170

بے مثال شخصیت پیر سیّد معروف حسین شاہ نوشاہی

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

تحریر / لیاقت حسین نوشاہی
آسمان علم و معرفت کا نیر تاباں ، عیم شخصیت کا حامل ، ، زہد و تقویٰ، بزرگی و نیکوکاری کا پیکر ، عاجزی و انکساری سے مرصع، اعلی دماغ کا حامل، مدبر و مفکر ،ادیب،الاستاذ، بے شمار خصایص و اوصاف کا مالکعالمی ، ملت اسلامیہ کے دلوں کی دھڑکن ، مبلغ اسلام ، محسن اہل سنت،بانی و مہتم جمعیت تبلیغ الاسلام، بانی کنوینر دی ورلڈ اسلامک مشن، شیخ الاسلام و المسلمین ، مجدد اسلام حضرت پیر سیّد معروف حسین شاہ عارفؔ قادری نوشاہی کی شخصیت ہمہ جہت ہے ، آپ بیک وقت ایک عالم دین ، پنجابی ،فارسی اور کے عظیم شاعر ، صحافی و مضمون نگار ،ایک عظیم تجزیہ کار اور گوناگوں خصوصیات و امتیازات سے سرشار ، ایک حقیقی معلم اور مشفق باپ کے مثل ہیں -جن کا سایہ نہ معلوم کتنے ارادتمندوں اور علماء و مشائخ پر ہے ۔ آپ کی ذات ہر میدان میں منفرد نظر آتی ہے، ایک شخصیت ہمہ گیر اور آپ خود اپنی ذات میں ایک انجمنہے- آپ کی زیارت اور بالمشافہہ ملاقات اور اصلاحی اور روحانی مجالس میںشریں حروف دین اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں جسمانی، روحانی اور گھریلو مسائل کےحل ہوتے ہیں۔ آپ کی زبان میں عجیب کشش اورچاشنی اور سحر انگیزی ہے۔
ایک متحرک اور فعال انسان کی نہ تو محنت ضائع ہوتی ہے نہ ہی اس کے قدم نشان منزل تک پہنچنے سے رکتے ہیں، یہاں تک کہ حوصلہ شکن حالات بھی اس کی فکری سربلندی اور پیش قدمی کو متزلزل نہیں کرپاتے۔ اس کی جیتی جاگتی مثال شہسوار حضرت پیر سیّد معروف حسین شاہ عارفؔ نوشاہی ہیںاورحضرت قبلہ پیر کی معاصرین میں کوئی دوسری مثال موجود نہیں۔1961ء میںجب آپ برطانیہ پہنچےتو برطانیہ و یورپ میں مسلمان تارکین وطن شدید دینی بحران کے عالم میں تھے۔ آپ نے حالات کا بغور تجزیہ کرتے ہوئے یہ محسوس کیا کہ موجودہ صورتحال میں مسلمانوں کی دین کی طرف رغبت پیدا کرنا اشد ضروری ہےکہ وہ زیادہ سے زیادہ دینی علوم کے حصول کی کوشش کریں کیونکہ ان کا دین سے عدم لگاؤ ان کی دینی علوم میں کم علمی ہےاور اس کا موثر ترین علاج تلقین و تعلیم ہے ۔ اس نشانےکو چھونے کیلئےآپ مد ظلہٗ نے زبردست تحریک شروع کی، اپنے عیش و آرام کو تج دیا اور اس تعلق سے معاشرے کے سنجیدہ، فکر مند اور صاحب ثروت افراد سے تعاون کی اپیل کی۔بقول مجروح سلطان پوری ؛


میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
جس طرف بھی چل پڑے ہم آبلہ پایانِ شوق
خار سے گل اور گل سے گلستاں بنتا گیا
آپ مد ظلہٗ ایک عبقری شخصیت اور بے مثال عملی انسان ہیں ۔آپ نےتمام پہلوؤں کا انتہائی موثر انداز میںجائزہ لیا اور دینی تحریک کا ّغاز فرمایا۔آپ کی تحریک کا منشا یہ تھا کہ مسلمان نہ تو تعلیم کے میدان میں پیچھے رہ جائیں نہ ہی مذہبی اعتبار سے ان کے اندر کوئی کمزوری اور اجنبیت باقی رہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میںچاہتا تھا کہ ہر مسلمان دین سیکھے اور اس پر عمل کرے اور اس کے لئے مساجد کا قیام اور ان میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری ہونا چاہیے۔ بس یہی دھن ان پر سوار تھی اور بالآخر انہیں زبردست کامیابی حاصل ہوئی اوراب مسلمانوں کے پاس عظیم مراکز قائم ہو چکے ہیں ۔ اب صرف مسلمان ان مراکز سے اپنے باطن کو عبادت ہی سے منور نہیں کر رہے بلکہ غیر مسلمانوں کو دعوت اسلام بھی دے رہے ہیں۔ حالانکہ اس راہ میںحضرت پیر صاحبکے سامنے بڑے بڑے شہتیراور سنگ گراں رکھےگئے قوم کےسرکردہ افرادیہاں تک کہ علماءو مشائخ بھی ان کے سامنے سینہ سپر ہوئےلیکن ان کے پائے استقامت میں لرزش نہ آئی۔یہ ایک حقیقت ہے کہ حضرت قبلہ پیر کی معاصرین میں کوئی دوسری مثال موجود نہیں۔آپ کے شدید مخالفینکو یہ کہنا پڑا ہماری تو باتیں ہی باتیں ہیںکا م صرف پیرسیّدمعروف حسین شاہ نوشاہی کرتا ہے۔ آپ مد ظلہٗ ایک عبقری شخصیت اور بے مثال عملی انسان ہیں ۔ مسلمانوں کی زبوں حالی، مایوسی اور پسماندگی کا دلدوز نقشہ کھینچتے ہوئے اب ان کاوشوں کا ذکر کرتے جو انہوں نےناگفتہ بہ حالات میں دین اسلام کی خدمات میدان میں سرانجام دیں۔ آپ نے بعض اوقات چہار جانب سے کی جانے والی حوصلہ شکن مخالفتوں کے باوجود مایوسی کو اپنے پاس پھٹکنےنہ دیا اور انتہائی صبرو تحمل کے ساتھ اپنی تحریک کو آگےبڑھاتے رہے۔ اس دوران وہ اپنے مخالفین سےٹکراؤ اوربحث کے بجائے حلیم الطبعی کا مظاہرہ کرتے رہے جو بالآخر ان کی کامیابی پر منتج ہوا۔ تاریخ بھی اسی کی شہادت دیتی ہے کہ عزم مستحکم اور صبر و رضا کا دامن تھامے بغیر کوئی بھی تحریک کامیابی سے ہم کنارنہیں ہوسکتی، حضرت پیر صاحب نے بھی وہی کیا اور کامیاب ہوئے۔ بعض دینی حلقوں میں بے حد تلخی پیدا ہوگئی ہے جس کی فی زمانہ ضرورت نہیں تھی اور ایک ایسے وقت میں جب اختلاف و انتشار کی آندھیاں چل رہی ہوں اور سیاسی طور پر مسلمان بے وزن اور بے دست و پا بن کررہ گئے ہیں۔ چونکہ علماءو مشائخ اورحضرت قبلہ پیر صاحب کیتحریک کے درمیان اب کوئی مجادلہ بھی باقی نہیں، ایسے میں پرانے زخموں کو کریدنا مناسب نہیں۔آپ مد ظلہ نے برطانیہ و یورپ میں رات کو ٹکسٹائل ملز میں کام کر کےدن کو اسلام کے لئے جوخدمات سر انجام دیں خصوصا مسلمانوں کی فلاح و صلاح کی جو جدوجہد آج سے ساٹھ سال قبلشروع کی تھی وہ دور دور پھیل گئی ہے۔مسلمانوں کی دینی پسماندگی کا کس قدر احساس تھا اور مسلمانوں کی کشتی کو بھنور سے نکالنے میں ہر قسم کی کوشش کی وہ اتنی حوصلہ افزا ہیں جن کا مطالعہ موجودہ اور آنے والی نسلوں میں فعالیت اور تحرک کی برقی لہر پیدا کرے گی۔
مجموعی طور پر آپ کے کارناموں کا اعتراف ہےلیکن اس اعتراف میںیہ پیغام بھی ہے ہم جشن کے انعقاد ا ورخوشیاں منانے تک خود کو محدود نہ رکھیں بلکہ اپنے اندر بھی وہی حوصلہ اور امنگ پیدا کریں جو حضرت پیر صاحب میں موجود ہےتاکہ موجودہ حالات کی تاریکی کو دور کیا جاسکے جس نے آج مسلمانوں کو اندھیرے میں ڈھانپ رکھاہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے دستِ قدرت سے بنایا، اُسے خوبصورت سانچے میں ڈھالا، ظاہری خوبیوں کے ساتھ باطنی کمالات سے بھی نوازا، اُسے عقل وشعور اور اِدراک کی قوت عطا کی، اپنی مخلوق میں سب سے بہتر اور اشرف قرار دیا، حتیٰ کہ اپنی معصوم مخلوق فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ ریز ہوں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنا خلیفہ بنایا اور علم کی دولت سے مالا مال کرکے اس کی برتری ثابت کی، پوری کائنات کو اس کی خدمت پر مامور کردیا ۔یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا کرم ہے، مگر اسی پر اکتفاء نہیں، اللہ تعالیٰ نے ہم پر مزید فضل فرمایا کہ ہمیں مسلمان بنایا اور اس اُمت کا فرد بنایا جو سب سے بہتر اُمت ہے۔مسلمان بہت خوش قسمت ہیں، اسے کسی حکومت، کسی سرمایہ دار، کسی جاگیردار کی وراثت نہیں ملی،نہ ہی شداد، فرعون، نمرود اور قارون کی وراثت نہیں ملی، بلکہ انبیاء علیہم السلام کی وراثت اس کے حصہ میں آئی ہے، آج اللہ پاک نے انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی وراثت کا تاج مسلمانوںکے سروں پر رکھ دیا، وہ انبیاء کرام علیہم السلام جن کا مقام بہت بلند ہے، اللہ تعالیٰ کے بعد انبیاء ہی کا درجہ ہے، انبیا ء علیہم السلام کا مقام تو بہت بلند ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں بیٹھنے والے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے اپنی آنکھوں کو جلا بخشنے والے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا مقام بھی اس قدر ارفع اور بلند ہے، جس کی کوئی انتہاء نہیں۔ایک روایت میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے کہا کہ امیر المؤمنین حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا مرتبہ بلند ہے یا عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کا؟ آپؒ نے فرمایا: ’’امیر المؤمنین حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے جس گھوڑے پر سوار ہوکر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفرکیا ہے، اس گھوڑے کی ناک اور نتھنوں میں جو غبار داخل ہوا، حضرت عمر بن عبد العزیزؒ اس کے برابر بھی نہیں۔ ‘‘یہ کوئی شاعرانہ مبالغہ نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے، حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ اپنے وقت کے بہت بڑے محدث اور جید عالم تھے۔ ان کا مقام ومرتبہ بہت بلند ہے، مگر چونکہ صحابی نہیں تھے، انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نہیں کی تھی، ا س لیے صحابی کے برابر نہیں ہوسکتے۔ بڑے سے بڑا عالم، شیخ وقت، قطب وابدال کوئی بھی ایک ادنیٰ صحابی کے مرتبے کو نہیں پہنچ سکتا۔ جب صحابہ رضی اللہ عنہم کا یہ مقام ہے تو انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کا مقام تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بہت بلند ہے، ان انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کا وارث اللہ نے اپنے بندوں کو بنایا،ان کو وراثت میں دولت نہیں ملی، جاگیر نہیں ملی، بلکہ علم کا خزانہ ان کے ہاتھ آیا ہے اور اتنی بڑی دولت اور نعمت ہے کہ دنیا کی تمام دولت اور ہر نعمت اس پر قربان کی جاسکتی ہے اور اتنی بڑی نعمت کے مل جانے پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
پھرجو علم حاصل کیاجائے اس کا مطالبہ اور تقاضا یہ ہے کہ اس پر عمل پیرا ہوں، اخلاق بلند ہوں، تکبر وغرور سے دور ہوں، علم‘ تواضع اور انکساری چاہیے۔ ہمارے دینی ادارے کے بانی اور مؤسس حضرت پیر صاحب جن کی شخصیت، جن کے اخلاق، جن کے اخلاص سے دنیا واقف ہے، جنہوں نے کس حال میںاداروں اورمساجدخصوصاً مرکزی جامع مسجد بریڈفورڈکی بنیاد رکھی، اسباب وسائل سے تہی دامن تھے، مگر اخلاص وللہیت اور خدا پر اعتماد کی دولت سے آپ کا دامن لبریز تھا، اسی کو بنیاد بناکر یہ کام شروع کیا، کس حال میں شروع کیا تھااور کس طرح اللہ تعالیٰ نے کامیابیوں سے نوازا، یہ سب کے سامنے ہے، ہمارے اکابر اور بزرگ بلند اخلاق کے مالک تھے۔ ہمیں بھی چاہیے کہ جب ہم ان کے نام لیوا ہیں تو ان کے سے اخلاق بھی اپنے اندر پیدا کریں، تواضع اور انکساری اختیار کریں، تکبر اور اکڑ سے کچھ نہیں ہوتا، بلکہ یہ انسان کی ذلت ورسوائی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ہمارے اکابر کو جو بلند مقام حاصل ہوا وہ اسی تواضع اور اخلاقِ عالیہ کی بدولت۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جو اللہ کے لیے تواضع اختیار کرتا ہے اللہ اُسے بلند کرتا ہے۔ ‘‘یہ ان اداروں کی برکت ہے کہ وہ اس طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جوڑ قائم کرتے ہیں اور وہ علم عطا کرتے ہیں جو ہدایت ورہنمائی کا سبب بنتا ہے، جس سے دنیا اور آخرت دونوں سنورتی ہیں، ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے دینی ادارے اسلام کے قلعے ہیں، جو دین اسلام اور ایمان کی حفاظت کررہے ہیں۔ جمعیت تبلیغ الاسلام کے قیام کا مقصدہی یہ تھاکہ باطل قوتوں کا مقابلہ کیا جائے اور لوگوں کے دین وایمان کی حفاظت کی جائے۔ اوراس بات میں مبالغہ نہ ہوگا: آج برطانیہ ہمیں جو کلمہ ’’لا إلٰہ إلا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ‘‘ پڑھنا نصیب ہوا ہے اور ہم مومن ہیں، یہ سب انہی کی برکت ہے۔ اگر یہ دینی ادارے نہ ہوتے تو نہ جانے ہمارا کیا حشر ہوتا۔ آج جہاں کہیں بھی برطانیہ و یورپ میں اسلام کی کرن نظر آتی ہے وہ سب حضرت پیرصاحب کی رہینِ منت ہے ۔آج کل بد عقیدہ لوگوں سے دور رہنا اوربزرگوںکی صحبت میں بیٹھنا فرض ہے، کیونکہ سب سے بڑا فرض ایمان ہے، اس کی حفاظتنیک بندوں کی صحبت اختیار کیے بغیر ممکن نہیں۔ یہ اصلاح کا بہت بڑا ذریعہ ہے، اس سے انسان اللہ تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ بزرگوں کی صحبت میں بیٹھ کر انسان بہت جلد معرفت الہیہ حاصل کر لیتا ہے جو سوسال عبادت سے بھی حاصل نہیں کرسکتا، اسی لیے کہا گیا ہے: ’’ولی کی صحبت میں ایک ساعت بیٹھنا سوسالہ مقبول اور بغیر دکھاوے کی عبادت سے بہتر ہے۔ ‘‘ توہم کو بھی کسیبزرگ (جسے آپ مناسب سمجھیں، جس کی طرف آ پ کا رجحان ہو)کا انتخاب کرکے اس کی مجلس اختیار کریں۔ ہر وقت اللہ تعالیٰ سے سب کے لئے دعا کرتے رہیں اپنے لیے، اپنے عزیز واقارب کے لیے اور خصوصاً حضر ت قبلہ پیر صاحب کے لیے ۔ اللہ تعالی ٰسب کو ہرمیدان میں کامیاب کرے، دین کا سپاہی بنائے، اور دین کی خدمت لے، اور ہرموقع پر دستگیری فرمائے۔ آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں