28

“المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ” کا روہنگیا مسلمانوں کیلئے ریلیف پراجیکٹ کا 13واں سال

انتہائی خطرناک علاقوں اور مخدوش حالات کے باوجود ینگون شہر کے دور دراز علاقوں میں امدادی پراجیکٹس مکمل کئے
اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسے المیہ اور نسل کشی قرار دیا ہے
بارہ لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو اپنے وطن سے بے دخل کر دیا گیا ہے جو اب کیمپوں میں کسمپرسی کی حالت میں ہیں
“المصطفیٰ” کی ٹیم نے چیئرمین کی قیادت میں دس روز تک ینگون میں قیام کیا، ہسپتال کا دورہ بھی کیا

وجاہت علی خان
میانمار، ینگون

“المصطفیٰ ویلفیئرٹرسٹ” کے زیر اہتمام گزشتہ 13 سال سے روہنگیا کے بے بس و بے سہارا مسلمانوں کے لئے جاری ریلیف پراجیکٹ کے سلسلہ میں ایک اور مرحلہ مکمل کر لیا گیا ہے، پچھلے دس روز سے “المصطفی” کی امدادی ٹیم ینگون (رنگون) میں تھی جس نے کئی ایک مختف علاقوں میں ضرورتمندوں اور بے سہارا افراد تک نقد رقوم، فوڈ پیک، پکایا ہو کھانا اور میڈیکل ایڈ پہنچائی، یاد رہے کہ روہنگیا مسلمان برما (میانمار) کی سب سے زیادہ مظلوم اقلیتوں میں سے ہیں، میانمار کی حکومت انہیں اپنا “شہری” تسلیم نہیں کرتی بلکہ “غیر قانونی بنگلہ دیشی” کہتی ہے، حالانکہ وہ صدیوں سے برما میں آباد ہیں لیکن 2012 خاص طور پر 2017 میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کے دوران لاکھوں روہنگیا مسلمانوں کو ان کے گھروں سے نکال دیا گیا، خواتین کی عصمت دری،لوگوں کو زندہ جلائے جانے،گھروں ومساجد کو جلانےاور اجتماعی ہجرت پر مجبور کرنے جیسے مظالم ڈھائے گئے، اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس کو نسل کشی (Genocide) قرار دیا ہے اس وقت اندازاً بارہ لاکھ سے زیادہ روہنگیا مسلمان اپنے ہی وطن میانمار سے بے دخل ہوکر زیادہ تر بنگلہ دیش کے کیمپوں میں پناہ گزین ہیں، جبکہ کچھ تھائی لینڈ، ملائیشیا اور دیگر ممالک بھی پہنچے ہیں “المصطفی ویلفئر ٹرسٹ” کے چیئرمین عبدالرزاق ساجد کے مطابق 2016 سے اب تک “المصطفی” کی ٹیم نے بنگلہ دیش کے اُن علاقوں کے بھی کئی وزٹ کئے ہیں جہاں روہنگیا سے بے دخل ہونے والے مسلمان مشکل ترین اور مخدوش حالات میں خیمہ بستیوں میں زندگی گُزارنے پر مجبور ہیں، “المصطفی” کی ٹیم کو حالیہ دورہ میں بتایا گیا کہ روہنگیا مسلمانوں کے لئے فنڈنگ کی شدید کمی ہے لاکھوں روہنگیا مہاجر ین کو کیمپوں میں بنیادی ضروریات کے ضمن میں مشکلات کا سامنا ہے خوراک، رہائش، تعلیم اور صحت کی سہولیات محدود ہیں، امدادی تنظیمیں خبردار کر رہی ہیں کہ اگر مالی تعاون کم ہوا تو یہ صورتِ حال مزید بگڑ جائے گی، حال ہی میں لاجِستک منصوبہ برائے 2025–26 بنگلہ دیش اور اقوامِ متحدہ نے شروع کیا ہے جس کا مقصد 2025 میں تقریباً ڈیڑھ ملین افراد کو امداد پہنچانا ہے، جس کے لیے کوئی 1000 ملین ڈالر درکار ہیں اس کے تحت نئے آنے والوں کی شناخت، خوراک، پانی، صحت، پناہ گاہ، اور تعلیمی خدمات شامل ہیں، بنگلہ دیش وہ ملک ہے جہاں سب سے زیادہ روہنگیا مہاجر پناہ گزیں ہیں تقریباً 1.1 ملین سے زائد افراد وہاں مقیم ہیں، زیادہ تر کوکس بازار ضلع کے کیمپوں میں موجود ہیں جہاں 2016 سے آج تک “المصطفی” کئی بار ریلیف مشن بھیج چکی ہے، دیگر ممالک جیسے ملائیشیا، انڈیا، تھائی لینڈ میں بھی پناہ گزین موجودہیں، اس سلسلہ میں میانمار نے اس سال اپریل 2025 میں اعلان کیا تھا کہ بنگلہ دیش کی طرف سے پیش کی گئی فہرست کے مطابق تقریباً 180,000 روہنگیا پناہ گزین “واپسی کے اہل” قرار دیے گئے ہیں، اگرچہ بقیہ افراد کی تصدیق ابھی باقی ہے مگر واپسی کا عمل عملی میدان میں رکاوٹوں کا شکار ہے ایک تو میانمار کے اندر سلامتی، جغرافیائی کنٹرول اور سیاسی استحکام کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے دوسرا یہ کہ روہنگیا خود بھی اپنی حفاظت، شہریت و حقوق کی ضمانت چاہتے ہیں، دوسری طرف میانمار میں بھی راخین ریاست میں جنگ بندی نہیں ہو رہی اور عسکری جھڑپیں جاری ہیں اور ایک عسکری تنظیم نے ریاستِ راخین کے کئی اضلاع پر کنٹرول حاصل کیا ہے، جن میں بارڈر ٹاؤن شپ (ماونگ داو) شامل ہیں، اس پریشانی کی بنا پرحتیٰ کہ وہ علاقے جہاں واپسی ممکن سمجھی جاتی تھی اب تنازع کی زد میں ہیں، جس سے واپسی کے منصوبوں کو مزید پیچیدہ بنادیا ہے،مہاجر کیمپوں سے یا میانمار ساحل سے روہنگیا افراد خطرناک سمندری راستے اختیار کرتے ہیں اسی سال کے دوران دو الگ کشتی حادثات میں ممکنہ طور پر 400 سے زائد افراد جاں بحق یا لاپتا ہوئے، بے روزگاری،خوراک کی قلت، اور غیر یقینی مستقبل انہیں مزید خطرناک راستے اپنانے پر مجبور کرتی ہے، بنگلہ دیش کے مہاجر کیمپوں میں سیکورٹی کی صورتِ حال بھی پیچیدہ ہے روزانہ کی بنیاد پر تشدد، جرائم، انسداد دہشت گردی کے الزامات، اور انسانی حقوق کی پامالی کے کیسز سامنے آتے ہیں جس پر بین الاقوامی ادارے اور تنظیمیں بار بار خبردار کرتی ہیں کہ اگر عالمی معاونت کم ہوئی تو یہ مہاجر کمیونٹیز شدید خطرے میں پڑ سکتی ہیں، “المصطفی ویلفئر ٹرسٹ” نے اپنے حالیہ ریلیف ایفرٹ وزٹ میں نا صرف روہنگیا مسلمانوں بلکہ دیگر ایسی کمیونٹیز جن کے حالات غربت کی وجہ سے ناگفتہ بہ ہیں اور جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے اُن کی بھی بلا امتیاز ہر ممکن مدد کی ہے “المصطفی” ٹیم نے ینگون (رنگون) میں موجود ایک ہسپتال کا دورہ بھی کیا اور مختلف وارڈز کے دورے کے دوران زیر علاج مستحق مریضوں کی مالی مدد کے علاوہ ہسپتال کی انتظامیہ کی مالی مدد کے ساتھ ساتھ “ایم او یو” بھی سائن کئے جن کے تحت اُنہیں ادویات اور جدید مشینری کے صورت امداد فراہم کی جائے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں