تخلیص/ رضوانہ لطیف : دینی عالمہ
اللہ تعالیٰ نے انسان کو احساسات اور جذبات دے کر پیدا کیا ہے -یہ جذبات ہی ہیں جن کا اظہار ہمارے رویوں سے ہوتا ہے کہ جہاں انسان اپنی خوشی پر خوش ہوتا ہے، وہیں اگر ناپسندیدہ اور اپنی توقعات سے مختلف امور دیکھ لے تو اس کے اندر غصہ بھی پیدا ہو جاتا ہے- کیونکہ غصہ ایک منفی جذبہ ہے جس پر بروقت قابو نہ پایا جائے تو ہم اکثر دوسروں کے ساتھ ساتھ اپنا بھی نقصان کر بیٹھتے ہیں اس لیے اسلام نے غصہ ضبط کرنے اور جوشِ غضب کے وقت انتقام لینے کی بجاے صبرو سکون سے رہنے کی تلقین کی ہے، تا کہ معاشرہ انتشار کا شکار نہ ہو بلکہ امن کا گہوارہ بن سکے-
قرآن مجید میں غصہ نہ کرنے اور معاف کر دینے کی فضیلت کا بیان:
1-’’وَالَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ کَبٰٓـئِرَ الْاِثْمِ وَ الْفَوَاحِشَ وَاِذَا مَا غَضِبُوْا ہُمْ یَغْفِرُوْنَ‘
’’اور جو لوگ کبیرہ گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں اور جب انہیں غصّہ آتا ہے تو معاف کر دیتے ہیں‘‘-
غصہ ٹھنڈا ہونے کے بعد تو عموماً لوگ معاف کر دیتے ہیں لیکن اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کی صفات میں سے اہم صفت یہ بیان کی ہے وہ حالتِ غضب میں معاف کرتے ہیں جو بہت ہمت اور جرأت کا کام ہوتا ہے- بلند ہمت اور بلند حوصلہ لوگ ہی اس شان کے مالک ہوتے ہیں جو اپنے اوپر ظلم کرنے والوں پر بھی شفقت کرتے ہیں-
اس آیتِ مبارکہ کے شانِ نزول میں علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالک قرطبی (متوفی: 668ھ) نے حسبِ ذیل اقوال نقل کیے ہیں:
1. یہ آیت حضرت عمر(رضی اللہ عنہ) کے متعلق نازل ہوئی ہے جب انہیں مکہ میں گالیاں دی گئیں اور انہوں نے اس پر صبر کیا-
2. حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے جب اپنا سارا مال راہِ خُدا میں خرچ کر دیا تو لوگوں نے اس پر انہیں ملامت کی اور بُرا کہا تو انہوں نےاس پر صبرکیا-
3. حضرت علی (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ صدیقِ اکبر (رضی اللہ عنہ) کے پاس مال جمع ہو گیا، انہوں نے وہ سب مال نیکی کے راستے میں خرچ کر دیا مسلمانوں نے ان کو ملامت کی اور کفار نے ان کی خطا نکالی جس پر یہ آیت نازل ہوئی:
2-’’الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآئِ وَالضَّرَّآئِ وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِط وَاللہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ‘
’’یہ وہ لوگ ہیں جو فراخی اور تنگی (دونوں حالتوں) میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (ان کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں؛ اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے‘‘-
برائی کے عوض بھلائی کرنا جود وکرم ہے اور بھلائی کے عوض برائی کرنا خباثت ہے- اس آیت میں جود و کرم کا ذکر ہے کہ اللہ کے محبوب و محسنین کا یہ وصف قرآن نے بیان کیا ہے کہ وہ غصے کو پی جاتے ہیں اور عفو و درگزر سے کام لیتے ہیں- انسان جو کسی پر غضب ناک ہوتا ہے تو دراصل یہ شیطان کے وسوسے کی وجہ سے ہوتا ہے،انسان کو چاہیے کہ جب اسے کسی بات پر غصہ آئے تو وہ اپنے غصہ کو ضبط کرے اور جس پر غصہ آیا ہے اس کو معاف کر دے-
’’حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا پہلوان اور طاقت ور وہ شخص نہیں جو دوسرے کو پچھاڑ دے بلکہ طاقت ور وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ پر قابو پالے۔‘‘(بخاری و مسلم)
انسان جب اپنے مزاج،خیالات، اصولوں اور خواہشات کے خلاف کوئی بات ہوتی دیکھتا ہے تو اس کی طبیعت میں شدت پیدا ہوتی ہے اسے غصہ کہتے ہیں۔ انسان کے اندر غصہ ہونا ایک خوبی ہے اور غصہ نہ ہونا ایک عیب ہے اس لیے کہ اگر انسان اصولوں اور مزاج کے خلاف بات دیکھنے کے باوجود طبیعت میں شدت محسوس نہ کرے تو یہ بزدلی ہے جسے عربی میں جبن کہتے ہیں ۔ رسول اللہ ؐ نے اپنے لیے یہ دعا مانگی ترجمہ:اے اللہ میں بزدلی سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔لیکن اب یہ طے کرلینا چاہئے کہ کونسا غصہ اچھا ہے اور کونسا برا ہے۔ اس کے لیے بہت آسان سی پہچان ہے کہ اگراحکام شرعیہ یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کے احکامات کی خلاف ورزی پر غصہ آئے تو بہت اچھا ہے لیکن اس غصہ پر عمل اور غصہ کا اظہار بھی احکام شرعیہ کے مطابق ہونا ضروری ہے ورنہ یہ غصہ بھی وبال بن سکتا ہے جیسے اولاد کے نماز نہ پڑھنے پر غصہ آنا، ان کی نافرمانی پر غصہ آنا، دوسرے لوگوں کو اسلامی احکامات کے خلاف عمل کرتے دیکھ کر غصہ آنا، یہ غصہ کمال ایمان کی علامت ہے اس بارے میں آپؐ نے یہ ہدایات دیں کہ اگر تم میں سے کوئی برائی ہوتے دیکھے تو اپنے ہاتھ سے روکے، اگر اس کی طاقت نہ ہوتو زبان سے روکے اگر یہ بھی نہ کرسکتا ہوتو کم ازکم اس برائی کو دل سے برا سمجھے۔‘‘
اگر غصہ اپنے مفاد، اپنے خیالات، ذاتی اصولوں اور ذاتی خواہشات کے خلاف ہوتادیکھ کر آئے تو اس غصہ کو دبانا اور بجھانا ضروری ہے یہی غصہ برا ہے۔ قرآن حکیم میں متقین کی صفات بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ایک صفت یہ بھی بیان فرمائی ’’وَال?کَاظِمِی?نَ ال?غَی?ظ‘‘(وہ لوگ جو غصہ کو بجھانے والے ہوتے ہیں) معلوم ہوا کہ انسان کے اندر غصہ ہونا چاہئے لیکن متقی کی خوبی یہ ہے کہ وہ اس پر قابورکھتا ہے۔ شریعت میں جس غصہ کی ممانعت اور اس کی برائی بیان کی گئی ہے اس سے مراد وہی غصہ ہے جو نفسانیت کی وجہ سے ہو، اور اس غصہ میں مبتلاہوکر انسان اللہ تعالیٰ کی حدود سے تجاوز کرجائے اور احکام شریعت کا پابند نہ رہے لیکن جو غصہ اللہ کی خاطر ہو، حدود الٰہیہ سے تجاوز نہ کرے تو یہ کمال ایمان کی نشانی اور جلال خداوندی کا عکس ہے۔
اب ہم اگر اپنی زندگی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ہمیں شاید پانچ چھ فیصد ہی جائز غصہ آتا ہو ورنہ معاشرہ میں عموماً ذاتی مفاد، ذاتی خواہشات، ذاتی اصولوں کے خلاف ہوتا دیکھ کر ہی غصہ آتا ہے اور اسی قسم کے غصہ نے گھروں، محلوں، علاقوں اور خاندانوں میں فسادات کی آگ بھڑ کا رکھی ہے ادب عربی کا ایک بڑا قیمتی جملہ ہے اَوَّلْ ال?غَضَبِ جْنون? وآخِرْہ? نَدَم?۔(غصہ کی ابتداء پاگل پن ہے اور اس کا انجام شرمندگی ہے) انسان غصہ میں مبتلا ہوکر……بلڈ پریشر ہائی (دوران خون تیز) ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو طاقتور اور بہادر سمجھتا ہے اور برا بھلا کہتا ہے‘ مارتا پیٹتا ہے‘ توڑ پھوڑ کرتا ہے‘ بسا اوقات قتل تک نوبت پہنچ جاتی ہے لیکن یہ بات بھی قطعی ہے کہ چاہے کتنے ہی مضبوط اعصاب کا مالک ہو کتنا ہی شقی القلب کیوں نہ ہو آخر کار اپنے کیے پر شرمندہ ضرور ہوتا ہے۔
اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہادر وہ نہیں جو دوسرے کو پچھاڑدے، بلکہ بہادر وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ پر قابو پالے۔‘‘ غصہ کے وقت اپنے آپ پر قابو پانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا۔ ’’جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے اور وہ کھڑا ہوتو اسے چاہیے کہ بیٹھ جائے اگر غصہ ختم ہوجائے تو ٹھیک ورنہ وہ لیٹ جائے۔‘‘ (رواہ الترمذی عن ابی ذر?) دراصل جب انسان غصہ میں ہوتا ہے تو اس کے اعصاب میں تناؤ آجاتا ہے جب وہ اپنی جسمانی کیفیت کو بدلے گا تو اعصابی تناؤ میں کمی واقعی ہوگی اور اس طرح غصہ کم ہوجائے گا۔ غصہ میں اپنے آپ پر قابو پانے کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ہدایت دی کہ ’’جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اسے چاہیے کہ اس وقت خاموشی اختیار کرے۔‘‘(رواہ احمد عن ابن عباس?) بارہا تجربہ میں یہ بات آئی ہے کہ انسان غصہ کے وقت جو منہ میں آئے کہہ دے تو اس سے حالات اور زیادہ بگڑ جاتے ہیں لیکن غصہ کے وقت خاموش ہوجائے تو ذہن ٹھنڈا ہونے کے بعد اس بات کااتنا عمدہ علاج اور حل ذہن میں آتا ہے کہ وہ مسئلہ بخوبی حل ہوجاتاہے۔ ابوداؤد میں عطیہ بن عروہ? کی روایت میں غصہ کا ایک عمدہ علاج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’غصہ شیطان کے اثر سے آتا ہے اور شیطان کی پیدائش آگ سے ہوئی اور آگ کو پانی سے بجھایا جاتا ہے لہٰذا جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اسے چاہیے کہ وضو کرلے‘‘ اور طبی نقطہ نظر سے بھی یہی ہدایت کی جاتی ہے کہ جب بلڈپریشر ہائی(دوران خون تیز) ہوجائے چہرہ تپنے لگے تو ٹھنڈے پانی کے چھینٹے منہ پر مارے جائیں۔ اب ارشاد نبوی پر عمل کرتے ہوئی آدمی غصہ کو بجھائے تو ثواب بھی ملا اور علاج بھی ہوا۔ غصہ پر قابو پانے کی فضیلت حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت سے بہت اچھی طرح معلوم ہوجاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’کسی بندے نے کسی چیز کا کوئی گھونٹ ایسا نہیں پیا جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک غصہ کے اس گھونٹ سے افضل ہو جسے کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر پی جائے۔‘‘(رواہ الترمذی وابوداؤد)بیہقی میں حضرت انسؓ سے ارشاد نبویؐ منقول ہے‘‘ جو کوئی اپنے غصہ کو روکے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس سے اپنے عذاب کو روکے گا۔اللہ رب العزت ہمیں جائز غصہ میں بھی شرعی حدود سے تجاوز کرنے سے محفوظ فرمائے، اور ناجائز غصہ میں اپنے آپ پر قابو پانے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہمارے گھر، محلے، خاندان اور پورا معاشرہ امن سکون کا گہوارہ بن جائے اور آخرت میں ان تمام انعامات واعزازت سے فیض یاب ہوں۔
24