164

محمد عجیب : برطانیہ کی تاریخ کے پہلے ایشائی لارڈ میئر


اشتیاق احمد
یہ مضمون میر پور میں محمد عجیب پر لکھی گئی کتاب کی تقریب رونمائی کے موقع پر پڑھا گیا
اس سے پہلے میں محمد عجیب بھائی اور کتاب کے حوالے سے گفتگوں کو آگے بڑھاؤں ، مجھے اپنے دو ساتھیوں ، جناب یعقوب نظامی اور ظفر تنویر کی کمی کا شدت سے احساس ہو رہا ہے۔گو کتاب کے انگلش ایڈیشن میں میرا مرکزی رول تھا لیکن اس کو مرتب کرنے اور منظر پر لانے میں ان کا کرادر بھی مرکزی تھا۔
اس کے ساتھ ساتھ میں سید شبیر احمد شاہ صاحب کی محنت کو کیسے بھول سکتا ہوں جنوں نے خلوص اور لگن سے انگلش ایڈیشن کوپڑھا، اور اس کے ترجمعہ کی سعی کی اور آج اُن کی محنت آپ کے سامنے ہے۔ کتنا اچھا ہوتا کہ آج کہ یہ تقریب ان کی سر پرستی میں منائی جاتی ، لیکن اچانک انگلینڈ جا نے کی وجہ سے تقریب میں شرکت نہ کر پائے۔
میری اور محمد عجیب بھائی کی رفاقت کوئی 45 سال سے ہے۔ یعنی نصف صدی کے قریب کا یہ رشتہ پروفیشنل تعلق اور رابطے سے بڑ ھ کر دوستی اور پھر بھائیوں جیسے مقدس رشتے میں تبدیل ہو گیا اور ابھی الحمداللہ اپنی تمام تررعنائیوں کے ساتھ جاری وساری ہے۔
مجھے اس پر ناز ہے کہ محمد عجیب بھائی جیسی قد آور شخصیت نے میری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور زندگی کے ہر موڑ پر بے لوث رہنمائی کی ۔ یہ ایک اچھے انسان کے اعلیٰ ظرف ہونے کی بہت عمدہ نشانی اور مثال ہے۔ اچھے کاموں پر شاباش کے ساتھ ساتھ میری کوتاہیوں اور کمزوریوں پر ایک اچھے تر بیتی معمار کی طرح حسب معمول خراش و تراش بھی کرتے رہے۔ زندگی کے اس اہم سبق کو میں کبھی نہیں بھولا۔ ایک سچے،سُچے اور مخلص دوست کا کام صرف شاباش ہی دینا نہیں بلکہ موقع کی مناسبت سے تعمیری تنقید بھی کرنا ہوتا ہے۔ اس کو ہمیں خندہ پیشانی سے لینا چاہئے کیونکہ اس کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے اور قبول کرنے میں ہی ہمارا فائدہ ہے۔
محمد عجیب بھائی کی زندگی کا آغاز پاکستان اور آزاد کشمیر کے معرض وجود میں آنے سے پہلے، چھترو کے گاؤں سے شروع ہوا، جو اُس وقت محدود وسائل کی وجہ سے ایک دور دراز اور پس ماندہ علاقہ سمجھا جاتا تھا- ایک محنت کش گھرانے میں والد کی محنت اور تگ و دوسے چھترو ، ہل اور ڈڈیال سے پرائمری ، مڈل اور میٹرک کرتے ہوئے کراچی کا رخ کیا۔جو اُن دنوں نئی مملکت پاکستان کا دار الحکومت اور واحد بندرگاہ تھی ۔ اور روزگار کی تلاش میں جوانوں کے لیے خاص توجہ کا مرکز تھا۔ لیکن وہاں پہنچ کر بھی اعلی ٰتعلیم پانے کی خواہش انہیں کراچی یونیورسٹی لے گئی جہاں 1958 ء میں بی اے کی ڈگری حاصل کی اور اسی سال ایک دوست کے ایما پر انگلینڈ کا رخ کیا-
عجیب بھائی اکثر کہا کرتے ہیں انسان کی اندر کی صلاحیتیں ابھارنے اور غربت کا مقابلہ کرنے کے لیے تعلیم ایک واحد مؤثر ہتھیار ہے۔اس سے انسان کے اندر نصب العین کا شعور اور اُس کے حصول کے لیے خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے – یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی بچوں کو تعلیم کی طرف راغب کیا۔ان کی ایک بیٹی کامیاب وکیل ہونے کے علاوہ ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بریڈ فورڈ کونسل کی منتخب ممبر ہے اور بیٹا urban Echo جو انگلش کا اخبار ہے ُاس کا چیف ایڈیٹر ہے۔

انہوں نے ابتدا میں انگلینڈ کے شہر Nottingham میں رہائش اختیار کی۔ اور روزگار اختیار کیا جس کی تفصیل آپ کو کتاب میں ملے گی ۔ میرا مقصد ان کی سوچ اور زندگی عملی اہم پہلوں کی نشاندہی کرناہے اور ان کی زندگی کی جدوجہد کے حوالے سے آپ کو دعوت فکر دینی ہے جو اس کتاب کا مقصد بھی ہے ۔ صرف ایک دوست کی قصیدہ گوئی مقصد نہ تھی اور نہ ہے۔

عجیب بھائی نے روزگار کے ساتھ ساتھ سماجی کاموں اور با الخصوص نسلی مساوات اور انسانی حقوق کی تحریکوں میں بھی عملی طور پر حصہ لینا شروع کیا جو ان کی شخصیت کا اہم جزو تھا -اس ضمن میں 1968 میں گورنمنٹ کا ریس ریلیشنز بورڈ جو نسلی تعصب کی روک تھام کے لیے بنایا گیا تھا ، حکومت کی دعوت پر شمولیت کی ۔ 1973 میں SHARE ، ایک نیشنل ادارے کے پہلے ڈپٹی ڈائریکٹر کی پوزیشن پر تقرر ہوا اور بعد میں 1977 میں اسی ادارے میں ڈائریکٹر کی پوزیشن حاصل کی۔ اس ادارے کے سپرد بے گھر افراد اور فیملیز کو رہائش کی سہولت مہیا کرنی اور ان کی ضروریات کو متعلقہ اداروں تک پیش کرنا تھا تا کہ اس عہدے پر یہ پہلے ایشا ئی تھے جن کی تقرری ہوئی۔

1974 میں لیبر پارٹی کی رکنیت لی اور بریڈ فورڈ میں باقاعدگی سے جماعتی لیول پر سیاسی سر گرمیوں کا آغاز کیا۔
1976 میں بریڈفورڈ کونسل برائے مساوات یعنی کہ Bradford Racial Equality Council کے پہلے ایشائی چیئر مین منتخب ہوئے ۔ اس ادارے کا کام نسلی تعصب کو ختم کرنا اور کمیونٹی میں مفاہمت کی فضا پیدا کرنا تھی۔ یہاں وہ اپنے مثالی کام کی وجہ سے مقامی اور اور قومی سطح پر متعارف ہوئے۔
1979 میں لیبر پارٹی کے پلیٹ فارم پر پہلی مرتبہ کونسلر منتخب ہوئے اور مختصر عرصہ میں ہی پارٹی کے اندر اپنی دھاک جما لی۔
1983 میں پاکستانی اور کشمیری کمیونٹی کی سماجی اور ثقافتی زندگی کو فروغ دینے کے لیے پاکستان کمیونٹی سینٹر قائم کیا ، جس کا افتتاح شہزادی آن نے کیا تھا، مجھے یہ اعزاز ہے کے سینٹر کے قیام کے تصور اور تعمیر میں نے ان کے ساتھ جوائنٹ سیکرٹری اور بعد میں سیکرٹری جنرل کی حیثیت میں کام کیا –
سیاسی میدان محمد عجیب بھائی پہلے ایشیائی تھے جن کا تقرر بریڈفورڈ کونسل کی ہاؤسنگ کمیٹی پر opposition Chairman کی حیثیت میں ہوااور بعد میں بریڈفورڈ کونسل کے لیبر گروپ کے پہلے ایشیائی چیئر مین بنے اور اس طرح عملی سیاست کا سفر کرتے ہوئے 1985 پہلے ایشیائی، پاکستانی ، کشمیری اور مسلمان کی حیثیت سے بریڈفورڈ کے لارڈ میئر کی پوزیشن پر فائز ہوئے۔
مجھے اب بھی یاد ہے کہ ہمارے ایک مشترکہ colleague اور دوست ٹم وٹ فیلڈ ، جو اس وقت کونسل برائے مساوات کے ڈائریکٹر تھے ، ہمیں محمد عجیب کی کامیابی پر مبارک با ددیتے ہوئے خدشہ کا اظہار بھی کیا کہ اگر عجیب صاحب اسی عہدے اور مرتبے سے انصاف نہ کر پائے اور اس کے وقار کو بحال کو برقرار نہ رکھا تو آنے والے ایشیائی اور با الخصوص پاکستانی / کشمیری سیاستدانوں کی اس عہدے تک رسائی کے chances تا دیر مخدوش ہو جائیں گے۔
لیکن محمد عجیب بھائی نے اس منصب کے ساتھ صرف انصاف ہی نہیں کیا بلکہ اس کے وقار کو مزید تقویت دی۔ he broke the glass Ceiling- انھوں نے جو دروازہ کھولا تو اب تک اس سے بریڈفورڈ میں کوئی 8 پاکستانی کشمیری لارڈ میئرز گزر چکے ہیں ۔
اس طرح محمد عجیب بھائی نے بہت سے سماجی اور دیگرمیدانوں میں پہل کی ۔مقامی ،کمیونٹی اور اداروں کے تعصب پر مبنی رکاوٹوں کے باوجود اپنے منصب سے پیچھے نہیں ہٹے اور وقار کے ساتھ آگے بڑھتے رہے۔ مجھ یہ بھی یاد ہے کہ جب لارڈ بنے تو ان کو ہزاروں کی تعداد میں نفرت اور تعصب پر مبنی خطوط بھیجے گئے ، ان کے گھر پر حملہ کیا گیا، ان کی فیملی کو ہراساں کیا گیا اور ان کو پولیس سے حفاظت لینی پڑی۔ لیکن انھوں نے اپنے لارڈ میر کے منصب کو وقار سے نبھایا جس کی وجہ سے یہ بریڈفورڈ میں ایک کامیاب ترین اور ہر دلعزیز لارڈ میئر تصور کیے جاتے تھے ۔ یہ ان کی بردباری ، مستقل مزاجی اور اپنے آپ پر اعتماد کا نتیجہ تھا۔
محمد عجیب بھائی کی شخصیت کی مقبولیت صرف کشمیری اور پاکستانی کمیونٹی تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ دوسری اقلیتوں میں بھی برابر مقبول ہیں یہ حقیقت اس کتاب میں بھی عیاں ہے، جس میں بریڈفورڈ کے سر کردہ لوگوں کے محمد عجیب بھائی کی شخصیت اور خدمات کے حوالے سے شواہد پر مبنی مضامین ہیں ۔ جن میں ان کی خدمات ، مقام اور مرتبے پر تفصیلاً روشنی ڈالی گئی ہے ہر تحریر میں ان کی قدرو منزلت متاثر کن انداز میں نکھر کے سامنے آتی ہے۔
کتاب لکھنے کے بہت سے مقاصد تھے :
محمد عجیب بھائی کی کہانی صرف ایک شخص کے ہجرت کی داستان نہیں بلکہ تارکین وطن کی پوری کمیونٹی کی برطانیہ میں جدوجہد اور آزمائشوں کی کہانی ہے۔ ہم چند ساتھیوں کی یہ دیرینہ خواہش تھی کہ اس داستان کو پوری کمیونٹی کی اگلی نسلوں کے لیے محفوظ کر دیں ، اللہکا کرنا تھا کہ یہ اعزاز میرے حصے میں آیا ، لہٰذا یہ کتاب ہمارے محسن کو خراج عقیدت بھی ہے اور کمیونٹی کی جدوجہد کی کہانی بھی تاکہ اس سے ہماری آنے والی نسلیں اپنے آباؤاجداد کی تاریخ پر ناز کر سکیں ۔ برطانیہ میں پاکستانیوں اور کشمیریوں نے نے دو ممالک کو پالا ہے اور پال رہے ہیں ، یعنی کہ برطانیہ اور پاکستان وکشمیر۔ اس پر جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہے۔ لیکن اُن کے اس کار خیر کی نہ وہاں پذیرائی ہے اور نہ یہاں ۔ یہ بات فکر طلب ہے۔
آج لندن کا میئر ایک پاکستانی بس ڈرائیور کے بیٹے محمد صادق ہیں اور اس طرح دوسرے شہروں میں بھی پاکستان اور کشمیر سے تعلق رکھنے والے میئر اور لارڈ میئر کی پوزیشنز میں دکھائی دیتے ہیں ، ہزاروں کی تعداد میں ہماری کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے کونسلرز ہیں اور ایک بڑھتی تعداد میں پارلیمانی ممبرز ہیں ، ہمارے بریڈفورڈ سے دو ، چودھری عمران حسین اور ناز شاہ پارلیمانی ممبرز ہیں ، دونوں کا تعلق میرپور سے ہے اور دونوں ہی محمد عجیب بھائی کی خدمات اور رہنمائی کا اعتراف کرتے ہیں ۔ اس طرح زندگی کے دیگر شعبوں میں ہماری کمیونٹی کی جد و جہد کی نمایاں داستانیں ہیں جن کا بطور رقم کرنا ضروری سمجھا۔ یہ ہمارا قیمتی ورثہ اگلی نسلوں تک پہنچنا ہماری شناخت کی بقا کے لیے ضروری ہے۔
ایک بات وضاحت طلب ہے – اس کتاب کے مرتب کرنے کا ویژن میرا اور میرے ساتھیوں کا تھا – جن لوگوں نے اس کتاب میں مضامین لکھے اُن کا انتخاب زیادہ تر میرا اور کچھ میرے دو دوسرے معاون ساتھیوں کا تھا – اس میں محمد عجیب بھائی کی مداخلت نہیں تھی اور ہم نے کس کو اپروچ کیا ان کو خبر تک نہیں تھی اور کتاب کے دوسرے حصے میں محمد عجیب بھائی کے پرُانے چھپے ہوئے آرٹیکلز کا انتخاب صرف میرا اور میرا تھا جن کو دوسرے ساتھیوں رائے اور مشورے کے بعد شامل کیا گیا ۔ ایک اور وضاحت طلب بات، کتاب کا اردو میں ترجمعہ بھی ہم ساتھیوں کا ہی خیال تھاتاکہ دھرتی کے اس قابل فخر سپوت کی داستان آپ تک پہنچے ۔ کیونکہ یہ داستان صرف عجیب بھائی کی ہی نہیں آپ کے اباؤاجداد اور عزیز و اقارب کی بھی ہے، یہ آپ کے گھر کی بھی کہانی ہے۔ اگر اس سے آپ کے دلوں میں دور دراز رہنے والے عزیزوں کی قدرومنزلت بڑھی تو ہمارا مقصد پورا ہوجائے گا ۔
اس کتاب کا انگلش ایڈیشن نوجوان نسل کو ذہن میں رکھ کر لکھا گیا تھا، لہٰذا یہ کوشش کی گئی کہ اس کو عام اور سادہ زبان میں تحریر کیا جائے۔ کتاب کے مضامین مختصر اور جامع ہیں کوئی بھی پڑھنے والا چند گھنٹوں میں اس کتاب کو آسانی سے پڑھ سکتا ہے۔ یہی اس کتاب کی خوبی اور خوبصورتی ہے ہم نے ہر باب کو جامع رکھا لیکن کوشش کی کوئی ضروری پہلو رہ نہ جائے میری ناقص رائے میں اس میں ہم نے کامیابی حاصل کی۔
آخر میں ، میں نے محمد عجیب بھائی کے ساتھ نصف صدی کے قریب وقت گزارا۔ ان کو قریب سے جاننے اور جانچنے کا موقعہ ملا۔ اکثر یوں ہوتا ہے کہ جب کوئی آدمی کسی شخصیت کے قریب ہو جاتا ہے تو اس شخصیت کا طلسم ٹوٹ جاتا ہے اور مایوسی لاحق ہو جاتی ہے مثلاً کھانا دیکھنے میں اور کھانے میں معاملہ الگ الگ ہوتا ہے ۔ لیکن محمد عجیب سے جتنا قریب سے جانا اتنی ہی ان کی قدرو منزلت بڑھی ۔ یہ ان پر اللہ کا کرم ہے بیشک وہ جس کو چاہتا ہے اپنے فضل سے نوازتا ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں