452

فلسطین اسرائیل تنازعہ کی تاریخ وار کہانی


سجاد اظہر

فلسطین اسرائیل دنیا کا سب سے قدیم تنازعہ ہے جس کی جڑیں 957 ق م میں ہیں جب حضرت سلیمان نے یوروشلم میں معبد بنایا جو آج تک یہودیوں کا سب سے مقدس مقام ہے ۔یہ قدیم بادشاہتوں کا زمانہ تھا ۔پہلے مصریوں نے اور بعد ازاں رومیوں نے اس عبادت گاہ پر حملے کئے ۔70 ق م میں رومیوں نے یوروشلم میں موجود یہ معبد تباہ کر ڈالا ۔اسی عرصے میں یہودی یہاں سے ہجرت کرنے لگے ۔مسلمانوں کے نزدیک اس شہر کی اہمیت اس لئے بھی ہے کہ یہاں قبلہ اوٌل ہے یہاں مسجد اقصی ٰ سے حضرت محمد ﷺ معراج پر تشریف لے گئے تھے ۔جبکہ مسیحی عقیدے کے مطابق یوروشلم میں ہی حضرت عیسیٰ کو مصلوب کیا گیا تھا۔ اس طرح تینوں مذاہب کے نزدیک یہ مقدس شہر ہے اور یہی وجہ اس کے تنازعے کو گہرا کر دیتی ہے ۔
ساتویں صدی عیسوی
حضرت عمرنے جب یوروشلم کا قبضہ لیا تو یہودیوں نے ایک بار پھر ہجرت کی اور وہ پورے یورپ بالخصوص جرمنی کے ارد گرد آباد ہو گئے ۔
1799ء –نپولین نے یہودیوں کو فلسطین میں ریاست قائم کر نے کی تجویز دی ۔
1882ء-فلسطین میں یہودیوں کی پہلی آبادی ریشون لی زائن کے نام سے قائم ہو گئی ۔
1885ء-صیہونیت کی پہلی بار اصطلاح استعمال ہوئی ۔
1896ء- تھیوڈور ہرزل ہنگری کا رہنے والا ایک یہودی صحافی تھا جس نے پہلی بار اسرائیل کے قیام کا تصور دیا ۔
1897ء-پہلی یہودی کانگریس کا سؤٹزرلینڈ میں انعقاد ،جس میں عالمی صیہونی تنظیم قائم کی گئی ۔
1907ء- صیہونی لیڈر چائم ویزمان نے پہلی بار فلسطین کا دورہ کیا ۔
1908ء- فلسطینی ادیب نجیب نزار نے یہودیوں کی آبادکاری کی مخالفت کی ۔

1915ء- برطانوی کابینہ کے ایک یہودی رکن ہربرٹ سیموئیل نے ایک خفیہ میمورنڈم لکھا جس میں فلسطین میں یہودی آباد کاری کی حمایت کی ۔
1916ء-سر ہنری مکموہن مصر میں برطانوی ہائی کمشنر تھے انہوں نے گورنر حجاز شریف حسین مکہ کو آٹھ خطوط لکھے جن میں عربوں کو خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت پر اکسایا گیا اور پہلی جنگ عظیم میں اتحادیوں کا ساتھ دینے کا کہا گیا جس کے عوض شریف حسین مکہ نے عرب ریاستوں کی آزادی کا مطالبہ کیا جن میں شام ، عراق ، اردن ، اسرائیل ،مغربی کنارا ،غزہ اور سعودی عرب شامل تھے ۔
16 مئی 1916ء-فرانس اور برطانیہ نے ایک معاہدے کے تحت خلافت عثمانیہ کے حصے بخرے کر کے بندر بانٹ کر لی ۔
1917ء- بالفور معاہدے کے تحت برطانیہ نے عربوں کی دھرتی پر ایک یہودی ریاست قائم کرنے کا وعدہ کر لیا ۔
1919ء-خلافت عثمانیہ کے بعد مشرق وسطیٰ کی ممکنہ ہیئت پر امریکی صدر وڈرو ولسن نے برطانیہ اور فرانس کے درمیان ایک کمیشن قائم کیا جس کا مقصد دیگر عرب ریاستوں کے ساتھ فلسطین کے مستقبل کا تعین کرنا تھا۔
1922ء-لیگ آف نیشنز نے خلافت عثمانیہ کے علاقوں کو فرانس اور برطانیہ میں تقسیم کر دیا ۔شام اور لبنان فرانس کو دے دیئے گئے عراق اور فلسطین برطانیہ کو دئے گئے ۔برطانیہ نے فلسطین کو دوحصوں میں تقسیم کر دیا ایک کو اردن کا نام دیا گیا ۔ بحیرہ روم اور دریائے اردن کا علاقہ جسے فلسینص کہا گیا وہ عربوں اور یہودیوں کے درمیان وجہ تنازعہ بن گیا ۔
1929ء-فلسطین میں یہودی آباد کاروں کے خلاف پہلی منظم تحریک البراق کا آغاز ہو ا۔

1933ء-جرمنی میں نازیوں کے مظالم سے بچنے کے لئے یہودیوں نے بڑے پیمانے پر فلسطین کی جانب ہجرت کی ۔تقریباً 154300 یہودی جن میں سے 34700 صرف جرمنی سے نکلے وہ فلسطین پہنچے ۔جس سے فلسطین میں یہودیوں کی تعداد جو پہلے 17 فیصد تھی وہ 1935ء تک 30 فیصد ہو گئی ۔
1935ء-انقلابی فلسطینی رہنما عزالدین القاسم کو برطانوی فوجیوں نے قتل کر دیا ۔
1936ء-یہودیوں کی آبادکاری کے خلاف فلسطینیوں نے چھ ماہ تک طویل ہڑتال کی اس دوران بڑے پیمانے پر فسادات ہوئے اور برطانوی تنصیبات کو نقصان پہنچایا گیا ۔
1937ء-ہڑتال بغاوت میں بدل گئی جس پر برطانیہ نے پیل کمیشن بنایا جس نے فلسطینیوں سے زمینیں لے کر یہودی ریاست کے حوالے کیں ۔
1938ء-صیہونیوں کے مسلح گروہ ارگون نے فلسطینیوں پر حملے شروع کر دیئے ۔
1939ء-برطانیہ نے تین سالہ طویل عرب بغاوت کو کچل دیا ۔
1942ء –صیہونیوں کی کانفرنس نیویوارک میں منعقد ہوئی جس میں امریکہ یہودی تعلقات کی تجدید کی گئی ۔
1946ء-ارگون نے یوروشلم کے کنگ ڈیوڈ ہوٹل پر دھماکہ کیا جس میں 91 افراد مارے گئے ۔
1947ء-اقوام ِ متحدہ نے قرار داد نمبر 181 پاس کی جس میں فلسطین کی تقسیم کا منصوبہ پیش کیا گیا جسے فلسطینیوں نے مسترد کر دیا ۔
جنوری 1948ء-صیہونیوں کے مسلح گروہ نے یوروشلم کے ایک ہوٹل میں دھماکہ کر کے 20 افراد قتل کر دیئے ۔
فروری 1948ء-صیہونی فوجوں نے حیفہ کے نزدیک قیصریہ کے قصبے پر حملہ کیا جو نسلی قتل عام کی ابتدا ثابت ہوا ۔
اپریل 1948ء –یوروشلم کے نزدیک دائر یاسین نامی علاقے میں فلسطینیوں کا قتل عام کیا گیا ۔
14مئی 1948ء-ریاست اسرائیل کا قیام جس سے علاقے میں ایک تنازعہ شروع ہو گیا ۔نوزائیدہ ریاست کو امریکہ اور روس نے تسلیم کر لیا ۔

15 مئی 1948ء-اس وقت پہلی عرب اسرائیل جنگ شروع ہو گئی جب پانچ عرب ریاستوں لبنان ، شام ، عراق ،مصر اور سعودی عرب نے اسرائیل پر حملہ کر دیا ۔ برطانوی اور صیہونی فوجوں نے نہ صرف اسرائیل کا کامیابی کے ساتھ دفاع کیا بلکہ وہ فلسطینی علاقوں پر بھی قابض ہو گئے ۔
فروری تا جولائی 1949ء – اسرائیل اور ہمسایہ عرب ممالک مصر ، لبنان ، شام اور اردن کے درمیان جنگ بندی معاہدہ ہو گیا ۔سات لاکھ فلسطینی اپنے ہی ملک میں مہاجر بن گئے جن میں سے ایک تہائی مغربی کنارہ جو اردن کے کنٹرول میں تھا وہاں چلے گئے ۔ایک تہائی غزہ جس پر مصر کا کنٹرول تھا وہاں آباد ہو گئے اور باقی لبنان ، اردن اور شام میں آباد ہو گئے ۔ اردن کے علاوہ باقی عرب ملکوں نے انہیں پناہ گزین کیمپوں تک محدود کر دیا جبکہ اردن کے شاہ عبداللہ نے دو لاکھ فلسطینیوں کو شہریت دی ۔
1956ء-عربوں نے اسرائیل کا معاشی بائیکاٹ کر دیا ۔ نہر سویز کے راستے اسرائیل کی تجارت روک دی ۔عربوں اور اسرائیل کے درمیان سرحدی جھڑپیں شروع ہوئیں جو دوسری عرب اسرائیل جنگ کی صورت اختیار کر گئیں ۔اسرائیل نے مصر سے غزہ ،جزیرہ نما سنائی کا علاقہ چھین لیاجبکہ برطانیہ اور فرانس کی فوجوں نے نہر سویز کا کنٹرول سنبھال لیا۔دسمبر میں اقوام متحدہ کی فوجیں آ گئیں جنہوں نے نہر سویز کا کنٹرول فرانس اور برطانیہ سے لے لیا اور اسرائیل کو مجبور کیا کہ وہ اپنی سابق پوزیشنوں پر چلا جائے ۔ اقوام متحدہ کی فوجوں نے غزہ اور خلیج عرب میں رہ کر یہ یقینی بنایا کہ اسرائیل کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہو ۔ غزہ مصر کو واپس مل گیا ۔
1964ء- قائرہ میں پی ایل او کا قیام
1966ء- اسرائیل نے سموں نامی گاؤںمیں فلسطینیوں کا قتل عام کیا۔
5 جون 1967ء- اسرائیل نے مصر ، شام اور اردن کے خلاف حملہ کر دیا ، چھ روزہ جنگ میں اسرائیل نے ایک بار پھر غزہ ، مصر کے جزیرہ نما سینائی ،شام کی گولان کی پہاڑیاں اور اردن کے مغربی کنارے پر قبضہ کر لیا ۔اس جنگ کے دوران اڑھائی لاکھ فلسطینی اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ۔اقوام متحدہ نے قرار داد نمبر 242 پا س کی جس کے تحت اسرائیل کوکہا گیا کہ وہ جنگ میں قبضہ کئے گئے علاقے واگزار کر دے ۔
یکم ستمبر 1967ء – عرب رہنما خرطوم میں اکھٹے ہوئے اور انہوں نے اسرائیل کو کسی صورت تسلیم نہ کرنے ،اور کسی صورت مذاکرات نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
1970ء- اسرائیل نے اردن میں فلسطینی مجاہدین کے کیمپوں پر حملے کئے جس کے بعد پی ایل او اردن سے لبنان منتقل ہو گئی ۔
1972ء-میونخ اولمپکس کے دوران فلسطینی کمانڈوز نے اولمپک ویلج پر حملہ کر کے 11 اسرائیلی کھلاڑیوں کو قتل کر دیا ۔
6 اکتوبر 1973ء- مصر نے نہر سویز کے مشرقی کنارے پر موجود اسرائیلی فوجوں پر حملہ کر دیا اسی دوران شام نے گولان کی پہاڑیوں پر موجود اسرائیلی فوجوں پر حملہ کیا ۔ابتدا میں مصر اور شامی فوجوں کو کامیابی ملی مگر بعد میں اسرائیل نے مصر اور اور شامی فوجوں کو پیچھے دھکیل دیا۔اس جنگ میں روس شام اور مصر کے پیچھے جبکہ امریکہ اسرائیل کے پیچھے کھڑ اہو گیا ۔ اقوام متحدہ کی قرار داد نمبر 238 کے تحت 22 اکتوبر کو جنگ بندی معاہدہ ہو گیا مگر فریقین نے اسے تسلیم نہیں کیا اس سے پہلے کہ جنگ مزید پھیل جاتی اقوام متحدہ نے ایک اور قرارداد نمبر 340 کے تحت جنگ بندی کرا دی مگر یہ جنگ اسرائیلی فتح پر اختتام پزیر ہوئی ۔
1974ء- امریکی مشاورت پر اسرائیل اور مصر نے نہر سویز میں امن معاہدے پر دستخط کر دئے جس کے تحت اسرائیل نہر سویز کے مغربی کنارے سے 20 میل پیچھے چلا جائے گا اور مصر بھی وہاں سے اپنی فوجیں پیچھے ہٹا لے گا اس طرح یہ یہ علاقہ اقوا م متحدہ کے تحت بفر زون بن جائے گا ۔ اسی طرح کا معاہدہ مئی 1974ء میں شام اور اسرائیل کے درمیان بھی ہو گیا جس میں ایک بار پھر ہنری کسنجر کا اہم کردار تھا ۔معاہدے کے تحت اسرائیل گولان کی پہاڑیوں پر کچھ علاقہ خالی کرنے پر رضا مند ہو گیا ۔ ساتھ ہی شام نے کسی بھی فلسطینی گروہ کو اپنی سرزمین اسرائیل کے خلاف استعمال کرنے سے روک دیا ۔ مگر اسی دوران اکتوبر میں عرب لیگ نے پی ایل او کو فلسطینیوں کی نمائندہ تنظیم تسلیم کر لیا ۔
10 نومبر 1975ء-اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد نمبر 1904 پاس کی جس میں صیہونیت کو نسل پرستانہ قرار دیا گیا ۔
1976ء-اسرائیل نے فلسطینی شہریوں سے ہزاروں ہیکٹر کی زمین ہتھیا لی جس کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے جنہیں اسرائیل نے سختی سے کچل دیا ۔اسرائیلآج بھی اس دن کو “یوم سرزمین ” کے نام سے مناتا ہے ۔
11 مارچ 1978ء- پی ایل او نے اسرائیل کے خلاف کمانڈو حملہ کیا جس میں کئی اسرائیلی مارے گئے ۔اسرائیل نے اس کے خلاف لبنان پر حملہ کر کے کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا ۔ لبنان نے اقوام متحدہ میں احتجاج کیا جس پر سیکورٹی کونسل نے قرار داد نمبر 425 کے تحت اسرائیل کو کہا کہ وہ لبنان کے علاقے خالی کر دے ۔اقوام متحدہ نے اپنی فوجیں لبنان بھیج دیں ۔
1978ء- اسرائیل اور مصر نے کیمپ ڈیوڈ معاہدے پر دستخط کر دیئے ۔دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات استوار ہو گئے ۔مصر اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا عرب ملک بن گیا جواب میں اسرائیل نے جزیرہ نما سینائی کے مقبوضہ علاقے مصر کوواپس کر دیئے ۔عرب لیگ نے مصر کی رکنیت معطل کر دی ۔اسی معاہدے کی وجہ سے مصر کے صدر انور سادات 1981ء میں قتل کر دیئے گئے ۔
1982ء-اسرائیل نے پی ایل او کو بیروت سے نکالنے کے لئے لبنان پر قبضہ کر لیا ۔پی ایل او کے بہت سے مجاہد مارے گئے ۔جس کے بعد پی ایل او کا ہیڈ کوارٹر تیونس منتقل ہو گیا ۔اسی سال اقوام متحدہ نے فلسطینیوں سے یکجہتی کا سال منایا ۔اسی سال امریکی صدر ریگن نے ایک پلان پیش کیا جس کے تحت مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کے علاقوں کے فلسطینیوں کواردن کے تعاون سے اپنی حکومت قائم کرنے کی تجویز دی گئی جبکہ اسرائیل سے کہا گیا کہ وہ یہ علاقے خالی کر دے ۔یوروشلم کی تقسیم نہیں ہو گی ۔اس پلان کے تحت فلسطین کی آزاد ریاست کا منصوبہ مستترد کر دیا گیا اس لئے یہ قبولیت نہیں پا سکا ۔

17 مئی 1983ء-اسرائیل اور لبنان کے درمیان امن معاہدہ ہو گیا اور دونوں ممالک ایک دوسرے کی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہونے کی یقین دہانی کرائیں گے ۔
9 دسمبر 1987ء-فلسطینیوں نے انتفادہ تحریک شروع کر دی ۔مظاہرے اور جھڑپیں ہوئیں مگر بالآخر دونوں فریقین نے اپنی اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کی۔پی ایل او اسرائیل کے ساتھ امن پر رضا مند ہو گئی اس کے جواب میں اسے فلسطین کے ایک مختصر علاقے میں اپنی حکومت قائم کرنے کی اجازت مل گئی ۔اسرائیل نے مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کے کافی علاقے خالی کر دیئے ۔اس طرح تحریک انتفادہ نے فلسطینی ریاست کے قیام کی راہیں ہموار کر دیں ۔پی ایل او نے 1988ء میں اسرائیل کو تسلیم کرلیا ۔
دسمبر 1987ء-مصر کی تنظیم مسلم برادر ہڈ سے علیحدہ ہونے والوں نے اپنی ایک الگ تنظیم حماس قائم کر لی جس کے بانی شیخ یاسین تھے جنہوں نے اسرائیل کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ۔
15 جون 1988ء-پی ایل او کے چیئرمین یاسر عرفات نے فلسطینی نیشنل کونسل قائم کر دی جو کہ آزاد فلسطینی ریاست کا انتظام سنبھالے گی تاہم ا سریاست کی حدود واضح نہیں کی گئیں ۔
16 اپریل 1993ء- حماس نے اسرائیل میں ایک مسافر بس پر پہلا خود کش حملہ کیا جس کے نتیجے میں دو مسافر ہلاک ہو گئے ۔1993ء سے 2000ء کے درمیان اسرائیل میں حماس کی جانب سے 37 خو دکش حملے کئے گئے ۔
13 ستمبر 1993ء –اسرائیل اور پی ایل او کے درمیان اوسلو امن معاہدہ ہو گیا۔
25 فروری 1994ء۔ایک ماریکی نژاد اسرائیلی شہری گولدسٹین نے مسجد ابراہیم میں فائرنگ کر کے 29 نمازیوں کو ہلاک اور 125 کو ذخمی کر دیا ۔جس پر فسادات پھوٹ پڑے جن کے نتیجے میں 20 فلسطینی اور 10 یہودی ہلاک ہو گئے ۔
اپریل 1994ء –اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان پیرس پروٹوکلز پر دستخط ہوئے جس کے تحت دونوں فریقین کے درمیان معاشی سرگرمیوں کے اصول طے کئے گئے ۔
4 مئی 1994ء-اسرائیل اور پی ایل او کے درمیان قاہرہ میں ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت اسرائیل غزہ کی پٹی سے متصل 65 مربع کلومیٹر کا علاقہ فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کر دے گا لیکن ان نیم خودمختار علاقوں کی سرحدیں اسرائیل کے کنٹرول میں ہی رہیں گی ۔
26 اکتوبر 1994ء-اسرائیل اور اردن کے درمیان سرحد بندی کے لئے معاہدہ ہو گیا جس کے تحت دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات اور معاشی سرگرمیاں بحال کریں گے۔اسرائیل نے یوروشلم میں مسلمانوں کے مقدس مقامات اردن کی تحویل میں دینے پر رضا مندی ظاہر کی ۔
1995ء- اسرائیل اور پی ایل او کے درمیان ایک اور معاہد ہوا جس کے تحت اسرائیل مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کے کچھ علاقوں میں فلسطینیوں کو مزید خودمختاری دے گا ۔
1997ء-ہیبرون کے بعض علاقوں سے اسرائیلی فوجیوں کے انخلا کے حوالے سے اسرائیل اور پی ایل او میں معاہدہ ہو گیا۔
4 اکتوبر 1999ء-اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مستقل امن کا طریقہ کار طے کرنے کے لئے شرم الشیخ میں معاہدہ ہوا جس کے تحت ابتدائی طور پر اسرائیل نے 350 قیدی رہا کر دیئے ۔
2000ء- پی ایل او اور اسرائیل نے کیمپ ڈیوڈ میں دوبارہ مذاکرات کئے جو نتیجہ خیز نہ ہو سکے ۔
27 اگست 2001ء-اسرائیل نے فلسطین کی آزادی کے لئے قائم پاپولر فرنٹ کے لیڈر ابو علی مصطفی ٰ کو ایک میزائیل حملے میں ہلاک کر دیا ۔
17 اکتوبر 2001ء –پاپولر فرنٹ کے رہنما کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لئے اسرائیل کے وزیر سیاحت ریحام زاوی کو ہلاک کر دیا گیا ۔
2002ء- فلسطینیوں کی جانب سے دوسری تحریک انتفادہ شروع ہوئی اس دوران 164 بم دھماکے ہوئے جس کےجواب میں اسرائیل نے فلسطینی شہروں پر قبضہ کر لیا ۔2002ء سے 2006 ء کے دوران حماس نے 51 خود کش حملے کئے جن میں 272 اسرائیلی مارے گئے ۔اسلامک جہاد اور الاقصی ٰ برگیڈ نے 68 خود کش دھماکے کئے جن میں 178 اسرائیلی مارے گئے ۔
30 اپریل 2003ء-امریکہ نے 2005ء تک ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لئے ایک روڈ میپ کا اعلان کیا ۔
19 جون 2003ء- اسرائیل نے مغربی کنارے پر 200 کلومیٹر لمبی دیوار کی تعمیر شروع کر دی ۔
14 اکتوبر 2003ء –فلسطینی اور اسرائیلی سیاستدانوں کے ایک گروپ نے جنیوا میں ایک علامتی امن معاہدے پر دستخط کئے جس کے تحت مجوزہ فلسطینی ریاست کے قیام اس کی حدود اور دارالحکومت کے بارے میں یادداشت شامل تھی ۔
22 مارچ 2004ء – حماس کے بانی شیخ احمد یاسین ایک اسرائیلی فضائی حملے میں ہلاک کر دیئے گئے ، ان کی جگہ حماس کے نئے لیڈر عبدالعزیز رنتسی بھی ایک فضائی حملے میں ہلاک کر دیئے گئے ۔28 جون کو حماس نے اسرائیل کے خلاف پہلی بار راکٹ فائر کئے جن سے دو اسرائیلی ہلاک ہو گئے ۔
2004ء ۔ یاسر عرفات کا پیرس میں 75 سال کی عمر میں انتقال ہو گیا ۔
2005ء- اسرائیل نے غزہ کو خالی کر دیا ۔اسرائیلی وزیراعظم ایریل شیرون اور فلسطینی صدر محمود عباس جنگ بندی پر آمادہ ہو گئے ۔
2006ء – اسرائیل اور حماس کے درمیان لبنان میں جنگ شروع ہو گئی جس میں 908 لبنانی اور 159 اسرائیلی مارے گئے ۔
2007ء – حماس نے غزہ کا کنٹرول سنبھال لیا جبکہ اسرائیل نے غزہ کی ناکہ بندی کر دی ۔
2008ء- اسرائیل نے غزہ پر حملہ کر دیا ۔
29 نومبر 2012 ء – اقوام متحدہ نے فلسطین کو آبزرور سٹیٹ کا درجہ دے دیا ۔
2012ء – اسرائیل نے غزہ پر مزید حملے کئے ۔
2014ء-اسرائیل نے 1967ء کے بعد سے غزہ پر سب سے بڑے حملے کئے ۔
13 مارچ 2015 ء- ویٹی کن نے فلسطین کی ریاست کو تسلیم کر لیا ۔
16 مارچ 2015ء – اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے دو ریاستی تھیوری کو خارج از امکان قرار دے دیا ۔
6 فوری 2017ء – اسرائیل نے فلسطینی علاقوںمیں قائم 4000 اسرائیلی گھروں کو قانونی قرار دے دیا ۔
15 فروری 2017ء – امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک دہائی سے دو ریاستی امریکی پالیسی کو خیر آباد کہتے ہوئے ایک ریاستی پالیسی کا اعادہ کیا ۔
6 اپریل 2017ء ۔ روس نے مغربی یوروشلم کو اسرائیل جبکہ مشرقی یوروشلم کو مستقبل کی فلسطینی ریاست کا دارالحکومت تسلیم کر لیا ۔
یکم مئی 2017ء – حماس نے 1967ء کی سرحدوں کے مطابق عارضی فلسطینی ریاست کے قیام پر آمادگی ظاہر کر دی ۔
6 دسمبر 2017ء – ڈونلڈ ٹرمپ نے یوروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے امریکی سفارتخانہ منتقل کرنے کا حکم نامہ جاری کر دیا ۔
19 جولائی 2018ء- اسرائیلی پارلیمنٹ نے ایک قانون پاس کیا جس کے تحت اسرائیل کو ایک یہودی ریاست ،ہیبرو کو قومی زبان اور متحدہ یوروشلم کو دارالحکومت قرار دے دیا گیا ۔
وسط اپریل 2021ء-چھ فلسطینی خاندان جو شیخ جراح میں اپنے گھروںمیں 1950ء سے رہ رہے تھے انہیں جبری بے دخل کر دیا گیا۔جس سے فلسطینیوں اور اسرائیلوں کے درمیان جھڑپیں شروع ہو گئیں، جنہوں نے مسجد اقصی ٰ کو بھی لپیٹ میں لے لیا ۔ اب تک اسرائیل کے غزہ پر فضائی حملوںمیں 217 فلسطینی شہری ہلاک ہو چکے ہیں جن میں 63 بچے بھی شامل ہیں جبکہ حماس کے راکٹوں کا نشانہ 12 اسرائیلی شہری بنے ہیں ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں