350

مذہبی انتہا پسندی اور پورپ

یورپ کے بیشتر ممالک اور برطانیہ کثیر الثقافت معاشرے ہونے کی شہرت رکھتے ہیں ا ور مجموعی طور پر لاکھوں کی تعداد میں دنیا کے مختلف ممالک سے آنے والے مسلمان بھی یہاں آیاد ہیں لیکن انتہائی قابل افسوس بات یہ ہے کہ یہاں جب کبھی کوئی دہشت گردی کا واقعہ ہو تو تفتیش کے بعد اس کی ذمہ داری کا قرعہ فال مسلمانوں کے نام نکلتا ہے یقینا اس خیال آرائی میں بھی وزن ہے کہ ہر عمل کا ردعمل بھی ہو تاہے کہ اگر دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ زیادتیاں ہوں گی تو کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی صورت بدلے کی خواہش پنپتی رہے گی لیکن ایک سادا سوال صرف اتنا ہے کہ جب ہم ان مغربی معاشروں میں مستقل طور پر قیام پذیر ہیں تو پھر ہمیں یہاں بنائے گئے قوانین کو پوری طرح ماننا اور یہاں قائم اخلاقی و تہذیبی قدروں کو اپنی روز مرہ کی زندگیوں کا حصہ بھی بنانا چاہیے اورچھوٹی چھوٹی باتوں پر اپنے معاندانہ رویوں اور بے معنی کے مطالبات پر انتہا پسندانہ سوچ کو ترک کرنا ہی ہمارے لئے زیادہ ثمر آور ثابت ہوسکتا ہے ، مثال کے طور پر یہ ایک خوامخواہ کی ضد ہے کہ ہماری خواتین ایسے برقعے اور نقاب ضرور پہنیں گی جن سے ان کی شناخت ظاہر نہ ہو ، مغرب میں رہنے والے مسلمان جانتے ہیں کہ گاڑی چلاتے اور دیگر معمولات زندگی کی انجام دہی کے دوران ہمہ وقت پولیس یا کسی اور جگہ شناخت ظاہر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس معاملے میں بھی ہمارے رویے سمجھ سے بالا تر ہوتے ہیں۔

شاید یہ 2003ء تھا جب اس وقت کے صدر پاکستان پرویز مشرف نے اندرون پاکستان اور بیرون پاکستان مسلمانوں کے ایسے ہی معاملات کے مدِنظر ملک بھر سے کوئی ایک سو کے قریب علما و مشائخ اورمذہبی سکالرز کا ایک نمائندہ اجلاس اسلام آباد میں طلب کیا تھا اور ملک و قوم اور برطانیہ یورپ سمیت اُمت مسلمہ کو درپیش مسائل اور انتہاپسندانہ رویوں کے موضوع پر ایک مقالمہ کیا تھا اور مسلمانوں کی اصلاح کی ضرورتوں پر زور دیا تھا اور علما و مشائخ کو تلقین بھی کی تھی کہ اپنے خطبوں ، واعظوں اورتقاریر میں فرقہ وارانہ شدت پسندی ، مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی جیسی خرابیوں کے خلاف جہاد کریں اس موقع پر امت مسلمہ کی پسماندگی کا ذکر بالعموم اور پاکستان میں انتہا پسندانہ سوچ کے خاتمے جیسے درپیش چیلنجوں کا ذکر بالخصوص کیا تھا اور کہا تھا کہ جب تک ہم مذہبی اور فرقہ ورانہ شدت پسندی سے نجات حاصل نہیں کریں گے پاکستان مستحکم ہو سکتا ہے نہ امن و امان کی حالت بہتر ہو سکتی ہے اور نہ ہی دُنیا میں ہمارا امیج قابل رشک ہو سکتا ہے ۔ ہمارے جاری رویوں کی وجہ سے ہماری توجیحات اور توانائیاں علمی ، اقتصادی ، معاشرتی اور تعلیمی دائروں میں اصلاح اور ارتقاپر مرکوز ہونا انتہائی مشکل ہے، افسوس کہ پرویز مشرف کے بعد کسی حکمران نے پاکستان میں اس بنیادی مسئلہ پر سیر حا صل تو دور کی بات معمولی گفتگو بھی نہیں کی، یہی وجہ ہے کہ جوں جوں دُنیا سائنسی ترقی کے درجات طے کر رہی ہے مسلمانوں کی انتہا پسندی بھی اسی سرعت کے ساتھ کم ہونے کی بجائے بڑھتی چلی جا رہی ہے ۔
آج کی دنیا 50سال پہلے والی دنیا نہیں ہے ایک کونے سے دوسرے کونے تک آج کے اس ’’عالمی گائوں ‘‘ میں کسی کی کوئی حرکت مخفی نہیں رہ سکتی ، کسی بھی خطے یا علاقے میں رونما ہونے والے ہر واقعہ کا اثر و تذکرہ پلک جھپکتے ہی شوشل میڈیا کے ذریعے سب سے پہلے فی الفور ہو جاتا ہے اور اس کی مثبت و منفی اثرات بلاتاخیر مرتب ہوتے ہیں چنانچہ ہمارے تمام و اعظ ، مفتی، عالم و مذہبی سکالرز ، سماجی رہنما یا سیاسی لیڈر کوئی نہیں بتاتا کہ مسلمان ایسی حرکتوں سے گریز کریں جن کے ارتکاب سے اسلام ، پاکستان اور مسلمانوں کی بدنامی ہو، اس حقیقت کو مغربی ملکوں میں رہنے والے مسلمانوں کیلئے خاص طور پر سمجھنے کی ضرورت دو چند ہے کہ آج کی دُنیا 9/11سے پہلے کی دُنیا سے یکسر مختلف ہے اس ایک واقعہ سے اس پوری دنیا کی جو صور نگری کی ہے وہاں بے وجہ کی ضد اور انتہا پسندانہ رویوں کی گنجائش ہے اور نہ جگہ لہٰذا اس بات کو کلی طور پر سمجھنے اور اس پر عمل کی اشد ضرورت ہے کہ مذہبی و مسلکی اور فقہی شدت پسندی سے اجتناب ہی ہمارے لئے امن و آشتی کی ضمانت ہے ۔ یہ ایک قابل افسوس سچ ہے کہ صدیوں سے مسلمان بشمول پاکستان کے عوام ایسے اہل مذہب سے دین کا فہم اور دینی اقدار کا سبق حاصل کر رہے ہیں جن کا اپنا فہم اور شعور مثالی و معیاری نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق ہر صدی میں ایک مجدّد آتا رہا ہے جو دین میں شامل ہونے والی آلائشوں اور جاہلیت کے اثرات سے دین کو پاک کرتا ہے میرے خیال میں تو حالیہ دور میں اس مجدّد کی ضرورت انتہائی اہم محسوس ہوتی ہے۔ان کے علاوہ بھی ہر دور میں مصلحین ِ اُمت اسلام کی اصلاح کو کوششیں کرتے رہے ہیں لیکن افسوس کہ اکثر اوقات مروج دینی تصورات قرآن و سنت کی حقیقی روح کے قریب لانے کی کوششوں کو غلط معنی دے کر مصلح پر طعنہ زنی کرتے ہوئے اسے اسلام و مسلمان دشمن قرار دے کر مغرب کا ایجنٹ ڈیکلئر کر دیا جاتا ہے۔

برطانیہ اور یورپ میں بھی اور پاکستان بھر میں قائم لاکھوں کی تعداد میں مساجد و مدارس میں جو حضرات واعظ و ارشاد کی مسندوں پر فائز ہیں اور جو اپنے اپنے حلقے میں دینی استاد کی حیثیت رکھتے ہیں بدقسمتی سے ان کی غالب اکثریت یا تو مطلوبہ معیار کی دینی تعلیم نہیں رکھتی یا پھر وہ ایسے مدارس کے تربیت یافتہ ہیں جہاں فقط اپنے اپنے فقہی مسلک کو درست ثابت کرنے پر بیشتر وقت صرف کیا جاتا ہے ، مزید بدقسمتی یہ ہے کہ مساجد کے اکثر و بیشتر آئمہ اور علماء اپنے اپنے پیروکاروں کو اپنے ہی خیالات کا گرویدہ رکھنے کیلئے ان میں مسلکی شدت پسندی پیدا کرنے کی دانستہ کوشش بھی کرتے ہیں اور یہی کوشش اور تعلیم بالآخر انتہاپسندی اور دہشت پسندی کی سوچ کو جنم دیتی ہے، مسلم اُمہ کی ایک بد قسمتی یہ بھی رہی ہے کہ متعدد تاریخی اور مذہبی اسباب کے باعث اور اندرونی و بیرونی اثرات کے تحت اہل مذہب کا ایک چھوٹا سا حلقہ یا طبقہ مذہبی و مسلکی انتہا پسندی کی روش برقراررہنے میں ہی اپنی عافیت جانتا ہے چنانچہ یہی وہ رویے ہیں جن کی وجہ سے اہل مغرب ہوں یا دیگر مخالفین انہیں نفس ِاسلام کے خلاف پراپیگنڈا کرنے میں مدد ملتی ہے اس سے تمام امت کا امیج دنیا بھر میں خراب ہوتا ہے آج عالم یہ ہے کہ دُنیا کے بیشتر ممالک میں مسلمانوں اور پاکستانیوں کے بارے میں ایک خاص رویہ دیکھنے میں آتا ہے اورافسوس کہ اس ’’خاص رویے ‘‘ کی چکی میں اعتدال پسند مسلمان و پاکستانی بھی پیس رہے ہیں۔
برطانیہ میں ہندو، سکھ، یہودی ، عیسائی یا دیگر مذاہب و عقیدوں کے ماننے والوں کی طرف سے کبھی کوئی انتہا پسندانہ رویے کی شکایات یا خبریں دیکھنے سننے میں نہیں آئیں اس قسم کا واقعہ جب ہوتا ہے پس پردہ پاکستان یا مسلمان کا نام آتا ہے تو اس صورتحال میں ساری دنیا کے غیر مسلم حلقے اورقوتیں مسلمانوں کو شدت پسند بلکہ مذہبی دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس میں ان کا کم اور ہمارا اپنا زیادہ قصور ہے کیونکہ اغیار کو ہمیں مطعون کرنے کے تمام ترمواقع ہم نے خود دئیے ہیں۔برطانیہ میں بھی 15سو سے زیادہ مساجد ہیں کیا کبھی یہاں آباد ہماری کمیونٹی نے سوچا ہے کہ ڈیڑھ ہزار مساجد توموجود ہیں کیاتفریح و طبع کیلئے کوئی سو یا پچاس جگہیں بھی ہم نے قائم کیہیں جہاں ’’مغرب ‘‘ میں پیدا ہونے والی ہماری نسل کوئی صحت مند ایکٹویٹی کرسکے ، یا بین الاقوامی معیار کا کوئی ایک سکول ایسا بنایا ہو جہاں ہمارے بچے بہتر طریقے سے دنیا وی کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی اعتدال پسند اساتذہ سے حاصل کریں ؟میرا ذاتی خیال ہے کہ برطانیہ و یورپ میں آباد پاکستانیوں میں پاکستان میں رہنے والوں سے زیادہ شدت پسندی اور مذہبی انتہا پسندی موجود ہے ،مساجد جو مذہب کی تعلیم دینے سے زیادہ ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے یہاں بچوں کو اعتدال پسندی کے بجائے وہی رٹے رٹائے جملے بتائے اور سکھائے جاتے ہیں جو ان کی ذہنی تربیت کی بجائے انہیں پیچھے کی طرف دھکیلتے ہیں اوران میں مخالفانہ رد عمل ابھارنے کا باعث بنتے ہیں اگر یورپ میں پیدا اور پلنے والے بچے دہشت پسندی کی طرف مائل ہو جائیں تویہ تیسری دنیا یا پسماندہ ملکوں کے دہشت پسندوں سے زیادہ خطرناک یوں ثابت ہو سکتے ہیں کہ یہ بچے ایک آزاد ماحول میں قیام پزیر ہیں ان میں اعتماد زیادہ ہے یہ سائنس وجدید ٹیکنالوجی سے زیادہ آگاہ ہیں ان میں خوف کم ہوتا ہے اس لئے یہ انتہائوں کوچھو لیتے ہیں لندن میں سات جولائی 2005ء میں ہونے والے ٹیوب بم دھماکے بھی میری اس بات کی مثال ہیں ، آئے روز برطانیہ سے مسلمان طلبہ کے شام جا کر ’’داعش ‘‘ میں شامل ہونے کے واقعات بھی ہمارے سامنے ہیں چنانچہ دانشمندی کا تقاضا اُمت مسلمہ کیلئے یہی ہے کہ جس طرح دنیا کی ترقی یافتہ اقوام نے مذہب کوجدیدیت کا حریف نہیں سمجھا اوردر پیش مسئلہ پر تحقیق و اجتہاد کے دروازے کھولتے چلے جاتے ہیں اسی نہج پر مسلمانوں کی بھی اولین ضرورت جاری زمانہ میں یہی ہے کہ مذہب کو سیاست سے دور رکھیں اسے عبادت کا ذریعہ اور ہر فرد واحد کا ذاتی معاملہ رہنے دیں توآنے والی چند دہائیوں میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کا لیبل مسلمانوں پر اُتر سکتا ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں