480

دو سو سال میں 45کھرب ڈالر کا ڈاکہ

یہ کہنا غلط ہے کہ برطانیہ نے ہندوستان کو ترقی دی ،بلکہ یہ ہندوستان کی دولت تھی جس سے برطانیہ کو ترقی ملی

سجاد اظہر
سامراجیت کے خلاف پہلی آواز دادا
جی نورو بھائی :
ہندوستان کی آزادی کا پہلا رہنما کون تھا ؟ کوئی مجھ سے پوچھے تو میں کہوں گا وہ ایک پارسی دادا بھائی نورو جی تھےجو1886ء میں انڈین نیشنل کانگریس کے پہلے صدر بنے تھے۔برطانوی استعمار کے خلاف پہلی آواز ان کی ایک کتاب بنی جو 1901 ء میں ’’پاورٹی اینڈ اَن بریٹن رول اِن انڈیا ‘‘کے نام سے شائع ہوئی ۔اس کتاب میں بتایا گیا تھا کہ تاج برطانیہ ہندوستانی سرمایہ لوٹ کر باہر منتقل کر رہا ہے جس کی وجہ سے ہنندوستان دیوالیہ ہو جائے گا ۔ ہر سال ہندوستانی خزانے سے 200 سے 300 ملین پائونڈ کی رقم نکال لی جاتی ہے ۔اس دور میں ایک ہندوستانی مزدور کی یومیہ اجرت دو سے تین پینس تھی ۔گویا ایک پونڈ ایک مزدور کے 50دنوں کی اجرت کے برابر تھا ۔ نورو جی نے بتایا کہ پوری دنیا میں برطانوی فوج کے اخراجات ہندوستانی آمدن سے پورے کئے جاتے ہیں ۔ہندوستان سے ریلوے کی تمام آمدن برطانیہ لائی جاتی ہے اور اس پر ہندوستانی شہریوں کو کوئی حق نہیں ہوتا ۔ دادا بھائی نورو جی کی جانب سے ہندوستانی وسائل لوٹنے کی آوازیں ہی بارش کا وہ پہلا قطرہ ثابت ہوئیں جن پر آگے چل کر ہندوستان کی آزادی کی تحریک اٹھی۔
اس سے پہلے دادا بھائی نورو جی 1892ء کے عام انتخابات میں لبرل پارٹی کے ٹکٹ پر انتخاب جیت چکے تھے ۔وہ پہلے ہندوستانی بن گئے تھے جو برطانوی پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے تھے ۔ قائد اعظم جب لندن میں پڑھ رہے تھے تو داد بھائی نورو جی کی انتخابی مہم چل رہی تھی قائد اعظم بھی ان کے خیالات سے متاثر ہو کر ان کی انتخابی مہم کا حصہ بن گئے اور بعد زاں جب نورو جی جیت گئے تو قائد اعظم کچھ عرصہ ان کے سیکرٹری بھی رہے ۔ کانگریس میں قائد اعظم کی شمولیت بھی دادا بھائی نورو جی کے طفیل ہی تھی ۔
انگریز ہندوستان کو کنگال کر کے نکلا :
دادا بھائی نورو جی کی تھیوری کو ہی بھارتی سیاست دان ششی تھرور نے 2016ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’’ان ایرا آف ڈارک نیس‘‘ میں شائع کیا ۔جس میں ششی تھرو نے لکھا کہ ’’برطانوی معاشی تاریخ دان انگس میڈیسن واضح کرتا ہے کہ اٹھارویں صدی کے اوائل میں عالمی معیشت میں ہندوستان کا حصہ 23 فیصد تھا ۔یہ حصہ اتنا بڑا تھا جتنا کہ آج پورے یورپ کا عالمی معیشت میں ہے ۔ 1700ء میںمغل بادشاہ اورنگ زیب کے خزانہ میں محصولات کی آمدن 10کروڑ تھی تو یہ عالمی معیشت کا 27فیصد تھا ۔لیکن جب برطانیہ ہندوستان سے نکلا تو ہندوستان کا عالمی معیشت میں حصہ صرف 3 فیصد رہ گیا تھا ۔وجہ عام فہم تھی کہ ہندوستان پر برطانوی مفادات کے لئے حکومت کی گئی ۔برطانیہ کے 200سالہ عروج کو اس کی ہندوستانی لوٹ کھسوٹ سے پروان چڑھایا گیا ‘‘۔

ششی تھرور کی کتاب میں تاج برطانیہ کی لوٹ مار کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ کیسے سری نگر میں ریشم کی چار ہزار دکانیں بند ہوئیں بنگال کی کھڈیاں جن کا بنا ہوا کپڑا دنیا کے رئوسا فخر سے پہنتے تھے کیسے بند ہوئیں ۔ہندوستان کی جہاز رانی کی صنعت کیسے تباہ کی گئی ۔ششی تھرور کی اس کتاب کے مندرجات ابھی تازہ ہی تھے کہ ایک اور انڈین ماہر معیشت اتسا پتنائک نے2018ء میں نئی معلومات دے کر حیران کر دیا ۔آکسفورڈ سے پی ایچ ڈی کرنے والی اتسا پتنائک جواہر لا ل نہرو یونیورسٹی میں معیشت کے استاد کی حیثیت سے 2010ء میں ریٹائیر ڈ ہوئیں ۔ان کا کہنا ہے کہ عام طور پر ہندوستانی سمجھتے ہیں کہ صرف کوہ نور ہیرا ہی برطانوی چرا کر لے گئے تھے جبکہ درحقیقت کوہ نور ہیرا تو ایک علامت ہے اور برطانیہ نے جس طرح ہندوستان کے وسائل پر ہاتھ صاف کیا ہے وہ ان اندازوں سے کہیں زیادہ ہے جو ا سسے پہلے قائم کئے گئے تھے ۔
پیسہ ہندوستان کا ترقی برطانیہ کی :
اتسا پتنائک کہتی ہیں کہ برطانیہ نے اپنے دو سوسالہ عہد اقتدار میں1765ء سے 1938 کے درمیان9.2 کھرب پائونڈ کی رقم ہندوستان سے باہر منتقل کی جس کی ڈالروں میں مالیت 44.6کھرب ڈالر بنتی ہے ۔کیونکہ برطانوی عہد میں ایک پائونڈ4.8ڈالر کے برابر تھا ۔اگر آج کے حوالے سے اس رقم کا اندازہ لگایا جائے تو 2018ء میں برطانیہ کا جی ڈی پی 3کھرب ڈالر سالانہ بنتا ہے ۔آج بھی یہ رقم برطانیہ کے جی ڈی پی سے 17 گنا زیادہ بنتی ہے ۔ ۔ہندوستان کی تمام برآمدات کا پیسہ لندن جاتا تھا اور پھر یہ پیسہ ہندوستان کو 5 فیصد سود پر دیا جاتا تھا ۔ یہ سارا پیسہ جو ہندوستان سے نکالا گیا اگر یہیں صرف کیا جاتا تو ہندوستان ایک ترقی یافتہ ملک ہوتا ۔یہ بات بھی حیران کن ہے کہ 1900ء سے 1946ء کے درمیان ہندوستان کی فی کس آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا حالانکہ 1929ء تک ہندوستان بر آمد ات کے حوالے سے دنیا میں دوسرے نمبر پر تھا ۔ جب یہ تمام پیسہ ہندوستان سے برطانیہ بھیجا جا رہا تھا تو اس وقت ایک عام ہندوستانی شہری عدم غزائیت کی وجہ سے مر رہا تھا ۔ ہندوستان جسے دنیا کی فوڈ باسکٹ کہا جاتا تھا وہاں بہت زیادہ ٹیکسوں کی وجہ سے لوگوں کے لئے پیٹ بھر کر کھانا مشکل ہو گیا تھا ۔ 1900ء میں ایک عام ہندوستانی سالانہ اوسطاً200کلو خوراک کھاتا تھا جو دوسری جنگ عظیم میں کم ہو کر 157 کلو رہ گئی تھی جس میں مسلسل کمی ہوتی رہی اور یہ 1946ء میں مزید گھٹ کر 137 کلو رہ گئی ۔ہندوستان میں 1911ء میں اوسط عمر محض 22سال تھی۔بنگال میں جب 1770ء کا قحط پڑا تو خود انگریزوں کا کہنا تھا کہ تین کروڑ کی آباد ی میں سے ایک کروڑ بھوک سے مر گئے ۔1946ء میں ہندوستان جس زبوں حالی کا شکار تھا اس کی کوئی مثال آج کی دنیا میں نہیں ملتی ۔
سرمائے کے انخلا کا منظم نظام :
ایسٹ انڈیا کمپنی نے جب 1765ء میں بنگال میں ٹیکس اکھٹا کرنے کے اختیارات حاصل کئے تو ضلع کے منتظم کو کلیکٹر کا نام دیا جس کا مقصد ہر صورت ٹیکسوں کے اہداف کا حصول تھا اور ا سمقصد کے لئے وہ ظلم کی تمام حدیں پھلانگ جایا کرتا تھا حتی ٰ کہ اس سے پہلے کے نواب بھی ٹیکسوں کی وصولی میں اتنے جابر نہیں تھے۔ جس کی وجہ سے غریب غریب تر ہوتا گیا ۔جتنا ٹیکس ایسٹ انڈیا کمپنی اکھٹا کرتی تھی ا س کاتیسراحصہ اجناس کی صورت میں کسانوں سے وصول کر کے اسے برطانیہ بر آمد کر دیا جاتا تھا جس کا مطلب ہے کہ برطانیہ کو یہ اجناس بھی مفت مل جاتی تھیں جہاں سے وہ اپنی ضرورت سے زائد اجناس دیگر ممالک کو بر آمد کر دیتا تھا۔ان بر آمدات سے جو پیسہ ملتا تھا اس سے برطانیہ اپنی در آمدات کا بل ادا کرتا تھا ۔در حقیقت یہی وہ پیسہ تھا جس سے برطانیہ میں صنعتی انقلاب آیا تھا ۔ جب 1858ء میں اقتدار ایسٹ اینڈیا کمپنی سے تاج برطانیہ کے پا س آیا تو اس نظام میں اتنی تبدیلی آئی کہ برآمدات کا اختیار مقامی لوگوں کو دے دیا گیا مگر اس شرط کے ساتھ تمام ادائیگیاں براستہ لندن ہوں گی ۔ اس کا طریقہ کار یہ تھا کہ جس کسی نے ہندوستان سے کوئی چیز خریدنی ہوتی اسے ادائیگیوں کے لئے کونسل پیپرز درکار ہوتے تھے ۔یہ ایک علیحدہ طرز کی پیپر کرنسی تھی جسے جاری کرنے کا اختیار برطانوی بادشاہ کے پاس تھا۔اس کرنسی کو حاصل کرنے کے لئے ضروری تھا کہ لندن سے اسے سونے یا چاندی کے عوض خریدا جائے ۔جس کی وجہ سے تاجر حضرات لندن میں سونے اور چاندی کے عوض یہ کرنسی خریدتے تھے اور پھر یہ کرنسی وہ ہندوستانی بر آمد کنندگان کو دیتے تھے۔ جب ہندوستانی بر آمد کنندگان ان بلوں کو کالونیل آفس سے کیش کراتے تو انہیں مقامی کرنسی میں ادائیگی کی جاتی تھی ۔اس کالونیل آفس میں سارا پیسہ ہندوستانیوں کے ٹیکسوں کا ہوتا تھا۔یہ ہندوستان سے سرمائے کے انخلا کا ایک منظم فراڈ تھا جس کی وجہ سے ہندوستان غریب سے غریب ہوتا گیا ۔
امیر ممالک کی بنیادوں میں غریب ممالک کا خون :
اتسا پتنائیک کے بقول برطانیہ نے ہندوستان کو ترقی نہیں دی بلکہ یہ ہندوستان تھا جس کی وجہ سے برطانیہ نے ترقی کی ۔
جدید دنیا کی امارت کی بنیادیں ان کی نو آبادیات کے پیسے پر کھڑی ہیں ۔یہ پیسہ غریب ملکوں سے لوٹا گیا ۔1780ءسے 1820ء کے دوران جب برطانیہ میں صنعتی انقلاب آیا تو برطانیہ نے ہندوستان اور ویسٹ انڈیز سے جو پیسہ نکالا وہ برطانیہ کے جی ڈی پی کا چھ فیصد تھا۔اسی پیسے سے برطانیہ نے امریکہ اور یورپ میں سڑکیں اور ریلوے لائینیں بچھائیں ۔حتی کہ اگر برطانیہ کو کہیں جنگ کرنی پڑی تو ا س کے اخراجات بھی ہندوستانی بجٹ سے پورے کئے گئے ۔
45کھرب ڈالر کی حیثیت آج کتنی ہے ؟


اگر ہم یہ جاننا چاہیں کہ برطانیہ نے دو سو سال میں ہندوستان سے کس قدر سرمایہ سمیٹا اور ا س کی قدر آج کی مارکیٹ میں کتنی ہے تو آپ شاید یہ جان کر حیران ہو جائیں کہ فاربز میگزین کے مطابق اگر آپ امریکہ کے پورے گھر خرید لیں تو اس کی قیمت 36.2کھرب ڈالر ہے اور اگر اس کو جی ڈی پی میں دیکھیں تودنیا کی سب سے بڑی معیشتیں امریکہ 20.5 کھرب اور چین 13.6 کھرب ڈالرکو اکھٹا کیا جائے تو بھی 34.1 کھرب ڈالر بنتے ہیں ۔انڈیا کا جی ڈی پی آج بھی 2.6 کھرب ڈالر بنتا ہے ،پاکستان کا جی ڈی پی 263ارب ڈالر جبکہ بنگلہ دیش کا 324 ارب ڈالر ہے اس طرح یہ تینوں ممالک جو تقسیم سے پہلے متحدہ ہندوستان تھے ان کا آج بھی کل جی ڈی پی تقریباً3.4 کھرب ڈالر بنتا ہے ۔جبکہ اگر آج آپ پورے برطانیہ کے گھر خریدنا چاہیں تو ا س کی کل مالیت 9.2 کھرب پائونڈ یعنی تقریباً12 کھرب ڈالر کے قریب بنتی ہے۔

ہندوستان میں برطانیہ کا عہد اقتدار
1600: برطانوی فرمان کے ذریعے ایسٹ انڈیا کمپنی کی تشکیل ، اُس عمل کی شروعات جو ہندوستان کو برطانوی حکمرانی کے تسلط کی طرف لے جائے گا ۔
1613-14: برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے ولیم ہاکنز کے زیر انتظام مسولی پٹنم میں فیکٹری اور سورت میں تجارتی پوسٹ قائم کی ۔ سرتھامس رو، نے بادشاہ جیمز اوّل کے سفیر کے طور پر اپنی اسناد شہنشاہ جہانگیر کو پیش کیں۔
1615-18: مغلوں نے برطانیہ کو تجارت اور فیکٹریاں قائم کرنے کا حق تفویض کیا۔
1700: مغل شہنشاہ اورنگزیب کے زیر انتظام ، ہندوستان دنیا کی معیشت کا 27فیصد شمار کیا جاتا ہے ۔
1702:مدراس کا گورنر تھامس پٹ، پٹ ہیرا حاصل کرتا ہے ، جسے بعد میں فرانس کے تاجد ار ڈک ڈی ارلینز کو 135000پونڈز میں فروخت کر دیتا ہے ۔
1739: ایران کے نادر شاہ کا دہلی کوتاراج کرنا اور اس کے خزائن کی لوٹ مار ۔
1751: چھبیس سالہ رابرٹ کلائیو (74-1725) موجودہ تامل ناڈو میں ارکوٹ پر غلبہ پاتا ہے جبکہ فرانسیسی اور انگریز جنوبی ہند پر قبضے کے لیے لڑتے ہیں۔
1757: ہندوستان کے دولت مند صوبے ، بنگال کا حکمران بننے کے لیے انگریز ، کلائیو کے زیر کمان ، نواب سراج الدولہ کو شکست دیتے ہیں۔
1765:کمزور مغل شہنشاہ شاہ عالم دوم دیوانی جاری کرتا ہے جو بنگال ، بہار اور اوڑیسہ میں اس کے اپنے محکمہ مال کے افسران کی جگہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے افسران کو تعینات کرتی ہے ۔
1767: پہلی اینگلو میسور جنگ شروع ہوتی ہے ، جس میں میسور کا حیدر علی ایسٹ انڈیا کمپنی ، مراٹھوں اور حیدر آباد کے نظام کی مشترکہ افواج کو شکست دیتا ہے۔
1771: مراٹھے دہلی پر دوبارہ قابض ہوتے ہیں۔
1772: رام موہن رائے کی پیدائش (وفات 1833) ۔ برطانوی کلکتہ میں اپنا دارالحکومت قائم کرتے ہیں۔
1773:برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی ، نے بنگال میں افیون کی پیداوار اور فروخت پر اجارہ داری حاصل کی ۔پارلیمنٹ میں لارڈ نارتھ کاریگو لٹنگ قانون پاس ہوا ۔ وارن میسٹنگز کی ہندوستان کے پہلے گورنر جنرل کے طور پر تعیناتی ہوئی ۔
1781: حیدر علی کا بیٹا ٹیپو سلطان برطانوی افواج کو شکست دیتا ہے ۔
1784: پٹ خورد ، ایسٹ انڈیا کمپنی کو پارلیمنٹ کے ماتحت لانے کے لیے انڈیا ایکٹ پاس کرواتا ہے ۔ جج اورماہر زبان ولیم جونز کلکتہ کی رائل ایشیا ٹک سوسائٹی کی بنیاد رکھتا ہے ۔
1787-95: برطانوی پارلیمنٹ ، بنگال کے گورنر جنرل وارن ، ہیسٹنگز (85-1774)کا بد معاملگی کے باعث مواخذہ کرتا ہے ۔
1793: انگزیز ، لارڈ کار نوالس کے زیر انتظام ، مالگزاری نظام میں ’دوامی بندوبست‘ متعارف کرواتے ہیں۔
1799:ٹیپو سلطان ، پانچ ہزار برطانوی فوجیوں کے خلاف جنگ میں مارا جاتا ہے جو اس کے پایہ سلطنت میں غدر مچاتے اور اسے پائمال کر ڈالتے ہیں ۔
1803:دوسری اینگلو مراٹھ جنگ دہلی پر برطانوی قبضے اور ہندوستان کے وسیع علاقوں پر تسلط پر منتج ہوتی ہے ۔
1806: ویلور بغاوت بے رحمی سے کچل دی گئی ۔
1825: ہندوستانی مزدوروں کی مدراس سے ری یونین اور ماریشئس کی طرف پہلی بڑی ہجرت ۔
1828: رام موہن رائے کلکتہ میں سماجی ، مذہبی اصلاحات شروع کرنے کی پہلی تحریک آدی برہمو سماج کی بنیاد رکھتا ہے ۔ اسلام اورعیسائیت سے متاثر ، وہ کثرت پرستی ، اصنام پرستی و دیگر کو ملامت کرتا ہے۔
1835: میکالے کی یاد داشت ہندوستان میں مغربی تعلیم کو آگے بڑھاتی ہے ۔ انگزیزی کو سرکاری اور عدالتی زبان قرار ہے ۔
1835: ہندوستان سے 19000معاہداتی مزدور تارکین وطن ماریشئس پہنچتے ہیں ۔ 1922تک مزدور کا جہازوں کے ذریعے ماریشئس بھیجنا جاری رہا ۔
1837: کالی کی پوجا کرنے والے ٹھگوں کو انگزیزوں نے کچل ڈالا ۔
1839: مبلغ ولیم ہووٹ ہندوستان میں برطانوی حکمرانی پر معترض ہوتا ہے ۔
1843: برطانوی سندھ کی سرزمین کو فتح کرتے ہیں (موجودہ پاکستان )۔ برطانوی (Doctrine of Lapse)’ ڈاکٹر ائن آف لیپس ‘ کا اجراء جس کے تحت اگر کسی ریاست کا حکمران بغیر وارث کے مرجائے تو اس ریاست پر برطانوی قبضہ کرلیں گے ۔
1853: بمبئی اور تھانے کے درمیان پہلی ریلوے کا قیام ۔
1857: پہلی اہم ہندوستانی بغاوت ، جسے برطانویوں نے سپاہی بغاوت کا نام دیا ، جو دہلی اور لکھنو کے ہتھیار ڈالتے ہی چند مہینوں میں ختم ہو گئی ۔
1858: ملکہ وکٹوریہ کا اعلامیہ ، تاج کے نام پر ایسٹ انڈیا کمپنی سے ہندوستان کی حکومت کو تحویل میں لینا ۔ ہندوستان میں ہندوستانیوں کے لیے سول سروس کی نوکریاں کھلنا ۔
1858: ہندوستان ریل کی پٹڑی کے پہلے 200میل مکمل کرتا ہے ۔
1860: گنے کی کاشت پر کام کرنے کے لیے پہلے معاہداتی ملازمین (مدراس اور کلکتہ سے ) ایس ایس ٹر ورو اور ایس ایس بلویدرے ، ڈربن جنوبی افریقہ میں لنگر انداز ہوتے ہیں ۔
1861: رابند ناتھ ٹیگور کی پیدائش (وفات 1941)۔
1863: سوامی وویکا نند کی پیدائش (وفات 1920)۔
1866: اوڑیسہ قحط سالی میں کم ازکم پندرہ لاکھ ہندوستانیوں کی موت ۔
1869-1948: ہندوستانی قوم پرست اور ہندو سیاسی سرگرم رکن ، موہن داس کرم چند گاندھی کا عرصہ حیات ، جنھوں نے عدم ِ تشدد نافرمانی کی حکمت عملی و ضع کی جس نے عیسائی برطانیہ کو ہندوستان کو آزادی (1947) دینے پر مجبور کیا ۔
1872: ہندوستان میں پہلی برطانوی مردم شماری کا اہتمام کیا گیا ۔
1876: ملکہ وکٹوریہ (1901-1819)ہندوستان کی ملکہ منادی کی گئی (1901-1876)وائسرائے لارڈ لٹن کی 77-1876کے بڑے قحطوں کی بدانتظامی ۔
1879:فجی کی طرف تارکین وطن کا پہلا جہاز ، لیونید اس برطانوی سلطنت کی دوسری نو آبادیات میں پہلے سے کام کرنے والے تقریباً 340000ہندوستانی معاہداتی مزدوروں میں 498کا مزید اضافہ کرتا ہے ۔
1885: ہندوستان میں درمیانے طبقے کے دانشوروں کا ایک گرو ہ ، جن میں سے چند ایک برطانوی ہیں ، برطانوی حکومت کے رو برو ہندوستانی رائے عامہ کی آواز بننے کے لیے انڈین نیشنل کانگریس قائم کرتے ہیں ۔
1889: جواہر لعل نہرو کی پیدائش (وفات 1964)
1891: بی آر ایمبسیڈ کر کی پیدائش (وفات 1956)
1893:سوامی وویکا نند عالمی مذاہب کی شکاگو پارلیمنٹ میں ہندوستان کی نمائندگی کرتے ہیں ، اور اپنی پر جوش تقریروں سے عظیم کامیابی حاصل کرتے ہیں ۔
1896: ہندوستانی قوم پرستی کی مدح کے لیے قوم پرست قائد اور مراٹھی سکالر بال گنگا دھر تلک ، گنیش و سرجن اور شیوا جی تیوہاروں کا آغاز کرتے ہیں ۔ برطانیہ سے ’ پورنا سوراج ‘ یا مکمل آزادی کا مطالبہ کرنے والے وہ پہلے (شخص ) تھے ۔
1897: برطانوی ہند کے ایک اور قحط کے دوران ملکہ و کٹوریہ کی ڈائمنڈ جوبلی (75سالہ ) جشن بھی منایا گیا ۔
1900: برطانیہ کو برآمد ہونے والی ہندوستانی چائے 137000000پونڈ (کرنسی ) تک جا پہنچی ۔
1901: ہر برٹ ریسلئے نے ہندوستان کی پہلی نسلی جغرافیائی مردم شماری کا انعقاد کیا ۔
1903:لارڈ کرزن کے عظیم الشان دربار کا انعقاد ۔
1905: بنگال کی تقسیم نے شدید مخالفت کو ابھارا ۔ سوادیشی تحریک اور برطانوی اشیاء کے بائیکاٹ کا آغاز ہوا ۔ ہندوستان کے نامور برطانوی وائسرائے لارڈ کرزن نے استعفیٰ دیا ۔
1906:برطانیہ کے اکسانے پر ہندوستان میں سیاسی جماعت مسلم لیگ کی تشکیل ہوئی۔
1909: منٹو سمارلے اصلاحات کا اعلان کیا گیا ۔
1911:دہلی میں آخری شاہی دربار ، ہندوستان کا دارالحکومت کلکتہ سے دہلی منتقل ۔ بنگال کی تقسیم کی تنسیخ ۔
1913: رابندر ناتھ ٹیگور نے ادب کا نوبل انعام جیت لیا۔
1914: جنگ عظیم اوّل میں برسرپیکار ہونے کے لیے ہندوستانی فوجیوں کی عجلت میں فرانس اور میسو پوٹیمیا روانگی ۔
1915:مہاتما گاندھی کی جنوبی افریقہ سے ہندوستان واپسی ۔
1916: کاما گاٹا مارو کا واقعہ : کینڈین حکومت نے ہندوستانی شہریوں کو امیگریشن سے نکال باہر کیا ۔ کانگریس اور مسلم لیگ کے مابین معاہدہ لکھنو ۔
1917:آخری معاہداتی مزدوروں کو فجی اور ٹرینیڈ اڈ کی برطانوی نو آبادیات میں لایا گیا ۔
1918:سپین کی انفلو ئنز اوباہندوستان میں ایک کروڑ پچیس لاکھ اور دنیا بھر میں دو کروڑ سولہ لاکھ لوگوں کو مار دیتی ہے ۔
1918: پہلی جنگ عظیم کا اختتام ۔
1919:جلیانوالہ باغ قتل عام ۔ امر تسر میں جنرل ڈائیر گورکھا فوجیوں کو غیر مسلح مظاہرین پر گولی چلانے کا حکم دیتے ہوئے 379لوگوں کو قتل کرتا ہے ۔ قتل عام نے گاندھی کو قائل کر دیا کہ ہندوستان کو جابرانہ برطانوی حکمرانی سے مکمل آزادی کا مطالبہ کرنا ہو گا ۔ مونٹیگیو ۔ چمیلسفورڈ اصلاحات کا اعلان کیا گیا ۔ رولٹ ایکٹ پاس ہو گیا۔
1920: گاندھی نے عدم تعاون اور اہنسا کی ستیا گرہ حکمت عملی وضع کی ۔ خلافت تحریک شروع ہوئی۔
1922: چوری چور افساد کے بعد مہا تما گاندھی نے تحریک عدم تعاون منسوخ کی دی۔
1934-1927: ہندو ستانیوں کو عدالتی مجسٹریٹ اور جیوری کے رکن کے طور پر بیٹھنے کی اجازت مل گئی ۔
1930: جواہر لعل نہرو کانگرس پارٹی کے صدر بنے ۔ لاہور میں پورنا سوراج قرارداد پاس ہوئی ۔ ول ڈیوارانٹ ہندوستان پہنچتا ہے اور برطانوی حکمرانی کے متعلق جو کچھ اس پر منکشف ہوتا ہے اس پر وہ ششدر رہ جاتا ہے ۔ مہاتما گاندھی نمک مارچ کی رہنمائی کرتے ہیں ۔
1935: قانون ہند (گورنمنٹ آف ایکٹ )
1937: گیارہ صوبوں میں صوبائی الیکشن ۔ گانگریس آٹھ میں جیت گئی ۔
1939: دوسری عالمی جنگ کی شروعات ۔ ہندوستان کی طرف سے اعلان جنگ سے پہلے وائسرائے کے مشاورت نہ کرنے کے خلاف احتجاجاً کانگریس وزارتوں کا استعفیٰ۔
1940: مسلم لیگ کا قرار داد لاہور میں پاکستان کے قیام کا مطالبہ ۔
1942:کرپش مشن ۔ ہندوستان چھوڑ دو تحریک۔ کانگریس قائدین کو جیل کی سزا ۔ سبھاش چندر بوس کا برطانویوں سے جنگ کے لیے انڈین نیشنل آرمی (آزاد ہند فوج ) کا قیام ۔
1945: کانگریس قائدین کی رہائی ۔ لارڈ ویول کے زیر انگرانی شملہ کانفرنس ۔
1946: رائل انڈین نیوی میں بغاوت ۔ قومی سطح پر الیکشن ، مسلم لیگ ، مسلم نشستوں کی اکثریت جیت جاتی ہے ۔ کیبنٹ مشن ۔ جواہر لعل نہرو کی سرکردگی میں عبوری حکومت کا قیام ۔ جناح کا راست اقدام کا اعلان ۔ کلکتہ میں فسادات کا بھڑکھنا۔
1947: ہندوستان 15اگست کو آزادی حاصل کرتا ہے ۔ عوام الناس کے قتل عام اور بے سروسامانی کے دوران ملک کا بٹوراہ ۔ برطانیہ کی ہندوستان سے روانگی ۔
(بشکریہ ایرا آف ڈارکنیس ،مصنف ششی تھرو ر)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں