499

بھارت میں تاریخی معاشی گراوٹ


کوئی ایک سال پہلے 5 اگست 2019 کو بھارت نے یک طرفہ طور پر جموں کشمیر کی وہ قانونی حیثیت ختم کر دی جو آرٹیکل 370 کے تحت ریاست کو حاصل تھی ۔گو کہ اقوام عالم کی طرف سے بظاہر اس بھارتی جنگ کا کوئی خاص نوٹس نہیں لیا گیا لیکن درون خانہ بیرونی دنیا نے اس بھارتی اقدام کو اچھی نظر سے نہیں دیکھابلکہ بھارت کے اندر بھی انصاف پسند اور سیکولر حلقوں نے کشمیریوں کے خلاف ہونے والی زیادتی پر آواز اٹھای ‘ برطانیہ یقینا یہ سمجھتا ہے کہ مسئلہ کشمیر ہمارا ہی نامکمل ایجنڈا ہے برطانیہ نے واشگاف الفاظ میں تو بھارت کی مذمت نہیں کی لیکن نہ محسوس طریقے سے ایک بڑی معاشی چوٹ بھارت کو ضرور دی ہے مثال کے طور پر 2018 تک یو کے انڈیا کی تجارت کا مجموعی حجم 10.1 بلین ڈالر تھا جو یکدم 2019 میں کم ہو کر 8.8 بلین ڈالر ہوگیا اگرچہ پاکستان کے ساتھ بھی یوکے کی تجارت کا حجم 2019 میں بڑھنے کی بجائے کم ہوا ہے لیکن برطانیہ کے بعض معاشی تھنک ٹینکس اس بات کا واضح اشارہ دے رہے ہیں کہ بھارت کے مذکورہ غیر جمہوری قدم نے کئ ایک کلیدی برطانوی سرمایہ کاروں نے بھارت کے ساتھ بزنس سے ہاتھ کھینچ لیا ہے اور کچھ اسی طرح کی صورتحال امریکہ اور یورپ کے دیگر ممالک کی بھی ہے بلکہ بھارت کے اندر لاتعداد کھرب پتی کمپنیز نے مزید سرمایہ کاری سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ہے ، بھارتی حکومت کے خود جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق جون میں ختم ہونے والی سہ ماہی میں ملک کی معیشت میں تشنہ کہاں تک مندی دیکھنے میں آئی ہے جو کہ گذشتہ چوبیس سال میں معیشت کی بدترین سطح ہے بظاہر تو بھارتی حکومت اس مندی کی وجہ کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن کو قرار دے رہی ہے لیکن مقبوضہ کشمیر میں ہونے والا عدم استحکام بھی اس کی ایک بڑی وجہ بہرحال ضرور ہے ۔اصل بات یہ ہے کہ بھارتی معیشت کرونا وائرس پھوٹنے سے پہلے ہی مندی کا شکار تھی۔پچھلے دو سال میں ملک میں بیروزگاری کی شرح 45 سالوں میں سب سے زیادہ تھی اور معیشت کی شرح گر کر 4. فیصد تک آ چکی تھی ملک میں پیداوار گر رہی تھی اور بینکوں پر قرضوں کا بوجھ بہت بڑا چکا تھا ایک انڈین تھنک ٹینک کے مطابق صرف ایک مہینے کے لاک ڈاؤن کی وجہ سے 12 کروڑ دس لاکھ افراد بے روزگار ہوئے ۔ بھارت کے ایک ڈیموکریٹک تھنک ٹینک نے کہا ہے کہ جب ہماری حکومت کشمیر میں 370 آرٹیکل کو تبدیل کرنے جیسے کاموں میں مصروف ہے دیکھئے کہ بھارت بھر میں معیشت کس طرح گزر رہی ہے کہ (1) جیٹ ایئر ویز بند ہو چکی ہے (2) ایئر انڈیا کو 7600 کروڑ روپے کا نقصان ہو چکا ہے (3) بھارت سینچر نگم لمیٹڈ (س این ایل) جو بھارت کی نمبر ون ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی ہے اس کی 54000 ملازمت ختم ہوچکیں (4) ہندوستان ایرو ناٹکس (ایچ اے این) کے پاس ملازمین کو تنخواہ دینے کے لیے رقم نہیں ہے (5) پوسٹل ڈیپارٹمنٹ کو 1500 کروڑ روپے کا نقصان ہو چکا (6) ملک کی آٹو انڈسٹری تباہ ہوچکی ہے (7) ملک میں دو ملین سے زیادہ گھر جو تیس بڑے شہروں میں بنائے گئے انہیں خریدنے والا کوئی نہیں (8) ائرسیل ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی بینک کرپٹ ہو کر ختم ہو چکی (9) وائڈو کون انڈسٹری لمیٹڈ جس کی کبھی انکم 291 ملین ڈالر تھی (10) ٹیلی کمیونیکیشن کی ایک بڑی کمپنی ٹاٹا ڈوکوموبنک کرپٹ ہو کر ختم ہو چکی (11) سیمنٹ ، انجینرنگ کنسٹرکشن ، رئیل اسٹیٹ ، اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ایک بڑی کمپنی بند ہوچکی ہے (12) آئل اینڈ نیچرل گیس کارپوریشن جسے بھارتی حکومت نے 1965 میں قائم کیا تھا جس نے ملک بھر میں 11 ہزار کلومیٹر پائپ لائن بچھائی ہےآج تاریخی زوال کا شکار ہے ، 12 ملک کے 36 بڑے قرضہ لینے والے افراد اور کمپنیز غائب ہوچکی ہیں (13) 2.4 لاکھ کروڑ کے قرضے چند کارپوریٹس کو معاف ہو چکے(14) تمام ملکی بینکس کھربوں کے قرضے لے رہے ہیں (15) ملک کا اندرونی قرضہ 500 کھرب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے (16) ریلوے برائے فروخت ہے (17) لال قلعے تک کو کرایہ پر دے دیا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ اور بہت سے تاریخی اثاثے (18) بڑی کار کمپنی موروتی کی پروڈکشن نہ ہونے کے برابر ہو چکی ہے کمپنی کی 55 ہزار کروڑ نئ کاریں فیکٹریوں میں کھڑی ہیں ان کا خریدار کوئی نہیں (19) ملک میں گڈز اینڈ سروسز ٹیکس 18% سے بڑھ کر 28% ہونے سے کنسٹرکشن انڈسٹری تباہی کا شکار ہے کئ بلڈرز خودکشیاں کر چکے (20) انڈین ڈیفینس ڈیپارٹمنٹ کے ادارے آرڈیننس فیکٹری بورڈ کے پاس اپنے ڈیڑھ لاکھ ملازموں کو تنخواہیں دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں (21) 45 سال میں بے روزگاری کی شرح بلند ترین ہے (22)ملک کے تمام بڑے ہوائی اڈے ایرانی کمپنی کو بیچ دیئے گئے ہیں اور پورے ملک میں ایک معاشی جمود طاری ہے (23) کیفے کافی ڈے “سی سی ڈی” جس کے ملک بھر میں 1,752 کیفے تھے قرضوں کے بوجھ کی وجہ سے اس کے چیئرمین وی جے سدھارتھ نے خودکشی کرلی۔ اوپر ذکر کیے گئے یہ چند حقائق ہیں جنھیں بھارتی میڈیا منظر عام پر نہیں لا رہا بلکہ بھارتی حکومت اور اثرانداز ہونے والے دیگر ریاستی اداروں کے دباؤ میں میڈیا اپنے عوام اور دنیا کے سامنے کشمیر میں ہونے والے گزشتہ ایک سال کے لاک ڈاؤن سے ہونے والا تقریبا ً 14 ارب سے زیادہ کا وہ نقصان بھی نہیں لارہا جو کشمیریوں اور تجارتی حکومت کو اس لیے مسلسل ہو رہا ہے کیونکہ مقبوضہ کشمیر کے وہ فروٹ جو باغوں میں ہی گل سڑ گئے اور جنہیں اتارنے والا کوئی نہیں ظاہر ہے کہ کشمیریوں کے ساتھ ساتھ یہ نقصان بھارتی حکومت کا بھی ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں