ویکسین رول آوٹ کے باعث چوتھے لاک ڈاون کے چانسسز کم ہیں
رپورٹ: مشتاق مشرقی
برطنیہ میں اگست اور ستمبر کے مہینوں میں کرونا وائرس سے ھلاکتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا جس کی وجہ سے برطانوی عوام میں تشویش بڑھنے لگی تھی کہ شاید کووڈ نائینٹین پھر سے یوکے میں پھیل رہا ھے اور چوتھے لاک ڈاون کا خوف لوگوں کے دلوں میں جاگنے لگا تھا۔ چھ ستمبر کو لندن سے شائع ھونے والے اخبار آئی نیوز نے SAGE کمیٹی کے ایک ممبر کے حوالے سے بریکنگ سٹوری دے کر تہلکہ مچا دیا کہ برطانوی حکومت نے اگست میں کرونا وائرس کے بڑھتے ھوئے کیسسز کے پیش نظر اکتوبر کے آخری ھفتے میں مختصر مدت کا لاک ڈاون لگانے پر غور کیا تھا جسے October Firebreak Lockdown کا نام دیا گیا تھا SAGE نے ایمرجینسی صورتحال میں لاک ڈاون کی پلاننگ کے حوالے حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ اکتوبر میں جب سکول کے بچوں اور یونیورسٹی کے طلبہ کو ایک ھفتے کی مڈ ٹرم ہالیڈیز ھوں تو حکومت ان چھٹیوں کی مدت ایک ھفتے سے بڑھا کر دو ہفتے کر دے تاکہ ملک بھر سے آنے والے طالب علم وائرس کے پھیلاو کا موجب نہ بن سکیں کیونکہ کرونا وائرس پیپل ٹو پیپل کانٹیکٹ سے پھیلتا ھے۔ Firebreak کی ٹرم جنگل کی آگ کو روکنے کے لئے استعمال کی جاتی رھی ھے جس میں جنگل کی آگ کا پھیلاو روکنے کے لئے جنگل کے مڈل میں یا ایک ایریا میں بڑی تعداد میں درختوں اور جھاڑیوں کو کاٹ کر خالی میدان بنا دیا جاتا ھے اس طرح بڑھتی ھوئی آگ خالی میدان کے نزدیک پہنچ کر رک جاتی ھے۔ سائینسدان بھی کرونا وائرس کے پھیلاو کو روکنے کے لئے Firebreak جیسی ٹیکنکستعمال کی جائے۔ اکتوبر 2020 میں بھی لوگوں کے زیادہ میل جول کرونا وائرس کے کیسسز میں تشویشناک حد تک اضافہ ھوا تھا۔ گذشتہ برس وزیراعظم بورس جانسن نے اعلان کر دیا تھا کہ ھم نے کووڈ کو شکست دیدی ھے لیکن پھر سب نے دیکھا کہ دسمبر تک ھسپتالوں میں وارڈز وائرس سے متاثرہ افراد سے بھر گئے تھے اور بورس جانسن کو نیا لاک ڈاون لگانا پڑ گیا تھا۔
جیسے جیسے ھم موسم خزاں سے سردیوں کی جانب بڑھ رھے ھیں لوگ پوچھتے ھیں کہ اگلے چھ ماہ ختم ھونے تک حالات کیا ھونگے سائینسدانوں کے پاس بھی ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں۔ بورس جانسن اور حکومتی وزرا لوگوں کو امید دلانے کے سوا اور کچھ نہیں کر سکتے۔ ایسا لگتا ھے کہ ستمبر میں برطانوی عوام کی تشویش کو کم کرنے اور انہیں مستقبل میں کرونا وائرس کے ممکنہ پھیلاو سے نمٹنے کے لئے ذھنی طور پر تیار کیا جارا ھے۔ کچھ مبصرین کا خیال ھے کہ آئی نیوز کی سٹوری بھی حکومتی سورس نے لیک کی تھی تا کہ لوگ غیر متوقع صورتحال کے لئے تیار رھیں
17 ستمبر کو برٹش ٹرانسپورٹ سیکرٹری گرانٹ شاپس نے برطانوی حکومت کی کووڈ نائینٹین ٹریول ریڈ لسٹ کا ریویو کرتے ھوئے پاکستان کے ساتھ دیگر آٹھ ممالک سے سفر کی پابندیاں ہٹانے کا اعلان کر دیا تھا اس کے علاوہ 4 اکتوبر سے نان ریڈ لسٹ والے ممالک سے برطانیہ آنے والے برٹش سیٹیزنز جنہوں نے کرونا ویکسین کی ڈبل ڈوز لگوائی ھو گی انہیں پی سی آر ٹیسٹ کروانے کی ضرورت نہیں ھوگی لیکن نان برٹش مسافروں کو لازمی طور پر حکومت کے منظور شدہ قرنطینہ سنٹرز میں دس روز تک قیام کرنا ھو گا۔
سائیندانوں نے برطانیہ کے جنوب مغربی علاقے کورنوال کی مثال دیتے ھوئے کہا ھے جس علاقے میں لوگوں کے بڑے اجتماعات ھوتے ھیں وہ علاقے کرونا وائرس کی افزائش کے موزوں ھیں۔ یاد رھے کہ کورنوال اور اس کے نزدیکی ایریاز میں جولائی میں جی سیون سربراہ اجلاس اور بڑا میوزک فیٹیول منعقد ھوا تھا وہاں کرونا وائرس کے کیسز میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا تھا آجکل مقامی کونسلوں نے وہاں پبلک مقامات پر ماسک پہننا لازمی قرار دے رکھا ھے اور وہاں سب کے لئے سوشل ڈسٹنس رکھنا لازمی ھے۔ ہیلتھ ماھرین کہتے ھیں کہ اگر کووڈ کیسسز حد سے زیادہ بڑھے تو جس طرح کی پابندیاں کورنوال اور اس کے نزدیکی علاقوں میں لگائی گئی ھیں ایسی پابندیاں دسمبر جنوری میں دوسرے علاقوں میں بھ لگائی جا سکتی ھیں۔ بورس جانسن کو پہلے تین لاک ڈاونز میں تذبذب اور بروقت فیصلے نہ کرنے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ھے لیکن اب جس طرح سے برطانوی حکومت نے ویکسین رول آوٹ کو ھینڈل کیا ھے اس پر بورس جانسن کے اقدامات کی تعریف کی جا رھی ھے۔ ستمبر 2020 میں کرونا وائرس کے کیوں کی تعداد اتنی نہیں تھی جتنی ستمبر 2021 میں رھی۔ ماھرین نے خدشہ ظاھر کیا ھے اگر کیسسز اسی طرح بڑھتے رھے تو نیشنل ہیلتھ سروس پر بوجھ بڑھ جائے گا اور مریضوں کے لئے ہسپتالوں میں بیڈز کی کمی ھو جائے گی۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ھے کہ برطانوی عوام کو سمجھ لینا چاھیئے کہ کووڈ نائیٹین کہیں جانے والا نہیں ھے یہ وائرس بھی پرانی بیماریوں اور وائسسز کی طرح آبادی میں موجود رھے گا اس وائرس سے سب سے بڑا خطرہ یہ ھے کہ وائرس یہ اپنی ھیئت بدلتا رھتا ھے۔ مسقتبل میں یہ بھی ممکن ھے کہ کرونا وائرس کی بدلی ھوئی ڈیلٹا ویریئنٹ میں مزید تبدیلی آجائے گی جو زیادہ لوگوں کو متاثر کر سکتا ھے۔
ایک لاکھ سے زائد افراد کی ھلاکتوں کے باوجود برطانیہ میں کرونا وائرس کی روک تھام کے لئے لگائی جانے والی پابندیوں کی مخالفت کرنے والوں کی بہت بڑی تعداد موجود ھے جو سرے سے اس وائرس کو جان لیوا بیماری یا وبا تسلیم کرنے کے لئے تیار ھی نہیں ھیں ان لوگوں کا ماننا ھے کہ یہ ایک طرح کا فلو ھے جس کا علاج کیمسٹ شاپس میں اوور دی کاونٹر ملنے والی ادویات سے کیا جا سکتا ھے۔ وہ لوگ تو کووڈ کو بوڑھے یا انتہائی لاغر لوگوں کی بیماری کہتے ھیں۔ اگر کرونا وائرس کا پھیلاو خطر ناک حد تک بڑھ گیا تو حکومت نائٹ کلبز سپر مارکیٹوں سینیماز سپورٹس گراونڈز میں داخلے کے لئے ویکسین سرٹیفیکیٹس کی پابندی بھی لگا سکتی ھے۔ سائینسدانوں کی سفارش پر حکومت نے پچاس سال کی عمر سے اوپر کے لوگوں کو بوسٹر ویکسین لگانے کا عمل بھی شروع کر دیا ھے پہلی سٹیج پر ھیلتھ سیکٹر کے ملازمین کو بوسٹر ویکسین دی جا رھی ھے۔
سائینسدان سمجھتے ھیں کہ بڑی عمر کے لوگوں اور شدید طور پر بیمار لوگوں میں دو ڈوز لگوانے کے چھ ماہ بعد قوت مدافعت کم ھونے لگتی ھے
اس لئے انہیں بھی بوسٹر ویکسین کی ضرورت ھے۔ گزشتہ ایک برس میں حکومت نے کمیونٹی ٹیسٹنگ کو فروغ دیا ھے تا کہ کورنا وائرس سے متاثرہ افراد کی شناخت کرکے پہلی سٹیج پر ھی ان کا علاج کر دیا جائے تاکہ انہیں ھسپتال میں داخل ھونے کی ضرورت ھی نہ رھے۔ اس کے علاوہ ایسے لوگ جو سانس کی بیماروں کا شکار ھیں ان پر خصوصی توجہ دے کر انہیں علاج کی سہولتیں دی جائیں تا کہ انہیں ھسپتالوں کے بیڈز تک پہنچنے سے پہلے ھی فارغ کر دیا جائے۔ ھیلتھ ماھرین عام لوگوں کو مشورے دے رھے ھیں کہ وہ گھروں کے اندر تازہ ھوا کے گزر کو یقینی بنائیں گھروں کی کھڑکیاں دن کے مختلف اوقات میں ضرو کھولا کریں۔ پبلک سے کہا جا رہا ھے کہ وہ صبح یا شام کے پارکوں میں وقت گزاریں تاکہ تازہ ھوا سے ان کی صحت بہتر رھے اس کے علوماوہ لوگوں کو مشورہ دیا جا رہا ھے وہ رش کے وقت پبلک ٹرانسپورٹ استعمال نہ کریں جب کبی ٹرین یا بس پر سفر ضروری ھو تو ماسک ضرور پہنیں۔ یہ سب اقدامات وائرس کے پھیلاو کو سلو کرتے ھیں۔