سجاد اظہر
مکھڈی حلوے کا نام تو سب نے سن رکھا ہے مگر مکھڈ کے بارے میں لوگ نہیں جانتے ۔یہ ایک تاریخی قصبہ ہے جو اسلام آباد سے 170 کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر واقع ہے ۔اگر آپ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ تین سوسال پہلے کا کوئی شہر کیسا ہوگا تو ا س کے لئے آپ کو مکھڈ ضرور دیکھنا چاہئے جو اپنی پوری تہذیبی قدامت کے ساتھ آج بھی موجود ہے ۔ اس کی قدیم گلیاں اور چوبارے،مندر ، مسجدیں ، گوردوارہ ، اور کشتیوں کے گھاٹشکستہ ضرور ہیں مگر سلامت ہیں اور اگر نہیں ہیں تو وہ لوگ جنہوں نے یہ شہر بسایا تھا ۔پاکستان میں مکھڈ کے علاوہ شاید ہی کوئی اور قصبہ ہو جو اپنی اصلی حالت میں آج بھی موجود ہو۔
اسلام آباد سے کوہاٹ جاتے ہوئے اٹک کی تحصیل جنڈ آتی ہے یہاں سے ایک راستہ مکھڈ جاتا ہے ۔ ڈھلوانی پہاڑیوں کے راستے بل کھاتی ہوئی سڑک آپ کو مکھڈ لے جاتی ہے ۔یہاںتنگ اور چھتی ہوئی گلیاں ،خوبصورت پتھروں سے تراشیدہ در و دیوار اپنے دور کے ماہر کاریگروں کے فن کا منہ ثبوت ہیں ۔دریا کے رخ پر بنے ہوئے تین منزلہ گھر اور ان کے خوبصورت چوبارے دیکھ کر گمان گزرتا ہے کہ جب اس شہر میں زندگی اپنے جوبن پر ہو گی تو کیسی دکھتی ہو گی ؟یہاں شب براتیں کیسی ہوتی ہوں گی اور دیوالیاں کیسی منائی جاتی ہوں گی ،کتنی ہندو بہنیں اپنے مسلمان بھائیوں کو راکھی باندھتی ہوں گی ! ہندؤں ، سکھوں اور مسلمانوں پر مشتمل تکثیری سماج کی بنت کیا ہو گی ؟مشہور خٹک ناچ دیکھتے ہوئے خیال آتا ہے کہ یہاں زندگی نے کتنی ہی خوبصورت انگڑائیاں لی ہوں گی ۔نجانے پھر اسے کس کی نظر لگ گئی کہ آج یہ شہر تو اپنی جگہ کھڑا ہے مگر ا سکے مکین تاریخ میں کہیں کھو گئے ہیں ۔آج ا س شہر سے کہیں زیادہ وسیع اس کا قبرستان ہے جو تین میل پر پھیلا ہوا ہے اکثر قبروں کے نشان تک مٹ چکے ہیں ۔مقامی افراد کے بقول یہ قبرستان ایک ہزار سال پرانا ہے ۔
مکھڈ کے مغوی معنی بہت بڑے کھڈے کے ہیں ۔ یہ مہا کھڈ سے بنتے بگڑتے مکھڈ ہو گیا ہے ۔ محمد وزیر ابدالی کی کتاب “تاریخِ مکھڈ ” جسے دارالحفیظ اٹک نے 2009ء میں شائع کیا اس کے صفحہ تین پر درج ہے کہ” 2000 قبل مسیح میں کورو اور پانڈو قبائل کے درمیان آبی گزرگاہ پر قبضے کی جنگ مکھڈ سے 15 کلومیٹر دور ماڑی انڈس میں قلعہ مانی کوٹ میں لڑی گئی جس کے آثار آج بھی موجود ہیں ۔ماڑی انڈس اشوک کا پائہ تخت بھی رہا ۔ایران کا شہنشاہ دارا کا امیر البحر آبی راستوں کی تلاش میں مکھڈ سے گزرا تھا مکھڈ اس وقت ہندو مت کا بہت بڑ امرکز تھا ۔سکندر اعظم کی فوج کے کچھ لوگ بھی بھاگ کر مکھڈ میں پناہ گزین ہو گئے تھے ۔317ء میں نوشرواں عادل کے دور حکومت میں مکھڈ سلطنت فارس میں شامل تھا”۔امریکہ میں مقیم مکھڈ کی ممتاز شخصیت اور محقق زری گل خٹک نے بتایا کہ “پشتو میں اس قصبہ کو آج بھی ماکھوڈے یا “ما کھاڈا “بولا جاتا ہے ۔ جبکہ اعوان اسے “مکھڈیں” بولتے ہیں ۔شاید پشتو کے “ ماکھاڈا کو “مہا کھڈا “ سے جوڑنے کی کوشش ہوئی ۔جبکہ یہ شہر تو افغانوں کی اس علاقہ میں آمد سے قبل کا بسا ہوا ہے ۔ مہا کھڈا اگر نام کی وجہ تھا تو کہیں چھوٹا موٹا کھڈا ہونا بھی چاہیے ۔ لیکن قصبہ تو ایسی پہاڑی پر بسا ہے جہاں کسی کھڈے کاوجود نہیں ۔اعوان کاری میں شہد کو” ماکھو “کہا جاتا ہے ۔اڈا ، ٹھیہ ، رکاوٹ یا پتن کو بھی کہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے اچھے شہد کی وجہ سے پرانے زمانے میں دریائی گزرگاہ پر موجود یہ قصبہ ماکھو اڈا کہلایا ہو اور بعد میں ( ما کھوڈا)سے مکھڈ بنا ۔ آج بھی یہ قصبہ چھوٹی مکھی والے خالص شہد کے لئے مشہور ہے ۔دوسری وجہ کپڑے اور قالین بانی کی صنعت ہوسکتی ہے ۔شاید کسی ہندو نے کپڑا بنانے والی بڑی کھڈی (مہا کھڈی )لگائی ہو ۔علاقہ میں دریاں بنانے اور کھدربنانے کی چھوٹی کھڈیاں تو ہر گاوں میں موجود رہی ہیں اور کاریگر بھی ہمیشہ سے موجود رہے ہیں ۔چار اضلاع کا مرکزی تجارتی قصبہ اور کپڑے کی مانگ ہونے کی وجہ سے مہا کھڈی کی موجودگی خارج از امکان نہیں ۔مہا کھڈا ہو سکتا ہے تو مہاکھڈی بھی ممکن ہے ۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مکھڈ کے پراچگان کا تعلق قالین بافی اور کپڑوں سے رہا ہے اور جب ریل یہاں آئی تو انہوں نے ایک بڑے تجارتی مرکز امرتسر میں جا کر دو ٹیکسٹائل ملیں لگائیں ۔کچھ عرصہ قبل ایک انگریز میجر لیچ کے ڈائری پڑھنے کو ملی ۔ جس نے سکھوں کے دور میں فقیروں کے گروپ کے ساتھ حکیم کے روپ میں اٹک ، جہلم چکوال ، گجرات اور پختونخواہ کے تمام گاوں جا کر کوائف اکٹھے کئے ۔انگریز جاسوس میجر لیچ کے نوٹس کے مطابق 1838ءمیں خان آف مکھڈ کے زیر انتظام سات موضع تھے جن کا کل مالیہ دس ہزار نانک شاہی سکے سالانہ تھے ۔گھوڑے اور جانور اس سے الگ تھے ۔مالیہ وصولی کی مد میں خان مکھڈ عبداللہ خان کو 800سکے ملتے۔ وہ مزید لکھتا ہے کہ مکھڈ قصبہ کے تین گیٹ تھے اور تین ہزار گھر اور ہندووں کی دو سو دکانیں تھیں” ۔
کہتے ہیں کہ مکھڈ ایک تجارتی شہر تھا جتنی تجارت آج کل سڑکوں سے ہوتی ہے جب یہ نہیں تھیں تو دریائی راستے استعمال ہوتے تھے ۔ان دریائی راستوں میں دریائے سندھ سب سے بڑا ذریعہ تھا جس میں سکھر سے شمال کی جانب چلنے والی کشتیوں کا آخری پڑاؤ مکھڈ تھا ۔یہاں سینکڑوں کشتیاں ہر وقت رواں دواں رہتی تھیں ۔چوتھی سے چھٹی صدی قبل مسیح جب گندھارا ،ایران کی اخمینی سلطنت کے زیر تسلط تھا تب مکھڈ ہی اس کے لئے ایک دریائی بندرگاہ تھی ۔اس کی بیرونی تجارت اسی دریائی راستے سے ہوتی ہو گی اور شاید اس دور سے یہاں کپڑے کی کھڈیاں بڑی تعدا د میں لگائی گئی ہوں ۔
مکھڈ اس وقت افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک سے تجارت کے لئے سب سے اہم آبی بندرگاہ کے طور پر شمار ہوتا تھا جس کی وجہ سے یہاں ایک بڑی تجارتی منڈی بن گئی تھی ۔کراچی میں آج جو کاروباری اہمیت میمن برادری کو حاصل ہے کبھی وہی حیثیت یہاں کی پراچہ برادری کو حاصل تھی ۔جن کے کپڑے اور قالینوں کا کاروبار ہندوستان سے چین ، افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک تک پھیلا ہوا تھا ۔کالا باغ کا نمک یہاں سے ہی سکھر جاتا تھا اور آگے اسے ہندوستان اور دوسرے ممالک میں خشکی اور سمندری راستوں سے بھیجا جاتا تھا ۔ لیکن پھر ایک تبدیلی آئی جس نے ا س شہر کی تجارتی اہمیت ختم کر دی ۔وہ تبدیلی تھی ریل ، جس نے پورے ہندوستان کو آپس میں مربوط کر دیا جس کی وجہ سے جو تجارت کشتیوں کے ذریعے ہو رہی تھی وہ آہستہ آہستہ دم توڑنے لگی ۔ انڈس فوٹیلا کمپنی جس کے تجارتی جہاز سکھر اور روہڑی سے کالاباغ اور مکھڈ تک چلا کرتے تھے وہ نارتھ ویسٹرن ریلوے میں ضم کر دی گئی ۔ 1894ء میں راولپنڈی سے میانوالی اور ملتان تک پٹری بچھائی گئی تو ریل مکھڈ کے نزدیک انجرا سے گزرنے لگی چنانچہ اگلے سالوں میں مکھڈ کی رونقیں ماند پڑنا شروع ہو گئیں ۔لیکن پھر بھی ضلع راولپنڈی کے گزیٹئر 1910ء کے صفحہ 225 پر درج ہے کہ دریائے سندھ جو کہ 96 میل تک ضلع کی مغربی سرحد تشکیل دیتا ہے، میں مکھڈ تک بڑی کشتیاں چلائی جا سکتی ہیں جہاں تک انڈس فوٹیلا کے سٹیمر جایا کرتے ہیں ۔چھوٹی کشتیاں اٹک تک بھی جاتی ہیں مگر مکھڈ اور اٹک کے درمیان کشتی رانی مشکل اور خطرناک ہے ۔ مکھڈ تا سکھر یہ کشتیاں وسیع تجارت سر انجام دیتی ہیں ۔اوسط سائز کی کشتیاں 600 من وزن لے جا سکتی ہیں لیکن 1000 من والی کشتیاں بھی یہاں عام ہیں ۔جنہیں پانچ آدمی چلاتے ہیں مکھڈ میں ملاحوں کی بستی بھی ہے ملاحوں پر 1095 روپے لگان بھی عائد ہے ۔کبھی یہاں کشتیوں کا ایک پل بھی ہوا کرتا تھا جہاں سے دریا پار کیا جاتا تھا ۔لیکن پھر ریلوے کے آنے سے وہ ختم ہو گیا ۔مکھڈ میں ایک ہی وقت میں 32 کشتیاں لنگر انداز ہو سکتی تھیں ۔
مکھڈ کی تاریخ دو حصوں میں ہے ۔ایک سترہویں صدی سے پہلے کا مکھڈ ہے جس کی تاریخ قبل از مسیح تک جاتی ہے ۔مکھڈ کا پرانا شہر کیسے تباہ ہوا ؟اس حوالے سے تاریخ خاموش ہے تاہم یہ بات حقیقت ہے کہ دریائے سندھ میں کئی بار خوفناک طغیانی آئی جس نے اس کے کنارے آباد بستیوں کو تہس نہس کر دیا ۔اٹک کے گزیٹئر 1930ء کے صفحہ 45 پر درج ہے کہ 16 جون 1841ء میں آنے والے سیلاب سے چار بٹالین فوج اپنے گھوڑوں اور سامان سمیت بہہ گئی ،ایک چوتھائی تربیلا بہہ گیا ۔ایسا ہی سیلاب 1889ء اور 1928ء میں بھی آیا ،2010ء کے حالیہ سیلاب میں بھی مکھڈ کی موجودہ آبادی کو خاصا نقصان ہوا ۔جس سے یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ پرانا مکھڈ کسی ایسے ہی خوفناک سیلاب کی نظر ہوا ہو گا ۔ مکھڈ سے اٹک کی جانب دریا پر دوسرا پڑاؤ باغ نیلاب کا ہے جس کیتاریخی اہمیت یہ بھی ہے کہ کئی حملہ آور دریائے سندھ کو یہاں سے پار کر کے ہندوستان میں داخل ہوئے ۔باغ نیلاب میں سنگ مر مر کی ایسی چٹانیں کثرت سے موجود ہیں جن پر مختلف نقش ونگار بنے ہوئے ہیں جو کوہستان کے علاقے دیامر سے بہہ کر آئی ہیں ۔یہ چٹانیں اتنی بھاری بھرکم ہیں کہ جو سیلاب انہیں دیامر سے باغ نیلاب تک تین سوکلومیٹر نیچے دھکیل کے لایا ہو گا یقیناً اس نے مکھڈ اور شاید اس جیسی کئی بستیوں کے نام و نشان بھی مٹا دیئے ہوں گے ۔
موجودہ مکھڈ شہر سترہویں صدی میں فصیلوں کے اندر بنایا گیا تھاجس کے تین دروازے تھے تاکہ یہ بیرونی حملہ آوروں سے محفوظ رہ سکے ۔دریا کے ساتھ ساتھ یہ شہر تین کلومیٹر تک چلتا ہے جہاں 11 گھاٹ ہیں جنہیں مقامی زبان میں پتن کہا جاتا ہے ۔خان آف مکھڈ کے بنگلے کے پا س موجود گھاٹ کو خاناں والا پتن کہتے ہیں ،دیگر پتنوں میں بیڑیاں والا ، لوناں والا ،کراڑیاں والا ، کمہاراں والا ، پیرانوالہ ، مولوی صاحب والا ، جگیاں والا ،توتیاں والا ، دھرابواں والا اور کھڑ پڑ والا پتن شامل ہیں ۔ مکھڈ کی تہذیبی قدامت سے پتہ چلتا ہے کہ یہ شہر مختلف مذاہب کا مرکز رہا ہے ۔ زرتشت ، بدھ مت ، ہندو مت ، سکھ ازم اور اسلام سمتت ہر مذہب کے دور میں مکھڈ پھلتا پھولتا رہا ہے ۔پراچے یہاں کے قدیم باشندے ہیں جن کے بارے میں ایچ اے روز کی کتاب “اے گلوزری آف دی ٹرائبز اینڈ دی کاسٹس آف دی پنجاب ” کے صفحہ 201 پر درج ہے کہ” پراچوں کی مرکزی آبادیاں اٹک اور مکھڈ میں ہیں یہ تاجروں کی نسل ہیں جو ترکستان سے چین تک تجارت کرتے ہیں وہ اسلام قبو ل کرنے سے پہلے ہندو تھے جو کھوجوں سے مشابہہ ہیں ۔ان کا نام پراچہ اس لئے پڑا کہ وہ اپنی تجارت میں کپڑے کی ایک قسم پراچہ کلاتھ بیچتے ہیں ۔ان کاایک اور نام فراش بھی ہے کیونکہ یہ وسطی ایشیا سے قالینیں بھی لاتے ہیں “۔
مکھڈ میں صدیوں سے کشتی سازی کی صنعت بھی موجود رہی ہے اور شاید اسی وجہ سے یہاں لوہے کی صنعت بھی پروان چڑھی اور جب کشتی سازی ماند پڑی تو یہاں کے ہنر مندوں نے لوہے کے بڑے بڑے کڑاہ بنانے شروع کر دیئے ۔مکھڈ کی مصنوعات میں دوسری مشہور چیز یہاں کی مٹی کی ہانڈیاں ہیں ،جنہوں مقامی زبان میں کٹوی کہا جاتا ہے ۔
مکھڈ سینکڑوں سال ہندو تہذیب و تمدن کا ایک اہم مرکز رہا ۔آج بھی دریائے سندھ کے کنارے پر موجود ایک مندر اس کی گواہی دیتا ہے جس کی سیڑھیاں دریا کی طرف اترتی ہیں ۔اس مندر کے ساتھ ہندؤوں کا ایک کمپلیکس بھی تھا جس میں ایک بہت بڑی لائبریری بھی موجود تھی ۔ یہ ہندو تہذیب کی شان و شوکت ہی تھی جس نے یہاں پر مسلمان مبلغین کو آنے پر اکسایا جس کی وجہ سے آج یہاں پرخانوادہ پیر لال بادشاہ ، مولانا محمد علی مکھڈی، لکھنو الے پیر اور مولوی صاحب کے خانوادہ سمیت چار روحانی گدیاں موجود ہیں ۔حضرت میاں میر کے مزار کے ساتھ ایک قدیم لائبریری بھی ہے جس میں گیارہ ہزار سے زائد نادر کتب ہیں جن میں قلمی نسخوں کا بھی ایک بڑا ذخیرہ ہے ۔ ان نسخوں میں نبی کریم ﷺ اور حضرت علی ؑ کی تحریروں کے عکس بھی شامل ہیں ۔ یہاں اورنگ زیب عالمگیر کے ہاتھ سے لکھا ہوا قرآن بھی ہے ۔
1910ء میں مکھڈ کی آبادی 4195 افراد پر مشتمل تھی جسے میونسپل کمیٹی کا درجہ بھی حاصل رہا مگر یہاں کے خانوں اور پیروں میں لڑائی کی وجہ سے مکھڈ میونسپل کمیٹی کے درجے سے محروم کر دیا گیا ۔پیر آف مکھڈ پیر صفی الدین جو بھٹو کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے اور جنہوں نے نواب آف کالا باغ کی مخالفت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا تھا ۔ ان کے جد ِامجد نوری بادشاہ 1650ء کے لگ بھگ بغداد سے آئے تھے ۔ پیر آف مکھڈ پیر غلام عباس انگریزوں کے طرف دار تھے اور انہوں نے پہلی جنگ عظیم میں اپنے مریدوں کو انگریزی فوج میں بھرتی کروایا تھا جس کے صلہ میں انگریز سرکار نے انہیں نہ صرف لاہور اور وہاڑی میں 25000کنال زمین لاٹ کی بلکہ ان کی درخواست پر آبی گزرگاہ کا ٹیکس معاف کر دیا یہ ٹیکس خان آف مکھڈلیتا تھا اس لئے یہاں سے پیر آف مکھڈ اور خان آف مکھڈ کی دشمنی کا آغاز ہوا ۔ خان آف مکھڈ کے بارے میں تذکرہ رؤسائے پنجاب کے صفحہ 414پر درج ہے کہ شیر محمد خان ساگری پٹھانوں کا سردار ہے جو احمد شاہ درانی کے عہد میں مکھڈ پر حکمرانی کرنے لگا ۔سکھوں کے عہد میں اراضی پر نقد لگان وصول کیا جاتا تھا ۔جس کا آٹھواں حصہ خان آف مکھڈ کے لئے چھوڑ دیا جاتا تھا جو محصول چونگی ،دریائے سندھ سے سونا نکالنے ،اور مکھڈ کے گھاٹ پر اتارے جانے والے سامان سے لیا جاتا تھا ۔
کہتے ہیں کہ یہاں وائسرائے ہند لارڈ ویول بھی آیا تھا ۔جبکہ اٹک کاگزیٹئر کہتا ہے کہ لارڈ ڈلہوزی کے کانوائے کا ایک ہاتھی کالاباغ جاتے ہوئے مکھڈ کے نزدیک دلدل میں دھنس کر ہلاک ہو گیا تھا۔ یہاں کئی مشہور فاتحین نے بھی اپنے قدم رکھے ہوں گے لیکن تاریخ ہمیشہ قلعوں اور ان کے لئے لڑی جانے والی جنگوں کو یاد رکھتی ہے ۔مکھڈ کی تاریخ سوسال بعد ایک اور موڑ لے رہی ہے اور اب سی پیک کا مغربی روٹ اس کے قریب سے گزر رہا ہے جس کی وجہ سے اس تک رسائی آسان ہو جائے گی ۔مکھڈ شاید تاریخ میں اپنا کھویا ہوا مقام تو حاصل نہ کر سکے لیکن اگر حکومت اس قصبے کے مٹتے ہوئے آثار کو محفوظ بنا لے تو یہاں سیاحت کو فروغ مل سکتا ہے ۔دریا کے رخ پر بنی ہوئی تین منزلہ حویلیاں جنہیں ماڑیاں کہا جاتا ہے وہ با آسانی ہوٹلز اور ریسٹورنٹس میں تبدیل ہو سکتی ہیں ۔عمران خان کے مشیر ذولفی بخاری کا آبائی علاقہ زیارت بیلہ بھی یہاں سے قریب ہے وہ مکھڈ کو سیاحتی مقام میں تبدیل کر کے یہاں کے مٹتے ہوئے ورثے کو بچاسکتے ہیں ۔