169

باجوہ ڈاکٹرا ئن اور’’فیٹف‘‘ کا فیصلہ


’’فنانشل ایکشن ٹاسک فورس‘‘ کی تشکیل ۱۹۸۹ میں ہوئی اس کا ہیڈ آفس پیرس میں ہے آج پاکستان سمیت ۳۹ ممالک اس کے ممبر ہیں۔ اس ادارے کا بنیادی مقصد دُنیا میں منی لانڈرنگ کی روک تھام اور دہشت گردی کا خاتمہ ہے، پچھلے ہفتہ بڑی تگ و دو کے بعد پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کی جو اُمید بھر آئی ہے اس کا کریڈٹ شہباز شریف کی حالیہ اتحادی حکومت کا ہے اور نہ عمران خان کی سابق حکومت یہ کریڈٹ لے سکتی ہے کیونکہ یہ سارا کریڈٹ “جی ایچ کیو” میں قائم کورسیل کی حکمت عملی سے ممکن ہوا ہے ، جس کا برملا اظہار جنرل قمر جاوید باجوہ ۱۷ جون کو اپنے ایک بیان میں کر چکے ہیں۔ جنرل باجوہ کا ایسا کہنا اس لئے بھی درست ہے کہ سول حکومت کچھ بھی کر لیتی فوج کی منشا کے بغیر ایسا ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن تھا، ایسے میں یہ سمجھنا اور کہنا بھی بے جا نہیں ہوگا کہ ملک میں دہشت گردی کی سوچ اور دیگر کریمنل ایکٹیویٹز میں جزوی بہتری کے حالات کے پس پردہ بھی جنرل باجوہ کی ۲۰۱۸ سے چلی آ رہی سوچ یا ڈاکٹرآئن ہی کار فرما ہے۔
رائل یونائینڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ ( روسی ) دُنیا کا قدیم ترین ادارہ ہے لندن میں قائم یہ تھنک ٹینک بین الاقوامی ڈیفنس اینڈ سکیورٹی معاملات و صورتحال پر گزشتہ کوئی 200 سال سے اپنا مربوط اور آزادانہ تجزیہ دنیا کے سامنے رکھتا ہے’ روسی‘ نے پاکستان امریکہ تعلقات سے متعلق بھی اپنے ایک حالیہ تجزیے میں کہا ہے کہ’’ باجوہ ڈاکٹرائن‘‘ کی ٹرم جوخود افواج پاکستان نے اپنی پالیسیوں کے حوالہ سے استعمال کی ہے کے مطابق مغربی دنیا خصوصاً امریکہ کو بتانا مقصود ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اور افغانستان کی سکیورٹی کے لئے کافی سے زیادہ کام بھی کیا اور بیشمار جانوں کی قربانی بھی دی ہے چنانچہ اب اس ضمن میں پاکستان سے مزید مطالبات بے معنی ہوں گے۔ باجوہ ڈاکٹرائن کے زریعہ یہ پیغام بھی دیا گیا ہے کہ پاک فوج کی آج کی پالیسی ۱۸ سال پہلے پرویز مشرف کی پالیسی سے مختلف ہے آج پاکستان کو ان دھمکیوں سے فرق نہیں پڑتا کہ اسے ملنے والی امریکی امداد میں کٹوتی یا اس کا خاتمہ ہوگا۔
’روسی‘ کے مذکورہ تجزیے سے ہٹ کر بھی اگر دیکھا جائے تو دنیا یقیناً دہشت گردی کیخلاف پاکستان کی کوششوں اور دی گئی ان گنت قربانیوں کا بتدریج احساس کر رہی ہے اور برطانیہ وہ واحد ملک ہے جو حالیہ چند سال سے پاکستان کے زیادہ قریب ہورہا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ برطانیہ اس حقیقت کو بھی سمجھ رہا ہے کہ اسے پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے والے عناصر کو اپنے ملک میں پناہ نہیں دینی چاہئے اور نہ ہی مالی امداد فراہم کرنی چاہئے ۔ یقیناًیہی وجہ ہے کہ برطانیہ نے ’’بلوچستان لبریشن آرمی ‘‘جیسی تنظیموں کو دہشت گردگروہ قرار دے دیا ہے۔ برطانیہ سمجھتاہے کہ اسے پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل سے زیادہ اس کے ساتھ معاشی تعلقات میں بہتری لانے کیلئے آگے بڑھنا چاہئیے ۔
’’روسی‘‘ ہو یا برطانیہ کے دیگر تھنک ٹینکس ان کی مختلف رپورٹس میں واضح ہے کہ بھارت بلوچستان میں مداخلت کے ساتھ ساتھ پاکستان میں ہونے والی متعدد دہشت گردی کی کارروائیواں میں براہ راست ملوث ہے اور اپنے ہاں ہونے والے کسی بھی دھماکه یا دہشت گردی کی کارروائی کا بغیرکسی تحقیق و تفتیش کے پاکستان پر الزام لگادیتا ہے۔ مثال کے طور پر 26 نومبر 2008 کو ممبئی اٹیک کی ذمہ داری بغیر کسی ثبوت کے پاکستان کے کھاتے میں ڈال دی گئی۔ اس ضمن میں ایک فلسطین نژاد معروف آسٹریلوی محقق پیلیسن ڈیوڈسن کی رواں سال فروری میں آنے والی تہلکہ خیز تصنیف THE BETRAYAL OF INDIA پڑھنے کے لائق ہے جس کے 25 چیپٹراور 900 صفحات میں مصنف نے 26/11 یعنی ممبئی اٹیک کی اصلیت کو ننگا کر کے رکھ دیا ہے یہی وہ مصنف ہے جس کی ایک دوسری کتاب HIJACKING AMARICA,S 9/11 MND ON نے امریکی ایوانوں میں زلزلہ پیدا کر دیا تھا اس نے ثابت کیا تھا کہ امریکہ کے پاس سرےسے کوئی ثبوت نہیں ہے کہ 9/11 کے حملوں میں کوئی بھی مسلمان ہائی جیکر ملوث تھا ۔ممبئی حملے کے پس پردہ حقائق بیان کرتے ہوئے اپیلیسن ڈیوڈسن بتایا ہے کہ 26/11 کا ماسٹر مائنڈ ’’امریکی سی آئی اے‘‘ کا ایک ایجنٹ ہیڈ لے تھا لیکن یہ امریکہ ‘برطانیہ‘ اسرائیل اور انڈین’’ را ‘‘کی ایک مشتر که سازش تھی تا کہ اسلاموفوبیا کو ہوا دے کر پاکستان کو براہ راست اس کا ذمہ قرار دیا جائے اور پاکستان کو غیر مستحکم اور اس کے ایٹمی اثاثوں وصلاحیت کو کمزور اورپھرختم کر دیا جائے اور یہ سب مغربی ملکوں کی لانگ ٹرم پلاننگ کا حصہ تھا۔ مصنف کے مطابق نیٹو بھی 26/11 کی منصوبہ بندی میں شامل تھا۔ 17 فروری 2018 ء کو یہ کتاب مارکیٹ میں آئی تو مغربی دنیا کے علاوہ خصوصی طور پر بھارتی خفیہ، ایجنسیوں حکومتی اثر انداز ہونے والے اداروں اور میڈیا میں افراتفری کا عالم ہے۔ایلیسن ڈیوڈسن کی کتاب ’’انڈیا کا دھوکہ‘‘ کے سرورق پر ممبئی کے ہوٹل تاج کی المعروف تصویر اور کتاب کے 900 صفحات نے بھارتی منصوبہ سازوں اور اس کے مغربی حریفوں کی پاکستان کے خلاف سازش کے وہ تمام تارو پود بکھیر کر رکھ دیئے ہیں جو انہوں نے پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے بنے تھے۔ مصنف نے مثبت ثبوتوں کے ساتھ بتایا ہے کہ اس واقعہ کے دوران ممبئی میں یہودی سنٹر یا عبادت گاہوں پر حملہ بھی اس منصوبے کا ایک حصہ تھا۔
“رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ” نے اپنی مختصر رپورٹ میں باجوہ ڈاکٹر رائن کی جن چند کامیاب پالیسیوں کا ذکر کیا ہے شاید علیحدگی پسند بعض بلوچ لیڈروں کی طرف سے پاکستان کو اپنا وطن تسلیم کر کے قومی دھارے میں شامل ہونے کا اعلان بھی اسی پالیسی کے’’فیوض‘‘ میں شامل ہے۔ایک غیرملکی جریدے ’’یوروایشیا ‘‘نے اپنی 24فروری 2018ء کی اشاعت میں ایک سابق علیحدگی پسند لیڈر جمعہ خان مری بلوچ کا انٹرویو شائع کیا ہے جس کے مندرجات کے مطابق ۵۰ سال کی علیحدگی تحریک کے بعد وہ تائب ہوا اور پاکستان کی وفاداری کا حلف لیا، جمعہ خان مری 1970 ء میں باغی بلوچوں کے گروہ میں شامل ہوا لیکن 48 سال بعد 17 فروری کو روس میں پاکستان یونٹی ڈے کی ایک تقریب میں اس نے’’ آزاد بلوچستان ‘‘کی تحریک سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ مذکورہ جر یدے کوانٹرویو دیتے ہوئے اس نے کہا میں 1960-1970 ء کے آپریشن کے دوران اپنے والد میر ہزار خان مری اور فیملی کے ساتھ کا بل چلا گیا اور پھر وہاں سے ماسکو جا کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی۔
جمعہ خان نے یہ بھی کہا کہ میں دعوی کرتا ہوں اگر پاکستان آج ایک اشارہ بھی انڈیا کو کر دے کہ وہ کشمیریوں کی حمائت سے ہاتھ کھینچ رہا ہے تو وہ اگلے ہی روز بلوچ تحریک کو سپویج کینال میں غرق کر دے گا۔ چنانچہ سب قرائن بتاتے ہیں کہ باجوہ ڈاکٹرائن کامیاب ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں