331

ماہ شعبان اور اس کی اہمیت


’’شعبان‘‘ اسلامی سال کا آٹھواں مہینہ ہے‘جو اپنی رحمتوں، برکتوں اور سعادتوں کے اعتبارسے ماہ رمضان کیلئے پیش خیمہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس مہینے میں رمضان المبارک کے استقبال، اس کے سایہ فگن ہونے سے قبل ہی اس کی مکمل تیاری اور مختلف ضروری امور سے یکسوئی کا بھرپور موقع ملتا ہے۔ یہ وہ قابل قدر مہینہ ہے جس کی نسبت حضور اکرمؐ نے اپنی طرف فرمائی اور اس میں خیرو برکت کی دعا فرمائی۔ نیز اس ماہ کو اعمال کی پیشی کا مہینہ قرار دیا اور امت کی اس سے غفلت و بے توجہی کی پیشین گوئی دی۔
یہی وہ مبارک مہینہ ہے جس میں آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دیرینہ تمنا پوری ہوئی اور تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا،تیمم سے متعلق احکام کا نزول اسی مہینے میں ہوا،تاریخ اسلام کا عظیم غزوہ غزوۂ بنو المصطلق اسی ماہ میں پیش آیا، اسی مہینے میں آپ علیہ الصلوۃ و السلام نے حضرت حفصہؓ اور جویریہ ؓ سے نکاح فرمایا،
شعبان تشعب سے ماخوذ ہے اور تشعب کے معنیٰ تفرق (پھیلنے اور عام ہونے) کے ہیں،چونکہ اس ماہ میں خیر کثیر پھیل جاتا ہے اس لئے اس کو شعبان کہاجاتاہے یا اس مہینے میں اہل عرب حرمت والیا آخری مہینے رجب المرجب کے بعدلوٹ مار کے لیے منتشر ہو جاتے تھے۔ اس مناسبت سے اس کو شعبان کہتے تھے۔اس مہینے میں آپ ؐکی دیرینہ تمنا پوری ہوئی اور تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا۔ اسی مہینے میں تاریخ اسلام کا عظیم غزوہ ، غزوۂ بنو المصطلق پیش آیا، اسی مہینے میںآپ ؐنے حضرت حفصہؓ اور جویریہ ؓ سے نکاح فرمایا، تیمم سے متعلق احکام کا نزول اسی مہینے میں ہوا۔ اسی مہینے میں حضرت حسین بن علیؓ ،حضرت زین العابدین اور حضرت ابوالفضل عباس کی ولادت ہوئی اور صحابہ و تابعین میں حضرت مغیرہؓ،حضرت انسؓ‘ حضرت عرباضؓ اور امام ابوحنیفہؓ کی وفات ہوئی۔
حضرت عائشہ ؓسے مروی ہے کہ آنحضرتؐ جب روزے رکھنا شروع فرماتے تو ہم کہتے کہ آپؐ اب روزہ رکھنا ختم نہ کریں گے اور جب کبھی آپؐ روزہ نہ رکھنے پہ آتے تو ہم یہ کہتے کہ آپ ؐ اب روزہ کبھی نہ رکھیں گے۔ میں نے آنحضرت ؐ کو رمضان شریف کے علاوہ کسی اور مہینہ کے مکمل روزے رکھتے نہیں دیکھا اور میں نے آنحضرت ؐ کو شعبان کے علاوہ کسی اور مہینہ میں کثرت سے روزہ رکھتے نہیں دیکھا۔ (صحیح البخاری:رقم الحدیث:1969، صحیح مسلم:رقم الحدیث 1156)
یہاں پورے شعبان کے روزے رکھنے سے مراد یہ ہے کہ آپؐ اکثر شعبان کے روزے رکھا کرتے تھے، کیونکہ بعض مرتبہ اکثر پر’’کل‘‘ کا اطلاق کر دیا جاتا ہے۔
بعض دیگر احادیث میں شعبان کے آخری دنوں میں روزہ رکھنے سے منع بھی فرمایا گیا ہے، تاکہ اس کی وجہ سے رمضان المبارک کے روزے رکھنے میں دشواری نہ ہو۔ (بخاری، کتاب الصوم۔ مسلم، کتاب الصیام)
۲- حضرت عائشہ صدیقہؓ کی روایت میں ہے کہ: پورے سال میں مرنے والوں کی فہرست اسی مہینے میں ملک الموت کے حوالے کی جاتی ہے۔ اس لیے آپ ؐ یہ چاہتے تھے کہ جب آپؐ کی وفات کے بارے میں ملک الموت کو احکام دیئے جائیں تو اس وقت آپؐ روزے سے ہوں۔ (معارف الحدیث: ۴/۱۵۵)
۳- رمضان المبارک کے قریب ہونے اور اس کے خاص انوار وبرکات سے مناسبت پیدا کرنے کے شوق میں آپؐ شعبان کے مہینہ میں روزے کا اہتمام کثرت سے فرماتے تھے۔
خیبرپختونخوا میں شجرکاری مہم شروع، وزیراعلی محمود خان نے پودا لگا کر افتتاح کیا
یوں تومکمل ماہِ شعبان مختلف جہتوں سے برکتوں اورسعادتوں کا مجموعہ ہے، خصوصاً اس کی پندرہویں رات جس کو شبِ برآت اور لیلتہ مبارکہ کہتے ہیں، باقی شعبان کی راتوں بلکہ تمام سال کی اکثر راتوں سے افضل ہے۔ ایک اور روایت حضرت عائشہ ؓ ہی سے مروی ہے کہ آپ ؓ نے فرمایا: (اے عائشہ!) کیا تمہیں معلوم ہے کہ اس رات یعنی شعبان کی پندرھویں رات میں کیا ہوتا ہے؟حضرت عائشہؓ نے عرض کیا: یا رسولؐ اللہ! اس میں کیا ہوتا ہے؟ تو آپ ؐ نے فرمایا:اس سال جتنے انسان پیدا ہونے والے ہوتے ہیں وہ اس رات میں لکھ دیے جاتے ہیں اور جتنے لوگ اس سال میں مرنے والے ہوتے ہیں وہ بھی اس رات میں لکھ دیے جاتے ہیں۔ اس رات بنی آدم کے ا عمال اٹھائے جاتے ہیں اور اسی رات میں لوگوں کی مقررہ روزی اترتی ہے۔ (مشکوۃ المصابیح: رقم الحدیث1305)
اللہ کے رسولؐ شعبان کے مہینے میں صحابہ کرامؓ کو اکٹھاکرتے اورخطبہ دیتے جس میں انہیں رمضان کے فضائل ومسائل بیان کرتے، رمضان کی عظمت و اہمیت کے پیش نظر اس کی تیاری کے سلسلے میں توجہ دلاتے۔اسی لئے ہم ماہ مبارک کی آمد سے پہلے پہلے اس کے مقام، اس کی عظمت، اس کی فضیلت، اس کے مقصد اوراس کے پیغام کو اپنے ذہن میں تازہ کریں تاکہ اس کی برکات سے بھرپور فائدہ اٹھاسکیں اوراس بات کا پختہ ارادہ کریں کہ ہم اس ماہ مبارک میں اپنے اندر تقوی کی صفت پیدا کرنے کی کوشش کریں گے جو روزہ کامقصدہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں