604

قونیہ کہاں ہے

قونیہ ترکی کے دار الحکومت انقرہ کے جنوب میں واقع ہے ۔ استنبول سے کوئ ٧٠٠ کلو میٹر کے فا صلے پر ہے روڈ کے زریعہ تقریبا آٹھ گھینٹے اور ٹرین سے پانچ گھینٹےلگتے ہیں ۔قونیہ (Konya) ترکی کا ایک شہر ہے جو اناطولیہ کے وسط میں واقع ہے۔ 2000ء کے مطابق اس شہر کی آبادی 7,42,690 تھی اور یہ صوبہ قونیہ کا دار الحکومت ہے جو رقبے کے لحاظ سے ترکی کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔
تاریخ
رومی اس شہر کو اکونیم Iconium کہتے تھے۔ اس شہر پر 1071ء میں جنگ ملازکرد کے بعد سلجوقیوں کا قبضہ ہو گیا اور 1097ء سے 1243ء تک یہ سلاجقہ روم کا دار الحکومت رہا۔ تاہم اس دوران صلیبی جنگوں کے باعث یہ عارضی طور پر عیسائیوں کے قبضے میں بھی رہا، جن میں 1097ء میں گاڈفرے اور 1190ء میں فریڈرک باربروسا نے اس پر قبضہ کیا۔ قونیہ 1205ء سے 1239ء کے دوران اس وقت اپنے عروج پر پہنچا جب سلطان نے اناطولیہ، مشرق وسطی کے چند حصوں اور کریمیا پر بھی قبضہ کر لیا۔ 1219ء میں یہ شہر خوارزم شاہی سلطنت کے مہاجروں کی پناہ گاہ بنا جو منگولوں کے حملے اور خوارزم شاہ کی شکست کے بعد یہاں پہنچے۔ 1243ء میں قونیہ بھی منگولوں کے قبضے میں آ گیا اور سلاجقہ (سلجوقیوں) کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ سلاجقہ (سلجوقیوں) روم کی حکومت کے خاتمے کے بعد قونیہ 1307ء سے 1322ء تک قرہ مانیوں کی امارت رہا۔ 1420ء میں عثمانیوں کے ہاتھوں فتح ہوا اور 1453ء میں اسے صوبہ قرہ مان کا دار الحکومت بنادیا گیا۔

شمس تبریز کون تھے ؟ ان سے منصوب چند واقعات
شمس تبریزی یا شمس الدین محمد (1185ء – 1248ء) ایران کے مشہور صوفی اور مولانا روم کے روحانی استاد تھے۔ روایت ہے کہ شمس تبریزی نے مولانا روم کو قونیہ میں چالیس دن خلوت میں تعلیم دی اور دمشق روانہ ہو گئے۔ ابھی حال ہی میں ان کے مقبرے کو یونیسکو نے عالمی ثقافتی ورثہ کے لیے نامزد کیا ہے۔
حضرت شمس تبریزؒ اور مولانا روم!
حضرت شمس تبریزؒ کا پورا نام محمد شمس الدین تھا۔ شہر تبریز کے حوالے سے شہرت دوام پائی۔ حضرت شمس تبریز 560ھ میں بمقام سنبروار (عراق) میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد گرامی کا نام سید صلاح الدین محمد نور بخش تھا۔ حضرت تبریز کا سلسلۂ نسب براہ راست حضرت جعفر صادق سے ملتا ہے۔ ہوش سنبھالتے ہی حضرت شمس تبریزؒ کو تعلیم و تربیت کے لئے ان کے چچا عبدالہادی کے سپرد کردیا گیا۔ چچا نے بھتیجے پر بہت محنت کی یہاں تک کہ تفسیر، فقہ اور حدیث کے ساتھ دیگر علوم سے بھی آراستہ کردیا۔ حضرت شمس تبریز کو بچپن سے ہی دو شوق بہت عزیز تھے۔ رمضان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں اکثر روزہ رکھ لیتے تھے۔ جب بھی روزے سے ہوتے ذکرِ خدا میں اکیلے کہیں کونے میں بیٹھ جاتے تھے۔ اچھے اور لذیز کھانوں کا کبھی شوق نہ رہا۔ اکثر آسمان کی طرف دیکھ کر تبسم فرماتے رہتے جن کا راز کوئی نہ جان سکا۔
جب 579ھ میں سید صلاح الدین محمد نور بخش دعوتِ اسلام کے لئے بد خشاں کی طرف روانہ ہوئے تو اپنے فرزند حضرت شمس تبریزؒ کو بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ اس وقت آپ کی عمر 19؍ سال تھی۔ بدخشاں میں ہزاروں لوگوں کو حق کی تعلیم دی۔ پھر ’’ تب کوچک‘‘ کی طرف گئے۔ اور سینکڑوں کو دینِ اسلام میں شامل کیا۔ اور پھر وہاں سے باپ اور بیٹے نے کشمیر کا رُخ کیا۔ اس وقت یہاں کے لوگ سورج کی پرستیش کرتے تھے۔ کشمیر کے لوگ حضرت شمس تبریزؒ کے چاروں طرف اکٹھا ہوجاتے اور انہیں بہت ہی غور سے دیکھتے اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے۔ اگر نماز کو حضرت شمس تبریزؒ اور ان کے والد کھڑے ہوجاتے تو وہ بھی ان کے پیچھے کھڑے ہوجاتے اگر وہ سجدے میں جاتے تو یہ بھی سجدے میں ہوتے۔ یہ دیکھ کر حضرت صلاح الدین محمد نور بخش خوش ہوگئے اور اپنے بیٹے سے کہا۔ میں نے اتنی جلد لوگوں میں تبدیلی نہیں دیکھی اور میں یہ بھی دیکھ رہا ہوں کہ لوگوں کی بھیڑ زیادہ تمہاری جانب ہورہی ہے۔ میری ساری عمر میں جہاں جہاں میں دعو تِ اسلام کے لئے گیا کہیں بھی لوگوں کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھے۔ یہ تمہاری خوش نصیبی ہے کہ خدا تم پر مہربان ہورہا ہے۔ میں تمہاری بلندی کے لئے دُعا کرتا ہوں۔ ایک سال تین مہینے کشمیر میں قیام کیا اور پورے علاقے کے لوگوں کو اسلام میں داخل کیا۔ 586ھ میں اپنے وطن سنبراوار تشریف لے گئے۔
یہاں آنے کے بعد حضرت شمس تبریزؒ کی شادی ہوگئی۔ آپ کے دو فرزند سید نصیر الدین محمد اور سید علاؤ الدین احمد پیدا ہوئے۔ بعد ازاں علاؤالدین احمد’’زندہ پیر‘‘ کے لقب سے مشہور ہوئے۔ حالات وواقعات کے اعتبار سے حضرت شمس تبریزؒ کی شخصیت بہت زیادہ متنازع نظر آتی ہے۔ آپ نے خانہ بدوشی کی زندگی بسر کی اور تمام عمر ایک عجیب اذیت اور کرب میں مبتلارہے۔ بغداد گئے تو مقامی علماء کو آپ کے خیالات سے شدید اختلاف ہوگیا۔ بادشاہ وقت ان علماء کے زیر اثر تھا۔ جس کی وجہ سے حضرت شمس تبریزؒ کو شہر بدر ہونا پڑا۔ ابھی آپ بغداد کی حدود سے نکلے ہی تھے کہ اچانک بادشاہ کا بیٹا بیمار پڑگیا اور دوسرے دن مرگیا۔ بادشاہ کو گمان گزرا کہ شاید یہ المناک واقعہ حضرت شمس تبریزؒ سے بدسلوکی کے سبب رونما ہوا ہے۔ مجبوراً اس نے اپنے مشیران خاص کو حضرت کی تلاش میں روانہ کرتے ہوئے کہا کوئی بھی صورت ہوا نہیں بغداد واپس لاؤ۔
بادشاہ کا حکم پاتے ہی مشیران خاص برق رفتار گھوڑوں پر سوار ہو کر دوڑپڑے۔ حضرت شمس تبریزؒ ا بھی بغداد میں ہی مقیم تھے کہ شاہی قاصدوں نے انہیں جالیا اور پھر دست بستہ عرض کیا۔ حضور آپ بغداد واپس تشریف لے چلیں۔ شاہی کارندوں کی درخواست سن کر حضرت کے چہرے پر اذیت کا رنگ اُبھر آیا۔ کل جس جگہ سے مجھے ذلیل کرکے نکالا گیا تھا آج اُسی مقام پر واپس جانے کے لئے کہہ رہے ہو؟ میں صرف ہمارے بادشاہ کا حکم مانتا ہوں جس نے ہم سب کو پیدا کیا۔ باقی بادشاہوں کو میں نہیں جانتا۔ شاہی کا رندوں کی بے حد گزارش پر انہوں نے فرمایا چلو چلتا ہوں مگر بغداد والے زیادہ دن تک حق بات سہنے والے کو برداشت نہیں کرسکیں گے۔ جب حضرت شمس تبریزؒ شاہی محل پہنچے تو وہاں صف ماتم بچھی ہوئی تھی۔ تمام درباری سیاہ لباس پہنے ہوئے اپنے والی سلطنت کی موت کا سوگ منارہے تھے۔ بادشاہ بڑے احترام کے ساتھ پیش آیا۔آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں۔ ’’یہ سب کیا ہے؟‘‘ حضرت شمس تبریزؒ نے بادشاہ سے دریافت کیا۔ بادشاہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ خاموشی سے حضرت شمس تبریزؒ کو ساتھ لے کر اس کمرے میں پہنچا جہاں اس کے محبوب بیٹے کی لاش رکھی ہوئی تھی۔ یہ میرے جواں بیٹے کی میت ہے بادشاہ نے روتے ہوئے کہا۔ آپ کے بغداد جاتے ہی یہ اچانک بیمار ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے آغوش فنا میں چلا گیا میں سمجھتا ہوں کہ یہ اسی گستاخی کا نتیجہ ہے سزا ہے جو میں نے آپ کی شان میں روار کھی تھی۔ حضرت شمس تبریزؒ مسکرانے لگے درویش کے ساتھ لوگ گستاخی سے پیش آتے ہی رہتے ہیں۔ مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں ۔ میں نے گذشتہ باتوں کو فراموش کردیا۔ آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں۔ بادشاہ نے کہا میں سمجھتا ہوں کہ آپ کی دل آزاری کے سبب میرا بیٹا اس انجام کو پہنچا ہے یہی خیال بار بار میرے ضمیر کو کاٹ رہا ہے۔ حضرت نے کہا اگر یہی بات ہے تو آپ کے بیٹے کو سزا کیوں ملی؟ گناہ تو آپ نے کیا تھا۔ ممکن ہے قدرت نے میرے لئے یہی سزا منتخب کی ہوکہ میں تمام عمر بیٹے کی جدائی میں تڑپتا رہوں۔ حضرت شمس تبریزؒ نے کہا اللہ اپنے رازوں کو خود ہی بہتر جانتا ہے میں آپ کے لئے کیا کرسکتا ہوں۔ بادشاہ نے کہا میری درخواست ہے ۔ آپ میرے بیٹے کے حق میں دعائے خیر فرمادیں۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کی دُعاؤں کی برکت سے میرے بیٹے کو نئی زندگی مل جائے۔ ایسا ہوتا تو نہیں ہے پھر بھی تمہاری تالیف قلب کے لئے اپنے مالک کی بارگاہ میں عرض کئے دیتا ہوں یہ کہہ کر حضرت شمس تبریزؒ نے آنکھیں بند کرلیں۔ پھر آپ کے ہونٹوں کو جنبش ہوئی۔’اے اللہ اگر تونے اس لڑکے پر میری دل آزاری کے باعث موت مسلط کردی ہے تو میں اسے معاف کرتا ہوں تو بھی اس عاجز بندے محمد شمس الدین کی خاطر اپنے بے پناہ اور بے مثال فضل و کرم کا مظاہرہ کر اور اس بچے کو معاف فرمادے‘۔ وہاں موجود بادشاہ کے خاص لوگوں نے اپنی زبان سے آمین کہا۔ ابھی ایوان شاہی کے کمرے میں حضرت شمس تبریز کے الفاظ کی گونج باقی ہی تھی کہ شہزادے کے جسم کو جنبش ہوئی پھر وہ اپنے بستر پر اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ اور حیرت زدہ نظروں سے چاروں طرف دیکھنے لگا۔

بادشاہ بغداد کچھ دیر تک حیرت و سکوت کے عالم میں کھڑا رہا کبھی وہ حضرت شمس تبریزؒ کی طرف دیکھتا اورکبھی اپنے پیارے بیٹے کی طرف جووادی فنا میں داخل ہونے کے بعد دوبارہ اس دنیا میں لوٹ آیا تھا۔ اور فوراً حضرت شمس تبریزؒ کے قدموں کو پکڑ لیا اور کہا ’’ یہ سب آپ کی دعاؤں کا نتیجہ ہے‘‘۔ ہر گز نہیں یہ تو اس قادر مطلق کی کرم نوازی ہے ادنیٰ سا مظاہرہ ہے جو اپنی ذات میں لاشریک ہے۔ بس اسی کا شکریہ ادا کرو اور اسی کی تسبیح بیان کرو‘‘۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت شمس تبریزؒ کے ذریعے بڑی کرامت تھی مگر یہی کرامت ان کے لئے وبال جان بن گئی۔ جب علمائے بغداد کو حضرت شمس تبریزؒ کی بغداد واپسی اور شہزادے کے زندہ ہونے کی خبر ملی تو وہ دوبارہ اس نئے منصوبے کے ساتھ اس مرد قلندر کے خلاف صف آراء ہوگئے۔ کہا گیا کہ یہ شعبدہ بازی ہے۔ اور اسلام میں ان چیزوں کی کوئی گنجائش نہیں۔ بغداد کے تمام اراکین سلطنت بھی علماء کے ہمنوا ہوگئے۔ آخر انجام کار بادشاہ کی مرضی کے خلاف بھرے مجمع میں حضرت شمس تبریزؒ کے جسم کی کھال جگہ جگہ سے کھینچ لی گئی۔ علماء اپنی جیبوں سے چھوٹی چھوٹی چاقو نکال کر حضرت شمس تبریز کے کپڑوں کو کاٹ کر دور پھینکنے لگے جب جسم مبارک دکھائی دیتا تو خود علماء بھی حضرت کے جسم کی کھال نکال دیتے پاؤں سے گردن تک خون ہی خون میں لت پت ہوگئے۔
اور اس نازک حالت اور جسم لہو لہان درد سے تڑپتے ہوئے سنبھلے بھی نہ تھے کہ چاروں طرف سے آوازیں آنے لگیں بغداد سے نکال دو یہاں اس کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ یہ سنتے ہی آپ لڑ کھڑاتے قدموں کے ساتھ چلنے لگے۔ جب شہر بدر ہورہے تو شہزادہ محمد دوڑتا ہوا آیا اور آپ کو سنبھالا اور اپنے امراء سلطنت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ جس ملک میں حضرت شمس تبریزؒ جیسے صاحب حال کے ساتھ یہ حال کیا جائے وہ ایک لعنت کدہ ہے اور اس لعنت کدے میں سانس لینا بھی گناہ سمجھتا ہوں۔ یاد رکھو اسی جگہ رہ رہ کر برسوں تک مصیبتیں آتی رہیں گی۔ اتنا کہتے ہوئے شہزادہ محمد حضرت شمس تبریزؒ کے ساتھ بغداد کی حدود سے نکل گیا۔ بغداد سے نکل کر آپ ملتان پہنچے اور پھر اسی تاریخی شہر میں سکونت پذیر ہوگئے اس وقت مشہور بزرگ حضرت شیخ بہاؤالدین زکریا ملتانی بقید حیات تھے۔
ایک رات صبح تک عبادت میں گذاری اور مناجات میں یہ دُعا مانگی ’’الٰہی! کوئی ایسا بندہ خاص ملتا جو میری محبت میرے حال و جذب کی ترجمانی کرتا‘‘۔ عالم غیب سے اشارہ ہوا کہ روم چلے جاؤ وہاں تمہاری مراد پوری ہوجائے گی۔ حضرت شمس تبریزؒ اسی وقت چل کھڑے ہوئے۔ قونیہ پہنچے۔تھوڑی دور چلنے کے بعد حضرت نے دیکھا کے راستے کی دونوں طرف عورتیں ،مرد، بچے اور بوڑھے ایک عجیب بیماری میں مبتلا تڑپ رہے ہیں۔ حضرت کو معلوم ہوا کے تھوڑی دور پر ان کا گاؤں ہے یہ سب نہ معلوم بیماری کی وجہ سے تڑپ تڑپ کر مررہے ہیں ناک اور منہ سے خون بہہ رہا ہے۔ اب تک تین عورتیں ایک شخص مرچکے تھے۔ ان لوگوں میں چند لوگ حضرت کے پاؤں پر گرجا رہے تھے اور مدد مدد کی آواز لگارہے تھے۔ حضرت نے ان لوگوں میں سے کہا جلد پانی لاؤ سب نے دوڑ لگائی حضرت نے اپنے ہاتھوں سے سب مریضوں کو پانی کے چند قطرے ان کے جسم پر اور منہ پر ڈالا تھوڑی دیر بعد سب کے سب مریض اچھے ہوگئے۔
حضرت نے ادھر اُدھر نظر ڈالی اور ایک جگہ نماز کے لئے کھڑے ہوگئے۔ اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف لے گئے اور کچھ کلام کہتے جارہے تھے مگر کسی کو معلوم نہ ہوا کہ کیا کہہ رہے ہیں۔ حضرت کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، حضرت اپنی چادرکاندھے پر ڈالے قونیہ نکل پڑے قونیہ پہنچ کر آپ نے رات سرائے کے چبوترے پر گذاری صبح کی نماز کے بعد اُسی چبوترے پر بیٹھ گئے۔ نظر اُٹھا کر دیکھا تو دور سے ایک مجمع آتا دکھائی دیا جب سامنے سے گذررہاتھا تو دیکھا ہزاروں شاگرد تھے جو ہاتھ باندھے اور نظریں جھکائے اپنے اُستاد کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔ دیکھنے والوں کو ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کسی شہنشاہ کی سواری گذررہی ہے۔ حضرت شمس تبریزؒ کے دل سے آواز آئی یہی ہے وہ مرد خاص جو تیری صحبت کا متحمل ہوسکتا ہے۔ انہوں نے اس کارواں کے پیچھے چلنا شروع کیا۔ یہ مولانا رومی تھے۔ جب خانقاہ آگیا تو سب اندر جاکر ادب سے بیٹھ گئے بازو میں مولانا روم کا کتب خانہ نادر و نایاب کتابوں سے بھرا ہوا تھا۔ مولانا روم اسی جگہ شاگردوں کو درس دیتے تھے۔ سو آج بھی درس دینے کے لئے کھڑے ہوگئے۔ حضرت شمس تبریزؒ شاگردوں کے درمیان سے سیدھا مولانا روم کے بالکل سامنے بیٹھ گئے۔ شاگردوں کو اس اجنبی کی یہ بے تکلفانہ ادا سخت ناگوار گذری اُن کو حیرت ہوئی کہ اتنے بڑے عالم جن کے علم و فعل کی ہمسری کرنے والا دور دور تک نظر نہیں آتا سامنے بیٹھا ہوا ہے۔

مولانا جلال الدین رومی کو بھی اس اجنبی کی یہ حرکت اچھی نہ لگی۔ لیکن انہوں نے بھی خاموشی بہتر سمجھی۔ اجنبی کو درس سے کوئی دلچسپی نہ تھی وہ بار بار قیمتی کتابوں کے ذخیرے کو دیکھ رہا تھا۔ درس ختم ہونے کے بعد مولانا نے اجنبی سے پوچھا۔ آپ کون ہیں اور یہاں کس لئے تشریف لائے ہیں۔ میں سب کچھ بتاؤں گا مگر میرے سوال کا پہلے جواب دیجئے کہ یہ سب کیا ہے؟ کتابوں کی الماریوں کی طرف ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے فرمایا۔ یہ سن کر مولانا کا لہجہ تلخ ہوگیا۔ انہو ں نے اجنبی سے فرمایا تمہاری بینائی کمزور ہے؟ ہر گز نہیں حضرت نے جواب دیا میں تو دور دور تک دیکھ سکتا ہوں۔ پھر تمہیں نظر نہیں آتا کہ یہ کیا ہے؟ مجھے تو بہت کچھ نظر آرہا ہے لیکن میں آپ کی زبان سے سننا چاہتا ہوں حضرت نے کہا۔ مولانا روم نے تلخ لہجہ میں کہا اور فرمایا ’’یہ وہ ہے جسے تم نہیں جانتے‘‘۔ مولانا کا جواب سُن کر حضرت شمس تبریزؒ کھڑے ہوگئے اور پھر انہوں نے کتابوں کی طرف اشارہ کیا اور ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہنے لگے’’اچھا یہ وہ ہے جسے میں نہیں جانتا‘‘۔ ابھی حضرت کی زبان سے الفاظ نکلے ہی تھے کہ اچانک کتابوں میں بہت تیز آگ بھڑک اُٹھی اور مولانا روم کی نادر و نایاب کتابوں سے دھواں اُٹھنا شروع ہوگیا۔ یہ سب کچھ اس قدر ناقابل یقین تھا کہ مولانا روم دم بخود رہ گئے اور حاضرین پر بھی سکتہ طاری ہوگیا۔ حضرت شمس تبریز بے نیازی سے جانے لگے۔ مولانا نے پکار کر کہا ’’ اے شخص یہ سب کیا ہے؟ حضرت نے مسکراتے ہوئے فرمایا ’’مولانا یہ وہ ہے جسے آپ نہیں جانتے‘‘ ۔ اتنا کہہ کر واپس جانے لگے۔ مولانا روم کے ہونٹوں سے سردآہ نکلی۔ ہائے میری یہ نایاب کتابیں۔ اے شخص تیری وجہ سے سب کچھ راکھ ہوگیا۔
حضرت جاتے جاتے رک گئے پھر مڑ کر مولانا سے کہنے لگے اگر یہ سب کچھ میری وجہ سے ہوا تو پھر میں تمہیں کتابیں واپس کرتا ہوں۔ یہ کہہ کر ہاتھ کا اشارہ کرتے ہی آگ کے بھڑکتے شعلے یکدم بجھ گئے۔ حضرت شمس تبریزؒ جلدی سے باہر نکل گئے۔ مولانا نے جاکر دیکھا تو ساری کتابیں صحیح سلامت تھیں۔ اس کے بعد مولانا روم شمس تبریز کے دیوانے ہوگئے۔ اتنے بڑے عالم کی دنیا ہی بدل گئی اور مولانا کی زندگی میں ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ مولانا اپنی روش ہی بھول گئے۔ کتب خانہ بند کردیا گیا۔ درس و تدریس کا سلسلہ بھی چھوڑ دیا گیا۔ اب مولانا روم کا صرف ایک ہی کام تھا کہ وہ ہر لمحے حضرت شمس تبریز کی خدمت میں حاضر رہتے تھوڑی دیر کے لئے بھی ان کی جدائی برداشت نہیں کرتے تھے۔ مولانا روم شمس تبریز کی شخصیت کے ایسے اسیر ہوگئے کہ ساری دُنیا سے بے نیاز ہوگئے۔ مولانا کے شاگرد اور اہل خانہ حضرت کو جادو گر کہہ کر پکارنے لگے یہ تمام باتیں کسی بڑے ہنگامے کا پیش خیمہ تھیں۔ آہستہ آہستہ سازشیں ہونے لگیں ۔ مولانا روم نے اپنی زندگی میں دولت اور آرام و آسائش کی طرف کبھی دھیان نہیں دیا، گھر میں بہترین غذائیں تیار ہوتی تھیں مگر ان کو راس نہیں آتیں وہ روکھی سوکھی پر گزار کرتے تھے دور دور سے لوگ آکر ان کی خانقاہ کے لئے دولت کے علاوہ بہت کچھ دے دیتے تھے یہ سب والدہ کے حکم سے چاروں بیٹے اپنے گھر لے آجایا کرتے تھے۔ جب مولانا روم حضرت شمس تبریز کی چاہ میں کھو سے گئے تو سب کچھ آنا بند ہوگیا۔ یہی وجہ تھی کہ ان کا لڑکا علاؤالدین نے اپنے ساتھیوں کو ساتھ لیکر خانقاہ پہنچا۔
حضرت شمس تبریز مولانا روم کے ہاں خلوت میں بیٹھے تھے کہ کسی نے باہر سے آواز دیکر آپ کو بلایا حضرت شمس تبریز نے مولانا روم کو مخاطب کرکے فرمایا ’’اب میں تم سے ہمیشہ کے لئے جدا ہوتا ہوں ملاقات وہا ں ہوگی جہاں تم جانتے ہو۔ وہ مجھے قتل کرنے کے لئے بلاتے ہیں‘‘۔ ابھی مولانا جلال الدین رومی صورتحال کو سمجھ بھی نہیں پائے تھے کہ حضرت شمس تبریز اُٹھ کر باہر چلے گئے۔ باہر آتے ہی سات افراد آپ کے انتظار میں کھڑے تھے۔ علاؤالدین نے فوراً تلوار نکالی اور حضرت کی گردن پر وار کردیا پھر دوسرے ساتھیوں نے بھی حملہ کردیا۔ قتل ہوتے وقت حضرت شمس تبریزؒ نے اس قدر زور سے نعرہ مارا کہ دور دور تک سنائی دیا۔ پیرو مرشد کی چیخ سن کر جب مولانا روم خلوت کدے سے باہر آئے تو حضرت شمس تبریزؒ کی لاش موجود نہیں تھی خون چاروں طرف فرش پر پھیلا ہوا تھا۔ وہ اپنے بیٹے کے ہاتھ میں تلوار جس پر تازہ خون بھرا ہوا تھا۔ دیکھ کر حیرت میں بُت بنے کھڑے ہوگئے ان پر سکستہ طاری ہوگیا۔
حضرت شمس تبریزؒ کے قتل کا یہ واقعہ 645ء میں پیش آیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں