218

آبادی کا ’’ٹائم بم ‘‘

ذرا چشم تصور وا کیجئے اور اپنے آس پاس مہنگائی پر نگاہ ڈالیے، انسانوں کا متلاطم سمندر روزی روٹی کے لیے سسکتا ، بلکتا اور آمادہ پیکار دکھائی دے گا ۔کیا آبادی میں روز افزوںاضافہ اور کم ہوتے وسائل ہمیں یہ سوچنے پہ مجبورنہیںکرتےکہ 22کروڑ نفوس کے لیے یہ ملک تنگ پڑتا جا رہا ہے اور 2050میں یہ آبادیایک اندازے کے مطابق 35 کروڑ ہو جائے گی تو حالات کیا ہوں گے؟ کیا پینے کا صاف پانی، جو اب بھی ملک کی ایک بڑی آبادی کو میسر نہیں، دستیاب ہو گا؟کیا اتنی بڑی آبادی کو دو وقت کی روٹی فراہم ہو سکے گی؟ صحت کی سہولیات، معیاری تعلیم اور دیگر سہولیات تو بہت بعد کی بات ہیں؟جواب اگر نفی میں ہے بلکہ یقیناً نفی میں ہے تو کارپردازانِ حکومت کو بس اپنے اقتدار کا ہی خیال ہے ،قوم کے مستقبل کانہیں ؟افسوس کہ صورت حالات ایسی ہی ہے اور ایسی ہی ماضی میں بھی تھی۔ایسی قومیں جو اپنے حال سے بے خبر و لاتعلق ہوں ان کا مستقبل مخدوش نہیں ہو گا تو اور کیا ہو گا؟
پاکستان کو آبادی کے لحاظ سے دنیا کاچھٹا سب سے بڑا ملک سمجھا جاتا تھا لیکن اب یہ حقیقت بدل چکی ہے۔ وطن عزیز کی آبادی میں اضافہ اتنا تیز رفتار ہےکہ جنوبی ایشیا کی یہ ریاست اب دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن چکی ہے۔ یہ حقیقت بہت کم پاکستانیوں کو معلوم ہو گی کہ گزشتہ سات دہائیوں کے دوران ان کے ملک کی آبادی ناقابل یقین حد تک تیز رفتار اضافے سے تقریباً چھ گنا ہو چکی ہے۔ اقوام متحدہ کے پاپولیشن ڈویژن کے اعداد و شمار کے مطابق قیام پاکستان کے تین سال بعد 1950ء کے وسط میں پاکستان کی مجموعی آبادی 37.54 ملین یا پونے چار کروڑ سے کچھ ہی زیادہ تھی۔ ماہرین آبادی میں اس اضافے کے لیے ‘ٹائم بم‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ آبادی سے متعلقہ امور کے ماہرین کے مطابق یہ ‘پاپولیشن بم‘ آج بھی ٹک ٹک کر رہا ہے اور ملکی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ثابت ہو رہا ہے۔ ماہرین اس رکاوٹ کی وضاحت یوں کرتے ہیں کہ پاکستان میں سماجی ترقی، قومی وسائل اور اوسط فی کس آمدنی میں اضافہ اس رفتار سے نہیں ہو رہا، جس رفتار سے آبادی بڑھتی جا رہی ہے۔اقوام متحدہ کے آبادی سے متعلقہ امور کے شعبے کے گزشتہ برس اگست میں سال رواں کے لیے لگائے گئے اندازوں کے مطابق سال رواں کی دوسری ششماہی شروع ہونے تک پاکستان کی مجموعی آبادی یقینی طور پر تقریباً 220.9 ملین یا 22 کروڑ 10 لاکھ کے قریب ہو جانا تھی۔ اس کا مطلب ہے جولائی 1950 سے لے کر جولائی 2020 تک ملکی آبادی میں تقریباً چھ گنا اضافہ۔
یہ اسی ‘’’پالولیشن بم‘‘کا نتیجہ ہے کہ پہلے اگر پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا سب سے بڑا ملک تھا تو آج مزید ایک درجہ اوپر آ کر یہ ملک دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن چکا ہے۔ اس وقت دنیا کی مجموعی آبادی 7.8 بلین کے قریب ہے اور عالمی سطح پر سالانہ شرح پیدائش دو فیصد سے زیادہ۔جبکہ اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان میں سالانہ شرح پیدائش 2.8 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ اس وقت دنیا میں صرف چار ممالک ایسے ہیں، جن کی آبادی پاکستان سے زیادہ ہے۔ پہلے سے چوتھے نمبر تک کے یہ چار ممالک چین، بھارت، امریکا اور انڈونیشیا ہیں۔ پاکستان برازیل کی جگہ اب پانچواں بڑا ملک بن چکا ہے۔ برازیل اب چھٹے نمبر پر ہے۔عالمی آبادی اور اس میں تبدیلیوں پر نگاہ رکھنے والی ایک غیر سرکاری بین الاقوامی ویب سائٹ کنٹری میٹرز ڈاٹ انفو کے ڈیٹا بیس کے مطابق پاکستان میں گزشتہ برس 60 لاکھ 50 ہزار زندہ بچے پیدا ہوئے۔ یہ تعداد تقریباً ساڑھے سولہ ہزار روزانہ یا تقریباً سات سو فی گھنٹہ بنتی ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ 2019ء میں پاکستان میں اوسطاً ہر ایک منٹ میں 11 زندہ بچے پیدا ہوئے، یعنی تقریباً ہر پانچ سیکنڈ بعد ملکی آبادی میں ایک شہری کا اضافہ۔
دنیا کی آبادی میں جس تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، اُس نےہر شخص کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسیف کی حالیہ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ صرف سالِ نوکے پہلے دن یکم جنوری کو دنیا میں 3لاکھ 71ہزار 500بچوں نے جنم لیا اور ان بچوں کی پیدائش میں سرفہرست 10ممالک میں بھارت پہلے نمبر پر رہا جہاں 59ہزار 995، چین میں 35ہزار 615، نائیجریا میں 21ہزار 439، پاکستان میں 14ہزار 161، انڈونیشیا میں 12ہزار 336، ایتھوپیا میں 12ہزار 6، امریکہ میں 10ہزار 312، مصر میں 9ہزار 455، بنگلہ دیش میں 9ہزار 236اور جمہوریہ کانگو میں 9ہزار 640بچے پیدا ہوئے۔ اِس طرح پاکستان دنیا میں شرح پیدائش کے حساب سے چوتھے نمبر پر رہا جو یقیناً باعثِ تشویش ہے۔دنیا آج بڑھتی ہوئی آبادی کے مسئلے سے دوچار ہے۔ 1800میں دنیا کی آبادی ایک ارب نفوس پر مشتمل تھی جو 130برسوں بعد 1930میں دگنی یعنی 2ارب ہو گئی اور پھر صرف 30برسوں میں بڑھ کر 3ارب ہو گئی، اِس طرح دنیا کی آبادی میں ہر 12برسوں میں ایک ارب افراد کا اضافہ ہورہا ہے اور آج دنیا کی آبادی 7.8ارب تک پہنچ چکی ہے جبکہ وسائل میں آبادی کے لحاظ سے اضافہ نہیں ہوسکا اور افسوس کہ اِن 7.8ارب انسانوں میں سے ایک ارب سے زائد افراد خالی پیٹ سونے پر مجبور ہیں۔
60کی دہائی میں پاکستان میں آبادی کی منصوبہ بندی کیلئے ’’کم بچے خوشحال گھرانہ‘‘ جیسی مہم شروع کی گئی جسے مشرقی پاکستان کیلئے سمجھا گیا۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد آنے والی حکومتوں نے آبادی پر کنٹرول کیلئے کئی اقدامات کئے اور اس سلسلے میں بہبودِ آبادی کی وزارت بھی تشکیل دی گئی مگر یہ محکمہ واضح حکومتی پالیسی نہ ہونے کے سبب بے بس نظر آتا ہے اور ٹی وی چینلز و اخبارات میں ’’بچے دو ہی اچھے‘‘ جیسے اشتہارات پر پیسوں کا ضیاع کرکے اپنی ذمہ داریاں پوری کررہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت خطے میں پاکستان کی شرح آبادی سب سے بلندہے ۔ حکومت کو چاہئے کہ تیزی سے بڑھتی آبادی کی روک تھام کیلئے اپنی پالیسی پر نظرثانی کرتے ہوئے خاندانی منصوبہ بندی کی وزارت ازسرنو تشکیل دے اور ایسے اقدامات کیے جائیں جن کے تحت خاندانوں کی مالی امداد کو شرح پیدائش میں کمی سے مشروط کیا جائے اور کم بچے رکھنے والے خاندان کے سربراہ کو مراعات اور روزگار کی فراہمی میں ترجیح دی جائے تاکہ آبادی کے جن پر قابو پایا جاسکے۔ اس سلسلے میں بنگلہ دیش ماڈل سے سبق حاصل کیا جاسکتا ہے جس نے آبادی کنٹرول کرنے کیلئے مساجد اور علماء کی خدمات حاصل کیں جس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے اور بنگلہ دیش شرح آبادی پر قابو پانے میں کامیاب رہا ۔پاکستان کی آبادی میں ہوشربا اضافہ ایک ’’ٹائم بم‘‘ کی طرح ہے جس کے پھٹنے کی صورت میں پورا ملک تباہی سے دوچار ہو سکتا ہے کیونکہ ملک میں بڑھتی آبادی کیلئے تعلیم، صحت، پینے کا صاف پانی، ٹرانسپورٹ اور روزگار دستیاب نہیں لیکن اگر آبادی پر قابو نہ پایا گیا اور ملک کی آبادی اسی رفتار سے بڑھتی رہی تو مستقبل میں معاشی اور سماجی مسائل کے ساتھ ساتھ غربت اور بیروزگاری کے باعث بدامنی اور دہشت گردی جیسے بھیانک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں