106

سورۃ البقرہ کی آیت 187کی تفسیر (2)

گذشتہ سے پیوستہ

مفسرین کا ایک طبقہ یہ خیال رکھتا ہے کہ حدود اللہ سے مراد جائز اور ناجائز حلال اور حرام کے وہ احکام ہیں جو اللہ نے قرآن حکیم میں بیان فرماتے ہیں جبکہ دوسرا طبقہ مفسرین کا یہ نظریہ رکھتا ہے کہ آیت متلو میں جو چار احکام بیان کئے گئے ہیں انہیں حدود اللہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ سیاق کلام سے دوسرا نظریہ ہی معتبر معلوم ہوتا ہے (232)۔
آیت میں یہ نہیں کہا گیا کہ ان حدود کو عبور نہیں کرتا بلکہ یہ کہا گیا کہ ان سے قریب بھی نہیں پھٹکنا۔ ہو سکتا ہے کہ کسی حد سے قریب ہونے کی وجہ سے شہوت کی زیادتی کی وجہ سے یا شک میں مبتلا ہونے کی بنا پر گناہ سرزد ہو جائے اس لئے فلا تقربوها تم ان سرحدوں سے قریب تک نہ جاؤ تا کہ تقوی کی حدود کی رعایت برتی جاسکے۔
تفسیر صافی نے لکھا کہ محرمات الہٰی اس کی چار دیواریاں ہیں اگر کوئی شخص ان حدود خانہ کے گرد اپنی بھیڑ بکریاں لے جائے تو اس کا ڈر ہے کہ وہ ممنوعہ علاقے میں چلی جائیں (233)۔ حدود، حد کی جمع ہے دو چیزوں کے درمیان آڑ کو حد کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے اپنے احکام مشروع فرمائے ہیں تاکہ وہ حق اور باطل کے درمیان آڑ بنیں اور اپنے بندوں کو حکم دیا کہ وہ احتیاط کریں تا کہ احکام کی مخالفت اور حدود سے تجاوز کرنے سے بچا جا سکے۔ حدیث شریف میں ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔ اللہ کی حد کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کے روکے ہوئے امور سے قریب نہ جایا جائے اس لئے کہ جو قریب جاتا ہے وہ لا محالہ اس کے اندر چلا جاتا ہے (234)۔
كذلك يُبَيِّنُ اللَّهُ ابْتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ
یہاں کاف محل نصب میں ہے اس اعتبار سے کہ مصدر محذوف کی صفت واقع ہوتی ہے۔ قرآن مجید کے نزول اور آیات باری کے ابلاغ کا مقصد متعین کیا گیا ہے کہ خدا خوفی ، تقویٰ اور پر ہیز گاری لوگوں کے اندر سرایت کر جائے ۔ یہی وہ قیمتی اور عظیم مقصد ہے جس کی اہمیت اور قدرو قیمت صرف ان لوگوں کو معلوم ہے جن کی روحیں ایمان سے ہر وقت سرشار رہتی ہیں لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ“ چند لفظ ہیں لیکن روزہ سے متعلق احکام کی روحانیت کا ثمر عمل کرنے والے لوگوں کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں۔ روزوں کا بیان تشکیل تقوی کی ثمر بیانی سے شروع ہوا تھا اور ختم بھی تقوی ہی کے موضوع پر ہورہا ہے۔ روزوں کی ابتدا اور انتہا تقوی ہی تقوی ہے۔
آیت کا اسلوب سہل ممتنع کی خوبصورت مثال
اس مسئلہ پر خامہ فرسائی سے پہلے امام مالک کا ایک نایاب قول نقل کرنا چاہوں گا، آپ فرماتےہوتے تھے (235):
اگر میرے پاس کوئی ایسا آدمی لایا جائے جو عربی زبان کی نزاکتوں اور اسلوب قرآن کی اہمیت کو نہیں جانتا اور وہ قرآن کی تفسیر کرتا ہے تو میں اس کو ایسی سزا دوں گا کہ وہ دنیا کے لئے نمونہ اور لوگوں کے لئے عبرت بن جائے گا۔
ہمارے اسلاف کے نزدیک قرآن فہمی میں عربی ادب اور جابلی ادب سے واقفیت انتہائی ضروری تھی۔ اس راہ پر پڑے بغیر قرآن مجید سمجھنا از بس دشوار رہتا ہے۔
اب آیئے ہم دیکھتے ہیں کہ اس آیت میں اسلوب کس طرح ابلاغ اور بلاغت کے عرش کو چھورہا تھا:
پہلا قرینہ
آیت نہ بہت طویل ہے اور نہ اس میں تقصیر ہے۔ اعتدال بیان اسلوب کو دلچسب بنائے ہوئے ہے۔
دوسرا قرینہ
لفظوں کا انتخاب شہامت رکھتا ہے جو شہد کے چھتے کی طرح مٹھاس سے بھرے ہوئے ہیں۔ ہر لفظ کی جاذبیت اور کشش معنویت کا راز محسوس ہو رہا ہے۔
تیسرا قرینہ
آیت میں نقطوں کی تعداد تقریباً ستر ہے لیکن جو مسائل اس آیت کی روشنی میں مستفاد کئے گئےہیں وہ ایک ہزار سے بھی زیادہ ہیں۔
چوتھا قرینہ
قرآن مجید مجاز کی مستند زبان عربی میں نازل ہوا ہے لیکن اس نے اپنی معنویت کو نکھارنے کے لئے دوسرے قبائل کی زبانیں بھی استعمال کی ہیں ۔ زیر تعبیر آیت ہاشمیوں کی بولی سے منتخب کی گئی لیکن اس کا اسلوب ہر دل اور ہر روح میں اترنے والا ہے۔ یہ آیت پڑھ کر محسوس ہو جاتا ہے کہ یہ کلام اللہ کا ہے یہ کسی بشر کا کلام نہیں ۔
پانچواں قرینہ
عبد الملک اصمعی طویل عرصہ تک عرب کے ریگستانوں میں پھرتے رہے۔ غرض یہ تھی کہ قرآن مجید کے معانی اور مطالب سے متعلق نظائر جمع کریں۔ ان سے جب کوئی شخص کسی آیت کا معنی پوچھتا وہ کہتے تھے لفظوں کا معنی تو معلوم نہیں لیکن عرب اس کو اس مفہوم کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ قرآن مجید کی اس آیت میں بھی آپ محسوس کریں گے کہ آیت کا عمود لفظوں سے بالا ” عربیت میں پنہاں ہے۔ اس قسم کے معجزے آپ کو قرآن مجید کے کئی اور مقامات میں بھی دیکھنے میں آئیں گے۔
چھٹا قرینہ
کھانے نہ کھانے پینے نہ پینے اور جماع کرنے نہ کرنے کی باتیں آیت کا موضوع اور عنوان ہے۔ زبانوں کے عالمی ادب اس قسم کی باتوں سے بھرے ہوئے ہیں لیکن قرآن مجید کا بیان اتنا ستھرا، بلند، روحانی اور لذت بھرا ہے کہ دل آیت کی تلاوت سے مسحور ہو جاتا ہے۔ سوقیانہ ذہنیت لمحہ بھر کے لئے بھی طبیعت پر مستولی نہیں ہوتی، یہی انداز تلاوت آیت کی تلاوت کو عبادت بنا دیتا ہے ۔ عبدالملک اصمعی کے الفاظ خوبصورت ہیں کہ قرآن کا اعجاز سراسر اس کی سادگی ، برجستگی اور بشری ذہنیت سے ماورایت میں ہے۔
ساتواں قرینہ
کلام کی عظمت اس کے مجازات اور ان کے فہم سے وابستہ ہوتی ہے۔ جس کلام میں استعاراتی قرائن نظم کی شریعت کو قائم رکھیں اور بات کو پوری طرح واضح کر دیں وہ کلام بہت بالا کلام ہوتا ہے۔ یہاں ستر لفظوں کی اس آیت میں پندرہ استعارے اور مجاز استعمال کئے گئے اور یہ ندرت کی اعلیٰ مثال ہے۔
(1) پہلا مجاز راتوں کا حلال ہوتا ہے۔ کسی فعل کے حلال ہونے کے لئے راتوں کا حلال ہونا مجاز کی خوبصورت قسم ہے۔
(2) دوسرا مجاز کھانے پینے سے رکنے کے لئے صوم “لفظ کی جمع ” صیام ” ہے۔ اب اصطلاح حقیقی معنوں سے زیادہ مجازی معنوں میں قابل صد فہم ہو گئی ہے۔
(3)تیسرامجاز جماع اور جمعیت کی باتوں کے لئے الرفت” کا استعمال ہے جماع کی باتوں کو یہاں جماع کے قائم مقام قرار دے دیا گیا ہے۔
(4) چوتھا مجاز عورتوں کا مردوں کا لباس ہوتا ہے۔
(5) پانچواں مجاز مردوں کا عورتوں کا لباس ہونا ہے۔
(6) چھٹا مجاز راتوں کو جماع کرنے کے لئے نفسوں کی خیانت سے تعبیر ہے۔
(7)ساتواں مجاز فتاب ” کا لفظ ہے اس میں جیسے پہلے ناراض ہونے کا مفہوم ہے اور پھر اُس کیفیت کو ختم کر کے رجوع رحمت کا ا ہے۔ اسلوب میں حیرت انگیزی ہے۔
(8) آٹھواں مجاز معاف کرنے کے لئے عقا” در گذر کرنے کی اصطلاح استعمال کرنا ہے۔ یہاں خیانت نفسی کے آثار کو مٹادینے کے لئے عفا مجاز ا استعمال ہوا ہے۔
(9) نواں مجاز جماع کے لئے مباشرت لفظ کا استعمال ہے۔ لغوی معنی تو جلد کا جلد سے مل جانا مراد ہوتا ہے لیکن یہاں مباشرت لفظ مکمل جماع کے لئے لانا مجازا ہے۔
(10) دسواں مجاز اولاد تلاش کرنے کے لئے وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ“ کا استعمال ہے۔ یہ بھی مجاز ہے ۔ لفظ حقیقی معنوں میں استعمال نہیں ہوئے ہیں۔
(11) گیارہواں مجاز ” مَا كَتَبَ کا ہے یعنی بیٹا ہوگا یا بیٹی اس صراحت کی ” ما كتب ” لکھ کر تقدیر مراد لے لی گئی ہے۔
(12) بارہواں مجاز کالا دھاگہ اور سفید دھاگہ صبح صادق اور صبح کاذب کے لئے بطور استعارہ لائے گئے ہیں یہ استناد بھی مجازی ہے۔
(13) تیر ہواں مجاز لفظ فجر ہے۔ یہ بھی پھاڑنے کے حقیقی معنوں میں نہیں بلکہ ایسے ہے جیسے رات کا کلیجہ چیر کر فجر طلوع ہوئی ہے۔ یہ بھی مجاز ہے۔
(14) چودہواں مجاز اعتکاف لفظ کا استعمال محبوب کی دہلیز پر خیمہ لگا لینے کے معنوں میں استعمال ہے۔
(15) اور پندرہواں مجاز حلال اور حرام میں سرحد قائم کرنے کے معنوں کو حدود سے تعبیر کرنا ہے اور
یہ بھی مجازی ہے۔
والله اعلم
آٹھواں قرینہ
قرآن مجید کی اس آیت میں پندرہ مجازات استعمال کئے گئے لیکن آخر میں قرآن مجید نے کہا کہ اللہ تعالیٰ یوں ہی لوگوں کے لئے اپنی آیات بیان کرتا ہے۔ بیان کرنا تو کسی چیز کو کھول دینا ہوتا ہے۔ اسلوب کی نیرنگی تو ہے کہ پردوں میں چھپاتے بھی ہیں اور ہر بات اشاروں سے بتاتے بھی ہیں۔
فيها سبحن الله
نواں قرینہ
بلوغت کا نواں قرینہ آیت کی معنویت ہے۔ دیکھنے میں یہ آسان سابیان لگتا ہے لیکن قلم لے کر اگر کوئی لکھنا چاہے تو امتناع کا تازیانہ قلم کوشکستہ کر دیتا ہے۔
دسواں قرینہ
آیت کا دروبست توحید کے ساتھ ہر حکم کو مربوط رکھتا ہے۔ اس آیت میں کوئی چیز نفس ساز یا تخیلات کا کرشمہ نہیں بلکہ سب کچھ من جانب اللہ ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں