470

’’آدھی عورت کے پورے حقوق ‘‘

وجاہت علی خان
پاکستان کی تعلیم یافتہ خواتین کی طرف سے ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کے سلوگن تلے ایک گرما گرم بحث اور پُر جوش احتجاج مردوں کے برابر حقوق دیئے جانے کیلئے جار ی ہے ۔ پورے ملک میں مختلف الخیال آراء بھی دیکھنے سننے میں آ رہی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایک مسلمان عورت کو مرد کے برابر یا اُس کی مرضی کے مطابق حقوق دینا دین و قرآن کی تعلیمات کے مطابق ہیں یا نہیں؟ ممتاز دانشور پروفیسر وارث میر مرحوم نے کوئی تین دہائیاں پہلے عورت کی آدھی گواہی پر اپنی تصنیف ’’کیا عورت آدھی ہے ‘‘ میں ایک سیر حاصل تبصرہ کیا ہے انہوں نے لکھا کہ ’’ فوری طور پر حکومت پاکستان اور اس کے عوام کو ایک ایسا مسئلہ درپیش ہے جو دینی ہے اور سیاسی بھی اور اس کا تعلق امن و امان سے بھی ہے یعنی مجوزہ قانونِ شہادت میں عورت کی گواہی کا کیا مقام ہے کیونکہ پاکستان کی تعلیم یافتہ عورت کا یہ تاثر درست ہے کہ حکومت اس قانون کے ذریعہ عورت کی گواہی کا مرتبہ مرد کے مقابلہ میں نصف قرار دے کر عورت کی حیثیت آدھی کر دے اور اس کیلئے جن قرآنی آیات کا حوالہ یا سہارا لیا جاتا ہے ان کے سیاق و سباق یا الفاظ میں قعطاً ایسا مفہوم پوشیدہ نہیں کہ اللہ کے نزدیک ہر معاملہ میں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے ، پروفیسر صاحب کے نزدیک ایسے معاملات جو مالی اور دقیق ہوں اور وہاں دو مرد گواہی کیلئے موجود نہ ہوں تو انصاف کے تقاضوں کو بہتر طریقے سے پورا کیا جا سکتا ہے گویا یہ ایک رعایت ہے اصول نہیں۔
آج سے ٹھیک چار سال قبل اس وقت کی حکومت پنجاب نے ’’ تحفظ حقوق نسواں ‘‘بل منظور کیا جس کے بعد ملک کی تقریباً سب ہی مذہبی جماعتوں کا ایک مشترکہ اجلاس منصورہ لاہور میں منعقد ہوا جہاں اس قانون کو قرآن و سنت سے متصادم قرار دیتے ہوئے یکسر مسترد کر دیا گیا اور کہا گیا کہ ہم پاکستان کو سیکولر ریاست نہیں بننے دیں گے اور 1977ء کی تحریک جیسا احتجاج کریں گے ۔ لیکن عام آدمی کا سوال آج کی طرح اس وقت بھی یہی تھا کہ مذکورہ قانون آئین پاکستان سے کس طرح متصادم ہے ؟ یہ قانون جو اصل میں عورتوں پر ہونے والے مردوں کے تشد د کیخلاف بنایا گیا تھا لیکن مذہبی حلقوں کے شدید دبائو کی وجہ سے قانون بننے کے باوجود یہ نافذ العمل نہ ہو سکا اور حکومت نے اس کی جگہ ایک لولا لنگڑا ادارہ ’’ ویمن پروٹیکشن اتھارٹی ‘‘ کے نام سے قائم کر دیا ، سوال یہ ہے کہ آخر ملک کی 30سے زیادہ مذہبی جماعتوں نے اس قانون کی مخالفت کیوں کی حالانکہ یہ عورت کی حفاظت کیلئے بنایا گیا تھا تا کہ وہ گھر یلو تشدد ، جنسی تشدد، نفسیاتی اور جسمانی زیادتی کیخلاف بلاخوف ریاستی اداروں سے انصاف کے حصول کیلئے رجوع کر سکے اس بل کے نکات کچھ یوں تھے ۔
1۔ خواتین کو اپنی جائیداد رکھنے کا حق حاصل ہو گا ۔
2۔ انہیں اپنی جائیداد کی وصیت کا حق بھی ہو گا ۔
3۔ شوہر پر بیوی کو سمجھانے بجھانے کیلئے ہلکی پھلکی مار پیٹ کر سکتا ہے لیکن زیادہ مار پیٹ کی صورت میں بیوی عدالتی کارروائی کرنے کی مجاز ہو گی۔
4 ۔ ایک ساتھ تین طلاقتیں دینا جُرم تصور ہو گا ۔
5۔ عاقل و بالغ عورت کو نکاح کیلئے سر پرست یا اس کی اجازت کی ضرورت نہیں ہو گی۔
6۔ اگر بیوی کو نان نفقہ نہیں ملتا تو اس کو خلع کا حق ہو گا ۔
7۔ ونی اور تنازع کے حل کیلئے لڑکی کی شادی کر نا جُرم تصور ہو گا ۔
8۔ قرآن سے لڑکی کی شادی بھی جُرم ہو گا جس کی سزا دس سال ہو گی۔
9۔ جہیز کے مطالبے اور نمائش پر پابندی ہو گی ۔
10۔عورتوں کو سیاست میں حصہ لینے کی اجازت ہو گی ۔
11۔ خواتین جج بھی بن سکتی ہیں۔
12۔ کسی عورت کو زبر دستی مذہب تبدیل کروانے والے کو تین سال قید ہو گی ۔
13۔ 120دن کے حمل کے بعد اسقاط حمل قتل تصور ہو گا۔
14۔ خواتین سے زبردستی مشقت نہیں لی جا سکتی اور خواتین فحش اشتہارات میں کام نہیں کر سکیں گی وغیرہ وغیرہ ۔
اب ذکر کئے گئے ان 14نکات میں کون سا نکتہ غیر اسلامی ہے اس کا تو کوئی جواب نہیں دیتا ، ’’ میرا جسم میری مرضی‘‘ اور ’’ تحفظ حقوق نسواں بل ‘‘ کے مخالفین اور پاکستان کی مذہبی جماعتوں کا نکتہ نظر قرآن کی سورۃ النساء کی آیت نمبر 34سے ’طاقت ‘ پکڑتا ہے جو کچھ یوں ہے کہ ترجمعہ: ’’ مردوں کو عورتوں پر حاکم بنایا گیا ہے اس لیے کہ اللہ نے بعض کو بعض سے افضل بنایا ہے اس لیے بھی کر مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں‘‘ چنانچہ جو نیک بیبیاں ہیں وہ مردوں کے حکم پر چلتی ہیں اور ان کی پیٹھ پیچھے اللہ کے حکم سے ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں اور جن عورتوں کی نسبت تمہیں یعنی شوہروں کو معلوم ہو کہ وہ سرکشی یا بدخوئی کرنے لگی ہیں تو ان کو زبانی سمجھائو اور بستر میں انہیں جدا کر دو اگروہ پھر بھی باز نہ آئیں تو انہیں زدو کوب کرو اگر وہ فرمانبردار ہو جائیں تو پھر ان کو ایذا دینے کا کوئی بہانہ مت ڈھونڈو بیشک اللہ سب سے اعلیٰ اور جلیل القدر ہے ‘‘ ۔ قرآن کی اس آیت سے یقینا ایک بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ دین میں بہرحال عورتوں پر تشدد کی گنجائش موجود ہے اور اسلام مخصوص حالات میں یہ اجازت دیتا ہے لیکن کیا پاکستان کا آئین و قانون بھی کسی خاص حالت میں بیوی پر تشدد کی اجازت دیتا ہے اور اگر نہیں دیتا تو پھر یقینا یہ نعرہ ’’ میرا جسم میری مرضی‘‘ اور ’’ تحفظ حقوق نسواں بل ‘‘ قرآن و حدیث کی تعلیمات سے متصادم ہے۔
قرآن نسواں کی باتیں کرنیوالی خواتین و حضرات ذرا اس زمینی حقیقت پر بھی غور کریں کہ جس ملک میں عورت کی گواہی آدھی ہو ، تعلیم کی شرح خصوصاً خواتین میں انتہائی کم ہو ‘ غیرت کے نام پر قتل معمول کی بات ہو اور سب سے بڑھ کر لڑکی کو والدین کے گھر سے ڈولی اٹھنے اور شوہر کے گھر سے جنازہ اٹھنے جیسی ترغیبات دی جاتی ہیں ‘ مشرقی و مغربی ‘ مذہبی و جمہوری اقدار کے ملغوبے سے تیار شدہ پاکستانی معاشرے میں جہاں مرد خود کو مجازی خدا اور حاکم سمجھتا ہو جہاں مذہب بھی اس پر کوئی پابندی نہ لگاتا ہو اور جہاں ابھی دو دہائیاں پہلے تک مائیں اپنی بیٹیوں کو مولانا اشرف علی تھانوی کی مشہور تصنیف ’’ بہشتی زیور ‘‘ جیسی کتاب تحفے میں دیتی ہوں کہ اس کے مندرجات پر عمل پیرا ہو کر لڑکی اپنی شادی شدہ زندگی پُرامن طریقے سے گزار سکتی ہے کیونکہ اس کتاب میں و اضح طور پر مرد کو عورت پر فوقیت بلکہ اس کا حاکم بتایا گیا ہو ‘ جس خطے میںعورت کو مرد کے پائوں کی جوتی سینکڑوں برسوں سے قرار دیا جا رہا ہے ‘ جہاں بہشتی زیوریہ بتائے کہ لڑکیوں کیلئے سکولوں کی تعلیم ضروری نہیں ان کیلئے مذہبی تعلیم ہی کافی ہے اور ان کے شوہر اگر رات کو دن کہیں تو بیوی کیلئے لازم ہے کہ وہ چوں چراں کئے بغیر شوہر کی بات تسلیم کرے۔ حیرت کی بات تو بھی ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کیلئے پہلے روشن خیال مفکر سرسید احمد خان نے بھی تعلیم نسواں کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ایک ان پڑھ عورت اپنے حقوق سے ناواقف رہتے ہوئے زیادہ بہتر زندگی گزار سکتی ہے ۔
حوالے کیلئے اس تاریخی حقیقت کو بھی زہن میں رکھا جائے کہ عورت کی گواہی اور حقوق کے معاملہ میں نزول قرآن سے بہت پہلے یہودی قانون بھی بھی گواہی صرف مردوں کی معتبر تھی عورت کو گواہی دینے کا حق حاصل نہیں تھا ۔ چنانچہ اسلام نے عورت کو کم ازکم آدھی گواہی کے قابل تو سمجھا لیکن آج کے یہودی معاشرے نے اسلام کے اصول اجتہاد سے استفادہ کرتے ہوئے عورت کو مرد کے مقابلہ میں پوری گواہی کا حق دیا ہے لہذا اس لحاظ سے ہماری عورت تو آج بھی آدھی ہے تو پھر اس قسم کے معروضی حالات میں پاکستانی عورت برابری اور مکمل آزادی کے ’’ میرا جسم میری مرضی‘‘ جیسے نعرے لگا کر کیا ان زنجیروں کو بھی توڑنا چاہتی ہے جو دین و مذہب نے اپنی تعلیمات میں اور فطرت نے جسمانی طور پر انہیں مرد سے کمزور بنا کر انہیں پہنائی ہیں ؟میری دانست میں پاکستان جیسی تھیوکریٹ سوسائٹی میں معاشرے کو اس لیول تک آنے کیلئے ابھی مزید کئی دہائیاں اور تعلیم و تربیت کے کوہ ِ ہمالیہ کی ضرورت ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں