حضرت علامہ پیر سید ریاض حسین شاہ
’’اور پوچھتے ہیں آپ سے حیض کے بارے میں فرمائیے وہ گندگی ہے تو عورتوں سے ماہواری کے ایام میں الگ رہا کرو اور اُن سے قربت نہ کرو جب تک کہ وہ پاک نہ ہو جائیں پھر جب وہ اچھی طرح صاف ستھری ہو جائیں تو جاؤ ان کے پاس اس مقام سے جہاں سے اللہ نے حکم دیا ہے بے شک اللہ بہت تو بہ کرنے والوں کو محبوب بنا لیتا ہے اور وہ محبت کرتا ہے صاف ستھرا رہنے والوں سے‘‘۔
آیت کا شان نزول
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہود کے ہاں ہوتا یہ کہ جب کسی عورت کو حیض آجاتا تو وہ اس عورت کو گھر سے نکال دیتے۔ اس عورت کے ساتھ کھانے پینے سے بھی گریز کرتے ۔ عورت کے ساتھ رہنے کو برا جانا جاتا۔ جب حضور ؐ سے اس مسئلہ میں رہنمائی چاہی گئی تو یہ آیت نازل ہوئی۔ حضور ؐ نے اس آیت کی حکمی تعبیرات کی روشنی میں تفصیلی احکام صادر فرمادئے کہ عورتوں کو حیض کے دوران گھروں سے نکالا نہ جائے ۔ ازدواجی تعلق کے سوا عورتوں سے ہر قسم کا میل ملاپ روا ہے۔ جب یہود کو یہ خبر پہنچی تو انہوں نے شور شروع کر دیا کہ یہ شخص ہر بات میں ہماری مخالفت کرتا ہے۔ ماحول کی اسی حالت میں حضرت اُسید بن حضیر اور عباد بن بشر آپ کے پاس حاضر ہوئے اور یہود کے منفی طرز عمل کا ذکر کیا اور ساتھ ہی عرض کی : کیوں نہ ہم اپنی عورتوں سے جماع بھی کر لیا کریں۔ یہ سن کر آپؐ کا چہرہ انور متغیر ہو گیا یہاں تک کہ ہم سمجھ بیٹھے کہ حضور ؐ ان سے ناراض ہو گئے ۔ بعد ازاں حضور ؐ کے پاس دودھ ہدیہ میں آیا تو آپ نے وہ دودھ ان دونوں کے لئے بھیج دیا۔ یہ علامت تھی کہ رحمت عالم ؐ ان سے ناراض نہیں ہیں (367)۔
نصاری کے بارے میں روایات میں آیا ہے کہ وہ حیض کی صورت میں عورتوں سے مباشرت کر لیتے پر ہیز نہیں کرتے تھے ، گویا مدینہ کا ماحول افراط اور تفریط کا شکار تھا۔ اس میں اسلام نے اعتدال کا راستہ اختیار کیا اور حیض کے دوران مباشرت سے تو منع کردیا لیکن اس کے سوا باقی معاملات میں اجازت دے دی کہ عورت گریزی نہ کی جائے۔
آیت کی فقہی اہمیت
سورۃ بقرہ میں اسلام کا عائلی قانون بیان ہورہا تھا اس لئے اس قرآنی خطبہ کا آغاز اس آیت سے ہوا۔ سوال صرف اتنا ہی نہ تھا کہ حیض کے دوران مجامعت روا ہے یا روا نہیں۔ اصل میں طلاق ، عدت اور وراثت وغیرہ کے تمام عائلی مسائل پر اس حیض میں مباشرت یا عدم مباشرت کا گہرا اثر مرتب ہونا تھا اس لئے قرآن نے کھل کر حیض میں مباشرت کے مسئلے کو واضح کر دیا تا کہ کسی جگہ ابہام پیدا نہ ہو۔
آیت کی ادبی اہمیت
ڈاکٹر طہٰ مصری ایک جگہ لکھتے ہیں کہ انسان کی انسانیت دو چیزوں سے مکمل ہوتی ہے: ایک محبت اور دوسری چیز ادب ہے اور محبت اور ادب دونوں مجاز ، کنایہ اور استعارہ کے متقاضی ہوتے ہیں۔ دنیائے ادب میں کمالِ شعر میں رمزیت ہی حسن تغزل کا راز ہوتا ہے۔ قرآن مجید کی اس آیت میں ایک فقہی ضرورت کو پورا کیا گیا ہے لیکن آپ دیکھیں گے کہ پردے کے ساتھ تعلق رکھنے والے امور کو بیان کا جامہ بھی رمزیت کے غلاف میں پہنایا گیا ہے۔ خون کے رحم سے اخراج کومحیض ، گندگی کو آذی عورت گریزی کو اعتزال ،مجامعت کے لئے قریب نہ ہونا، انقطاع خون کے لئے طہر اور غسل کے لئے تطہر اور جماع کے لئے عورت کے پاس آنا ایسی تعبیرات اختیار کی گئیں ، قرآنی ادب کی ہی بلندی تھی جس نے عربوں کے دلوں اور روحوں میں سچائی کے لئے ہلچل مچادی۔
حیض کے دوران مجامعت کے طبی نقصان
جدید اور قدیم اطبا کا اس بات پر اجماع ہے کہ حیض کے دوران عورت سے جماع کرنے سے نقصانات کی جو ظلمتیں اُٹھانی پڑتی ہیں وہ جسم ، معاشرہ اور تناسل سب پر برق بن کر گرتی ہیں : (1) اس گندے عمل سے اللہ اور رسول ناراض ہوتے ہیں۔
(2) یہودیوں کی پیروی سے قرآنی احکام سے بُعد پیدا ہوتا ہے۔
(3) مرد اور عورت دونوں بانجھ ہو جاتے ہیں۔
(4) اولاد پیدا ہی نہیں ہوگی اگر اتفاقاً ممکن ہو بھی جائے تو کمزور اور پولیو کا شکار بچے پیدا ہوتے ہیں جو طرح طرح کے امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔
(5) آتشک اور سوزاک جیسے موذی مرض لاحق ہوتے ہیں۔
(6) ان بیماریوں کے ہاتھوں سے تباہ ہونے والے لوگ ہمیشہ شرمندہ رہتے ہیں اور اپنی معاشرتی مدافعت کے لئے جھوٹ بولتے رہتے ہیں۔
(7) عورت کے تناسلی اعضاء میں بہت زیادہ حدت اور تپش پیدا ہونے سے مرد کے لئے مجامعت قابل نفرت ہو جاتی ہے۔
(8) تناسلی مواد گندے جراثیموں کی شکل میں بدنوں میں داخل ہو جاتا ہے جو تباہی مچاتا ہے۔ (9) طہارت اور صاف ستھرا رہنے کی فطرت مسخ ہوتی ہے۔ (10) حافظہ کمزور ہوتا ہے اور ایسا شخص مخبوط الحواس نظر آتا ہے۔
