247

پاکستان اور تعلیمی بدحالی


یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ کائنات کی تمام تر مخلوقات میں صرف انسان کوفضیلت و فوقیت عطا ہوئی تو محض اسے ودیعت کردہ علم کے سبب ۔چناں چہ حقیقی معنوں میں یہ علم ہی ہے جو اصل میںانسان کے لیے باعث عز و شرف ہے۔اس کی اہمیت کا اندازہ ہمیں نبی رحمت ﷺپر نزول قرآن کے اولین حکم’’اقرا‘‘سے بھی ہوتا ہے،جس کے تحت بلا تخصیص مردوزن، ہر مسلمان پرحصولِ علم کو سب پر فرض قراردیا گیا۔
اسے حرماں نصیبی نہیں تو اور کیا گردانا جائے کہ دیگر فرائض کی طرح ہم حصول علم کے فریضے کی انجام دہی میں اب ویسے سرخرو نہیں جو قرون اولیٰ اور قرون وسطیٰ تک ہمارا طرۂ امتیاز تھی۔ تاریخ سے گواہی لے لیں کہ جب یورپ سمیت پورا مغرب جہالت کی تاریکیوںمیں ٹھوکریں کھاتا پھرتا تھا، مسلم امہ کے پاس بغداد جیسے علم و تحقیق کے بیسیوں مراکز تھے۔ دنیا کا شاید ہی کوئی علم ہو، مسلمان سائنسدانوں، فلاسفہ، مدبروں، دانشمندوں اور نکتہ وروں نے جس کا دامن نہ بھرا ہو لیکن صد حیف کہ آج ہمارا طالب علم ابو ریحان البیرونی، الفارابی، بصری، رازی، ابن سینا، الخوارزمی ،ابن رشد، جابر بن حیان،ابوالقاسم اور ابن الہیشم جیسے زعما کی حیات اور علمی کارناموں سے تو کیا ان کے ناموں تک سے بھی ناواقف ہے۔وہ نہیں جانتاکہ ابن سینا کی کتاب’’القانون‘‘، بصری کی کتاب’’الحیوان‘‘اور ابوالقاسم کی ’’جراحی‘‘، سترہویں صدی عیسوی تک یورپ میں نصابی کتب کے طور پر پڑھائی جاتی رہیں۔
علامہ محمد اقبال نے بجا فرمایا تھا کہ’’ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں‘‘ یہ حقیقت مسلمانوں پر بھی منطبق ہوئی۔ تاہم عروج و زوال کے اسباب و علل جاننا ہی وہ اب سوال ہے، جس کا جواب ہمیں دنیا کی کرشماتی ترقی سے ہمقدم کر سکتا ہے۔مسلم امہ کے زوال کے اسباب سے آگہی کے لیے ماضی ٹٹولیں تو جوعوامل سب سے نمایاں دکھائی دیں گے وہ ہوں گے فروعی اختلافات اور باہمی آویزش ۔محض سقوطِ غرناطہ و بربادئی بغداد کا مطالعہ بیشتر حقائق آشکار کر سکتا ہے۔ یہ وہی دور تھا جب یورپ نے تعلیم و تحقیق کو اولین ترجیح بنا کر علم کے زینے پر قدم رکھنا شروع کیا اور آج جیمز ویب دوربین کے ذریعے چاند اور مریخ سے بھی آگے بلیک ہول میں جھانک رہا ہے۔ دوسری جانب اپنے درخشندہ ماضی پر بے جا فخر کرنے کے سوا ہمارے دامن میں کچھ نہیں!
شومئی قسمت کہ تعلیم دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت کے پالیسی سازوں کی ترجیحات میں کبھی شامل نہ رہی، نہ ہی اب ہے۔ ہمارے ہمسایہ ممالک اس مد میں بجٹ کا ایک خطیر حصہ مختص کرتے ہیں جب کہ پاکستان میں صورتحال اس کے بر عکس ہے۔یوں تعلیمی نظام سے جومجرمانہ تغافل برتا جارہا ہے اس سے ہم روز بروز قعرِ مذلت میں گرتے جارہے ہیں، شاید ہی کسی دوسرے شعبہ کے ساتھ ایسا بے رحمانہ سلوک ہوا ہو۔ ایسابھی نہیں کہ اس جانب کوئی توجہ نہ دی گئی، ہم بارہ تیرہ ایجوکیشن پالیسیاں لے کر آئے، سینکڑوں ایجوکیشن کانفرنسز ہوئیں، ہر دور حکومت میں حکام نےدنیا کےتدریسی نظاموں کو جاننے کے لئے بیسیویں غیرملکی دورے بھی کیے لیکن سیہ بختی کہ ایسے تمام تجربے ناکام و نا مراد ٹھہرے ۔
بنظر غائردیکھا جائے تو تعلیمی زبوںحالی کی بڑی اور بنیادی وجوہات میں ملک کی آبادی میں بے لگام اضافہ، سیاسی عدم استحکام اور ہمہ وقت بڑھتی کرپشن کے باعث دکھائی دینے والی دولت کی ریل پیل بھی ہے، چنانچہ ہمارے نوجوان کے لیے تعلیم کا مقصد حصولِ علم نہیں بلکہ فقط مال و دولت جمع کرنے کا ایک ذریعہ ہے، اور وہ ہر اس تعلیمی سسٹم کا حصہ بن کے اندھا دھند اس کے پیچھے لگ جاتا ہے جس میں اسے اچھی سے اچھی مراعات یافتہ ملازمت کےآسان ذرائع نظر آتے ہیں۔ اخلاقیات ،تہذیب و شرافت، سماجی و معاشرتی اقدار، دانش و بینش اور خدمت خلق وغیرہ سے اب ہمارے طلبہ کا کوئی علاقہ نہیں رہا۔
ہمارے لایعنی تجربات نے ایک اور بڑا نقصان یہ کیا کہ تعلیمی نظام کے نام پر کاروبار کرنے والے بھانت بھانت کے تعلیمی اداروں نے اپنے اپنے نظام تعلیم متعارف کروا کے تعلیم کے یکساں نظام کا خاتمہ کرکے اسے مزید روبہ زوال کر دیا ۔بسا اوقات اس تعلیمی تنزلی کا ذمہ دار بڑھتے ہوئے دفاعی اور غیر پیداواری اخراجات کو ٹھہرایا جاتا ہے، لیکن دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مقابلے میں دفاعی ادارے اپنے بجٹ کا ایک اہم اپنے بہترین عسکری تعلیمی اداروں پر خرچ کرتے ہیں،جہاں معیاری تعلیم ہی نہیں تحقیق پر بھی بھرپور توجہ مرکوز کی جاتی ہے ۔
سر دست صورتِ حالات یہ ہے کہ طویل عرصے سے تعلیمی شعبے میں محض واجبی سرمایہ کاری نے ملک میں ایک شدید تعلیمی بحران پیدا کر دیاہے،اس پر ظلم یہ کہ ملک بھر میں اب بھی گھوسٹ سکولوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جہاں اساتذہ کی بڑی تعداد باقاعدہ سرکاری خزانے تنخواہ وصول کرتی ہے ، جب کہ پاکستان کے تقریباً اڑھائی کروڑبچوں کے سکول نہ جانےکی بنیادی اور سب سے بڑی وجہ غربت و افلاس اور سکولوں کی تعداد میں کمی ہے۔ کیا اکیسویں صدی میں اتنے بچوں کو آئینی ذمہ داری کے باوجود تعلیمی سہولتوں سے محروم رکھنا کسی مہذب ملک کو زیب دیتا ہے؟ کیا ایسے حالات میں ترقی وخوشحالی کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے؟ اقوام متحدہ کے رہنما اصولوں کے مطابق پاکستان کو اپنی قومی پیداوار کا چار سے چھ فیصد حصہ تعلیم پر خرچ کرنا چاہیے لیکن ہم مجموعی قومی پیداوار کا صرف دو اعشاریہ آٹھ فیصد تعلیم جیسے اہم شعبے پر خرچ کرتے ہیں۔ یہ معمولی رقم نہ صرف بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر مزید تعلیمی ادارے قائم کرنے کے لیے ناکافی ہے بلکہ مجموعی طور پر تعلیم کے معیار پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔اس پر مستزاد یہ کہ ہمارے کمتر ہوتے وسائل اور برق رفتاری سے بڑھتی آبادی کے لیے مستقبل قریب میں ہی ہمارے لیےمعیاری تعلیم کا انتظام و انصرام مشکل تر ہوتا چلا جائے گا۔
دنیا میں تعلیم کے تبدیل ہوتے معیارات کے باعث نجی سرمایہ کاروں نے اس میدان میں قدم رکھاتو تعلیم پر حکومتی عملداری کا ہی خاتمہ نہ ہوا بلکہ تعلیم حکومتی ترجیحات کے اسفل درجات پر لڑھکتی چلی گئی ،یوں تعلیم کے باقاعدہ کاروبار بننے کا ایسا آغاز ہوا کہ یہ ملک کے منفعت بخش دھندوں میں نمایاں ترین بزنس بن چکا ہے ۔سرمایہ داروں کا چوں کہ تعلیم سے کوئی تعلق تھا نہ لگن چناں چہ انہوں نے اسے محض ایک کاروبار ہی سمجھا اور اپنی توجہ بہتر تعلیمی سہولتیں مہیا کرنے کے بجائے صرف پیسہ بنانے پر مرکوز کرلی ۔ اس سرمایہ کاری سے تعلیمی اداروں کی تعداد میں اضافہ تو ہوا مگر’’ مرے پہ سو درے ‘‘ کے مصداق تعلیمی معیار زمیں بوس ہوتا چلا گیا۔یہ بھی ذہن میں رہے کہ تعلیم اور تربیت، لازم و ملزوم ہیں۔ تعلیم اور تربیت میں بنیادی امتیاز کیا ہے؟ سادہ اور عام فہم زبان میں تعلیم، سیکھنے کے عمل کو کہتے ہیں۔ یہ سیکھنے کا عمل ہی دراصل تربیت ہے تو پھر ہم تعلیم اور تربیت کو الگ الگ کیسے کریں گے؟ جواب یہ ہے کہ تعلیم سے مراد ہے’’رویے میں تبدیلی‘‘ جبکہ تربیت سے مراد ہے’’رویے میں مثبت تبدیلی‘‘اگر قوموں نے ترقی کرنی ہے تو تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا بھی برابر خیال رکھنا ہو گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن قوموں نے تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر بھی توجہ دی ہے آج وہی اوجِ کمال پر ہیں۔بد قسمتی سے ہمارے ہاں تعلیم تو ہے تربیت کا کہیں نام و نشان تک نہیں ،جوانتہائی توجہ طلب امر ہے۔
کسی بھی ملک کی ترقی کا اندازہ اس کی شرح خواندگی سے لگایا جاتا ہے، اس اعتبار سے دنیا کے ایک سو ستتر ممالک کی فہرست میں پاکستان ایک سو انچاسویں درجے پر ہے، دنیا سے موازنہ تو دور کی بات جنوبی ایشیا میں پاکستان خطے کے 9 ممالک میں صرف افغانستان سے بہتر ہے، اس کی وجہ ہمارے ہاں تعلیم کا مختلف خانوں میں منقسم ہونا ہے۔ دینی اور دنیاوی تعلیم کی اپنی اپنی جگہ اہمیت ہے۔ ہمارے مدرسوں میں رائج نظام تعلیم کے علاوہ جو دوسرا نظام تعلیم ہے، اس کے دو معیار ہیں۔ ایک وہ جو سرکاری سکولوں میں نظر آتا ہے اور دوسرا نجی سکولوں میں۔ سرکاری سکولوں میں معیارِ تعلیم ناقابل بیان حد تک فرسودہ ہے۔ نہ وہاں قابل اساتذہ ہیں اور نہ ہی اعلیٰ تعلیمی نصاب، برس ہا برس پرانا نصاب آج بھی بچوں کو پڑھایا بلکہ رٹایا جا رہا ہے جبکہ دیگر بنیادی سہولتیںسرے سے ہی ناپید ہیں۔دریں حالات جو لوگ صاحب حیثیت نہیں، وہ بھی اپنے بچوں کو نجی سکولوں میں تعلیم دلوانے کی جستجو میں لگے رہتے ہیں، چاہے اس کے لئے انھیں اپنا پیٹ ہی کیوں نہ کاٹنا پڑے۔ دوسری جانب نجی سکولوں میں بھی دو طرح کے نصاب پڑھائے جاتے ہیں، ایک تو صوبائی نظام تعلیم کے تحت ہوتا ہے اور دوسرا کیمبرج سسٹم کے تحت۔ والدین اپنے بچوں کو کیمبرج سسٹم کے تحت تعلیم دلوانے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ ان کا بچہ انگریزی زبان کے ذریعے کچھ نیاسیکھ سکے اور مسابقت کے اس دور میں کوئی مقام بنا سکے۔یہ تفاوت ہماری قوم میں ایک ایسی تقسیم پیدا کر رہی ہے جس کا انجام سب جانتے ہیں لیکن کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے یہ سمجھ رہے ہیں کہ خطرہ خود بخود ٹل جائے گا ،اس عمل کے بھیانک انجام پر جس قدر جلد غور کر لیا جائے اتنا ہی اچھا ہو گا وگرنہ سوائے پچھتاوئے کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا ۔
پرائمری تعلیم کسی بھی بچے کی شخصیت اور شعور کے لیے اہم ترین ہوتی ہے۔ اس عمر میں بچے بہت متجسس ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان کے تجسس کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کرنی چاہیے تاکہ بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارا جا سکے۔پائیدار ترقی کے اہداف کے تحت پاکستان نے اقوام متحدہ سے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ 2030 ء تک اپنے ہر بچے کو بہر صورت معیاری پرائمری تعلیم فراہم کرے گا۔ مستقبل کے لیے کسی بھی طالب علم کی سمت متعین کرنے میں ثانوی تعلیم کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے۔ والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ تعلیمی اور عملی زندگی میں بچوں کوSTEM یعنی سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کی تعلیم میں مہارت دلوائیں تاکہ بچوں کی تخلیقی صلاحیتیں ابھریں۔ عالمگیریت کے اس دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی حکمران بن رہی ہے۔چناں چہ آنے والی دہائیاں تکنیکی ترقی سے عبارت ہوں گی،مستقبل میں طویل المدتی، پائیدار اقتصادی ترقی کے لیے جدت طرازی، انسانی سرمائے اور ہنرمند افرادی قوت کو ٹیکنالوجی کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ناگزیر ہو گا، جلد یا بدیر ایک نئی مسابقتی دنیا سے ہم آہنگ ہونے کے لیے درکار مہارتوں میں سرمایہ کاری لازم ہے۔ چاہے ہم اسے علم کی معیشت کہیں یا چوتھے صنعتی انقلاب کا نام دیں۔
یو ایس ڈپارٹمنٹ آف لیبر نے اندازہ لگایا ہے کہ اسکول میں زیر تعلیم 65 فیصد بچوں کو بالآخر ایسی ملازمتوں میں لگایا جائے گا جن کی ایجاد ہونا ابھی باقی ہے۔ اس کی مثال چین کا شاندار ریکارڈہے جو ہر سال STEM مضامین میں 5 ملین گریجویٹ اور 50000 پی ایچ ڈی تیار کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں امریکہ میں 34000 پی ایچ ڈی تیار ہوتے ہیں۔ اس تعلق سے بھی ہمیں کافی مشکل کا سامنا ہے کہ ہر سال صرف 25000 طلباء آئی ٹی سے متعلقہ مضامین میں فارغ التحصیل ہوتے ہیں جب کہ بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لیے ہمیں کم از کم ایک لاکھ ماہرین کی ضرورت ہے۔ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے سائنس کے شعبوں میں موجود بہت کم فیکلٹی ممبران اعلیٰ غیر ملکی یونیورسٹیوں اور قائد اعظم یونیورسٹی، لمز، نسٹ یا غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ جیسے مقامی اداروں سے فارغ التحصیل ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ایچ ای سی، فل برائٹ اور دیگر اسکالرشپ پروگراموں کے ذریعے نوجوان فیکلٹی اور اسکالرز کو امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور جرمنی کی اعلیٰ یونیورسٹیوں میں ڈاکٹریٹ کی ڈگریوں، پوسٹ گریجویٹ فیلو شپس،STEM مضامین میں اسکالر شپ پروگراموں کی اہلیت حاصل کرنے کے لئے تیار کیا جائے۔
درد ناک حقیقت یہ ہے کہ پچھلے غالباً800 سال کے دوران مسلمانوں نے ایک بھی ایسی ایجاد نہیں کی جسے دنیا میں پذیرائی حاصل ہوئی ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو صرف سطحی اور ضرورت کے مطابق سیکھنے کا سبق دیتے ہیں جس کی وجہ سے تحقیق کا رویہ پنپ نہیں رہا۔ جس قسم کی تعلیم ہمیں دی جا رہی ہے وہ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں۔ ہم تو ابھی ”علم کی بنیاد پر معیشت“ جیسے تصورات سے ہی کوسوں دور ہیں۔
ان تمام مسائل کی طرف فوری توجہ نہ دی گئی تو ہمارے ہاں تعلیم کے معیار میں مزید کمی آئے گی اور ہمارے بچے مستقبل کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی صلاحیتوں سے مکمل طور پر محروم ہوجائیں گے۔ ابھی وقت ہے کہ مناسب اقدامات کے ذریعے انحطاط کے اس سفر کو روکا جائے۔ سب سے زیادہ اہم بات تعلیم کو مشن بنا کر اس کے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ ہے۔ ہمیں فوری طور پر اقوام متحدہ کے سفارش کردہ اعداد یعنی قومی پیداوار کا کم سے کم چار فیصد حصہ تعلیم کے لیے مختص کر نا اور بتدریج بڑھا کر چھ فیصد تک لے جانا چاہیے، چاہے اس کے لیے دفاعی و دیگر اخراجات میں کمی کرنی پڑے۔ یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ اچھی تعلیم کے بغیر کوئی قوم اپنا دفاع بھی نہیں کر سکتی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں