354

المصطفیٰ کی ٹیم کا دورہ فلسطین

مصر اور اردن کے راستے فلسطین میں داخلے کی ایک حیرت انگیز داستان
ہزاروں فلسطینی بے گھر ہو چکے، جن کے سر پر چھت ہے نہ گزر بسر کا سامان
المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کی ٹیم نے اردن اور مصر میں پناہ گزین کیمپوں کے علاوہ غزہ میں پہنچ کر امدادی سرگرمیاں جاری رکھیں
امام مسجد اقصی ٰشیخ عمر الکسوانی کی جانب سے آزمائش کی گھڑی میں امداد پہنچانے پر چیئرمین عبدالرزاق ساجد اور المصطفیٰ کے معاونین کا شکریہ

ایمز سپیشل رپورٹ
یہ مئی 2021ء کا آخری ہفتہ تھا ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘کے بلند عزم چیئرمین عبدالرزاق ساجد نے مظلوم فلسطینیوں کے درد کو محسوس کرتے ہوئے ’’ ریلیف مشن‘‘ کے لئے آنا ً فاناً فلسطین کا دورہ طے کیا ۔ عبدالرزاق ساجد کا کہنا تھا کہ فلسطین اسرائیل کی حالیہ جھڑپوں میں جہاں ہزاروں کی تعداد میں عمارتیں تباہ و برباد ہوئی وہیں 300سے زیادہ فلسطینی شہید اور ہزاروں افراد زخمی بھی ہوئے ہیں اور یہ تباہی کسی سونامی سے کم نہیں ہے ۔ اس لئے ہمیں ان مسلمان بھائی بہنوں کی ہر ممکن مدد کیلئے جلد از جلد فلسطین پہنچنا چاہیے، چنانچہ میرے علاوہ ایک اور صحافی اور ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ کی ٹیم کے دیگر افراد 28مئی کو قاہرہ کیلئے روانہ ہوئے کیونکہ اسرائیل کے راستے غزہ پہنچنا ممکن نہیں تھا۔ ہم مصر پہنچے جہاں سے غزہ کی پٹی سے مصر کی سرحد رفاح کے مقام پر ملتی ہے۔ عرب جمہوریہ مصر براعظم افریقہ کے شمال مغر ب اور براعظم ایشیا کے شمال مغرب میں لیبیا اور جزیرہ نما میں واقع ہے ۔ مصر دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں کا منبع ہے جس کے ڈانڈے چھ سے آٹھ ہزار قبل مسیح تک جاتے ہیں۔اس کے بیچوں بیچ دریائے نیل گزرتا ہے اس لئے اسے نیل کی تہذیب بھی کہتے ہیں ۔ دریائے نیل ، جو افریقہ کے کئی ممالک میں بہتا ہے ۔ یہ مشہور دریا دو شاخون نیل ابیض اور نیل ِ ارزق سے تشکیل پاتا ہے۔ یہ روانڈہ سے نکلتا ہے اور تنزانیہ، یوگینڈا اور جنوبی سوڈان سے گذرتا ہے جبکہ نیل ارزق ایتھوپیا میں جبل ٹانا سے شروع ہوتا ہے اور سوڈان کے دارالحکومت خرطوم کے قریب آ کر آپس میں مل جاتے ہیں ۔ نیل کی لمبائی 4ہزار ایک سو ساٹھ میل بنتی ہے۔ مصر کے تقریباً تمام شہر اسی دریا کے کنارے آباد ہیں، مذہبی حوالوں سے بھی دریائے نیل کی بڑی اہمیت ہے اور دریائے فرات کے علاوہ نیل وہ واحد دریا ہے جس کا ذکر قرآن پاک میں بھی ہے اسی دریا کے کنارے المعروف اہرام مصر اور ابو الہول کے بت سمیت فراعین کے زمانے کی درجنوں یادگاروں سمیت اسلامی دور کی کئی ایک برگذیدہ ہستیوں کے مزارات بھی ہیں جو قاہرہ سے اسکندریہ اور مصر کے دیگر شہریوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ جامعہ الازہر جیسی 1000سال قدیم یونیورسٹی بھی قاہرہ میں ہے۔

غزہ جانے کیلئے ہمیں مصر کے سرحدی علاقہ رفاح سے مصر کی حکومت کی طرف سے اجازت درکار تھی، غزہ میں’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ کی مقامی ٹیم کی طرف سے غزہ آنے کا دعوت نامہ جناب عبدالرزاق ساجد کو موصول ہو چکا تھا لیکن کئی روز و شب کی کوششوں کے باوجود یہ اجازت نہ مل سکی۔ چنانچہ رفاح اور دیگر مقامات پر جہاں کہیں غزہ سے آنے والے مہاجرین موجود تھے ان کی مالی امداد کے ساتھ ساتھ انھیں کھانے پینے کی اشیاء بھی پیش کی گئی لیکن عبدالرزاق ساجد صاحب چاہتے تھے کہ ہر حالت میں خود فلسطین اور مسجد الاقصی جا کر اپنی آنکھوں سے حالت زار دیکھی جائے اور ضرورت مندوں کی ہر ممکن امداد کی جائے۔میڈیا کی خبروں اور دیگرذرائع سے یہ پتا بھی چلا کہ اُردن کے سرحدی علاقوں میں بھی ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی عارضی کیمپوں میں مقیم ہیں لہٰذا ہم اُردن پہنچ گئے۔اُردن بھی ایک اسلامی ملک ہے یہ دریائے اردن کے مشرقی کنارے پر واقع مغربی ایشیا کا ایک خوبصورت ملک ہے اس کے مشرق میں سعودی عرب اور مغرب میں اسرائیل واقع ہے۔ اسرائیل اور اردن بحیرہ مردار کا سارا انتظام سنبھالتے ہیں۔ہم اردن کے دارالحکومت عمان پہنچے۔ اردن میں بھی تاریخی اعتبار سے بہت تہذبیں آباد ہوتی رہی ہیں ماضی میں کچھ عرصہ کیلئے اردن پر بھی مصر کے فرعون قابض رہے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں مقدونیائی، یونانی، رومن، ہاز نطینی اور عثمانی ثقافتوں کے اثرات بھی مرتب ہوئے ، ساتویں صدی عیسوی سے یہاں عربوں اور مسلمانوں کی ثقافت کے اثرات گہرے ہوتے گئے۔

آج یہاں ہاشمی بادشاہت ہے اور عوام کی نمائندہ حکومت بھی ہے ۔ اردن کا بادشاہ ملک کا حکمران اور ملکی فوج کا سپہ سالار بھی ہوتا ہے۔ بادشاہ وزیر اعظم اور وزراء کے ذریعے اپنے اختیارات استعمال کرتا ہے۔ یہاں کی حکومت مغرب نواز ہے اور امریکہ و برطانیہ سے اس کے گہرے تعلقات ہیں ۔ 1996ء سے اردن امریکہ کا ایک اہم غیر ’’نیٹو‘‘ اتحادی ملک ہے جہاں بزرگان دین کے کئی ایک مزارات بھی ہیں۔ اردن کے اسرائیل سے بھی گہرے تعلقات ہیں۔ عبدالرزاق ساجد یہ بھی سمجھتے تھے کہ کیونکہ اردن کے تعلقات اسرائیل سے دوستانہ ہیں اور پھر مسجد الاقصی کے تمام انتظامی امور بھی اُردن کا محکمہ اوقاف ہی ایک معاہدے کے تحت چلاتا ہے چنانچہ یہاں سے ہمیں اسرائیل داخل ہونے میں مدد مل سکے گی۔اس کوشش کے ساتھ ساتھ دارالحکومت عمان کے شمال میں پہاڑوں کے درمیان جہاں سے اسرائیلی پہاڑوں کی چوٹیاں بھی دکھائی دے رہی تھیں ، یہاں موجود فلسطینی مہاجرین کے کیمپوں تک بھی ہم پہنچے ، جہاں ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ کی طرف سے سینکڑوں فیملیز کو ہزاروں کی تعداد میں فو ڈ پیک اور ادویات کے علاوہ نقد رقم کی صورت میں امداد دی گئی، یہ لوگ خاصی کسمپری کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ ایک طویل اور روح فرسا روداد ہے یہاں مختلف کیمپوں میں امداد کی تقسیم کے بعد اُردن کے بعض بااثر حلقوں اور اسرائیل کے اندر بعض سرکاری افراد کی خصوصی مدد کی وجہ سے بالآخر ’’المصطفیٰ ویلیفئر ٹرسٹ‘‘ کی امدادی ٹیم مسجد الاقصیٰ تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی جہاں بتایا گیا کہ مسجد اقصیٰ کے اندر اور بیرونی دیواروں کو بھی حالیہ چھڑپوں میں خاصا نقصان ہوا ہے، مسجد اقصیٰ کے امام اور ڈائریکٹر شیخ عمر الکسوانی کے مطابق اس نقصان کا تخمینہ دو لاکھ برطانوی پاؤنڈ تک لگایا گیا ہے ۔ ’’ المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ کے چیئرمین عبدالرزاق ساجد نے مسجد کی انتظامیہ کو یقین دہانی کروائی کہ وہ بھی اپنے ڈونرز کی مدد سے مسجد اقصی کی مرمت کے مقدس کام میں حصہ ڈالیں گے۔ فلسطینی علاقوں میں تباہی و بربادی کی وہ داستانیں موجود ہیں کہ جنہیں الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے ۔ ایسے بچے بھی بڑی تعداد میں یہاں موجود ہیں جن کے والدین بہن بھائی سب اس جنگ میں شہید ہو چکے ہیں ان بچوں کا اب کوئی پرسان حال نہیں جو ان کے دکھوں کا مداوا کر سکے، ان بچوں، بڑوں کو اور زخمیوں کو اور بے آسرا فلسطینیوں کو ہر قسم کی امداد کی فوری ضرورت ہے ورنہ ان کی زندگیوں کو بارود سے نہ سہی بھوک سے زیادہ خطرات لاحق ہیں،ان کے سر پر چھت نہیں ہے جو انہیں موسم کی سختی سے بچا سکے۔ کورونا وائرس کے ان سخت حالات میں ان کیلئے کوئی حفاظتی بندوبست نہیں ہے۔ کُھلا آسمان ہے اور کڑکتی دھوپ ہے کھانے کو روٹی ہے نہ پینے کیلئے صاف پانی، ادویات ہیں نہ قوت خرید، ان حالات میں’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ نے تو اپنا انسانی فریضہ ادا کیا ہے لیکن اقوام متحدہ، اوآئی سی، عرب لیگ اور مخیر حضرات کو بھی آگے بڑھنا ہو گا ورنہ سسکتی انسانیت ان سے سوال ضرور کرے گی کہ ہم جو انبیاء کی مقدس زمین کے باسی ہیں، مقدس مسجد الاقصی ٰکے محافظ ہیں کیا ہم لاوارث ہیں ۔ کیا ہماری دُنیا بھر میں کوئی اُمہّ نہیں جو آج اس مشکل ترین گھڑی میں ہمیں زندگی کی نوید دے سکے؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں