سوشل میڈیا وہ پلیٹ فارمز اور ایپلیکیشنز ہیں جو صارفین کو خیالات، معلومات اور مواد کا تبادلہ کرنے اور ایک دوسرے سے رابطے قائم کرنے کی سہولت فراہم کرتی ہیں، جن میں فیس بک، ٹوئٹر یا ایکس اور انسٹاگرام جیسے پلیٹ فارمز شامل ہیں۔ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں کھلونوں کی طرح سمارٹ فون بھی نرسری کی ٹوکری میں رکھ دیے جاتے ہیں۔ والدین کی مصروفیات، ”ہم عمر“ آن لائن ساتھیوں کی کشش، اور پلیٹ فارمز کے چمکتے دمکتے فیچرز کے امتزاج نے کم عمر بچوں کو سوشل میڈیا کے ایسے سمندر میں دھکیل دیا ہے جس کی لہروں کا رخ بچے نہیں طے کرتے الگورتھم طے کرتے ہیں،سوال یہ نہیں کہ سوشل میڈیا موجود ہے یا نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ کم عمر دماغ اس کے اثرات برداشت بھی سکتے ہیں یا نہیں۔ ابتدائی عمر (خصوصاً پانچ سال سے کم) میں دماغ تیزی سے تشکیل پاتا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کی رہنما ہدایات واضح کرتی ہیں کہ اس مرحلے پر اسکرین کے سامنے لمبا بیٹھنا، فعال کھیل اور معیاری نیند کو دباتا ہے؛ ایک سال سے کم عمر کے بچوں کے لیے اسکرین بالکل مضر اور 2–4 سال کے لیے روزانہ ایک گھنٹے سے کم بہتر سمجھا گیا ہے۔نوعمر ہونے سے پہلے ہی بچے سوشل میڈیا کی دہلیز پر پہنچ چکے ہوتے ہیں: ایک بڑے امریکی مشاورتی بیان کے مطابق 13–17 سال کے 95% نوجوان سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں اور 8–12 سال کے قریب 40% بچے بھی اس میں شامل ہو جاتے ہیں—جبکہ اسی عمر میں جذباتی ضبط اور فیصلے کی صلاحیت ابھی پختہ نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ محققین نیند میں خلل، توجہ کی کمی، اضطراب اور ڈپریشن جیسے خدشات کی طرف متوجہ کرتے ہیں، کم عمر بچے نہ صرف منفی سماجی تقابل، بدنما تصورِ جسم، یا انتہاپسندانہ مواد کے زد میں آتے ہیں بلکہ ان کا ڈیٹا بھی کاروباری ماڈلز کی خوراک بنتا ہے۔ یونیسف اور اقوامِ متحدہ خبردار کرتے ہیں کہ آن لائن بدسلوکی، جنسی استحصال اور دھوکے بازی کے خطرات حقیقی ہیں اور نئی ٹیکنالوجیز (بشمول اے آئی) ان کی صورتیں بدل رہی ہیں۔ سوشل میڈیا کی فیڈ ”جوڑتی“ کم اور ”چڑھاتی“ زیادہ ہے: توجہ پکڑنے کے لیے ڈیزائن کردہ فیچرز (آٹو پلے، لامتناہی اسکرول، نوٹیفکیشن) بچے کے خوداختیار استعمال کو گھٹاتے ہیں اور مشکل جذبات کو بار بار بھڑکاتے ہیں۔ یہی تشویش 2023 کے سرجن جنرل کے انتباہ اور حالیہ مباحث میں نمایاں رہی—حتیٰ کہ انتباہی لیبلز تک کی بات ہوئی کہ پلیٹ فارمز کے ڈیزائن پر صحت عامہ کی عینک سے نظر ثانی ضروری ہے۔ برطانیہ نے آن لائن سیفٹی ایکٹ 2023 کے ذریعے پلیٹ فارمز پر بچوں کے تحفظ کی قانونی ذمہ داری عائد کر دی ہے؛ اوف کوم کے تحت 2024–25 کی ہدایات میں خودکشی، خود اذیتی، کھانے کی خرابیوں اور فحش مواد جیسے شدید نقصاندہ مواد سے بچوں کو بچانے کے لیے مضبوط نظام وضع کرنے کی شرط شامل ہے،عمر کی توثیق اور رسک اسیسمینٹ تک۔ اسی طرح برطانیہ کا چِلڈرنز کوڈ (Age-Appropriate Design Code) 2021 سے نافذ ہے جو ہر ایسی آن لائن سروس پر بچوں کے بہترین مفاد اور ڈیٹا پرائیویسی کو مقدم رکھنے کے 15 اصول لاگو کرتا ہے، یعنی کم عمر صارفین کے لیے پروفائلنگ، مقام کی شیئرنگ اور ”نَج“ فیچرز کو ڈیفالٹ طور پر محدود کیا جائے، اس قسم کی پیشرفت کرنا اہم تو ہیں لیکن قانون تنہا کافی نہیں جب تک گھر، سکول اور کمپنی تینوں اپنا حصہ نہ ڈالیں۔ سوشل میڈیا کو یکسر شیطانی بنا دینا حل نہیں، مگر کم عمر بچوں کے لیے اسے بالغان جیسا اور بے لگام چھوڑ دینا بھی ناانصافی ہے۔ بچپن وہ کھڑکی ہے جس سے پوری زندگی کا منظر دکھائی دیتا ہے؛ اگر یہی کھڑکی الگورتھم کے دھوئیں سے دھندلا جائے تو ہم محض فرد نہیں، ایک پوری نسل کی توجہ، تخلیق اور تعلق پر سمجھوتہ کر رہے ہیں۔ والدین اپنے گھروں میں دانشمند حدود قائم کریں، اسکول ڈیجیٹل کردار سازی کو نصاب کا لازمی حصہ بنائیں، اور ریاست—ساتھ ہی صنعت ، ڈیزائن اور نفاذ کے ذریعے بچوں کے حقِ سلامت بچپن کی نگہبان بنیں یہی ہمارا اخلاقی فرض بھی ہے اور اجتماعی دانش کا تقاضا بھی۔ بہت سے دیگر ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی کم عمر بچوں کے سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی کے کوششیں کی گئی ہیں ابھی حال ہی میں پاکستان کی سینیٹ میں ایک ایسا بِل پیش کیا گیا ہے جس کے قانون بننے کی صورت میں سوشل میڈیا کمپنیوں پر یہ پابندی ہو گی کہ ان کے پلیٹ فارمز 16 برس سے کم عمر کے بچے اور نوجوان استعمال نہ کر پائیں۔دو ماہ قبل سینیٹ میں یہ بِل دو سینیٹرز نے پیش کیا ہے۔اس بِل میں کہا گیا ہے کہ فیس بُک، انسٹاگرام، ٹک ٹاک، واٹس ایپ، بیگو لائیو، سنیپ چیٹ، یوٹیوب اور تھریڈز سمیت تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو پابند کیا جائے کہ وہ 16 برس سے کم عمر نوجوانوں کو سوشل میڈیا استعمال کرنے کی اجازت نہ دیں۔ واضح رہے کہ یہ بِل فی الوقت صرف سینیٹ میں پیش کیا گیا ہے اور اسے قانون میں تبدیل کرنے کے لیے اسے سینیٹ اور قومی اسمبلی دونوں سے منظوری کی ضرورت ہو گی۔اس بِل کے مطابق حدِ عمر کی خلاف ورزی کرنے والے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو 50 ہزار سے 50 لاکھ روپے تک جُرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بِل میں 16 برس سے کم عمر افراد کو سوشل میڈیا اکاؤنٹ بنانے میں مدد دینے والے افراد کے لیے بھی چھ مہینے تک کی قید اور 50 ہزار سے 50 لاکھ تک جُرمانے کی سزا تجویز کی گئی ہے۔بِل کے مطابق پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے پاس یہ اختیارات ہونے چاہییں کہ وہ 16 برس سے کم عمر نوجوانوں کے موجودہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس بلاک کر سکے۔بِل پیش کرنے والے دونوں سینیٹرز نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ ایسی علامات موجود ہیں کہ سوشل میڈیا نوجوانوں پر منفی اثرات ڈال رہا ہے اور اس بِل کا مقصد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو پابند بنانا ہے کہ وہ بِل میں درج شدہ عمر سے کم عمر صارفین کو اکاؤنٹس بنانے کی اجازت نہ دیں۔ مذکورہ دونوں سینیٹرز کے مطابق ایسے قوانین پہلے ہی نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا جیسے ممالک میں نافذ العمل ہیں۔آسڑیلیا میں گذشتہ برس 16 سال سے کم عمر افراد پر ٹک ٹاک، فیس بک، انسٹاگرام اور ایکس جیسے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے استعمال پر پابندی عائد کرنے کا قانون پاس کیا گیا تھا۔اس قانون میں سوشل میڈیا کمپنیوں سے کہا گیا تھا کہ وہ 16 سال سے کم عمر نوجوانوں کو اپنے اکاؤنٹس بنانے سے روکنے کے لیے مناسب اقدامات کریں۔تاہم تاحال اس قانون کے نافذ العمل ہونے کے حوالے سے آسٹریلیا میں خدشات موجود ہیں اور نومبر میں بننے والے اس قانون پر تاحال عمل درآمد نہیں ہو پایا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ سوشل میڈیا کمپنیوں کے لیے صارفین کی درست عمر کا تعین کرنے کے لیے اقدامات متعارف کروانا ہے۔ ادھر طانوی ادارے چائلڈ ایکسپلوئٹیشن اینڈ آن لائن پروٹیکشن کمانڈ کے مطابق زیادہ تر مقبول سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر صارفین کے لیے کم سے کم حدِ عمر 13 برس مقرر کی گئی ہے۔ ماہرین کو موجودہ حالت میں اس بِل کا نفاذ مشکل نظر آتا ہے۔ اس طرح کی قانون سازی ’خواہشات کی ایک فہرست‘ کی طرح نظر آتی ہے اور ’اس طرح کے نکات ہم نے سوشل میڈیا رولز 2021 میں بھی دیکھے تھے جس میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو پاکستان میں دفاتر قائم کرنے کا پابند بنایا گیا تھا لیکن ایسا نہیں ہو سکا ایسا کرنے کی کوششیں برسوں سے ہو رہی ہیں لیکن ضروری نہیں کہ قانون بنانے سے ایسا ہو بھی جائے گا۔ ہر چیز کو حکام سزاؤں کی راہ اپناتے ہیں جیسا کہ جرمانے اور دیگر سزائیں ، بِل میں پی ٹی اے کو سوشل میڈیا اکاؤنٹس بلاک کرنے کے اختیارات دینے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ پاکستان نے سائبر کرائم کی روک تھام کے لیے حال ہی میں نیشنل سائبر کرائم انویسٹیگیشنز ایجنسی (این سی سی آئی اے) نامی نیا ادارہ قائم کیا ہے پاکستان میں پیکا قانون کے مطابق سوشل میڈیا کے معاملات پی ٹی اے نہیں بلکہ ایک نئے ادارے کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔اس بِل کو دیکھ کر لگتا ہے جیسے کہ اسے بنا سوچے سمجھے بنایا گیا ہے۔ آئی ٹی قوانین پر مہارت رکھنے والے وکیل حسن نیازی کہتے ہیں کہ اس بِل کو نافذ کرنے کے لیے پاکستان کے پاس صرف ایک آپشن ہے کہ وہ ’ان کمپنیوں کو ملک میں بلاک کرنے کی دھمکی دے۔ جُرمانے جیسی روایتی سزاؤں کے ذریعے اس بِل کا اطلاق ممکن نہیں نظر آتا کیونکہ اس کے لیے آپ کو امریکہ جیسے ممالک میں بھی اپنے دعوے دائر کرنے پڑیں گے، وہ مزید کہتے ہیں کہ انھیں نہیں لگتا کہ سوشل میڈیا کمپنیاں اس قانون پر عمل کریں گی کیونکہ اس کے لیے انھیں اپنی پروڈکٹس میں بہت تبدیلیاں کرنی پڑیں گی ، پاکستان ان کے لیے اتنی بڑی مارکیٹ نہیں ہے اور اس کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کریں گے۔
