84

“المصطفیٰ ویلفئیر ٹرسٹ” نے امدادی سامان کی دوسری کھیپ غزہ پہنچا دی

لاکھوں پاؤنڈ مالیت کا سامان ہلال احمر (Red Crescent ) کے تعاون سے رفاہ بارڈر تک پہنچا دیا گیا
سامان میں کھانے پینے کی بنیادی اشیا، گرم کپڑے ، کمبل،بچوں کے پیمپر، ادویات اور دیگر اشیا شامل ہیں
ہم اپنے ڈونرز کے بے حد شکر گزار ہیں جن کے بھر پور تعاون سے ہم انسانی خدمت جاری
رکھے ہوئے ہیں اور یہ کا م جاری رہے گا انشااللہ ۔ عبدالرزاق ساجد

رپورٹ / وجاہت علی خان
“المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ” نے “ہلال احمر” مصر کے تعاون سے غزہ کے مظلومین کی مدد کےلیے امدادی سامان کی دوسری کھیپ رفاہ بارڈر پر پہنچا دی ہے ، چئیرمین “المصطفی ویلفئیر ٹرسٹ” عبدالرزاق ساجد اپنے ایک وفد کے ہمراہ جنوری کے وسط میں قاہرہ پہنچے تھے جہاں اُنہوں نے ہلال احمر کے وئیر ہاؤسز میں امدادی سامان کی پیکنگ کے کام کا جائزہ لیا “المصطفی” کی طرف سے کھانے پینے کی بنیادی اشیا، دواؤں، گرم کپڑوں اور شیر خوار بچوں کے پیمپر ز پر مشتمل امدادی سامان کی یہ دوسری کھیپ بھجوائی گئی ہے جو رفاہ بارڈر کے ذریعے غزہ پہنچی، “المصطفیٰ” ویلفیئر ٹرسٹ کی جانب سے امدادی سامان کی بڑی کھیپ غزہ پہنچ چکی ہے جس کے بعدالمصطفی ریلیف مشن رفاہ بارڈ مصر سے واپس لندن پہنچ گیا،ہے ، ریلیف مشن میں چیئرمین عبدالرزاق ساجد، صدف جاوید،محمد مصعب، عروہ فاطمہ، وجاہت علی خان ، راجہ فیض سلطان، کمال قریشی اور مصرکے امر راشدی شامل تھے، چیئرمین عبدالرزاق ساجد نے رفاہ بارڈ مصر سے واپس پہنچنے کے بعد بتایا کہ ریلیف مشن کا دورہ ایک ہفتہ پر مشتمل تھا جس کے دوران انھوں نے ریڈ کریسنٹ مصر کے تعاون سے فلاحی اداروں، مساجد، مخیر افراد کی امانتوں کو اپنی نگرانی میں غزہ روانہ کیا، امدادی سامان کے ٹرکوں کا قافلہ رفاہ بارڈ سے جونہی غزہ داخل ہوا تو ریڈ کریسنٹ فلسطین نے جنگ سے متاثرہ فلسطینی خاندانوں میں فوڈ پیک تقسیم کئے، امدادی سامان میں ایک ماہ کا غذائی سامان،خیمے،قالین، جان بچانے والی ادویات، ہسپتالوں کے لئے طبی آلات، گرم کپڑے اور دیگر اشیا شامل ہیں ، عبدالرزاق ساجد نے کہا ہم اپنے ڈونرز کے بے حد شکر گزار ہیں جن کے بھر پور تعاون سے ہم انسانی خدمت جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہ کا م جاری رہے گا ۔عبدالرزاق ساجد نے کہا کہ فلسطین میں 20لاکھ سے زائد افراد جن میں خواتین اور بچوں کی اکثریت شامل ہے، خیموں میں انتہائی کسمپرسی کی زندگی بسر کررہے ہیں، فلسطین میں نہتے شہریوں پر شدید حملوں اور بمباری کی وجہ سے گھروں ، سکولوں، ہسپتالوں سمیت اہم عمارتیں تباہ ہو گئی ہیں،لاکھوں فلسطینی خاندان بے گھر ہونے کے بعد غزہ بارڈر میں عارضی خیمے لگا ئے ہوئے ہیں، جہاں غذائی قلت ، بیماریوں، شدید سردی کی وجہ سے انسانی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں، غزہ میں فوری جنگ بندی کی ضرورت ہے تاکہ فلاحی ادارے وہاں مظلوم خاندانوں کے لئے ایمرجنسی ریلیف کا کام تیز کرسکیں، غزہ میں گھروں ، روڈ انفراسٹریکچر ، سرکاری عمارتوں کی تعمیر اور اور بحالی کے کام کئی برسوں تک جاری رہیں گے، المصطفی فلسطین میں تب تک کام جاری رکھے گی جب تک غزہ میں زندگی کی رونقیں بحال نہیں ہو گی، مخیر افراد سے اپیل ہے کہ وہ دل کھول کر”المصطفی” سے مالی تعاون جاری رکھیں۔

رفاہ بارڈر کی اہمیت کیا ہے ؟

رفاہ بارڈر غزہ کی پٹی کی “لائف لائن” کہلاتا ہے، مصر کے ساتھ رفاہ سرحدی کراسنگ انتہائی توجہ کے مرکز میں ہے کیونکہ اسرائیل اور حماس کے درمیان تازہ ترین جنگ اپنے تیسرے مہینے میں پہنچ چکی ہے ، یہ مصری حکام کے زیر کنٹرول چلایا جاتا ہے، واحد غزہ کراسنگ ہی وہ راستہ ہے جو اسرائیل کے کنٹرول میں نہیں ہے۔اگرچہ مصر نے اکثر اس کراسنگ کو بند کیا ہے، جس سے غزہ کی تنہائی میں اضافہ ہوا ہے، اس کے باوجود اس کراسنگ نے محصور علاقے جو 2007 سے اسرائیل کی مسلط کردہ زمینی، سمندری اور فضائی ناکہ بندی کے تحت ہے – اور باقی دنیا کے درمیان ایک اہم رابطے کا کام کیا ہے۔غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، اسرائیل کے شدید فوجی ردعمل سے غزہ کی پٹی میں 30000 سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ “المصطفی” اور دیگر انسانی ہمدردی کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی بمباری اور علاقے کے مکمل محاصرے نے اب رفاہ کے راستے غزہ کے 20 لاکھ سے زیادہ لوگوں تک امداد پہنچانے کی ضرورت ہے۔ رفاہ بنیادی طور پر فلسطینیوں کے لیے ایک شہری کراسنگ ہے جسے طبی دیکھ بھال اور ذاتی وجوہات کے لیے مصر جانا پڑتا ہے۔ لیکن تنازع شروع ہونے کے بعد سے دیگر تمام سرحدیں بند ہونے کے بعد، اب یہ واحد داخلی مقام بن گیا ہے جس کے لیے انسانی امداد کی تھوڑی بہت اجازت دی گئی ہے۔ رفاہ کراسنگ، مصر کے جزیرہ نما سینائی کے ساتھ غزہ کی 7.5 میل کی سرحد پر واقع ہے، غزہ کی پٹی کی تین سرحدی کراسنگ میں سے ایک ہے، اور صرف ایک ہے جو اسرائیل کے ساتھ بات چیت نہیں کرتی ہے۔ غزہ میں تصادم تیسرے مہینے میں داخل ہوتے ہی ہلاکتوں کی تعداد 30,000 سے تجاوز کرگئی ہے۔غزہ کی پٹی کی دو دیگر سرحدی کراسنگ ایریز ہیں، جہاں سے لوگ شمالی غزہ سے اسرائیل میں داخل ہوتے ہیں، اور جنوبی غزہ میں اسرائیل کے ساتھ تجارتی سامان کا جنکشن Kerem Shalom ہے۔
Kerem Shalo جنگ سے انسانی امداد کے لیے بنیادی کراسنگ تھی یہ اور ایریز دونوں اب بند ہیں، رفاہ کو غزہ میں آنے اور جانے کا واحد راستہ چھوڑ دیا گیا ہے۔
فلسطینیوں کے لیے رفاہ کے راستے غزہ سے نکلنا کبھی بھی آسان نہیں رہا۔ کوئی بھی فلسطینی جو کراسنگ کا استعمال کرنا چاہتا ہے اسے دو سے چار ہفتے پہلے مقامی فلسطینی حکام کے پاس رجسٹر ہونا چاہیے اور اسے فلسطینی یا مصری حکام کی جانب سے معمولی تنبیہ یا وضاحت کے ساتھ مسترد کر دیا جا سکتا ہے۔غزہ 1948 میں اسرائیل کی ریاست کے قیام سے قبل تاریخی فلسطین کا حصہ تھا، جب 750,000 سے زیادہ فلسطینیوں نے نقل مکانی کی یا اپنے گھروں سے بے دخل کیے گئے جس کو فلسطینی النقبہ یا “تباہ” کہتے ہیں۔
مصر نے 1948 کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران غزہ پر قبضہ کر لیا تھا اور اس کے نتیجے میں رفاہ میں کوئی سرحد نہیں تھی،
مصر کا جزیرہ نما سینائی جہاں رفاہ واقع ہے، پر اسرائیل نے 1967 کی چھ روزہ جنگ میں حملہ کیا تھا۔ بعد ازاں کیمپ ڈیوڈ معاہدے اور اسرائیل اور مصر کے درمیان 1979 کے امن معاہدے کے بعد سینا مصر کو واپس کر دیا گیا۔ آخری اسرائیلی فوجی 1982 میں جزیرہ نما سے انخلا ہوا تھا۔
اسرائیل نے 1979 کے امن معاہدے کے بعد رفاہ کراسنگ کو کھول دیا، اور غزہ سے مصر میں لوگوں کی نقل و حرکت 1982 سے 2005 تک اسرائیل کے کنٹرول میں رہی۔ نومبر 2005 سے، رفاہ کراسنگ مصر، فلسطینی اتھارٹی اور یورپی یونین کے کنٹرول میں آئی اور پہلی بار فلسطینیوں نے اپنی بین الاقوامی سرحدوں میں سے ایک کا جزوی کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔
جون 2007 میں حماس کے غزہ پر کنٹرول کے بعد یورپی یونین نے سرحد کا کنٹرول واپس لے لیا۔ اسرائیل اور مصر کی مشترکہ ناکہ بندی اور حماس کے قبضے کے بعد رفاہ کراسنگ کو بند کرنے کے ان کے فیصلے نے مؤثر طریقے سے غزہ کی پٹی کو چاروں طرف سے سیل کردیا۔ اس کے بعد سے یہ کراسنگ وقفے وقفے سے فلسطینیوں کے لیے کھلی ہے۔
اسرائیل کی طرف سے مسلط کردہ اقتصادی ناکہ بندی کے ارد گرد حاصل کرنے کے لیےسمگلروں نے رفاہ بارڈر کے نیچے سینکڑوں سرنگیں کھودیں، جس سے ہر قسم کا سامان غزہ کی پٹی میں داخل ہو گیا۔ 2015 میں، مصر نے اسمگلنگ ختم کرنے کے مقصد کے ساتھ سرنگوں کو بھر دیا۔ سرنگوں کو تباہ کرنے کی مصر کی مہم بہت بڑی تھی مصر کی سرنگوں کو تباہ کرنے کی مہم بڑی حد تک کامیاب رہی اور غزہ کی معیشت کو بری طرح سے نقصان پہنچا۔ حالیہ برسوں میں رفاہ میں فلسطینیوں کی جانب سے سرنگوں کی بحالی کی کوششوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
جیسے جیسے اسرائیل کی جانب سے غزہ پر گولہ باری تیز ہوتی جارہی ہے اور انسانی صورتحال ابتر ہوتی جارہی ہے، یہ کراسنگ امدادی سرگرمیوں اور غزہ کی پٹی سے نکلنے کی امید رکھنے والوں کے لیے مرکزی نقطہ بن گئی ہے۔
امداد پہنچانا اور لوگوں کو باہر نکالنا مشکل ہو گیا ہے۔ جنگ سے پہلے ایک سویلین کراسنگ کے طور پر، رفاہ بڑے پیمانے پر امدادی آپریشن کے لیے ناقص تھا،فلسطینیوں کی امداد کرنے والی اقوام متحدہ کی امدادی ایجنسیUNRWA 1 جس نے “المصطفی ویلفئیر ٹرسٹ” فلسطینیوں کے لئے کام کرنے والی نجی چیرئٹز کی لسٹ میں شامل کیا ہے کے مطابق اکتوبر کو ابتدائی طبی امداد کے ٹرک غزہ میں داخل ہونے کے بعد سے اب روزانہ اوسطاً 30 ٹرک داخل ہو رہے ہیں۔
اسرائیلی حکام کے مطابق 21 اکتوبر سے اب تک 725 سے زائد امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہو چکے ہیں، جو پانی، خوراک اور طبی سامان لے کر آئے لیکن وہاں سے نکلنے کے خواہاں غیر ملکی شہریوں کے لیے کوئی راستہ
نہیں جنگ شروع ہونے سے پہلے، ہر روز 100 ٹرک اس پٹی میں امداد پہنچاتے تھے، اور یہ اس سے پہلے تھا جب غزہ مسلسل بمباری کی زد میں تھا، اس سے پہلے کہ نصف سے زیادہ آبادی بے گھر ہو گئی تھی۔”
جنگ سے پہلے غزہ میں آنے والی زیادہ تر امداد اسرائیل کے ساتھ کریم شالوم کراسنگ کے ذریعے تھی ۔عبدالرزاق ساجد کے مطابق ٹرکوں کو کراسنگ پوائنٹ تک پہنچانے میں کافی وقت لگاتے ہیں، پھر وہ گھنٹوں معائنہ سے گزرتے ہیں، پھر انہیں راستہ بدلنا پڑتا ہے اور جب وہ بالآخر غزہ میں داخل ہوتے ہیں، تو اکثر رات ہو جاتی ہے لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ہم امداد پہنچانے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں