220

پاکستان آرمی کی تشکیل کیسے ہوئی تھی ؟


پاک فوج دنیا کی دس مظبوط ترین افواج میں نویں نمبر پر ہے ۔فوج کو جو برتری حاصل ہے ا س کی وجہ سے اس کی معمول کی تقرریوں و تبادلے کے معاملات بھی قومی سطح پر بہت زیادہ اہمیت اختیار کر جاتے ہیں ۔ ایک ایسے موقعہ پر جب موجودہ حکومت نے جنرل سید عاصم منیر کو چیف آف آرمی سٹاف مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے یہ ضروری محسوس ہوتا ہے کہ قارئین یہ جان سکیں کہ پاکستان آرمی کی تشکیل کیسے ہوئی تھی اور اس کے پہلے چیف کون تھے ؟ اس وقت دو نوزائدہ ممالک کے درمیان فوج کی تشکیل اور تقسیم کا عمل کیسے مکمل کیا گیا تھا ۔
فیلڈمارشل آکن لیک فوج کی تقسیم کے خلاف تھے :
تقسیم سے پہلے یکم جولائی 1947ء کو برٹش انڈین فوج میں مقامی فوجیوں کی تعداد 3لاکھ 73 ہزار570 تھی ۔جن میں ایک لاکھ 54ہزار 780 ہندو ، ایک لاکھ 35ہزار268 مسلمان ، 35 ہزار 390 سکھ جبکہ باقی مسیحی اور گورکھا تھے ۔ ہندوؤں کا تناسب 41.4 اور مسلمانوں کا 36.2 تھا ۔ دوسری جنگ ِ عظیم تک ہندوستانی فوج کی تعداد 25 لاکھ تھی جس میں سے بیشتر کو غیر فعال کر کے گھروں میں بھیج دیا گیا تھا ۔ تقسیم کے وقت ہندوستان میں انگریزی فوج کی تعداد چھ بٹالین پر مشتمل تھی ۔فوج کی کمانڈ فیلڈ مارشل آکن لیک کے پاس تھی جو تقسیم کی صورت میں مشترکہ فوج کی حمایت میں تھے لیکن قائداعظم کسی صورت اس تجویز سے متفق نہیں تھے بلکہ لیاقت علی خان نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو واضح طور پر بتا دیا تھا کہ ’’میں اور جناح اس بات پر پوری طرح متفق ہیں کہ فوج کی موجودگی اور کنٹرول کے بغیر اقتدار نہیں سنبھالیں گے ‘‘۔ لارڈ ماؤ نٹ بیٹن کی سربراہی میں جب پارٹیشن کمیٹی بنی جس میں سول اور فوجی افسران کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے نمائندے شامل تھے تو اس کمیٹی کے سامنے ایک چیلنج فوج کی منصفانہ تقسیم بھی تھا جس کے لیے الگ ڈیفنس کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں مسلمانوں کی نمائندگی لیاقت علی خان اور سردار عبد الرب نشتر جبکہ کانگریس کی سردار ولبھ بھائی پٹیل اور رجندر پرشاد نے کی تھی ۔ 23 جون کو قائداعظم نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو کہا کہ مسلمانوں کو جنرل آکن لیک پر مزید اعتبار نہیں ہے اور ان کی جگہ کسی اور کو کمانڈر انچیف لگایا جائے لیکن انہوں نے یہ کہہ کر جناح کا مطالبہ رد کر دیا کہ ان سے زیادہ اور بہتر فوجی افسر موجود نہیں ہے ۔ 26 جون کو پارٹیشن کمیٹی کے ہونے والے اجلاس میں آکن لیک نے شرکاء کو بتایا کہ مسلح افواج کی تقسیم ہندوستان کی تقسیم سے پہلے عمل میں آجائے گی لیکن نیشنلائزیشن کے لئے انتظار کر نا ہو گا اس عمل کے دوران انگریز فوج کی بھی ضرورت پڑے گی ۔فوج کی تقسیم کا عمل مکمل ہونے تک دونوں حصوں کی فوج ایک ہی ہیڈ کوارٹر اور ایک ہی کمانڈر انچیف کے تحت رہے گی ۔ انہوں نے نے یہ بھی بتایا کہ مسلم اکثریت والے فوجی یونٹ پاکستان کو جبکہ باقی مذاہب کی اکثریت والے دستے بھارت کو ملیں گے ۔ برطانوی فوجی ہیڈ کوارٹر سے بھی یہ تجویز دی گئی کہ دونوں ممالک کم از کم دو یا تین سال کے لئے انگریز دستے اپنے ملکوں میں رہنے دیں تاکہ کسی بھی بیرونی جارحیت سے نمٹنے کے لئے منظم ہو سکیں ۔
قائداعظم بھی اس بات پر رضا مند ہو گئے کہ پاکستان کا کمانڈر انچیف اور کئی سینئر فوجی افسر انگریز ہی ہوں گے ۔ ڈاکٹر اشتیاق احمد نے اپنی کتاب ’’پاکستان ،عسکری ریاست ‘‘ میں بڑی تفصیل سے ان واقعات پر روشنی ڈالی ہے جو اس دوران رونما ہو رہے تھے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ 10 جولائی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ 15 اگست 1947ء سے دونوں آزاد ملکوں کے فوجی ہیڈ کوارٹر اپنے علاقوں میں فوج کی نقل و حمل یا آپریشنل کنٹرول کے ذمہ دار ہوں گے ۔ موجودہ آرمڈ ہیڈ کوارٹر برقرار رہے گا اور اسے سپریم ہیڈ کوارٹر کا درجہ مل جائے گا ۔ بعد میں یہی عمل آزادی ہند ایکٹ 18 جولائی 1947 کی شقوں میں مزید واضح کر دیا گیا تھا کہ دو نئی ریاستوں کی تقسیم کا عمل مکمل ہونے تک کمانڈ اور گورننس ایک ہی رہے گی ۔ لندن میں بھی یہ رائے موجود تھی کہ دونوں نئی ریاستو ں کو دولت ِ مشترکہ کے رکن کے طور پر برطانیہ کے ساتھ دفاعی اور سیکورٹی انتظامات سے منسلک رہنا چاہئے ۔24 جولائی کو برطانیہ کے وزیر برائے ہندوستان و برما ارل آف لیسٹو ویل وزیر اعظم ایٹلی سے ملے اور انہیں آگا ہ کیا کہ ’’برطانوی فوجی کسی بھی بیرونی جارحیت کو ناکام بنانے کے لئے موجود رہیں گے اور برطانیہ کو جنگ کی صورت میں فوجی تعاون بھی فراہم کریں گے البتہ باہمی تعاون کا فیصلہ کرنے میں دونوں ریاستیں آزاد ہوں گی ۔ تاہم ارل آف لیسٹوویل نے یہ امکان نظر انداز کر دیا کہ کہ اگر پاکستان اور بھارت میں جنگ ہو گئی تو کیا ہو گا ؟
جنرل آکن لیک نے یہ واضح کر دیا تھا کہ دونوں آزاد ملکوں کے درمیان چھوٹی موٹی جھڑپوں میں تو انگریز فوجی افسران اپنا کردار ادا کریں گے لیکن اگر مکمل جنگ چھڑ گئی تو وہ کوئی کردار ادا نہیں کریں گے ۔ چیف آف جنرل سٹاف آرتھر سمتھ نے 29 جون کو ایک انتہائی خفیہ مراسلہ سینئر انگریز افسران کو بھیجا کہ فرقہ وارانہ تصادم میں انگریزافسران استعمال نہیں ہوں گے بلکہ وہ صرف برطانوی شہریوں کی زندگی بچانے میں حصہ لیں گے ۔
فوج کی تقسیم کا اصول کیا ہو گا ؟

اگرچہ برطانوی ہند کی فوج میں مسلمان فوجیوں کا تناسب ہندوؤں سے صرف پانچ فیصد کم تھا لیکن فوجوں کی تقسیم میں مذہبی تناسب کو مدِ نظر رکھا گیا تھا ۔ بری فوج میں 30-70 ، نیوی میں 60-40 اور ائیر فورس میں 70-30 کا تناسب رکھا گیا ۔ماؤنٹ بیٹن کا خیال تھا کہ اس فیصلے سے بھی مسلح افواج کی تشکیل نو سے متعلق کمیٹی میں بھارت کے نمائندے خوش نہیں ۔قبل ازیں انہوں نے وائسرائے کی یہ تجویز مسترد کر دی کہ اگر پاکستان کے صوبہ سرحد کے قبائلی علاقوں میں کوئی شورش ہو تو بھارت اپنی فضائیہ کے طیارے وہاں بھجوائے گا ۔البتہ ان نمائندوں نے اتفاق کیا کہ اگر افغانستان یا کسی اور ملک کی طرف سے پاکستان کے خلاف جارحیت کی گئی تو بھارت اپنے سکواڈرن بھجوانے پر غور کرے گا ۔ تاہم بعدمیں بھارتی نمائندے اس سے بھی انکاری ہو گئے کہ ایسا کرنے کا مطلب ہو گا کہ بھارت نے قبائلیوں کے خلاف لڑائی میں اپنی عسکری تنصیبات پاکستان کے حوالے کر دی ہیں ۔ بلکہ سردار پٹیل نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ایسی تجاویز دے کر جنرل آکن لیک اور دیگر سینئر کمانڈر پاکستان نواز بن رہے ہیں ۔ڈیفنس کونسل کے ذمہ تھا کہ مارچ 1948ء تک دونوںممالک میں طے شدہ فارمولے کے تحت اثاثے تقسیم ہو جائیں مگر لارڈ ماؤنٹ بیٹن اس فارمولے پر عمل در آمد کروانے میں ناکام رہے اور بھارت نے پاکستان کو دئے جانے والے ساز و سامان کی ترسیل روک دی جس پر انہوں نے ڈیفنس کمیٹی تحلیل کر دی ۔آکن لیک نے منصفانہ سا زو سامان کی تقسیم کا مطالبہ جاری رکھا جس پربھارتی حکومت نے انہیں سپریم کمانڈر کے عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ شروع کر دیا ۔آک لینڈ نے بھی لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو آگاہ کر دیا کہ وہ 30 نومبر تک دہلی چھوڑ جائیں گے اور 31دسمبر1947ء تک سپریم ہیڈ کوارٹر بند کر دیا جائے گا ۔قائداعظم نے اس فیصلے پر شدید احتجاج کیا اور جب 16 اکتوبر کو جوائینٹ ڈیفنس کمیٹی کا اجلاس ہوا تو جناح نے آکن لیک کے فیصلے کی مخالفت کی اور مؤقف اختیار کیا کہ چونکہ اثاثوں کی تقسیم کی ذمہ داری ابھی پوری نہیں ہوئی اس لئے یہ فیصلہ قابل ِ قبول نہیں جس پر لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کہا کہ جو تقسیم رہ گئی ہے اسے دونوں ملکوں کے کمانڈر انچیف مل کر کر لیں گے ۔ دونوں ملکوں کے کمانڈر انگریز تھے ۔پاکستان کی کمان جنرل سر فرینک والٹر میزوری جبکہ بھارت کی سر رابرٹ میک گریگر میکڈانلڈ لاک ہرٹ کے پا س تھی ۔
جنرل فرین والٹر میزروی پاک فوج کے پہلے سربراہ :
پاکستان آرمی کی آفیشل ویب سائٹ کے مطابق جنرل سرفرینک والٹر میزروی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ پہلے چیف بنے ۔وہ 15اگست 1947ء سے 10 فروری 1948ء تک چیف رہے ۔پاکستان کے قیام سے پہلے وہ برٹش آرمی کی ناردرن کمانڈ کی سربراہی کر رہے تھے شاید یہی وجہ تھی کہ انہیں پاک فوج کا پہلا سربراہ بنایا گیا ۔ وہ 1893ء میں پیدا ہوئے اور 1913ء میں انڈین آرمی میں کمیشن حاصل کیا ۔انہوں نے پہلی اور دوسری دونوں عظیم جنگوں میں حصہ لیا ۔ کشمیر کی پہلی جنگ میں انڈیا کی جانب سے ان پر الزام لگایا گیا کہ قبائلیوں کو ان کی منظوری کے بعد کشمیر میں بھیجا گیا تھاحالانکہ جب قبائلیوں نے حملہ کیا تو میزوری اس وقت لندن میں تھے ۔جب وہ واپس آئے تو دہلی ائیر پورٹ پر اترے تو بھارتی حکام نے انہیں روک لیا جس پر لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے یقین دہانی کروائی کہ کشمیر کی کارروائی ان کے علم میں نہیں تھی ۔ 12نومبر1947ء کو انہوں نے ایک خط جاری کیا جس میں انہوں نے اس الزام کی تردید کی کہ کشمیر آپریشن میں پاک فوج کا کوئی حاضر سروس آفیسر ملوث ہے ۔پاکستان نے یہ خط ثبوت کے طور پر سلامتی کونسل میں پیش کیا ۔
جنرل میزوری کی ریٹائرمنٹ پر قائداعظم نے جنرل گریسی کو کمانڈر انچیف کے عہدے پر ترقی دی جو 11فروری 1948ء سے 16جنوری 1951ء تک فوج کے سربراہ رہے ۔انہوں نے پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں شرکت کی تھی ۔ پاک فوج کے سربراہ بننے سے پہلے وہ جی ایچ کیو میں چیف آف سٹاف کے عہدے پر تھے ۔انہوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کا کشمیر میں فوجیں بھیجنے کا حکم ماننے سے انکار کر دیا تھا کہ پاک فوج کو کشمیر میں بھیجا جائے بلکہ وہ یہ معاملہ سپریم کمانڈر جنرل کلاؤڈ آکن لیک کے نوٹس میں لے آئے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان تنازعہ میں برطانوی فوجی غیر جانبدار رہیں گے ۔تاہم ڈاکٹر اشتیاق احمد نے لکھا ہے کہ قائد اعظم جنرل گریسی کو کشمیر پر حملہ کے لیے تیار کرنے میں کامیاب ہو گئے اور اپریل 1948ء کے نصف میں پاکستانی دستے کشمیر میں داخل ہو گئے تھے ۔اس کے بعد سے 75 سال گزر چکے ہیں پاکستان کی سٹریٹجک پالیسیاں کشمیر کے گرد ہی گھوم رہی ہیں اور پاکستان اپنے ایک حصے سے محروم بھی ہو چکا ہے ۔ کشمیر ابھی تک حل طلب مسئلے کے طور پر موجود ہے ۔ دنیا پاکستان کو ایک عسکری ریاست کے حوالے سے جانتی ہے جہاں سیاست سمیت تمام شعبوں کا محور پاک فوج ہی ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں