166

وہ چھ ریاستیں جو ہندوستان میں شمولیت کی مخالف تھیں


سجاد اظہر
تقسیم ہندوستان کو 75سال ہونے والے ہیں مگر ابھی تک تاریخ کے بہت سے گوشوں پر دھند چھائی ہوئی ہے ۔جب تاج برطانیہ نے ہندوستان چھوڑنے کا اصولی فیصلہ کر لیا تو اس وقت ایک اہم سوال یہ تھا کہ ہندوستان کی ان 584ریاستوں اور رجواڑوں کا کیا بنے گاجنہوں نے ضرورت کی ہر گھڑی میں تاج کے ساتھ اپنی وفاداری نبھائی تھی ۔یہ وفاداری فوجی امداد سے لے کر مالی امداد تک ہر سطح پر قائم تھی ۔اس لئے ان راستوں کے راجوں ،مہاراجوں کا خیال تھا کہ تاج برطانیہ ان کے مفادات کا ہرصورت تحفظ کرے گا لیکن جب آزادی کے اعلان سے اڑھائی ہفتے پہلے 26جولائی کو لارڈ مائونٹ بیٹن نے ریاستوں کے نوابوں اور مہاراجوں کا دربار منعقد کیا تو اس میں اپنا دو ٹوک مئوقف بیان کر دیا کہ کسی ریاست کو آزاد حیثیت نہیں دی جائے گی بلکہ انہیں پاکستان اور انڈیا میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا ۔اس حوالے سے کوئی واضح پالیسی بھی نہیں دی گئی جس کی وجہ سے کئی ریاستیں آخر تک مخمصے کا شکار رہیں ۔ کانگریس اس معاملے میں شروع ہی سے دو ٹوک مئوقف رکھتی تھی کہ تمام ریاستیں ہندوستان کا جزو لاینفک ہیں اور انہیں کسی صورت الگ نہیں کیا جا ئے گا اس تناظر میں کانگریس نے سردار پٹیل اور وی پی مینن کی سربراہی میں خودمختیار ریاستوں کے ساتھ مذاکراتی ٹیم بھی تشکیل دے دی جس پر انہیں لارڈ مائو نٹ بیٹن کی واضح حمایت بھی حاصل تھی ۔ بیکانیر ، برودا اور راجستھان کی کچھ دوسری ریاستوں نے آغاز میں ہی بھارت میں شمولیت کا اعلان کر دیا تاہم کئی ریاستیں ایسی بھی تھیں جو بھارت میں شمولیت نہیں چاہتی تھیں ۔ان میں سے کچھ چاہتی تھیں کہ انہیں آزاد حیثیت سے تسلیم کر لیا جائے جبکہ کچھ پاکستان میں شامل ہونا چاہتی تھیں ۔
راونکور :
ہندوستان کی جنوبی ساحلی ریاست ٹراونکور وہ پہلی ریاست تھی جس نے بھارت میں شمولیت سے انکار کیا تھا ۔ریاست تزویراتی حوالے سے ہی اہم نہ تھی بلکہ معدنی وسائل سے بھی مالا مال تھی ۔اس کے دیوان سر سی پی رمام شوامے ایار جو ایک ممتاز وکیل بھی تھے انہوں نے 1946ء میں ہی اپنی ریاست کی آزاد حیثیت برقرار رکھنے کا اعلان کر دیا تھا جسے قائد اعظم کی حمایت بھی حاصل تھی ۔اور کسی حد تک برطانیہ کی بھی کیونکہ ریاست مونازائیٹ نامی دھات سے مالا مال تھی جسی ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال کیا جاتا تھا ۔دیوان جولائی 1947ء تک اپنے مئوقف پر ڈٹا رہا لیکن کیرالہ سوشلسٹ پارٹی کے ایک کارکن کی جانب سے دیوان کو جان سے مارنے کی کوشش کی گئی جس کے بعد دیوان نے بھارت میں شمولیت کا اعلان کر دیا ۔موجودہ انڈیا میں ٹرانکور کا رقبہ اب کیرالہ ،کنیا کماری اور تامل ناڈو پر مشتمل ہے ۔
جودھپور :
راجستھانی ریاستوںمیں سب سے بڑی راجپوتانہ ریاست جودھ پور کامعاملہ بھی عجیب نوعیت کا ہے ۔93424 مربع کلومیٹر پر مشتمل ریاست کی تاریخ 1226ء تک جاتی ہے ۔ریاست کا بادشاہ ہندو تھا اور یہاں کی اکثریت بھی ہندو مت سے تعلق رکھتی تھی مگربادشاہ کا رجحان پاکستان کی جانب تھا ۔مہاراجہ ہنونت سنگھ کا خیال تھا کہ اس کی ریاست کی سرحدیں چونکہ پاکستان کے ساتھ ملتی ہیں اس لئے پاکستان میں شمولیت اس کے لئے زیادہ سود مند ہو گی۔قائداعظم محمد علی جناح نے بھی اسے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی تھی جس پر ایک وقت میں وہ کراچی آنے کے لئے تیار بھی ہوگیا تھا۔جیسے ہی سردار پٹیل کو ا س کا علم ہوا اس نے مہاراجہ کوایک مسلمان ملک کا حصہ بننے سے روکا اور متوقع خطرات سے آگاہ کیا جس کی وجہ سے مہاراجہ نے کراچی جانے اور پاکستان میں شمولیت کا ارادہ ترک کر کے بھارت میں شمولیت کے کاغذات پر دستخط کر دیے ۔
بھوپال :


رقبے کے لحاظ سے ہندوستان کی دوسری بڑی ریاست بھوپال بھی آزاد ی چاہتی تھی ۔ریاست کی اکثریت ہندو تھی تاہم اس کا نواب حامد اللہ خان مسلمان تھا ۔ نواب کا شمار مسلم لیگ کے سرکردہ رہنمائوں میں ہوتا تھا اور اس نے لندن کی گول میز کانفرنس میں بھی شرکت کی تھی ۔جب انہوں نے دیکھا کہ ان کی ریاستکی سرحدیں پاکستان کے ساتھ نہیں ملتیں تو انہوں نے مائونٹ بیٹن سے مطالبہ کیا کہ ریاست کو آزاد حیثیت دی جائے ۔تقسیم کے بعد ریاست میں آزادی پسندوں اور بھارت میں شمولیت کے حامیوں میں جنگ چھڑ گئی تاہم 30اپریل1949ء کو نواب نے بھارت میں شمولیت کی دستاویز پر دستخط کر دیے۔
حیدر آباد :
رقبے کے لحاظ سے ہندوستان کی سب سے بڑی ہونے کے ناطے حیدر آباد سب سے اہم ریاست تھی جس کی آبادی کی اکثریت ہندوتھی تاہم نظام عثمان علی خان نے برطانیہ سے مطالبہ کیا کہ اسے دولت مشترکہ میں ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے شامل کیا جائے جس پر لارڈ مائونٹ بیٹن نے کہا کہ تاج اس پر راضی نہیں ہے اس لئے آپ کو دونوں نئی ریاستوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا ۔نظام کو قائداعظم کی حمایت حاصل تھی کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کی سب سے قدیم ریاست کے دفاع کاوعدہ کر رکھا تھا ۔تاہم پٹیل کا کہنا تھا کہ حیدر آباد کی آزاد حیثیت بھارت کے پیٹ میں پھوڑے کی طرح ہو گی ۔جیسے ہی لارڈ مائونٹ بیٹن نے جون 1948ء میں استعفیٰ دیا تو کانگریس کی حکومت نے فیصلہ کن اقدام لینے کا تہیہ کر لیا ۔’’آپریشن پولو‘‘ کے تحت بھارت نے ستمبر 1948ء میں اپنی فوجیں ریاست میں بھیج دیں ۔چار دن کی جنگ کے بعد بھارتی فوجوں نے ریاست پر قبضہ کر لیا اور نظام کو بدلے میں ریاست کا گورنر بنا دیا گیا ۔موجودہ انڈیا میں اس ریاست کو تین حصوں میں بانٹ کر اس کے تین صوبے بنائے گئے ہیں جن میں تلنگانا،کرناٹکا اورمہاراشٹر شامل ہیں ۔
جونا گڑھ :
حیدر آباد کی طرح جونا گڑھ نے بھی 15اگست تک بھارت میں شمولیت کا فیصلہ نہیں کیا تھا ۔کاٹھیاواڑ کی ریاستوں میں جونا گڑھ سب سے اہم ریاست تھی ۔جہاں نواب محمد محبت خان سوئم ایک ہندو اکثریتی ریاست کا حاکم تھا ۔ 1947ء کے اوائل میں دیوان آف جونا گڑھ نبی بخش نے مسلم لیگ کے سر شاہنواز بھٹو کو ریاست کے کونسل وزیر کا عہدہ سنبھالنے کے لئے دعوت دی ۔ دیوان کی عدم موجودگی میں بھٹو نے دیوان کا عہدہ سنبھال لیا اور نواب پر زور دیا کہ وہ پاکستان میں شامل ہو جائے ۔ جب پاکستان نے نواب کی پاکستان میں شمولیت کی درخواست قبول کر لی تو بھارتی رہنمائوں نے اس فیصلے کو جناح کے دو قومی نظریے کے مخالف قرار دیا ۔جس پر ریاست میں حالت خراب ہو گئے ۔نواب کراچی چلا گیا ۔سرادر پٹیل نے ریاست میں ریفرنڈم کرانے کا مطالبہ کیا اور ساتھ ہی فوجیں بھیج دیں ۔
کشمیر
کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت تھی جبکہ اس کا مہاراجہ ہری سنگھ سکھ تھا چنانچہ اسے معلوم تھا کہ اگر ا س نے بھارت میں شمولیت اختیار کی تو مسلمان بغاوت کر دیں گے ۔یہی ہوا مہاراجہ کے خلاف بغاوت میں دو لاکھ لوگ مارے گئے مہاراجہ نے بھارت سے فوجی امداد طلب کرلی اور کہا کہ جب جنگ ختم ہو گی تو اس کے بعد ریفرنڈم ہو گا جس میں آزادی کا آپشن نہیں ہو گا بلکہ ریاست کو پاکستان اور انڈیا میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے گاجب یکم جنوری 1949ء کو کشمیر میں اقوام ِ متحدہ کی مداخلت پر جنگ بندی ہو گئی تو ا س کے بعد سے آج تک وہاں ریفرنڈم نہیں کرایا جا سکا ۔
اس مسئلے کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان چار جنگیں بھی ہو چکی ہیں ۔مسئلہ کشمیر دنیا کے نقشے پر نیوکلیئر فلیش پوائینٹ بن چکا ہے ۔ حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ جس فارمولے کے تحت جونا گڑھ بھارت کو دی گئی اسی فارمولے کے تحت کشمیر ،پاکستان کو نہیں دیا گیا ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں