469

کیا مری کی نسبت واقعی حضرت مریم سے ہے ؟


سجاد اظہر
بعض محققین کی رائے ہے کہ کشمیر اور کے پی میں جو لوگ آباد ہیں وہ بنی اسرائیل کے گم شدہ قبائل سے ہیں

مری گزشتہ مہینے خبروں کا مرکز رہا ۔برفانی طوفان سے ہونے والی ہلاکتوں کا ایک سبب ہوٹل مالکان اور مقامی آبادی کی بے رخی بھی تھی ۔ حتیٰ کہ ایک ساشل میڈیا کے صارف نے لکھا ’’ہمیں مری کی سردی نے نہیں مری والوں کی سرد مہری نے مارا ‘‘۔ اس سے پہلے بھی سوشل میڈیا پر ’’بائیکاٹ مری‘‘ کی مہم چلتی رہی ہے ۔ ایک عمومی تاثر ہے کہ مری کے لوگ بے رحم ہیں ۔کیا واقعی ایسا ہے ؟اور اس خوبصورت سیاحتی مقام کی تاریخ اس بارے میں کیا کہتی ہے ؟


کیا مری کی وجہ تسمیہ حضرت مریم ہیں ؟
مری کی وجہ تسمیہ کے بارے میں مسعود الحسن نے اپنی تصنیف ’’مری گائیڈ‘‘ میں لکھا ہے کہ یہ ترکی زبان کالفظ ہے جس کے معنی چراگاہ کے ہیں ۔ترک جب فاتح بن کر ہندوستان میں آئے تو ہزارہ اور مری کی پہاڑیا ں ان کی اقامت گاہ قرار پائیں ۔ ایک اور روایت جسے لطیف کاشمیری نے اپنی کتاب ’’خیابان مری ‘‘ مطبوعہ 1971ء میں لکھا ہے کہ مری میں جہاں آج پنڈی پوائینٹ ہے کبھی اس جگہ ایک بزرگ عورت کی مڑھی ہوا کرتی تھی جس کی وجہ سے ا س کا نام پہلے مڑھی پڑا جو بدلتے بدلتے مری ہو گیا ۔ ایک اور محقق خواجہ نذیر احمد نے تو اپنی تصنیف ’’جیسس آن ارتھ اینڈ ہیون ‘‘ میں یہاں تک قیاس کر دیا ہے کہ وہ بزرگ عورت جو صدیوں سے یہاں محو ِ خواب ہیں وہ حضرت مریم ہیں جو حضرت عیسی ٰ کی تلاش میں کشمیر جا رہی تھیں کہ مری کے مقام پر فوت ہو گئیں اور پنڈی پوائینٹ کی ا س چوٹی پر انہیں دفن کر دیا گیا اور انہی کی نسبت سے اس علاقے کا نام مری پڑ گیا ۔ قیام پاکستان سے پہلے مسلمان ،ہندو اور سکھ تینوں یہاں چڑھاوے چڑھاتے تھے اور آسیں مرادیں پاتے تھے بعد میں انگریزوں کے دور میں اسے مسمار کر دیا گیا ۔
معروف سکالر رشید اختر ندوی بھی اسی خیال سے متفق ہیں وہ لکھتے ہیں کہ’’ میرے نزدیک بنی اسرائیل آریوں کے پیش رو ہیں ،یہ افغانستان سے درہ خیبر کے راستے پہلے پشاور آئے اور پھر پشاور کے علاقے چارسدہ اور مردان میں آباد ہوئے اور اس کے بعد مری اور ہزارہ کی گزرگاہوں سے کوہالہ کے قریب دریائے جہلم کو عبور کر کے کشمیر کی طرف جا نکلے ۔اگر نئے دور کے اصحاب اختیار نے پرانی تاریخ کو کبھی اہمیت دی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ افغانستان کے سلسلہ کوہ کا نام کوہ سلیمان کیوں پڑا ۔سرحدی قبائل یوسف زئی ،موسیٰ زئی ،عیسی ٰ زئی ،ابراہیم زئی اور یعقوب زئی قبائل بنی اسرائیل کے ناموں سے کیوں موسوم ہوئے ۔سری نگر کی بعض ہستیوں اور پھر سب سے بڑھ کر جھیل ڈل کے عقب میں کھڑی نو ہزار بلند چوٹی کا نام تخت ِ سلیمان کیوں پڑا ۔ کشمیریوں کے لباس ویسے ہی کیوں ہیں جیسے کہ قدیم بنی اسرائیل کے لباس تھے ۔ان کی رنگتیں اور ان کے نقش و نگار میں باہمی یگانگت و مماثلت اس درجہ شدید کیوں ہے تو پھر یہ روایت سند کا درجہ حاصل کر لے گی کہ مری کے سنگین برج کے قریب جو ’’مریاں بی ‘‘ کبھی آباد تھی اور جس کا وہاں پختہ مزار تھا ،وہی پاک مریم ہے ،جس نے عیسیٰ ؑ جیسے بزرگ نبی کوجنم دیا تھا ‘‘۔
ہندوئوں کا عقیدہ ہے کہ پانڈو اپنے ایام جلاوطنی میں جب کشمیر سے واپس آ رہے تھے تو وہ مری میں بھی ٹھہرے تھے وہ جس جگہ ٹھہرے تھے وہ جگہ پنج پانڈو کے نام سے کشمیر پوائینٹ کی پہاڑی پر آج بھی واقع ہے ۔یہاں تقسیم سے پہلے ہندوئو ں کا سالانہ میلہ بھی اکتوبر میں لگتا تھاجس میں دوردراز سے ہندو اور سکھ بڑی تعداد میں شریک ہوتے تھے ۔مری میں تقسیم سے پہلے دو گوردوارے ، دو مندر اور چار چرچ بھی ہوا کرتے تھے ۔اس سے بہت پہلے یہ جوگیوں کا مسکن بھی رہا ۔پتریاٹہ کے قریب قدیم زمانے کی تراشیدہ چٹانیں اب بھی موجود ہیں جن کے بارے میں قیاس کیا جاتا ہے کہ وہ بدھ مت کے عروج کے دور کی ہیں ۔سانجا کس کے مقام پر ایسی ہی ایک چٹان کو مقامی لوگ ’’رام دیو کی چٹان ‘‘ کہتے ہیں ۔


کشمیر کے مہاراجہ نے مری سے کیوں جان خلاصی کروالی ؟
مری کی قدیم تاریخ کشمیر سے جڑی ہوئی ہے ۔ پھر ایک ہزار سال پہلے جب ترک النسل گکھڑ سلطان کائی گوہر پوٹھوہار میں قیام پزیر ہوا تو اس نے مری کا علاقہ فتح کر کے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا جس کی اس وقت سرحدیں دریائے سندھ سے دریائے جہلم تک پھیلی ہوئی تھیں ۔ اس وقت مری میں گھنے جنگلات تھے جن میں خونخوار جانوروں کی بہتات تھی اس لئے یہاں آبادی بھی برائے نام تھی ۔مغل عہد میں یہ علاقہ نیم خودمختار رہا ۔سکھ عہد میں سردار ملکھا سنگھ تھئے پوریہ نے سترہویں صدی کے اواخر میں راولپنڈی کو گکھڑوں سے چھین لیا اور یوں عملاً یہاں ملکھا سنگھ کی حکومت رائج ہو گئی لیکن عملی طور پر مری ، مانسہرہ اور ہری پور کے قبائل خودمختار ہی رہے ۔مہاراجہ رنجیت سنگھ نے راولپنڈی کو 1820ء میں اپنی عملداری میں لیا تو اس کے جرنیل ہری سنگھ نے مری اور مانسہرہ کے قبائل پر دس سال میں دو بار لشکر کشی کی کیونکہ وہ اس کے لئے مشکلات کا باعث بنتے تھے ۔بعد ازاں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے یہ علاقہ مظفر آباد کے سکھ گورنر گلاب سنگھ کو دے دیا جس نے مقامی قبائل پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے کہا جاتا ہے کہ ا س نے ہر باغی کے سر کے بدلے اپنے فوجیوں کو ایک روپے انعام کا اعلان کیا ۔جب مہاراجہ رنجیت سنگھ کا 1839ء میں انتقال ہوا تو مقامی قبائل نے سکھ حکومت کے خلاف اعلان بغاوت کر دیا جس کوکچلنے کے لئے لاہور سے فوج رروانہ کی گئی ۔پنڈی پوائینٹ پر سکھوں کے عہد کا ایک قلعہ ہوا کرتا تھا جو 1968ء تک موجود رہا بعد میں اسے مسمار کر دیا گیا وہاں اب پی ٹی وی کابراڈ کاسٹنگ ٹاور ہے ۔
انگریزوں اور سکھوں کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ 9مارچ1846ء کو لاہور میں ہوا جس کی رو سے انگریزوں کے خلاف جنگ کی پاداش میں کشمیر اور ہزارہ کے علاقے ایک کروڑ روپے کے عوض گروی رکھے گئے ۔مگر 16مارچ1846ء کو انگریزوں اور کشمیر کے مہاراجہ گلاب سنگھ کے درمیان معاہدہ امرتسر ہوا جس کی رو سے انگریزوں نے دریائے راوی اور سندھ کے درمیان کشمیر اور ہزارہ کے علاقے مہاراجہ کو 75 لاکھ روپے کے عوض پٹے پر دے دیے ۔ اس فیصلے کے خلاف کشمیر اور ہزارہ کے قبائل نے مزاحمت کی جس کے جواب میں مہاراجہ نے انگریزوں کو ہزارہ کا علاقہ دے دیا اور اس کے بدلے جموں کا لے لیا ۔ انگریزوں نے 1850ء میں ہزارہ کے 309دیہات انتظامی سہولت کے لئے راولپنڈی کے ضلع میں شامل کر دیے جن میں مری ، پھلگراں ،کری ، مغل ، چراہاں ، دیول ، کوٹلی ،کرور ،جسگام ،کہوٹہ ، کایرو ، ہرو، کرال وغیرہ شامل تھے ۔ تاہم جب 1901ء میں شمال مغربی سرحدی صوبہ بنایا گیا تو ڈھنڈ بکوٹ ،بوئی، کرال اور لورا کو راولپنڈی ضلع کی بجائے ہزارہ میں شامل کر دیا گیا ۔
انگریزوں نے مری 1940 روپے میں خریدا :
ایک مقامی روایت ہے کہ انگریزوں نے مری کا ہل سٹیشن راجگان سے 1940 روپے کے عوض خریدا اور جو انگریز یہ خریداری کرنے آیا تھا اسے مقامی راجہ نے اس رقم میں سے دس روپے یہ کہہ کر واپس کر دیے کہ تمہاری بیگم کے کپڑے پورے نہیں اسے کپڑے خرید دینا ۔وہ انگریز عورت اس وقت سکرٹ پہنے ہوئے تھی ۔ مری کا ہل سٹیشن راولپنڈی سے 39 میل کے فاصلے پر واقع تھا جسے اس وقت انگریزوں نے اپنی فوج اور انتظامیہ کے گرمائی کیمپ کے طور پر ترقی دی تھی ۔ مری کے علاوہ اس دور میں ہمالیہ کے دامن میں واقع شملہ ،مزوری اور نینی تال کو اسی پس منظر میں ترقی دی گئی تھی ۔مری میں سرکاری دفاتر سنی بنک کے علاقے میں 1853ء میں بنائے گئے ۔1857ء میں یہاں چرچ بنایا گیا ، مال روڈ بھی 1860ء میں بنایا گیا جس پر چہل قدمی کی اجازت شروع میں صرف انگریز فیملیوں کو دی گئی تھی ۔تب مال روڈ کے صرف ایک طرف عمارات بنانے کی اجازت دی گئی تاکہ سیاح قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہو سکیں اس ضابطے پر اگلے 130سال سختی سے عمل کیا گیا لیکن 1990ء کے بعد اس روڈ کے دونوں اطراف عمارتیں بنانے کی اجازت دے دی گئی ۔چرچ کے بلمقابل پوسٹ آفس اور انگریزوں کی ضروریات زندگی کی اشیاء کے لئے مارکیٹ بھی بنائی گئی ۔
1857ء کی جنگ آزادی جسے انگریز بغاوت کا نام دیتے ہیں اس میں مری اور ہزارہ کے لوگوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور مری میں موجود انگریز فوجوں پر حملے جاری رکھے جو1875ء تک جاری رہے ۔ مری 1864ء تک پنجاب کا گرمائی دارالحکومت بھی رہا اس کے بعد یہ شملہ منتقل کر دیا گیا جس کی وجہ یہاں پانی کی کمی تھی مقامی لوگ جوہڑوں اور چشموں کا پانی استعمال کرتے تھے جس سے اکثر ہیضے کی وبا پھوٹ پڑتی تھی جس کی وجہ سے کافی ہلاکتیں ہوتی تھیں ۔ انگریزوں نے ڈونگلہ گلی سے ایوبیہ تک ساڑھے چار کلومیٹر پائپ لائن بچھا کر یہاں پانی پہنچایا ۔
۔1867ء میں مری کو میونسپلٹی کا درجہ ملا ۔بیسویں صدی کے اوائل میں انگریزوں نے مری اور اس کے گرد و نواح جن میں کلڈنہ ، گھڑیال ، اپر اور لوئر ٹوپہ ،نتھیا گلی میں بیرین اور کالاباغ کے مقام پر فوجی تنصیبات قائم کیں جس کے بعد مری کو ناردرن کمانڈ کے گرمائی مرکز کی حیثیت ملی ۔اسی عہد میں مری میں انگریز بچوںکے لئے کئی سکول قائم کئے گئے جن میں لارنس کالج بھی شامل ہے ۔ اس دور میں مری میں فوج کی بیرکوں سمیت انگریز افسروں کے لئے جو گھر بنائے گئے وہ وکٹورین سٹائل کے تھے اس لئے اسی ’’منی انگلینڈ ‘‘ بھی کہا جاتا تھا ۔ گرمیوں میں مری میں انگریزوں کے علاوہ پنجاب سے آنے والے سیاحوں کا رش ہوجاتا تھا اس کے علاوہ جو یورپی سیاح سری نگر جاتے تھے وہ بھی مری میں ضرور قیام کرتے تھے ۔انگریز دور میں مری تک ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ بھی بنا مگر زیادہ لاگت کی وجہ سے اسے التوا میں رکھا گیا ۔
راولپنڈی کے گزیٹیئر 1893-94ء میں درج ہے کہ’’مری سطح سمندر سے 7517 فٹ کی بلندی پر واقع ہے ۔جس کی آبادی 1768افراد پر مشتمل ہےجس میں مئی سے نومبر تک سیاحوں کی وجہ سے خاصا اضافہ ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ یہ پنجاب میں سب سے قریب ترین پہاڑی مقام ہے جو راولپنڈی سے ٹانگوں کے ذریعے پانچ گھنٹے کی مسافت پر ہے ۔یہاں گرمیوں میں دس ہزار کے قریب سیاح آتے ہیں ۔‘‘
آج لوگ اسلام آباد سے پونے گھنٹے میں مری پہنچ جاتے ہیں مگر کبھی یہ فاصلہ ٹانگوں کے ذریعے طے ہوتا تھا لطیف کشمیری اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’’پہلی جنگ عظیم سے پہلے انگریز سپاہی بھی مری پیدل ہی آیا کرتے تھے یا بیل گاڑیاں استعمال کرتے تھے ۔کچھ لوگ ٹانگوں پر آتے تھے اور راولپنڈی سے ایک پارسی سیٹھ دھنجی بائی کی ٹانگہ سروس چلتی تھی ڈاک کاٹھیکہ بھی اسی کے پاس تھا ‘‘۔
کیا مری کے لوگ واقعی بے رحم ہیں ؟
تاریخی طور پر اہلیان مری کئی قبائل کا مجموعہ ہے جن میں مقامی اور غیر مقامی دونوں طرح کے قبائل شامل ہیں ۔سکھوں کے عہد میں مری اور ہزارہ کے لوگوں کا بری طرح قتل عام ہوا ۔ جب انگریزوں نے کشمیر گلاب سنگھ کو دے دیا تو اس نے بھی اس علاقے کے لوگوں کی باغیانہ روش کی وجہ سے انگریزوں کو مری اور ہزارہ کے علاقے دے کر بدلے میں جموں کے علاقے لے لئے ۔ انگریزوں نے پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران ان علاقوں سے بڑی تعداد میں فوجیوں کو بھرتی کیا ۔ مارچ 1947ء کے فسادات جوکہوٹہ کے علاقے چوا خالصہ میں ہوئےاور جس کے دوران صرف 103 سکھ عورتوں نے اپنی عزتیں بچانے کے لئے ایک کنویں میں کود کر خود کشی کی تھی ۔ان فسادات کے بارے میں بھی یہ کہا جاتا تھا کہ ان میں مری اور کہوٹہ کے لوگ ملوث تھے ۔بعد میں مری میں فسادات کے نتیجے میں کئی عمارتوں کو آگ لگا دی گئی اور کئی ہندو اور سکھ قتل ہوئے ۔مری بروری جو اب راولپنڈی میں واقع ہے وہ پہلے مری میں ہی ہوتی تھی لیکن مری میں اس کی عمارت کوآگ لگا دی گئی تھی ۔یہ فسادات جنہوں نے تقسیم کے وقت پورے پنجاب کو لپیٹ میں لے لیا تھا ان کی ابتدا یہی چوا خالصہ کے فسادات بنے تھے ۔ اس وقت بھی یہی گمان کیا جاتا تھا کہ اصل مقصد لاقانونیت کا فائدہ اٹھا کر لوٹ مار ہی تھا ۔مری کے حالیہ طوفان میں ایک صحافی دوست جو اپنی فیملی کے ساتھ پھنس گیا تھا اس سے ایک کمرے کا کرایہ ساٹھ ہزار طلب کیا گیا ۔ تاہم جیسے ہی اگلی صبح ہلاکتوں کی خبر آئی تو ماحول یکسر بدل گیا ۔لوگوں نے سیاحوں کے لئے گھروں کے دروازے کھول دیے ۔کئی ہوٹل ایسے بھی تھے جو لوگوں کو گاڑیوں سے نکال نکال کر انہیں مفت رہائش اور کھانے کی پیشکش کر رہے تھے ۔ میرے خیال میں یہ ایک مجموعی قومی رویہ بن گیا ہے کہ جب تک دو چار لوگ مر نہ جائیں نہ حکومت جاگتی ہے اور نہ ہی لوگوں کا ضمیر جاگتا ہے ۔ مری میں اس وقت آبادی کی حرکیات بھی بدل چکی ہیں ۔اب وہاں مقامی افراد سے زیادہ دوسرے شہروں کے لوگ آباد ہیں ۔زیادہ تر ہوٹلوں کے مالکان بھی وہی ہیں ۔ اس لئے مری میں ہونے والی ہر سرد مہری کو مری والوں کے کھاتے میں نہیں ڈالا جا سکتا کیونکہ ابھی بھی اصل سوال یہی ہے کہ شدید برفانی طوفان کی پیش گوئی کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں سیاحوں کو مری اور گلیات میں داخلے کی اجازت کیوں دی گئی ؟

 

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں