319

اردن میں کیا ہوا؟


وقت اور حالات کبھی ایک جیسے نہیں رہتے چنانچہ حالات نے کروٹ لی اور گزرے ہفتے اردن کے عوام میں ہر دلعزیز شہزادہ حمزہ جو سابق ولی عہد بھی ہیں کو قانون نافذ کرنے والے ملکی اداروں نے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے اور بادشاہ وقت جو شہزادہ حمزہ کے سوتیلے بھائی بھی ہیں پرکھلے عام تنقید کرنے کے جرم میں گرفتار کر لیا ان پر الزام ہے کہ انہوں نے بادشاہ اور حکومت کیخلاف بعض بیرونی عناصر کے ساتھ مل کر سازش کی ۔ گرفتاری کے بعد شہزادہ حمزہ بن الحسین کو شاہی محل میں نظربند کر دیا گیا۔شہزادہ حمزہ نے الزام لگایا ہے کہ لوگ بادشاہ سے تنگ ہیں لیکن خوف کی وجہ سے بولتے نہیں، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملک کے دیگر لیڈر بدعنوان، نااہل اور اپنے مخالفین کو ہراساں کرتے ہیں، حکام کے مطابق متعدد افراد کو شہزادہ حمزہ کے ساتھ حراست میں لیا گیا ہے جن کے خلاف تحقیقات کی جائیں گی۔ ان واقعات کے بعد بادشاہ عبدﷲ کے چچا حسن بن طلال نے جو شہزادہ حمزہ کے بھی چچا ہیں نے یہ معاملہ بظاہر تو رفع دفع کروا دیا ہے اور ثالثی کے بعد شہزادہ حمزہ نے اپنے بڑے سوتیلے بھائی شاہ عبدﷲ کی بیعت بھی کرلی ہے لیکن دوسری طرف یہ خبریں بھی ہیں کہ شہزادہ حمزہ نے اپنے بعض ویڈیو پیغامات میں کہا ہے کہ وہ آرمی کے یہ احکامات نہیں مانیں گے کہ وہ آئندہ بیرونی دنیا سے روابط نہیں رکھیں گے اور نہ ہی بیرون ملک جائیں گے حتیٰ کہ ٹویٹ وغیرہ بھی نہیں کر سکیں گے ، چنانچہ ملک کے خفیہ اداروں کی طرف سے شہزادہ حمزہ پر اس قسم کی پابندیاں لگانا اس خیال کو تقویت دیتا ہے کہ یہ معاملہ اس قدر سیدھا اور بے ضرر نہیں ہے اور اس کےتانے بانے عالمی سطح پر اثرانداز ہونے والی طاقتوں کے ساتھ ملتے ہیں۔

مذکورہ سارے قصہ میں براہ راست جس ملک کا نام لیا جا رہا ہے وہ سعودی عرب ہے اور اردن کے اندرونی حلقوں کے مطابق شہزادہ حسن کی اس جسارت کے پس پردہ سعودی عرب ہے، یقیناً اسی لئے اس واقعہ کے فوری بعد سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان ایک اعلیٰ سطحی وفد لیکر عمان پہنچے اور شاہ عبدﷲ اور ان کی حکومت کو یقین دلایا کہ سعودی عرب کا اس معاملہ میں کوئی ہاتھ نہیں اور سعودی عرب شاہ عبدﷲ کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اعلان کرتے ہیں۔یہاں انگلینڈ کے بعض باخبر حلقوں کے مطابق شہزادہ حمزہ کے ساتھ مبینہ طور پر اس سازش میں شریک جو دیگر افراد گرفتار ہوئے ہیں ان میں ایک بسام اوادللہ بھی ہیں جو متعدد بین الاقوامی سطح کے طاقتور حلقوں کے ساتھ قریبی روابط رکھتے ہیں وہ براہ راست سعودی عرب اور اردن کے شہری ہونے کے ساتھ ساتھ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان کے معاشی مشیر اور اردن کے شاہی دربار کے سابق سربراہ ہیں، بسام اوادللہ امارات کے ولی عہد شہزادہ محمد بن زائد سے بھی قریبی تعلقات رکھتے ہیں، ایک امریکی اخبار ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ کے مطابق اردن آنے والے اعلیٰ حکام پر مشتمل سعودی وفد نے ایک طرف تو شاہی دربار اور اردن کی حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کو یقین دلایا ہے کہ سعودی عرب کے ہاتھ اس معاملے میں بالکل صاف ہیں تو دوسری طرف مذکورہ وفد مُصر ہے کہ بسام اوادللہ کو رہا کر دیا جائے تاکہ وہ انہیں اپنےساتھ سعودی عرب لے جا سکے، اردنی حکام اوادللہ کو اس لئے بھی مشتبہ سمجھتے ہیں کہ حال ہی میں وہ یوروشلم کے ارد گرد فلسطینی زمینوں کی خریداری میں بھی ملوث تھے لہٰذا ان کا یہ کردار انہیں مزید مشکوک بناتا ہے۔
تاریخ میں اسرائیل اور اردن کے مابین کئی معاہدے ہوئے اور تعلقات میں بھی گرمجوشی اور سردمہری آتی رہی ہے حال ہی میں اردن نے اسرائیلی کسانوں کو اردن کے سرحدی علاقوں کی زمینوں پر کاشت کاری کرنے سے منع کر دیا، ان سرحدی علاقوں کی زمینوں پر دونوں ممالک کے درمیان 1994ء میں ہونے والے معاہدۂ امن کے تحت ان کسانوں کو کاشت کاری کی اجازت دی گئی تھی اس اجازت کی لیز پچیس سال تھی چنانچہ نومبر 2019ء کو اس لیز کی مدت ختم ہوتے ہی اردن کے حکام نے اس مقام پر اپنے سرحدی گیٹ بند کر دیئے بلکہ شاہ عبدﷲ کے مطابق آئندہ لیز کو بڑھایا بھی نہیں جائے گا۔ لہٰذا اردن کے باخبر حلقے شہزادہ حمزہ کے حالیہ ایکشن کو اس تناظر میں بھی دیکھ رہے ہیں۔اردن یہ سمجھنے میں حق بجانب بھی ہے کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان سرحدی اور دیگر تنازعات خلاف معمول نہیں ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایک معاہدہ کے تحت یوروشلم میں واقع قبلہ اول مسجد اقصیٰ کے تمام انتظامی امور بھی اردن کے پاس ہیں حتیٰ کہ الاقصیٰ کے امام اور دیگر عملہ کی تنخواہیں بھی اردن ہی ادا کرتا ہے‘ اردن کا محکمہ اوقاف ہی یہاں ملازموں کی بھرتی وغیرہ کا ذمہ دار ہے۔ یہودیوں کی طرف سے القدس میں گھسنے کے واقعات بھی معمول کی بات ہیں اگرچہ اردن حکومت کی طرف سے متذکرہ معاملہ میں اسرائیل کے ملوث ہونے کے متعلق باضابطہ طور پر کوئی بات نہیں کی گئی لیکن آزاد تجزیہ کار اندازاً اس خیال کا اظہار کر رہے ہیں کہ ممکن ہے،چھوٹی بات کو بہانہ بنا کر کوئی بڑا مقصد حاصل کرنے کیلئے شہزادہ حمزہ کو استعمال کرنے کی ایک کوشش کی گئی ہو کیونکہ یہ حقیقت ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اردن اور اسرائیل نے 1948ء کے بعد 1994ء تک پچاس سال آپس میں جنگ لڑی ہے 1994ء میں اگر کوئی امن معاہدہ ہوا بھی ہے تو یقیناً کدورت کے بادل ابھی پوری طرح چھٹے نہیں ہوں گے لہٰذا ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے اپنے عالمی دوستوں کے ساتھ مل کر سازشوں کا موقع تو کوئی بھی گنوانا نہیں چاہتا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں