انسان سماجی کام کرنے سے ہمیشہ زندہ رہتا ہے
ان کا گھر تصویروں، ایوارڈوں اور کتابوں سے سجا ہوا ہے
طالبعلمی میں نعت خوان اور جوانی میں پروفیشنل کرکٹر شہرت حاصل ہوئی
بچپن میں والد کی وفات کے بعد غربت اور تنگدستی کا ہمیشہ ذکر کرتے ہیں
مالی مجبوریوں کی وجہ سے پروفیشنل کرکٹر بننے سے محروم ہو گئے
ڈرائیونگ لائسنس لیا نہ گاڑی چلائی لیکن مہنگی ترین کاروں میں سفر کیا
برٹش ائیر ویز میں ملازمت اور سپر سٹورکے بعد ریٹائرمنٹ لے لی
اہلیہ کی وفات کے بعد درویشی اور فقیری کی زندگی اختیار کر لی
تجمل گرمانی
شیخ مسلم سربلندلندن کی معروف سماجی شخصیت ہیں،ان کی عمر 85 برس ہے ،ان کی شخصیت میں قوس قزاح کے رنگ ہیں۔تاریخ، سیاست ، مذہب، سفارت، کاروبار، سیاحت ، کھیلوں سمیت ہر تقریب میں نمایاں ہوتے ہیں۔ان کا گھر تاریخ کے اوراق سے بھرا ہوا ہے،پورا گھر یادگار تصویروں، ایوارڈوں اور کتابوں سے سجا ہوا ہے،دیواروں پر ہر تصویر پچھلی سے نایاب، انگلینڈ اور پاکستان کی معروف شخصیات سے ذاتی تعلقات رکھتے ہیں، کنگ چارلس، برطانیہ کے وزیرائے اعظم ٹوری بلئیر، گورڈن برائون، پاکستان کے سابق صدور جنرل پرویز مشرف، وزرائے اعظم میاں نواز شریف،عمران خان، محمد میاں سومرو، یوسف رضا گیلانی، لندن کے تیسری بار منتخب مئیرصادق خان،پاکستان کے سفارتکاروں،پاکستان کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں،جوانی میں بطور پروفیشنل کرکٹر ٹیموں کے ساتھ تصویریں ان کی شاندار زندگی کی گواہ ہیں۔وہ بنیادی طور پر مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، والد صوفی عنایت محمد پسروری رحمتہ اللہ علیہ تاریخ پاکستان کے رہنما تھےاور الہ آباد میں 1921میں ہونے والے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس کی ایک نایاب تصویر بھی موجود ہے جس میں ان کے والد تحریک پاکستان کے نامور رہنمائوں کے ہمراہ موجود ہیں۔مجلس احرار سے سیاسی وابستگی رکھتے تھے، عطا ئ اللہ شاہ بخاری سے ذاتی تعلقات اور وہ ہمیشہ پنڈی میں اکے گھر قیام کرتے تھے،شورش کشمیری کے بقول موصوف پیر سید جماعت علی شاہ کے مرید خاص،بلا کے مقرر تھے،تحریک پاکستان، تحریک خلافت، تحریک کشمیر، تحریک ختم نبوت(فتنہ قادیانیت) کے تعاقت کرتے ہوئے وقفے وقفے سے 15برس قید ہوئے، پاکستان ان کا خواب تھا لیکن مملکت پاکستان کے قیام سے صرف پانچ ماہ پہلے مارچ 1947میں اپنے خالق حقیقی کے پاس چلے گئے اور عید گاہ قبرستان راولپنڈی میں دفن ہیں جہاں آبائی گھرصوفی منزل، صوفی سٹریٹ بھی عید گاہ کے سامنے واقع تھا۔والد کی موت کا صدمہ ، غربت اور بچپن کی مالی تنگدستی کی تلخ یادوں کا ہمیشہ ذکر کرتے ہیں، شیخ سربلند گھر میں مذہبی ماحول کی وجہ سے بچپن میں بہت اچھے نعت خوان تھے ، 1952 میں سکول کے زمانہ میں ایک مرتبہ مقابلہ نعت خوانی ہوا جس میں دوسرے نمبر پر رہے اور پھر ریڈیو پاکستان راولپنڈی سے وابستہ ہوگئے اور پانچ روپے پروگرام معاوضہ مقرر ہوا،کرکٹ کے بہت اچھے کھلاڑی ہونے کی وجہ سے دفاعی محکمے کی کرکٹ ٹیم کو بطور پروفیشنل کھلاڑی جوائن کیا،1962میں قائد اعظم ٹرافی ٹیم میں شامل تھے لیکن غربت اور معاشی جدوجہد کی وجہ سے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے سے محروم رہ گئے اور آخرمعاش کی فکر میں ترک وطن اختیار کرکے 1964میں بائی روڈ جرمنی پہنچ گئے۔اس زمانے میں جرمنی میں سنٹرل ہیٹنگ نہ ہونے کی وجہ سے لوگ گھروں میں کوئلے جلاتے تھے،شیخ سربلند رزق حلال کے لئے دن بھر محنت مزدوری کرتے رہے، پاکستانی سفارتخانے سے تعلقات کی وجہ سے جرمنی سے جلد ہی انگلینڈ روانہ ہوئے، پاکستانی سفارتخانے لیا ہوا ایک لیٹر ڈوور بندرگارہ پر دکھا کر لندن پہنچ گئے۔اس زمانے میں پاکستانیوں کے لئے ویزہ کی ضرورت نہ تھی لیکن ائیر پورٹ پر انٹرویو لیا جاتا تھا جس میں 75فیصد افراد کوانٹری نہیں ملتی تھی اورانھیں واپس بھیج دیا جاتا تھا، پاکستانی ورکر بڑی تعداد میں انگلینڈ آرہے تھے جہاں انھیں کپڑے کی ملوں میں مزدوری مل جاتی تھی۔شیخ سربلند بھی بلیک برن کے قریب مل میں کام کرنے لگے لیکن جلد ہی ان کے رشتے داروں نے لندن بلالیا اور برٹش ائیر ویز میں نوکری مل گئی جو کامیاب زندگی کا آغاز ثابت ہوئی،پاکستان میں شادی کے بعد اللہ تعالی نے ایک بیٹے اور دوبیٹیوں سے نواز جن میں بیٹا سنٹرل لندن میں پراپرٹی کا کاروبار، ایک بیٹی انگلینڈ اور دوسری امریکہ میں بچوں کے ساتھ خوش و خرم ہیں۔برٹش ائیر ویز کی گھر سے دفتر پک اینڈ ڈراپ کے لئے گاڑی کی سہولت تھی جس وجہ سے شیخ سربلند کو زندگی میں ڈرائیونگ اور لائسنس کی ضرورت نہ پڑی،لیکن اللہ تعالی نے لگژری گاڑیوں کے ساتھ ڈرائیور بھی دے دئئے، آج بھی ہر جمعہ ہنسلو جامعہ مسجد میں باجماعت نماز ادا کرتے ہیں اور اللہ کے فرشتے انھیں گھر سے مسجد اور گھر چھوڑدیتے ہیں۔ برٹش ائیر ویز سے ریٹائرمنٹ کے بعد سپر سٹور کا کاروبار شروع کیا اور آخر کار 1988میں مکمل ریٹائرمنٹ اختیار کر کے زندگی سماجی کاموں کے لئے وقف کردی۔ان کی اہلیہ 2004میں کینسر سے فوت ہو گئی جس کے بعد فقیری اور درویشی کی زندگی اختیار کرلی، انھوں نے زندگی میں بے شمار اداروں کی تعمیر میں حصہ لیا جن میں ہسپتالوں، مساجد، فلاحی اداروں کے علاوہ کرکٹ گرائونڈ بھی شامل ہیں۔ مڈل سیکس میں ہنسلو، سائوتھ آل سمیت بے شمار مساجد کی تعمیرات میں حصہ لیا،عمران خان نے شوکت خانم کینسر ہسپتال کی تعمیر شروع کی تو بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، ابرار الحق کے ساتھ صغری شفیع ہسپتال نارووال میں بھی تعاون کیا،پاکستان میں سیلاب، زلزلہ اور قدرتی آفات کے دوران جب بھی قوم مصیبت اور مشکلات کا شکار ہوئی سب سے پہلے آگے بڑھے، جس کا اعتراف پاکستان کی سابق ہائی کمشنر ملیحہ لودھی نے خود ایک انٹرویو میں کیا۔ اوسٹرلے کرکٹ کلب پویلین کی 2023میں تعمیر آپ کے ہاتھوں مکمل ہوئی جس وجہ سے اس کانام “ایس سربلندپویلین”رکھا گیا اور افتتاحی تقریب میں پاکستان قومی کرکٹ ٹیم کے چار سابق کپتانوں نے شرکت کی جن میں سرفراز نواز، ظہیر عباس، عامر سہیل اور آصف اقبال شامل تھے۔خدمت خلق کے کاموں کی وجہ سے پاکستان کی بڑے سیاستدانوں سے ذاتی تعلقات رہے جن میں نواز شریف، عمران خان،پرویز مشرف، شوکت عزیز، چودھری سرور سمیت سب ان کی عزت و احترام کرتے ہیں لیکن برطانیہ اور پاکستان کی سیاست سے دور کا واسطہ نہیں رکھتے اور نہ کبھی عملی سیاست میں حصہ لیا۔ شیخ سربلند اپنی زندگی خدمت خلق کے لئے وقف کر چکے ہیں،وہ کہتے ہیں حقوق اللہ کی معافی ہے لیکن حقوق العباد کی معافی نہیں ہوسکتی، نفلی عمرہ سے حقوق العباد پورے کرنا بہتر ہے،حج محنت اور حلال کی کمائی سے کرنا چاہئے،مالی طاقت نہ ہو تو حج نہ کریں۔ یتیم بچی کی شادی کا بندوبست نفلی حج سے بہتر ہے،پاکستان میں لوگ زکوة دیں تو غربت ختم ہوجائے گی۔انسان سماجی کام کرنے سے ہمیشہ زندہ رہتا ہے،جب لوگ حسد کرتے ہیں تو میرے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، زندگی میں سب کچھ مل گیااور ساری خواہشیں پوری ہوگئی ہیں، اللہ تعالی سے دعا ہے کہ راولپنڈی میں والد کے نام کی مسجد بنائو۔