409

حضرت عائشہؓ کا حسن سلوک اور ایثار


اخلا ق کی دو اقسام ہیں فضائل اخلاق اور رزائل اخلاق ، اخلاق عالیہ میں حق گوئی، دیانت داری، نرمی، ظلم سے پرہیز ، صبر ، تقویٰ ، پرہیز گاری ، ایفائے عہد حسن سلوک ، خوش گفتاری ، شکرڑ ، توکل ،خدا خوفی ،احسان اور انصاف پسندی وغیرہ شامل ہیں۔ جبکہ رزائل اخلاق میں جھوٹ ،چوری، غیبت ، ظلم، بددیانتی ، ناشکری، بدکرداری، وعدہ خلافی، بدزبانی، بےصبری وغیرہ شامل ہیں۔ حضرت عائشہ کی ذات مبارکہ ان تمام صفات سے عاری تھی جن کو رزائل اخلاق کہا جاتا ہے۔جبکہ اخلاق عالیہ آپ کی ذات مبارکہ میں کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دنیا میں جس شخص کی ہمراہی سے نوازا تھا اس کا اخلاق سب سے اعلیٰ تھا ۔ جس کے اعلیٰ اخلاق کی ضمانت خود قرآن دیا کرتا تھا] نبی اکرم ؐ کے ساتھ نے حضرت عائشہ کی ذات مبارکہ میں ان تمام اخلاق حسنہ کو جمع کر دیا تھا جو کہ خود نبی کریم ؐ کی ذات مبارکہ میں موجود تھے۔ لہذا حضرت عائشہ نہ صرف اخلاق عالیہ کا ایک اعلی نمونہ تھیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے یہ اخلاق عالیہ مسلمان مردوں اور خصوصا خواتین کے اندر بھی اجاگر کرنے کی کوشش کی۔جیسا کہ حضرت عائشہ سے مروی ایک روایت میں بیان ہوتا ہے حضرت عائشہ نہ صرف خود نرم خو تھیں بلکہ وہ دوسروں کو بھی اس کی تلقین کیا کرتی تھیں۔وہ چاہتی تھیں کہ مسلمان خواتین اپنے مزاج سے سختی کو ختم کر دیں، کیونکہ سختی انسان نہ صرف انسانوں کے مابین دوری پیدا کرتی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ تکلیف کا باعث بھی بنتی ہے
حضرت عائشہ نرمی کے حق میں اس لیے بھی تھیں کہ وہ جانتی تھیں کہ اللہ کے رسول ؐ اس بات کی دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ جو میری امت کے ساتھ سختی کرے تو بھی اس کے ساتھ سختی کر اور نرمی کرنے والے کے ساتھ نرمی کا معاملہ رکھ۔جیساکہ ایک روایت میں کچھ یوں بیان ہوتا ہے
حضرت عائشہ مسلمان خواتین کو والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی تلقین کیا کرتی تھیں ۔کیونکہ ایسا کرنے والے انسان دنیا و آخرت دونوں میں کامیا ب ہو جاتا ہے ۔جیسا کہ حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا میں جنت میں داخل ہوا تو وہاں قرآن کریم کی تلاوت کی آواز سنائی دی، میں نے پوچھا یہ کون ہے؟ مجھے بتایا گیا کہ یہ حارثہ بن نعمان ہیں ، تمہارے نیک لوگ اسی طرح کے ہوتے ہیں دراصل وہ اپنی والدہ کے ساتھ بڑا اچھا سلوک کرتے تھے۔
والدین کے ساتھ ساتھ اولاد کے ساتھ اچھا سلو ک کرنا بھی انسان کے لیے بہت ضروری ہے۔ جو والدین اپنی ذات پر اپنی اولاد کو ترجیح دیتے ہیں ان کی اس صلہ رحمی کی بدولت اللہ تعالی انھیں اپنے عذاب سے دور کر دیتا ہے یعنی ان کا یہ عمل ان کے لیے جہنم سے آڑ بن جایا کرتا ہے۔کیونکہ حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ ایک عورت ان کے پاس آئی اس کے ساتھ اس کی دو بیٹیاں بھی تھیں۔ انہوں نے اس عورت کو ایک کھجور دی اس نے اس کھجور کے دو ٹکڑے کر کے ان دو بچیوں میں اسے تقسیم کر دیا۔ اور خود کچھ نہ کھایا۔ حضرت عائشہ نے نبی کریم ؐ سے اس کا تذکرہ کیا تو نبی کریم ؐ نے فرمایا : جس شخص کی ان بچیوں سے آزمائش کی جائے اور وہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرے تو یہ اس کے لیے جہنم سے آڑ بن جائیں گی۔لہذا حضرت عائشہ مسلمان خواتین کو تلقین کیا کرتی تھیں کہ وہ اپنی اولادکے ساتھ اچھا سلوک کریں ۔
حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میرے پاس ایک مسکین عورت اپنی دو بچیوں کو اٹھائے میرے پاس آئی میں نے اسے تین کھجوریں دیں اس نے ان میں سے ہر بچی کو ایک ایک کھجور دی اور ایک کھجور خود کھانے کے لیے اپنے منہ کی طرف بڑھائی لیکن اسی وقت اس کی بچیوں نے اس سے مزید کھجور مانگی تو اس نے اسی کھجور کو دو حصوں میں تقسیم کرکے انھیں دے دیا ۔مجھے اس واقعے پر بڑا تعجب ہوا میں نے نبی ؐ سے بھی اس واقعے کا تذکرہ کیا تو نبی ؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اس عورت کے لیے اس بناء پر جنت واجب کر دی اور اسے جہنم سے آزاد کر دیا۔
حضرت عائشہ صرف رشتہ داروں کے ساتھ ہی اچھا سلوک کرنے کی تلقین نہیں کیا کرتی تھیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ دیگر لوگوں کے ساتھ بھی اچھے سلوک کا حکم دیتی تھیں۔ خاص طور پر ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھنے کی تلقین کیا کرتی تھیں۔حضرت عائشہ سے مروی ہے:
“میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جبرائیل علیہ السلام مجھے ہمیشہ پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی نصیحت کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے گمان کیا کہ وہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے۔
اسلام دوسروں کے ساتھ بھلاسلوک کرنے اور ان کاحق ادا کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کے ماننے والے ایک دوسرے کے ساتھ احسان کے رشتے میں بند ھ جائیں ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں نہ کہ ایک دوسرے پر ظلم کریں ۔حضرت عائشہ بھی مسلمان خواتین کو ایک دوسرے کے ساتھ نیک او ربھلا سلوک کرنے کی تلقین کیا کرتی تھیں۔ وہ کہتی تھیں کہ نبی کریم ؐ ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ احسان کا معاملہ کریں ۔اگر کوئی ہم پر احسان کرے تو ہم اس کے احسان کا بدلہ احسان سے ادا کرنے کی کوشش کریں۔ اگر ہم یوں نہ کر پائیں تو پھر ہمیں چاہیے کہ کم از کم ہم اس انسان کو اچھے لفظوں میں یاد کریں جس نے ہم پر احسان کیا ہو۔جیساکہ روایت میں بیان ہوتا ہے:
“حضرت عائشہ سے مروی ہے : نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے کسی سے کوئی احسان کیا ہو تو اسے اس کا بدلہ اتارنا چاہیے۔اور جو شخص ایسا نہ کر سکے وہ اس کا اچھے انداز میں ذکر ہی کر دے کیونکہ اچھے انداز میں ذکر کرنا بھی شکریہ ادا کرنے کی طرح ہے۔ اور جو شخص ایسی چیز سے اپنے آ پ کو سیراب ظاہر کرتا ہو جو اسے حاصل نہ ہو تو وہ جھوٹ کے دو کپڑے پہننے والے کی طرح ہے۔
ایثار اور قربانی
حضرت عائشہ کا خواتین کی اخلاقی تعلیم و تربیت کا ایک اہم پہلو یہ بھی تھا کہ آپ انھیں دوسرو کو خود پر ترجیح دینے کا حکم دیا کرتی تھیں۔ حضرت عائشہ کا اپنا طرز عمل بھی ایسا ہی تھا کہ وہ دوسروں کو خود پر ترجیح دیتی تھیں چاہے وہ چیز انھیں کتنی ہی عزیز کیوں نہ ہو۔جب حضرت عمر فاروق کو زخمی کر دیا گیا تو انھوں نے حضرت عائشہ سے ان کے حجرہ مبارک میں نبی کریم ؐ اور حضرت ابوبکر صدیق کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت مانگی ۔ حضرت عائشہ کی اگرچہ اس جگہ دفن ہونے کی شدید خواہش تھی پھر بھی انھوں نے حضرت عمر فاروق کو خود پر ترجیح دی اور انھیں اس جگہ دفن ہونے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ حدیث مبارکہ میں بیان ہوتا ہے
“ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہہ کے پاس جاؤ اور ان سے عرض کرو کہ عمر رضی اللہ عنہا نے آپ کی خدمت میں سلام عرض کیا ہے ۔ امیرالمؤمنین ( میرے نام کے ساتھ ) نہ کہنا ، کیونکہ اب میں مسلمانوں کا امیر نہیں رہا ہوں ، تو ان سے عرض کرنا کہ عمر بن خطاب نے آپ سے اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت چاہی ہے ۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہانے ( عائشہ رضی اللہ عنہہ کی خدمت میں حاضر ہو کر ) سلام کیا اور اجازت لے کر اندر داخل ہوئے ۔ دیکھا کہ آپ بیٹھی رو رہی ہیں ۔ پھر کہا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہانے آپ کو سلام کہا ہے اور اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت چاہی ہے ، عائشہ رضی اللہ عنہہ نے کہا : میں نے اس جگہ کو اپنے لیے منتخب کر رکھا تھا لیکن آج میں انہیں اپنے پر ترجیح دوں گی۔ ، جب عمر رضی اللہ عنہا کی وفات ہو گئی تو ہم وہاں سے ان کو لے کر ( عائشہ رضی اللہ عنہہ) کے حجرہ کی طرف آئے ۔ ام المؤمنین نے کہا انہیں یہیں دفن کیا جائے ۔ چنانچہ وہ وہیں دفن ہوئے۔
مساوات و برابری بھی اخلاق عالیہ کا جزو ہیں۔ یہ ظلم و زیادتی اور اقربا پرستی کی ضد ہیں۔ اسلام جس معاشرے کو تشکیل دینا چاہتا ہے مساوات اور برابری اس کا لازمی جزو ہیں۔ حضرت عائشہ بھی مسلمان خواتین کو برابری اور مساوات کی تلقین کیا کرتی تھیں۔ وہ فرماتی تھیں کہ نبی کریم ؐ کسی کو بھی اس کے معاشرتی رتبے کی بناء پر درجہ عطا نہیں کیا کرتے تھے بلکہ ان کی نظر میں سب برابر ہوتے تھے۔ یہ مساوات اور برابری صرف معاشرتی نہیں تھی بلکہ قانونی بھی تھی اوراسلامی معاشرے میں قانون کی نظر میں سب برابر ہوتے تھے۔ اس لیے وہ مسلمان خواتین کو نبی کریم ؐ سے منسوب ایک واقعہ سنایا کرتی تھیں جو کہ قانون مساوات کی ایک بڑی اچھی مثال تھی۔وہ فرماتی ہیں
“بنی مخزوم کی ایک عورت نے چوری کر لی تھی ۔ قریش نے ( اپنی مجلس میں ) سوچاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس عورت کی سفارش کے لیے کون جا سکتا ہے ؟ کوئی اس کی جرات نہیں کر سکا ، آخر حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے سفارش کی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بنی اسرائیل ہیں یہ دستور ہو گیا تھا کہ جب کوئی شریف آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور اگر کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو اس کا ہاتھ کاٹتے ۔ اگرآج فاطمہ ( رضی اللہ عنہا ) نے چوری کی ہوتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹتا ۔
حضرت عائشہ خوف خدا کی شدت اورکسر نفسی کا ایک بہترین نمونہ تھیں۔ یہاں تک کہ جب حضرت عائشہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو فرمانے لگیں: کاش میں پیدا ہی نہ ہو ئی ہوتی، کاش میں ایک درخت ہوتی ، کہ اللہ کی پاکی میں رطب اللسان رہتی اور پوری طرح سے اپنی ذ مہ داری سے سبکدوش ہو جاتی۔
حضرت عائشہ مسلمان خواتین کو تقوی اور پرہیز گاری اختیار کرنے کا حکم دیا کرتی تھیں۔ وہ سمجھتی تھیں کہ دنیا کی زندگی چند روزہ ہے لہذا یہاں کی آسائشوں کے حصول میں جت جانے کی بجائے ہمیں خدا ، اس کے رسول ؐ اور آخرت کو دنیاوی آسائشوں پر ترجیح دینا چاہیے ۔ بذات خود حضرت عائشہ کا اپنا عمل بھی یہی تھا۔ آ پ نے نہایت سادہ زندگی بسر کی تھی۔کھانا بہت سادہ ہوا کرتا تھا۔ بلکہ اکثر یوں ہوتا کہ گھر میں کھانے کو کچھ موجود نہ ہوتا۔حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ بعض اوقات ہم پر کئی کئی مہینے اس حال میں گزر جاتے کہ نبی کریم ؐ کے کسی گھر میں آگ نہیں جلتی تھی، عروہ کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا خالہ جان: پھر آپ لوگ کس طرح گزارہ کرتے تھے؟ انھوں نے کہا دو سیاہ چیزوں یعنی پانی اور کھجور-

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں