410

المصطفیٰ ویلفیئر کا سنگ میل

عبدالرزاق ساجد
اے حرماں نصیبی نہ کہا جائے تو کیا کہ جو کتاب پوری کائنات کی ہدایت و رہنمائی کیلئے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اس سر چشمہ ہدایت کو ہم نے انقلابی سے محض ثوابی کتاب بنا کر رکھ دیا۔ لاریب کی اس تلاوت بہترین عمل ہے لیکن اس سے بھی بڑی نعمت بلکہ کبریٰ وہ پیغام ، رہنمائی اور راہ عمل ہے جس کے بارے میں فرمان ہے کہ اس میں ہر خشک و تر کا بیان ہے اور انسانیت کی بھلائی و رہنمائی کا کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا گیا۔ قران مجید کی بات ہو تو تمہید کی طولانی فطری امر ہے ۔ بہر کیف آج جس ایک آیت نے خود احتسابی کے عمل سے گزار کر رب رحیم کی بے پایاں نعمتوں پر توجہ مرکوز کروا کے آنکھوں کے گوشے بھگو دیئے ، سورۃ رحمن کی یہ آیت مبارکہ تھی کہ ’’فبای آلاء ربکمامکذ بان ‘‘ اور تم اپنے رب کی کون کون سے نعمتوں کو جھٹلائو گے‘‘ ۔ فرط ِ ندامت سے نمناک آنکھیں بند ہو گئیں تو محض اس خیال نے مالک روز جزا کے تشکر سے رخساروں پر آنسوئوں کے موتی بکھیر دیئے کہ ’’ بار الہیٰ ، تیرا صد کروڑ ہا شکر کہ تو نے آنکھوں جیسی نعمت سے سرفراز فرمایا، وگر نہ کیا پتہ چلتا کہ دنیا کیا ہے۔عمر بھر ایک تیرگی ہمسفر رہتی اور پھر تیرہ وتار قبر تک بھی دوسروں کی محتاجی رہتی ۔ یا الرحم الرحمین بے شک تیری نعمتوں کا شکر بجا لانا ممکن نہیں، ہر حال میں تیرے فضل کے سوالی ہیں۔شاید غالب نے کہا تھا کہ ’’توفیق براندازہ ہمت ہے ازل سے ‘‘ یعنی توفیق بھی انسان کو اس کے جذبے ، لگن اور ہمت و حوصلے کے مصداق ہی ودیعت ہوتی ہے تاہم اس حوالے سے میرا نظریہ تھوڑا الگ ہے ، یہ کہ ہمت ، حوصلہ، جذبہ لگن اور اس پر ملنے والی توفیق ، سب رب رحمان کا فضل و کرم ہے ۔ وہ جس سے چاہے کوئی اچھا کام لے لے، انسان کو تو اس پر بھی شکر بجا لانا چاہیے کہ وہ کسی نیک کام کیلئے ، کسی کی دعا یا نظر کرم کے طفیل چُن لیا گیا۔ دعائوں کے سائے سائے چلتے جائیں تو منزل خواہ آسان نہ ہو مصائب کی دھوپ جھلسا نہیں پاتی۔یہ بزرگوں کی ، والدین کی اور خاص طور پر المصطفیٰ ویلفیئرٹرسٹ کے سربراہ حاجی محمد حنیف طیب کی دعائوں اور رہنمائی کا ہی ثمر ہے کہ المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کی بنیاد پڑی اور اللہ رب العزت کے فضل و رحمت سے یہ تنظیم اس وقت دنیا کے تین براعظموں کے لگ بھگ 22 سے زائد ممالک میں مختلف خدمات سر انجام دے کر فریضہ انسانیت ادا کر رہی ہے ۔ برما کے روہنگیا مسلمان ہوں یا غزہ او ر شام کے مظلومین ، پاکستان کے سیلاب اور زلزلہ زدگان ہوں یا دنیا بھر کے کورونا متاثرین المصطفیٰ کے قائدین اور رضا کار ہر جگہ پہنچنے میں پیش پیش رہے ۔ تاہم جس بات کا ذکر کرتے ہوئے آج قادر مطلق کا شکر ادا کرنے کے الفاظ مجھے نہیں مل پا رہے یہ کہ ’’روشنی سب کیلئے ‘‘ کے سلوگن کے تحت المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ نے آنکھوں کے موتیا (Cataract Surgeries) کے ایک لاکھ آپریشن مکمل کر لئے۔ بلاشبہ یہ سنگ ِ میل عبور کرنا ان درد ِدل رکھنے والے افراد کی مہربانیوں کے بغیر ممکن نہ تھا جو عرصہ دراز سے اپنا نام تک ظاہر کرنے سے اجتناب کرتے ہوئے اس کار خیر میں المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کے ہم قدم ہیں۔
پروردگار عالم نے انسان کو اس قدر نعمتوں سے نوازا ہے کہ شمار ممکن نہیں ، تاہم چہار وانگ عالم میں پھیلی یہ رعنائیاں تب اپنی معنویت کھو دیتی ہیں جب انسان کی بصارت دم توڑ جائے۔ آنکھوں کے چراغ بجھ جائیں ، قوت بینائی پر اندھیرے قابض ہو جائیں۔ ۔۔ مثل مشہور ہے تو بے وجہ نہیں کہ ’’ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں‘‘۔ ایسی ہی بے نور آنکھوں میں روشنی بھرنے کا اے ایم ڈبلیو ٹی نے خواب دیکھا تو اسے دیوانے کا خواب قرار دیا گیا۔ شاید اس لئے بھی کہ المصطفیٰ سے قبل دنیا کی کسی بھی تنظیم نے نہ ایسا سوچا تھا اور نہ ایسا کوئی قدم اٹھایا تھا۔ ہر طرف سے آوازیں تھیں، ناممکن ہے ، خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو گا، ارادہ اپنی جگہ لیکن کام ہو گا کہ ۔۔۔۔۔ اور یہ اسی نوع کی حوصلہ توڑنے والی آوازیں جن میں بسا اوقات تمسخر کا پہلو نمایاں ہوتا لیکن قرآن کی رہنمائی موجود تھی کہ ’’ نہیں ہے انسان کیلئے مگر جس کی وہ کوشش کرے ‘‘ اللہ جل شانہ پر بھروسہ کرتے ہوئے کوشش شروع کر دی گئی ، ہر مذاق پر سعی مزید کر دی گئی ۔ ہر پھبتی پر تو جکہ مزید اسی کام پر مرکوز ہوئی اور بے شک اللہ کسی بھی محنت کو رائیگاں نہیں جانے دیتا۔ ثبوت 2020میں ایک لاکھ موتیا کے آپریشن مکمل کرنے کا ہدف حاصل کرنا ہے جو ہمارے ڈونر، کرم فرمائوں ، المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ انٹرنیشنل اور اس کے رضا کاروں کی بدولت ممکن ہوا۔ صحیح کہا ہے کسی شاعر نے :
رُکے جو لوگ اک آب جُو بھی دریا تھی
اُتر گئے تو سمندر بھی تا کمر نکلے
قارئین کرام : اس عالمی حقیقت سے کون شناسا نہیں کہ دنیا دارالمصائب ہے ، تیسری اور دوسری کیا پہلی دنیا ، میرا مطلب ہے دنیا کے متمدن ترین ممالک کے سینکڑوں ، ہزاروں افراد آلام کا شکار ہیں بلکہ جہاں تک مشکلات کی بات ہے تو یہ بڑھتی چلی جا رہی ہیں اور قرائن بتاتے ہیں کہ مستقبل میں یہ انسانیت پر یلغار کرتی رہیں گی۔ کورونا کی مثال ہمارے سامنے ہے جس نے آنِ واحد میں پوری دنیا پر موت کے سائے پھیلا دیئے ہیں۔ لاکھوں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں اور لاکھوں اس وائرس سے متاثر ہیں۔ سائنسدانوں کے نزدیک اب زندگی اسی ڈگر پر چلے گی۔۔۔۔ زندگی نے اگر یہ ڈگر خوانخواستہ اپنا لی تو کیا ہو گا؟ کیا انسانیت کا درد رکھنے والے اپنی ڈگر نہ بدلیں گے ؟ ضرور بدلیں گے ۔ ہم تہیہ کرتے ہیں کہ انسانیت کی طرف بڑھنے والی ہر آزمائش کے سامنے مل کر سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے ہوں گے۔ اجتماعی کاوشیں بروئے کار لائیں گے اور حق ِ انسانیت نبھانے میں کوئی وقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے۔ اس حوالے سے ہم اپنے ڈونرز کے شکر گزار بھی ہیں اور ان کے لیے دعا گو بھی جو نفسانفسی کے ان اندھیروں میں روشن ستاروں کی مانند ہیں ۔ امید ہے وہ ہمیشہ یوں ہی خدمت ِ خلق کیلئے اپنا دست ِ تعاون دراز رکھیں گے ۔ محترم قارئین ایک لاکھ موتیا کے آپریشن ہمارا پہلا سنگ ِ میل ہے ۔ بفضل خدا ایسے بہت سے اہداف کیلئے منصوبہ بندی کا عمل جاری ہے ۔ اگر میں یہ بتائوں تو مبالغہ آرائی کے زمرے میں نہ آئے گا کہ المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ انٹر نیشنل اب ایک تنظیم نہیں رہی بلکہ ایک تحریک کا روپ دھار چکی ہے۔ مقاصد اور نیت نیک ہو ، کام کرنے کی لگن ہو اور انسانیت کیلئے کچھ کرنے کا جذبہ تو ایسی تحریکوں کی راہ کبھی نہیں رکا کرتی ۔ان شاء اللہ اب المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ انٹرنیشنل تحریک بن کر پوری دنیا میں خدمات فراہم کرے گی اور اس تحریک کی راہ کبھی نہ رکے گی ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں