مردار ڈال دیا جائے تو اس کی نماز فاسد نہیں ہوتی، حدیث نمبر: 240۔
اپنے دختران کے تئیں ہمارے نبیؐ کی حیات مبارکہ میں ہمیں یہ نمونے ملتے ہیں۔ ہم سب کو چاہئے کہ اپنی زندگیوں میں ان نمونوں کو عملی طور پر نافذ کریں۔
اختتامیہ
یہ بھی ایک حقیقت ہمارے سامنے ظاہر ہوتی ہے کہ بعض افراد اس حد تک سنگدل ہوتے ہیں کہ انہیں اپنے بچوں کے سامنے کسی بھی طرح کے جذبات و احساسات کا اظہار کرنا گوارا نہیں ہوتا اور یہ وہی المیہ ہے کہ جذبات و احساسات سے عاری اور خالی ماحول میں جب ایک لڑکی پروان چڑھتی ہے تو ہر بدکردار شخص کے لئے یہ امر بہت ہی آسان وسہل ہوجاتا ہے کہ وہ اس صنف نازک کو اپنی مکارانہ لفاظی سے متاثر کرتے ہوئے جھانسے اور اپنے پھندے میں پھانس لے اور اسی بناء پر زنا و بدکاری کے ماحول کو پنپنے اور عام ہونے کے مواقع میسر آرہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں اپنے بیٹیوں کے مسائل کو بہت ہی گہری اور قریبی نظر سے دیکھنا ہوگااور انہیں اپنی خصوصی توجہ کا مرکز بنانا ہوگا اور ان مواقع پر اس بات کی ضرورت اور بھی شدید ہوجاتی ہے جب وہ ایک ایسے دور میں جی رہی ہوں جہاں ہر بدی اور برائی کی راہیں بہت آسانی سے میسر ہوجاتی ہیں اور جن تک رسائی بھی ہر کسی کے بس میں ہے۔
ہم پر یہ ایک عظیم ترین ذمہ داری ہے کہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ اتنی محبت اور شفقت کا معاملہ کریں کہ جس کی انہیں اپنے مہربان اور مشفق باپوں کے دل و جان سے پیش کئے جانے کی اشد ضرورت ہے، ورنہ بدکار شخص اپنے نیچ و گھٹیا مقاصد کی تکمیل کے لئے اس چیز کو کام میں لائے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں