75

فلسطین / غزہ اور لبنان میں “المصطفیٰ ویلفئر ٹرسٹ” کے دورے ، امدادی سرگرمیوں کا چشم دید احوال اور گزشتہ پانچ سال کی مفصل رپورٹ

وجاہت علی خان
فلسطین جانا اور پھر وہاں پچھلی کئی دہائیوں سے جاری جنگ ذدہ ماحول میں بارش کی طرح ہوتی ہوئی بمباری اور بے دریغ چلتی ہوئی گولیوں کے درمیان سینہ سپر رہ کر ضرورتمند انسانوں کی مدد کرنا تو کبھی بھی آسان نہیں تھا لیکن پچھلے گیارہ سال خصوصا اکتوبر 2023 سے اب تک حالات اسقدر خراب ہیں کہ ایک سال کے دوران ہی پچاس ہزار کے قریب فلسطینیوں کی ہلاکتیں ہو چکیں ان اموات کے علاوہ پندرہ ہزار سے زیادہ بچوں کی شہادتیں بھی آزادی و خود مختاری کی اس خون آشام جدوجہد میں شامل ہیں۔
“المصطفی ویلفئر ٹرسٹ” ایک رفاحی تنظیم ہوتے ہوئے سالوں قبل اپنے قیام سے ہی جہاں پاکستان سمیت دُنیا کے چوبیس ملکوں میں انسانی فلاح کے لئے متواتر اور قدرتی آفات میں بلا امتیاز کسی عقیدے اور رنگ ونسل کے اپنی امدادی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے لیکن فلسطین میں خصوصی طور پر کوئی گیارہ سال سے یہ تنظیم ملینز پاؤنڈ کی خطیر رقم خرچ کر چکی ہے۔
عبدالرزاق ساجد “المصطفی” کے چئیرمین ہیں اُنہوں نے مصمم ارادہ کیا کہ اگرچہ ہم غزہ سمیت فلسطین کے دیگر علاقوں میں وہاں موجود اپنی مقامی ٹیم کے زریعے فلاحی کام کر رہے ہیں لیکن ضروری محسوس ہوتا ہے کہ میں لندن سے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ خود وہاں جا کر اپنے مجبور، بے کس و محصور بھائی بہنوں اور بچوں کی ہر ممکن امداد کروں، یقیناً یہ ایک نیک ارادہ اور مخلوق خُدا کی خدمت کے لئے قابل ستائش سوچ تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسجد اقصٰی جو مسلمانوں کا قبلہ اوّل بھی ہے یروشلم میں واقع ہے اور یہ شہر اسرائیل کے زیر انتظام ہے وہاں ایسے پاکستانیوں کا جانا بھی اسقدر آسان نہیں ہے جن کے پاس برٹش پاسپورٹ بھی ہیں اور پھر وہاں سے غزہ یا فلسطین کے کسی علاقے میں جانا تو مشکل ہی نہیں مشکل ترین ہے ، وہاں کی اتھارٹیز کسی ٹورسٹ کو کسی صورت ان علاقوں کے وزٹ کی اجازت نہیں دیتیں اور پھر کسی چیئریٹی تنظیم کا وہاں داخلہ تو ناممکنات میں سے ہے۔

چیئرمین “المصطفی ویلفئر ٹرسٹ” کا مُصمم ارادہ تھا کہ خطرہ مال و جان کا یا قیدو بند کی صعوبتوں کا ہمیں وہاں بہر صورت جانا ہے ! مسجد اقصیٰ یا فلسطین کے کسی علاقے میں جانے کا واحد فضائی راستہ یہی ہے کہ کسی اسرائیلی ہوائی اڈے پر اُتر کر آگے کی منزل کا تعین کیا جائے۔ قبل ازیں کہ “المصطفی” ٹیم کے فلسطین کے کئی ایک دوروں کی روداد بیان کی جائے ضروری محسوس ہوتا ہے کہ مسجد اقصیٰ اور فلسطین کی تاریخ پر کچھ اجمالی بات کی جائے۔ شائد بہت کم لوگ جانتے ہوں کہا القدس گو کہ اسرائیلی شہر مشرقی یروشلم میں واقع ہے لیکن 1948 سے ایک معاہدے کے تحت اُردن کی شاہی فیملی یا ہاشمی حُکمران مسجد اقصیٰ جسے ٹیمپل ماؤنٹ بھی کہا جاتا ہے کا سارا انتظام کرتا ہے اور مسجد کے احاطے کے محافظ بھی وہی ہیں انہیں ہاشمی نگہبانی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اُردن کی وزارت اسلامی امور اور محکمہ اوقاف مسجد کے انتظام و دیکھ بھال کی ذمہ دار ہے لیکن اسرائیل کی حکومت مسجد اقصیٰ کے احاطے کے باہر تک رسائی کو کنٹرول کرتی ہے وہاں سیاسی اور سیکورٹی وجوہات کی بنا پر پابندی ہے اور یہودی مذہبی قانون بھی مذہبی یہودیوں کے کمپاؤنڈ پر پابندی لگاتا ہے، یہی وجہ ہے جب “المصطفی” کی ٹیم وہاں پہنچی تھی تو ہمارے پاسپورٹ چیک کرنے اور ہمارا مذہب پوچھنے کے بعد ہی ہمیں مسجد کے احاطے میں داخل ہونے کی اجازت ملی تھی۔
سب جانتے ہیں کہ مسجد اقصی مسلمانوں کا قبلۂ اول اور خانہ کعبہ و مسجد نبوی ص کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔مسجد اقصی حقیقت میں مسلمانوں کی میراث ہے جو تاریخی اور مذہبی حقائق سے ثابت ہے مگر یہ جس جگہ پر تعمیر کی گئی , یہودیوں کے موقف کے مطابق اِس جگہ پہلے ہیکل سُلیمانی تھا اورمُسلمانوں کے یروشلم پر قبضہ کرنے کے بعد یہ مسجد تعمیر کی گئی۔ حالانکہ قرآن میں سفر معراج کے باب میں اس مسجد کا ذکر موجود ہے۔مسجد کا تعلق اللہ کی عبادت سے ہے اور ہر نبی کو عبادت کے لیے مسجد کی ضرورت تھی۔ یہاں تک بات درست ہے کہ موجودہ دور میں اس مسجد کی معروف نسبت حضرت سلیمان علیہ السلام کے ساتھ ہے حتیٰ کہ ایک روایت کے مطابق اس مسجد کو حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنات سے تعمیر کرایا۔ یہ یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے جس میں 5 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے جبکہ مسجد کے صحن میں بھی ہزاروں افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔ 2000ء میں الاقصیٰ انتفاضہ کے آغاز کے بعد سے یہاں غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع ہے، ستمبر 2019 میں کورونا وائرس آنے سے کوئی تین ماہ پہلے چیئرمین عبدالرزاق ساجد مجھ سمیت اپنی ٹیم کے ساتھ مسجد اقصیٰ پہنچے تو اس مقدس مقام کے معاملے میں جاری چپقلش پر اُن کی یہ تجویز قابل تحسین تھی کہ یہ مقام تینوں ابراہیمی مذاہب کے لئے مقدس ہے کیا ہی اچھا ہو کسی باہمی معاہدے کے تحت اس کے در سب کے لئے کھلے ہوں مسلمان، یہودی اور عیسائی بلا روک ٹوک اور بے خطر ہو کر یہاں آئیں اور اپنی عبادات کریں اور فلسطین جو انبیا کی سرزمین ہے اس کی تاریخی و مذہبی حیثیت بھی مسلمہ ہے تو پھر آخر کیا وجہ ہے کہ آج اسی فلسطین کے گرد عالمی سیاست کی نبض رواں ہے اور کشت وخون کا بازار گرم ہے، سورۃ بنی اسرائیل میں اسی خطے یعنی مسجدِ اقصیٰ کا تذکرہ ہے ۔ پھر عہد خلافت میں خود حضرت عمر فاروقؓ فلسطین فتح کیا۔ عیسائیت میں فلسطین اس لیے مقدس ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش فلسطینی خطے بیت اللحم میں ہوئی، جبکہ ان کی پرورش ایک اور فلسطینی قصبے الناصرہ (Nazareth) میں ہوئی تھی۔
اہل یہود کے لیے فلسطین کی حیثیت اس لیے مسلم ہے کہ صحرائے سینا سے نکل کر سب سے پہلے بنی اسرائیل نے فلسطین کا ہی ایک شہر اریحا فتح کیا تھا، جسے آج جیریکو کہا جاتا ہے ، پھر حضرت داؤد و سلیمان علیھما السلام کی یہاں حکومت رہی اور ہیکل سلیمانی تعمیر کیا۔

فلسطین کا پہلا سفر
شائد یہ ستمبر 2019 تھا جب میں، چئیرمین “المصطفی” عبدالرزاق ساجد اور نیوز رپورٹر راجہ فیض سلطان کے ساتھ یورشلم اور تل اویو کے درمیان واقع اسرائیل کے بن گورین ہوائی اڈے پر پہنچے تو امیگریشن کاؤنٹر تک پہنچنے تک آشکار ہوا کہ یہ دیگر دُنیا کے ہوائی اڈوں سے کچھ مختلف ہے یوں لگا ہر اہلکار کی ہر نظر آپ کو گھور رہی ہے لیکن کیونکہ ہم یہاں آنے سے پہلے “ ذمہ داروں” کو مطلع کر چکے تھے اس لئے ہمیں دو ایک سرسری سوالات کے بعد انٹری دے دی گئی، لیکن اس کے باوجود ہم جانتے تھے کہ آگے چل کر ہمارا یہ سفر مشکل بلکہ مشکل تر ہو سکتا ہے لیکن محترم چیئرمین عبدالرزاق ساجد کے مصمم ارادے، فلسطینیوں کی دامے درمے سخنے اور کرمے مدد کرنے دھن کے سامنے ہمارے حوصلے بلند تھے کہ ہم ایک نیک مقصد اور حُکم اللہ کے تحت اس سفر پر نکلے ہیں تو ہم سب کا حامی و ناصر بھی وہی ہو گا۔ یہ خطرات کیا کیا ہو سکتے تھے یہ زکر آگے چل کر بیان کروں گا۔ بہر کیف ہمارا قیام مسجد اقصیٰ سے کوئی دو میل کے فاصلے پر تھا، اپنی آمد کے اگلے روز الاقصیٰ پہنچے تو یہ ایک سحر انگیز منظر تھا مسجد، چرچ، سیناگوگ اور دیوار گریہ کے گرد قلعہ نما انتہائی مضبوط فصیل اور اس انتہائی چھوٹے سے علاقے کی پُرپیچ گلیوں کو دیکھ کر ہزاروں سال کی تاریخ آنکھوں کے آگے فلم کی طرح چلنی شروع ہو جاتی ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ کہتے ہیں کہ 5000قبل مسیح میں بھی یروشلم میں انسانی آبادی کے آثار ملے ہیں ، اس لحاظ سے یہ دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ تاریخ کی کتب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے بیت المقدس کی طرف ہجرت کی تھی پھر حضرت یعقوب علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق مسجد بیت المقدس کی بنیاد رکھی پھر ایک ہزار سال قبل از مسیح میں حضرت داؤد علیہ السلام نے شہر کو فتح کرکے اپنی حکومت کا دارالخلافہ بنا لیا جبکہ 960 قبل ازمسیح میں حضرت داؤد علیہ السلام کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہیکل سلیمانی تعمیر کرایا تھا بعد ازاں بیسویں صدی کے آغاز میں سلطنت عثمانیہ کے زوال تک یہ خطہ بیسیوں حکمرانوں کے زیر نگیں بھی رہا اور تاخت و تاراج بھی ہوا، ہم لوگ اس خطے اور الاقصی کے تاریخی تصور میں مہو ان تنگ و پُر پیچ گلیوں میں پیدل چلتے ہوئے مسجد اقصیٰ کے احاطے کے ایک بڑے پُر شکوہ دروازے کے سامنے پہنچے تو پہلا خطرہ ہمیں یہاں محسوس ہوا جب مشین گنز رائفلیں تھامے مستعد اسرائیلی فوج کی سیکورٹی سے سامنا ہوا اُنہوں نے ہمیں دیکھتے ہی پوچھا، تُم کون ہو کہاں سے آئے ہو اُنہوں نے ہمارے پاسپورٹ بغور ملاخظہ کئے اور ہمیں اندر جانے کی اجازت دے دی، ہم جس سمت سے اندر داخل ہوئے وہاں پہلے سنہری گنبد والا قبتہ الصخرہ جسے ڈوم آف راک اور ٹیمپل ماؤنٹ بھی کہا جاتا ہے واقع تھا اسی احاطے میں تحریک خلافت، تحریک پاکستان اور برصغیر کی آزادی کے عظیم رہنما مولانا محمد علی جوہر کا مزار ہے جہاں سے چار پانچ منٹ چلیں تو مسجد اقصی واقع ہے
۔ جہاں نبی اکرم ص نے سفر معراج پر جانے سے پہلے نبیوں کی امامت کی تھی اگر مسجد کے باہر کھڑے ہوں تو دائیں ہاتھ وُہ جگہ موجود ہے جہاں رسول اللہ ص نے براک کو باندھا تھا اس کے ساتھ ہی وہ دیوار ہے جس کے دوسری طرف یہودی عبادت کرتے اور اسے دیوار گریہ کہتے ہیں۔


انتہائی خطرہ مول لیتے اور سخت چیکنگ کے بعد “المصطفی ویلفئر ٹرسٹ” کی اس ٹیم نے فیصلہ کیا کہ الاقصی سے آدھ گھینٹے کی ڈرائیو پر واقع ویسٹ بینک کے ہسپتال میں بھی ضرور جایا جائے جہاں صرف فلسطینیوں کا علاج ہوتا ہے اور جہاں کوئی غیر ملکی چیریٹی تنظیم کا داخلہ ممنوع ہے اس ہسپتال کا نام “ قسم الطواری” ہے، عبدالرزاق ساجد صاحب چاہتے تھے کہ اس ہسپتال جا کر میڈسن سے تو نہیں کیش رقم سے اُن مریض فلسطینیوں کی مدد کی جائے ہمیں اس مسلمان پرائیویٹ ٹیکسی ڈرائیور نے خبردار کیا کہ وہاں جانا خطرے سے خالی نہیں لیکن اس کے باوجود ہم ہسپتال کے اندر تک جا پہنچے اور تقریباً ہر وارڈ میں جا کر لفافوں میں بند کیش رقوم اُن کے حوالے کیں۔
اسی وزٹ میں “المصطفی ویلفئر ٹرسٹ” نے مسجد اقصی کے امام و ڈائریکٹر شیخ عمر فہمی الکسوانی کے دفتر جا کر ( یہ دفتر مسجد کے احاطے میں ڈوم آف راک کے پاس ہے ) اُن کے ساتھ ایک معاہدہ کیا اور اُنہیں برطانیہ کے دورے کی دعوت دی جس کے بعد وُہ برطانیہ آئے اور لندن سمیت مختلف برطانوی شہروں میں اُن کے پروگرامز بھی ہوئے بعد ازاں امام الاقصیٰ نے “المصطفی” کے پلیٹ فارم سے پاکستان کاپانچ روزہ دورہ بھی کیا۔
المصطفیٰ” ٹیم کا ریلیف ایفرٹس کے لئے فلسطین کا دوسرا سفر “
اگست 2022 میں چیئرمین عبدالرزاق ساجد اور ہم ایک دفعہ پھر ایک بڑے ریلیف ایفرٹ کے لئے اسرائیل پہنچ گئے، متعلقہ اتھارٹیز نے ہمیں بتایا کہ فلسطین اور غزہ کے قریب جانا بھی انتہائی سے زیادہ خطرناک ہے ( یاد رہے کہ اُن دنوں بھی غزہ محاصرے میں تھا اور جنگ جیسی ہی صورتحال تھی) اتھارٹیز کا کہنا تھا کہ اگر آپ ان علاقوں میں گئے تو ہم آپ لوگوں کی زندگیوں کی ضمانت نہیں دے سکتے چنانچہ اُن کی طرف سے یہ ایک کھلا پیغام تھا لیکن ہمارے لئے ایک چیلنج بھی کیونکہ جناب چیئرمین کا کہنا تھا کہ ہم چونکہ ایک چیریٹی تنظیم ہیں ہمارے ڈونرز ہمیں فلسطینیوں کی ہر ممکن مدد کے لئے بھی فنڈز دیتے ہیں اور ہم فلسطین میں اپنی مقامی ٹیم کے ذریعہ کئی سال سے ملینز پاؤنڈ پر مشتمل ہر قسم کی امداد متواتر پہنچا رہے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں صرف سیف ہیون میں مقیم رہ کر ہی نہیں بلکہ خود بھی جنگ ذدہ متاثرہ علاقوں میں جا کر امدادی کام کرنا اور اپنے فلسطینی بھائی بہنوں کا دکھ، تکلیف محسوس کرنا اور جن مسائل کا انہیں سامنا ہے انہیں خود پر بھی جھیلنا چاہئیے۔
“المصطفی” ٹرسٹ مسجد اقصیٰ کی زینت و آراستگی کے لئے فنڈز مختص کرنا چاہتا تھا اس لئے ہمیں اُردن کی حکومت سے رابطہ کرنا پڑا کیونکہ مسجد اقصیٰ اور ڈوم آف راک کا تمامتر انتظام اُردن کے شاہی خاندان کے زیر اہتمام ہاشمائت ٹرسٹ اور محکمہ اوقاف کے ذمہ ہے تو ہم نے ان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کی وجہ سے مسجد اقصی میں قرآت قرآن کلاسز کا نتظام کیا گیا ان کلاسوں میں ہر عمر کے لوگوں کو تعلیم دی جاتی ہے –
خوف و دہشت کی فضا
“المصطفی ویلفئر ٹرسٹ” کے زعما نے فلسطین کے جنگ زدہ علاقوں میں خود جا کر امدادی اشیا تقسیم کرنے اور پہلے سے جاری اپنے منصوبوں کا جائزہ لینے کا فیصلہ تو کر لیا لیکن اپنے ہوں یا پرائے سبہی نے ہمیں وہاں جاری خوف و دہشت کی فضا سے خبردار کیا، موت کے خوف سے ڈرایا لیکن عبدالرزاق ساجد صاحب کا کہنا تھا کہ انسان تو ہر وقت اور ہر جگہ انواع و اقسام کے خوف میں مبتلا رہتا ہے یعنی، ہم ان دیکھے خوف کا شکار ہیں مثلا ہونی کا خوف، انہونی کا خوب، دیکھے کا خوف، ان دیکھے کا خوف، دشمن کا خوف، دوست کا خوف، سوچ کا خوف، خالی ذہن کا خوف، تنزلی کا خوف، ترقی کا خوف، منزل کا خوف، راستے کا خوف، روزی کا خوف، بے روزگاری کا خوف، پیچھے والے کا خوف، ٓاگے والے کا خوف، محبت کا خوف، بچھڑ جانے کا خوف، خالی جیب کا خوف، بھری جیب کا خوف، بیماری کا خوف، تندرستی کا خوف، جسم کا خوف، جان کا خوف لیکن موت کے خوف سے بڑھ کر تو اس دُنیا میں کوئی دوسرا خوف نہیں لیکن اگر کوئی انسان موت کے خوف سے مبرا ہو جائے اور فقط خوف خُدا کے لئے اُس کی مخلوق کے فلاح و بہبود اور مدد کے نکل کھڑا ہو تو پھر اُسے کسی قسم کا خوف ڈرا نہیں سکتا۔ چنانچہ ہم نے فلسطین / غزہ جانے کے لئے رخت سفر باندھ لیا حالانکہ ہمیں اس بات کا قوی یقین تھا یہ راستہ انتہائی کٹھن اور ہائی سیکورٹی الرٹ والا ہے اور بیسیوں جگہوں پر آرمی کی چیک پوسٹیں موجود ہیں یہ سب ہمارے ایک مسلمان ٹیکسی ڈرائیور نے بتائیں اور آگاہ کیا کہ آپ کو گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے اور اس سے سنگین معاملات بھی ناگزیر ہیں۔
آرمی کی سخت چیکنگ، درجنوں سوالات کے بعد منزل مقصود تک پہنچے تو علم ہوا کہ غزہ میں ہر سو “موت کا سکوت لیکن بھوک اور رنج و الم کی چیخ ہے” یہاں بے بسی اور لاچاری کی انگنت داستانیں ہیں جنہیں دیکھ و سُن کر اک ہوک سی دل میں اُٹھتی ہے انسانیت کی اس بے چارگی پر ، غزہ میں رات کا اندھیرا زیادہ تر بے گھر فلسطینیوں، خاص طور پر بچوں کے دلوں پر خوف طاری کر دیتا ہے، پلاسٹک کی چادروں سے بنے خیموں میں بے گھر فلسطینی تاریکی میں ڈرونز کی گونج اور توپ خانے کی گھن گرج سے سہمے رہتے ہیں، انہیں اس خوف سے نیند نہیں آتی کہ بے خبری میں مارے نہ جائیں، نیند نہ آنے کی ایک اور وجہ سکون اور پردہ داری کا فقدان اور سونے کے مناسب وسائل کا نہ ہونا ہے، ہم نے دیکھا کہ نیند کی کمی کے باعث غزہ میں نفسیاتی عوارض بڑھ رہے ہیں، فوجی حکام بے گھر افراد کے پاس ضروری سامان پہنچانے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں، جیسے ہی غزہ میں سورج غروب ہوتا ہے اور بے گھر فلسطینیوں کے پلاسٹک کی چادروں سے بنے ہوئے خیموں میں تاریکی چھا جاتی ہے، تو اندھیرے میں ڈرونز کی گونج اور توپ خانوں سے اگلتی ہوئی آگ ان پر یہ خوف طاری کر دیتی ہے کہ آیا وہ صبح کا سورج دیکھنے کے لیے زندہ بھی ہوں گے یا نہیں۔ یروشلم سے چلے تو کئی فلسطینی شہروں رفح، قلقیلیہ، قباطیہ، رام اللہ اور پھر نابلس پہنچے جو فلسطین کا آبدی کے لحاظ سے سے سے بڑا شہر ہے۔ لیکن حالات سے سے زیادہ غزہ میں خوفناک و افسوسناک ہیں، یہاں چاروں طرف منڈلاتے ہوئے خوف کے سائے اور بے بصر آنکھیں ہماری منتظر تھیں۔ “المصطفی” کی مقامی ٹیم کی وساطت سے اُن طبی مراکز کا وزٹ کیا جو المصطفی ویلفئر ٹرسٹ کے تعاون سے چل رہے تھے اس کے علاوہ ایک خطیر رقم سے ان بے گھر افراد کو ضروریات زندگی کی بنیادی اشیا بھی فراہم کی گئیں-
فلسطین کا تیسرا سفر
فلسطین کے لئے یہ تیسرا سفر بھی 2022 میں ہی تھا لیکن یہ سفر براستہ عمان اُردن تھا، دارالحکومت عمان سے تقریباً ایک گھینٹے کی ڈرائیو پر کنگ حسین برج کے قریب واقع بارڈر سے امیگریشن اور سامان کی سخت چیکنگ کے بعد اسرائیل میں داخل ہوا جا سکتا ہے۔ اسرائیل جانے سے پہلے ہم عمان سے کوئی دو اڑھائی گھینٹے کی مسافت پر فلسطینی مہاجرین کے اُس کیمپ میں بھی گئے جو انتہائی ویران پہاڑوں کے درمیان واقع ہے ان سیکڑوں مہاجرین کے انتہائی خستہ حال ٹینٹوں میں موسموں کی شدت سے بچنے کا قطعی بندوبست نہیں ہے بے خانماں برباد بچے، خواتین، بوڑھے اور جوان ہر قسم کی مدد کے منتظر تھے “المصطفی ویلفئر ٹرسٹ” کی جانب سے ہم کھانے پینے کی بنیادی اشیا اور گرم کپڑوں کے جو کنٹینرز عمان سے پیک کروا کے اور ٹرکوں پر لاد کر وہاں لے کر گئے تھے آناً فاناً ان لوگوں میں تقسیم ہو گئے۔
اقوام متحدہ کے مطابق ۱۹۵۰ سے بے گھر ہونے والے ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کی تعداد آج بڑھ کر تقریباً 60 لاکھ ہو چکی ہے۔ بہت سے فلسطینی پناہ گزینوں اور ان کے خاندانوں کی زندگیاں بے وطنی، غربت اور امتیازی سلوک سے عبارت ہیں، عبدالرزاق ساجد اپنے کندھوں پر امدادی سامان اُٹھائے جب ان خیموں میں جاتے تو باہر آ کر کف افسوس ملتے ہوئے کہتے اللہ تعالی ان کی زندگیاں آسان کرے۔ مشرق وسطیٰ میں فلسطینی آبادی کا تخمینہ سات ملین لگایا جاتا ہے، جس کی قانونی حیثیت مختلف ہے۔ اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (UNRWA) کی رپورٹ کے مطابق وہ اس وقت خطے میں 5.9 ملین انسانوں کی مدد کر رہی ہے “انروا “ وہ تنظیم ہے جو گزشہ 75 سال سے فلسطینیوں کے لئے کام کر رہی ہی ( UNRWA) ہی وہ تنظیم ہے جس نے 2024 کے شروع میں “المصطفی ویلفئر ٹرسٹ” کی فلسطینیوں کے لئے کی جانے والی خدمات کو سراہا اور اپنی پارٹنر چیریٹی قرار دیا ہے۔
ہم عمان سے اسرائیل داخل ہوئے اور ایک دفعہ پھر فلسطین کے سفر پر چل دئیے راستے میں ہر دم اس بات کا خطرہ موجود تھا کہ ہمارے ان پے در پے وزٹ کرنے پر سوال اُٹھایا جا سکتا ہے ہمارے یہ خدشات قدرے درست بھی ثابت ہوئے بہر کیف کئی قسم کے سیکورٹی چیکس کے بعد جب اُن مہاجر کیمپوں تک پہنچے تو پتا چلا کہ یہ فلسطینی مہاجر مشرقی یروشلم اور لبنان سمیت اُردن، شام، غزہ اور مغربی کنارے کے 58 پناہ گزین کیمپوں میں رہتے ہیں ۔
فلسطینی پناہ گزینوں کے حالات زندگی کیسے ہیں
ہم نے دیکھا کہ بہت سے فلسطینی پناہ گزینوں اور ان کے خاندانوں کے روزمرہ کے تجربات غربت اور امتیازی سلوک سے عبارت ہیں۔ کئی عرب میزبان ممالک میں فلسطینی پناہ گزین مقامی شہریت حاصل نہیں کر سکتے اور اس لیے وہ کئی دہائیوں سے وہاں بے وطنی کی زندگیاں گزار رہے ہیں۔ یہ پناہ گزین مصر میں بھی رہتے ہیں، جہاں گزشتہ سال اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ شروع ہونے کے بعد سے ایک اندازے کے مطابق دو لاکھ کے آس پاس افراد پہنچ چکے ہیں۔ اسرائیل میں بھی 15 لاکھ فلسطینی اسرائیلی شہری رہتے ہیں جو ہر وقت دباؤ اور خوف کا شکار رہتے ہیں۔ “المصطفی” نے نابلس سے امدادی سامان کے جو ٹرک تیار کروائے تھے انہیں کئی گھینٹوں تک یہاں تقسیم کیا اس کے ساتھ ساتھ مقامی کرنسی کی شکل میں بھی بلا امتیاز ان بے کسوں و بے آسرا کی مدد کی۔
مرکزی فوائد جنہیں ضرورتمندوں تک پہنچایا گیا
فوڈ سیکیورٹی
تقریباً 32,000 خاندانوں نے فوڈ پیک حاصل کیے ہیں، جس سے متاثرہ کمیونٹیز میں بھوک میں نمایاں کمی آئی ہے۔ 5 سے 7 ارکان پر مشتمل ہر خاندان کے ساتھ، اس کا ترجمہ تقریباً 224,000 افراد سے ہوتا ہے جن کی مدد کی جاتی ہے۔
صاف پانی
20,000 لوگوں کو پینے کے صاف پانی تک دیت کی رسائی فراہم کی گئی ہے، جس سے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے خطرے کو کافی حد تک کم کیا گیا ہے۔ یہ یونٹ 10 اکتوبر 2023 سے کام کر رہے ہیں، اور مجموعی طور پر رسائی کے تقریباً 8.7 ملین واقعات پیش کر چکے ہیں، جو بار بار مستفید ہونے والوں کی عکاسی کرتے ہیں۔
طبی امداد
تقریباً 80,000 افراد ماہانہ طبی سامان حاصل کرتے ہیں، جو کہ فوری اور جاری صحت کی دیکھ بھال کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔ اب تک 960,000 افراد طبی امداد سے مستفید ہو چکے ہیں۔
طبی اور ہسپتال کی معاونت
المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ فلسطین اور غزہ کے چھ اہم اسپتالوں کو مدد فراہم کر رہا ہے، انہیں طبی سامان اور سازوسامان فراہم کر رہا ہے۔ ان ہسپتالوں میں شامل ہیں:
* فیلڈ ہسپتال – تل الحوا، جنوبی غزہ کی پٹی
* فیلڈ ہسپتال – خان یونس، جنوبی غزہ کی پٹی
ریڈ کریسنٹ فیلڈ ہسپتال – خان یونس، جنوبی غزہ کی پٹی
* فیلڈ ہسپتال – نابلس، مغربی کنارے
* اردنی سرجیکل اسٹیشن – رام اللہ، مغربی کنارے
* اردنی سرجیکل اسٹیشن – جینن، مغربی کنارے
یہ ہسپتال کی مدد انتہائی مشکل حالات میں زخمیوں اور بیماروں کے لیے طبی خدمات کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری رہی ہے۔ جاری امداد کے ساتھ، المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کا مقصد فوری ضرورت میں مزید لوگوں کی مدد کے لیے اس تعاون کو برقرار رکھنا اور اسے وسعت دینا ہے۔
غزہ کے لیے ہمارے ڈیلیوری پارٹنرز
لبنان سے پہلے
* مصری ہلال احمر
* فلسطینی ہلال احمر
* UNRWA – فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی
* رائل ہاشمائٹ ٹرسٹ – اردن ( Royal Hashemite Trust )
* مصر ہیلتھ کیئر اتھارٹی۔ (EHA)
مذکورہ بالا اداروں کے تعاون سے غزہ میں پانچ فیلڈ ہسپتال، چھٹا ہسپتال خان یونس میں اور اب ساتواں ہسپتال مصر کی ہیلتھ اتھارٹی کیساتھ مل کر سوئس ٹنل کے پاس بنایا جائے گا۔
فلسطین کے بعد لبنان میں امدادی کارروائیاں
وسط اکتوبر 2024 جب غزہ کے بعد لبنان پر بھی جنگ پوری طاقت سے مسلط ہو چکی تھی دو ہزار سے زیادہ لوگ بیروت اور گرد و نواح کے علاقوں میں مارے جا چکے تھے، لبنان میں موجود “المصطفی ویلفئیر ٹرسٹ” کی مقامی معاون چیریٹی کے مطابق دیہاتی علاقوں سمیت بیروت شہر تک کی درجنوں عمارتوں پر بمباری معمول بن چکا ہے ہر طرف بے یقینی اور موت رقصاں ہے لبنان آنے والی دُنیا بھر کی فلائٹس بند ہو چکی ہیں ہم ریلیف ایفرٹس تو کر رہے ہیں لیکن جان کا خطرہ ہمہ وقت بنا رہتا ہے لیکن اس قدر خطرات کے باوجود چیئرمین “المصطفی ویلفئر ٹرسٹ” نے ایک آفس میٹنگ میں خود بیروت جانے کی ٹھان لی انہیں ہر پہلو سے باور کرایا گیا کہ یہ سفر خطرے سے خالی نہیں ہو گا بتایا گیا کہ لبنان حکومت نے اپنی سرکاری ویب سائیٹ پر انتباہ کر رکھا ہے کہ جو کوئی کبھی اسرائیل گیا تھا وُہ لبنان نہ آئے لیکن اس بار بھی سوچ یہی تھی کہ ڈونرز کی ہمیں دی گئی امانتیں اصل حقداروں تک پہنچانے کے لئے بذات خود لبنان پہنچا جائے، صرف لبنان کی اپنی قومی ائر لائن ہی محدود پیمانے پر چل رہی تھی چنانچہ ایک دفعہ پھر ہم نے رخت سفر باندھ لیا، آگے کیا مشکلات پیش آنے والی ہیں اس کا اندازہ ہمیں لندن کے ہیتھرو ائر پورٹ سے ہی ہونا شروع ہو گیا جب چیک ان پر ہی ہمارا انٹرویو کیا گیا کہ اس برستی آگ میں آپ بیروت کیا لینے جا رہے ہیں، اس انٹرویو کے بعد ایک دوسرا انڑویو جہاز پر سوار ہونے سے پہلے آخری لاؤنج میں لندن میٹروپولیٹن پولیس کے دو اہلکاروں نے کیا اور وہی سوالات کئے جو پہلے پوچھے جا چکے تھے ہم نے اُنہیں بتایا کہ چیریٹی تنظیم ہیں اور ریلیف ایفرٹس کے لئے جا رہے ہیں اور اس مقصد کے لئے فنڈز پہلے ہی بینک کے زریعے ٹرانسفر کر چکے ہیں، پھر بھی اُنہوں نے ہمارے پاسپورٹس کی فوٹو، گھر کا ایڈریس اور فون نمبر لے کر جانے کی اجازت دی۔
جہاز میں بیٹھے تو ۷۰ % جہاز خالی تھا کوئی ایک بھی ٹورسٹ نہیں تھا سوائے ہمارے۔ لندن سے بیروت تک کوئی ساڑھے چار گھینٹے کا سفر تھا، جب ہم بیروت سے تقریبا ۴۰ منٹ دور تھے تو ہم نے کھڑکی سے دیکھا کہ بادلوں کے درمیان ہر تین چار سیکنڈ کے بعد آگ کے شعلے بلند ہوتے ہیں جیسے کہ دو میزائل آپس میں ٹکرا رہے ہوں۔
میں نے اپنے ساتھیوں اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا جس طرف یہ میزائل ایکدوسرے سے ٹکرا رہے ہیں ہمارا جہاز بھی تو اُسی طرف بڑھ رہا ہے، کس انجانے خطرے کے پیش نظر خوف ہمارے رَگ و پَے میں سَرایَت کَرنا ایک فطری عمل تھا خیران کُن بات یہ تھی کہ دیگر مسافر کو یقیناً لبنان کی مقامی باشندے تھے سب انتہائی پُر سکون تھے حالانکہ وُہ بھی ہماری طرح بادلوں میں جاری میزائلوں کی آنکھ مچولی دیکھ رہے تھے۔ شائد یہ سب نسلوں سے اس قسم کے” آگ و خون کا کھیل “ دیکھ کر عادی ہو چکے تھے ، اللہ اللہ کر کے جہاز بیروت کے ہوائی اڈے کے اوپر پہنچ گیا تو پریشان کُن حد تک ائر پورٹ جہازوں سے بالکل خالی تھا ایک ہمارا جہاز اُترا اور بس مکمل خاموشی کا راج !
ہم لاؤنج میں آئے تو نہ کوئی سٹور کُھلا دکھائی دیا نہ ہوائی اڈوں والی کوئی روائتی رونق ہی ہمیں نظر آئی۔ امیگریشن کاؤنٹرز کے قریب پہنچنے سے ذرا پہلے دو لوگ ہماری طرف بڑھے اور اُنہوں نے بلند آواز سے ہمارا نام لیا، میں تو خوش ہوا کہ یہ بیروت میں کام کرنے والی “المصطفی” کی مقامی ٹیم کے لوگ ہیں جو ہمیں رسیو کرنے اندر آئے ہیں لیکن جلد ہی میری یہ خوش فہمی یا غلط فہمی تشویش میں بدل گئی جب اُنہوں نے کہا ہم امیگریش حکام ہیں آپکا انٹرویو کریں گے۔ اس کے بعد ایک کمرے میں بیٹھا کر کوئی چار لوگوں نے ہم پر کیوں کیا کیسے کی بوچھاڑ کر دی زیادہ تکرار کے ساتھ ہمیں یہ پوچھا گیا کہ اسرائیل کیوں گئے تھے اور پھر یہاں کیوں آئے ہو جب کہ ہم نے ویب سائٹ پر منع کیا ہے کہ جو اسرائیل جائے وُہ ہمارے ہاں نہ آئے۔ ہمارا انہیں ایک ہی جواب تھا کہ اسرائیل مسجد اقصیٰ دیکھنے اور فلسطینیوں کی مدد اور بیروت آپ کے ہم وطنوں کی مدد کے لئے آئے ہیں ! لیکن سچ پوچھیئے تو اسقدر تنگ تو بین گورین ائر پورٹ پر اسرائیلی امیگریشن نے نہیں گیا تھا جتنا بیروت والوں نے ایک ڈیڑھ گھینٹہ تک بیٹھا کر ہم سے اور ائر پورٹ پر ہمیں رسیو کرنے آنے والوں سے تفتیش کی، بہر حال بعد از خَرابِی بِسیار ہمیں کلیئر کر دیا گیا۔
“المصطفی ویلفئر ٹرسٹ” یوں تو پہلے سے لبنان کے جنگ ذدہ علاقوں میں مصروف عمل تھی لیکن وہاں بذات خود جا کر اور حالت زار اپنی آنکھوں سے دیکھ اور ڈرونز ، بموں اور اپنے آس پاس پل پل ہوتے ہوئے دھماکوں کو رگ جاں میں محسوس کر کے جو آگاہی ہوئی وہ لندن بیٹھ کر ہو ہی نہیں سکتی تھی۔
ہمیں بیروت کے مضافاتی اور جنگ ذدہ علاقوں میں جا کر معلوم ہوا کہ غزہ میں ہونے والی تباہی تو یقیناً بہت بڑی ہے لیکن لبنان میں بھی سفاکی و دہشت میں کوئی کمی نہیں ہے ہم جس علاقے میں بھی گئے بم دھماکوں کی آوازیں آس پاس ہی آ رہی ہوتیں کئی عمارتیں ایسی بھی دیکھیں جو مکمل طور پر تباہ ہو چکی تھیں اور ان کے ملبے میں بیسیوں لوگوں کی ڈیڈ باڈیز ابھی تک دبی ہوئی تھیں جنہیں لکالنے کے لئے نہ تو وسائل تھے نہ مشینری۔ اسرائیل کے حملوں میں پورے کے پورے خاندان ہلاک ہو چکے تھے ملک بھر سے لاکھوں لوگوں کو نقل مکانی کرنا پڑی اور شہری تنصیبات اور انفراسٹرکچر کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا تھا۔ ان حالات میں طاقت کے متناسب استعمال، جنگی اہداف میں تمیز اور شہری آبادی میں انتہائی ضروری اور بالاحتیاط عسکری کارروائی کرنے کے اصولوں کی پاسداری کے حوالے سے ایک بڑا سوالیہ نشان تھا۔
امدادی کام کرنے والی ہماری ٹیم نے بتایا کہ بیروت میں ابھی دو روز پہلے ایک رہائشی عمارت پر اسرائیل کے فضائی حملے میں 30 افراد ہلاک اور 65 سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں اس روز ملک بھر میں کی جانے والی بمباری میں مجموعی طور پر 84 ہلاکتیں ہوئیں اور لبنان میں روزانہ کم و بیش 250 افراد کی ہلاکت ہوتی ہے اور اکتوبر 2023 کے بعد مجموعی ہلاکتیں 3,700 تک پہنچ گئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 14 ماہ کے دوران لبنان اور اسرائیل میں کم از کم 240 بچوں کی ہلاکت ہوئی ہے۔
اسی قسم کے جنگی حالات ، بارش کی طرح ہوتی ہوئی بمباری، میزائلوں کی گن گرج اور خطرات کے جلو میں ہم مقامی چیریٹی کے لوگوں اور اپنی ٹیم کے ہمراہ ہم چار روز تک مسلسل مختلف سکولوں، کالج اور یونیورسٹیز ( جنگ شروع ہونے کے بعد سے بند ہیں ) میں مہاجر ہو کر رہنے والے لوگوں میں لاکھوں پاؤنڈ مالیت کے گرم کپڑے، ضروریات زندگی کی بنیادی ضروری اشیا اور دو وقت کا تازہ گرم کھانا تقسیم کرتے رہے۔
“المصطفی ویلفئر ٹرسٹ” کے چیئرمین عبدالرزاق ساجد نے اسی دوران ہنگامی طور پر ایک فیصلہ کیا کہ اسی جنگ ذدہ علاقے کے آس پاس ایک کچن کیوں نہ قائم کر دیا جائے! چنانچہ اس فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کے کئے تخمینہ لگوایا گیا اور گزشتہ کئی مہینوں سے اب یہ کچن مصیبت کے مارے لبنان کے اُن لوگوں کے لئے کھانا فراہم کر رہا ہے جو عزت نفس رکھنے والے باعزت لوگ ہیں لیکن جنگ کی وجہ سے کسمپرسی کی صورتحال میں ہیں۔ ہم جتنے دن وہاں رہے جان کا خطرہ چوبیس گھینٹے ہمارے آس پاس منڈلاتا رہتا تھا۔
یہ بات درست ہے کہ فلسطین اور لبنان کے ہر سفر میں موت کا خطرہ ہمہ وقت ہمارے لئے منڈلاتا رہا تھا اس بات کا بھی قوی امکان رہتا تھا کہ ہمیں کسی سیکورٹی معاملے میں پابندی کا سامنا کرنا پڑے لیکن چیئرمین “المصطفی ویلفئر ٹرسٹ” عبدالرازق ساجد کا ہر سفر کے موقع پر بھی اور بعد میں بھی یہی نقطۂ نظر ہوتا تھا کہ
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔
کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ
(آل عمران:111)
تم بہترین امّت ہو جو تمام انسانوں کے فائدہ کے لئے پیدا کی گئی ہو۔ تم اچھی باتوں کا حکم دیتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے روئے زمین کو انسانوں سے آباد کیا ، ان کے آپس میں رشتے قائم کئے ،باہم ایک دوسرے کے ساتھ ضرورتیں وابستہ کیں ،حقوق و فرائض کا ایک کامل نظام عطا فرمایا، دوسروں کو فائدہ پہنچانا اسلام کی روح اور ایمان کا تقاضہ ہے ایک دوسرے کی مدد سے ہی کاروانِ انسانیت مصروف سفر رہتا اور زندگی کا قدم آگے بڑھتا ہے اگرانسان انسان کے کام نہ آتا تو دنیا کب کی ویرانہ بن چکی ہوتی ۔ انسان اپنی فطری، طبعی، جسمانی اور روحانی ساخت کے لحاظ سے سماجی اور معاشرتی مخلوق ہے اسے اپنی پرورش، نشو و نما، تعلیم و تربیت، خوراک و لباس اور دیگر معاشرتی و معاشی ضروریات پوری کرنے کے لئے دوسرے انسانوں کا کسی نہ کسی لحاظ سے محتاج ہے۔
خدمت خلق وہ جذبہ ہے جسے ہر مذہب و ملت اور ضابطہ اخلاق میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ مذہب میں سے انسانیت اور خدمت نکال دی جائے تو صرف عبادت رہ جاتی ہے اور محض عبادت کے لئے پروردگار کے پاس فرشتوں کی کمی نہیں۔
یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں
ساجد صاحب کے مطابق خدمت خلق ایک جامع تصور ہے یہ لفظ ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے ، خلق کے اندر روئے زمین پر رہنے والے ہر جاندار کا اطلاق ہوتا ہے اور ان سب کی حتی الامکان خدمت کرنا ، ان کا خیال رکھنا ہمارا فرض ہے کیونکہ انسان انسان ہونے کی حیثیت سے ہمدردی کا مستحق ہے خواہ اس کا تعلق کسی قوم اورمذہب سے ہو۔ بلا شبہ انسانوں کے لئے انسانوں کا ایثار ہی اس دُنیا کا حقیقی حسن ہے وہ لوگ واقعی بڑے باہمت ، قابل داد اور قابل ستائش ہیں جو دوسروں کے کام آتے ہیں ، سورج کی عظمت یہ نہیں کہ وہ روشنی اور حرارت کا منبع ہے بلکہ سورج کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنی روشنی اور حرارت سے پوری دنیا کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ عبدالرزاق ساجد کا کہا یہ شعر اُن کی خدمت انسانی کی لگن اور جستجو کی درست غمازی کرتا ہے کہ
اللہ کا بندہ وہی ہے مری نگاہوں میں
جو ہو شمار ہر انساں کے خیر خواہوں میں
اللہ نہ جس سے ہو راضی وہ بندگی کیا ہے
کسی کے کام نہ آئے تو آدمی کیا ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں