420

میاں نواز شریف کی واپسی ؟


میاں نواز شریف اور مریم نواز کی سزاؤں کے خلاف اپیل کی سماعت یکم ستمبر کو ہوئی جس میں نواز شریف صاحب کی ٹیم نے انکی حاضری سے استثناء کی درخواست کی اور اسکی سماعت ہوئی اور مریم نواز بقلم خود اپنے وکلاء کیساتھ پیش ہوئیں ۔مسلم لیگی کارکنوں نے حسب معمول مریم نواز شریف کا ساتھ دیا۔ عدالت نے میاں صاحب کو واپسی کی تلقین کرتے ہوئے سماعت ستمبر کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کردی۔ دس ستمبرویسے بھی قریب ہے اور میاں صاحب کی زندگی میں خصوصی اہمیت کا حامل ہے اور وہ اس دن 2007 میں پہلے بھی آنے کی کوشش کرچکے ہیں سو یہ ٹرائیل اور اسکے مضمرات انکے لئے کوئی نئی بات نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا حالات اس نہج پر آچُکے ہیں کہ میاں صاحب کو عدالتی ہدایت پر نہیں سیاسی دعوت پر بلایا جائے۔
کیا میاں صاحب طبی طور پر صحت مند ہیں کہ اگلی تاریخ پر آسکیں ؟ سب سے پہلا سوال ہے کیا ڈاکٹر میاں صاحب کو اس قابل سمجھتے ہیں کہ وہ بنا علاج مکمل کئے سفر کرسکیں ۔ انکے علاج کی کتنی ضرورت ہے۔ کیا بنا جائے کام بن سکتا ہے ۔ کیا متبادل راستے استعمال کرکے کام چلایا جاسکتا ہے۔ اگر میڈیکل پرابلم اتنا مسئلہ نہیں تو جانے کا سوچا جاسکتا ہے اور آگے بڑھا جا سکتا ہے ۔ وگرنہ کنسلٹنٹ کی رائے حتمی اور بہترین دفاع ہے کیونکہ اگر ڈاکٹر ہی اجازت نہ دے تو مریض کی جان سے نہیں کھیلا جاسکتا۔ میڈیکل رپورٹ میڈیکل رپورٹوں سے ہی ڈیل کی جاسکتی ہے اسکے لئے بھی کمیشن بنانا پڑے گا۔
میاں صاحب کے آنے پر کیا امید کرنی چاہیے؟
مجھے ارشد ملک کی ویڈیو کے بعد اسلام آباد اپیل کورٹ یا سپریم کورٹ کی حد تک یہ امید ہے کہ میرٹ پر اپیل نہ بھی جیتی جائے تو معاملہ ری ٹرائیل کے لئے ٹرائیل کورٹ کو بھیجے جانے کے امکانات بہت زیادہ ہیں کیونکہ عدالتیں ایسے فیصلوں کو محفوظ نہیں سمجھتیں جن میں بیرونی مداخلت ، سیاسی اثر اور تعصب کا عنصر شامل ہو۔
میرٹ پر اپیل جیتنے کے لئے مقتدر طاقتیں وکلاء کی ٹاپ ٹیم، سیاسی صورت حال، عدالتوں کا موڈ ، سیاسی جماعتیں اور سٹریٹ پاور میاں صاحب کے ساتھ ہونی چاہیے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پانامہ اور جے آئی ٹی کے زریعے نااہلی کس نے کروائی، ڈان لیکس کس نے کروایا، آر ٹی ایس کس نے فیل کیا اور ڈبے کس نے اٹھائے اور نیب کے زریعے سزائیں کس نے دلوائیں۔ اگر ہماری اپنے حزب مخالف اور طاقتور حلقوں سے بات چیت بہتر ہے تو عمران خان مسئلہ نہیں ہے۔ اگر ان سے بات چیت نہیں ہے تو دیکھیں کتنی دیر تک جیل میں رہنا پڑے گا اور کیا طبی طور پر ایسا ممکن ہے۔ اگر ایسا ممکن ہے تب ہی اگلی باتیں سوچنا چاہیے۔ اگر میاں صاحب مزید قربانی کے لئے تیار ہیں تو اسکا سیاسی فائدہ آج نہیں تو کل مریم نواز شریف کو پہنچے گا۔ چیف کی مدت ملازمت میں توسیع اور اسٹیبلشمنت کے ڈرائیونگ سیٹ پر ہونے سے مقتدر حلقوں کے نیوٹرل رہنے کی امید بہت کم ہے کیونکہ اس وقت ہر چیز انکے کنٹرول میں ہے اور وہ ہر فیصلے سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ صرف مسئلہ پی ٹی آئی حکومت کی نااہلی کا ہے جو کسی بھی فرنٹ پر اچھے نتائج نہیں دے رہی۔گراؤنڈ پر پارلیمان میں اور ماحول میں گرمی پیدا ہو تو آنے سے حکومت کی تبدیلی فاسٹ ٹریک پر ڈالی جاسکتی ہے لیکن ایسا رسک میاں صاحب کی زندگی پر نہیں لیا جاسکتا۔
میاں صاحب کے نہ آنے سے کیا ہوگا ؟ طبی بنیادوں پر نہ آنے سے یہ ہوگا کہ یہ طے ہوجائیگا کہ میاں صاحب بیمار ہیں اور اگر نہیں آتے تو میڈیکل رپورٹ کی وجہ سے انکی طبی مجبوری ، صحت کی ضرورت اور جینوئین وجہ کو ماننا ہوگا۔ ماننا پڑے گا۔ انکے نہ آنے سے بحیثیت جماعت مسلم لیگ نواز پر اثر نہیں پڑے گا کیونکہ ابھی تک میاں شہباز شریف نے معاملات کو سنبھالا دیا ہوا ہے اور پارٹی معاملات پر گراس روٹ لیول تک تبدیلیاں اور اصلاحات جاری ہیں۔ اگلے الیکشن اگر وقت سے پہلے بھی ہوں تو ان اقدامات کا پارٹی کو فائدہ ہوگا۔ مریم نواز گاہے بگاہے عدالتی پیشیوں پر ماحول کو گرما رہی ہیں اور سکوت میں ارتعاش پیدا کرتی ہیں ۔ یہ اگلے چھ ماہ چلتے رہنا چاہیے۔
قانونی طور پر عدالتیں اگر انکا عذر نہ مانیں تو انکے نہ آنے کے اوپر انکے خلاف جاسکتی ہیں لیکن بے نظیر کے کیس میں بھی معاملات سپریم کورٹ میں انکی غیر موجودگی میں ہی حل ہوئے تھے۔ ریلیف دینا ہو تو ہزار بہانے نہ دینا ہو تو ریلیف دینے کے لئے بھی عدالتیں لکیر کی فقیر بن جاتی ہیں اور ہر وہ قدم لیتی ہیں جس سے فیور دینے کا الزام نہ آسکے۔
میاں صاحب کے آنے اور نہ آنے کے سیاسی مضمرات کیا ہوں گے ؟ پارٹی لیڈر کے اپنے مقدمات میں عدالت آنے کے قانونی اور سیاسی مضمرات ہمیشہ پارٹی کے حق میں جاتے ہیں۔ انکے ووٹر سپورٹر کو باہر آکر سیاسی صورت حال پر اظہار خیال کو موقع ملتا ہے۔ سیاسی حرکت ہمیشہ برکت کا باعث بنتی ہے، اس وقت ماحول سیاسی سکوت کا شکار ہے۔ پاکستانی موسم بھی اب بہتر ہورہا ہے اسلئے جیل یا ضمانت تک جیل جانا بھی بہتر موسم میں ہوگا۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا اگلی گرمی تک حکومت تبدیل ہوچکی ہوگی یا ہوسکتی ہے۔ اس بات کا بیک ڈور ڈپلومیسی کے بغیر جواب نہیں دیاجاسکتا۔ اگر اے پی سی ہو اور اس میں حکومت ہٹانے کی بات ہو اور سیاسی جماعتیں میاں صاحب کے آنے کی حمایت کریں اور در پردہ مقتدر حلقے اپنے فرمائشی پروگرام پر کمپرومائز کرنے پر تیار ہوں تو حکومت کی تبدیلی پر بات چیت کے زریعے اور اسکے نتیجے میں آنا سود مند ہوسکتا ہے۔ بناکسی ڈائیلاگ کے کسی ریلیف کی امید رکھنا رسکی ہوسکتا۔ اگر میاں صاحب آجائیں اور حکومت تبدیل نہ ہو اور مجبوراً پارٹی کو سٹریٹ پاور پر آمادہ کیا جائے تو وہ وقت کا ضیاع ہوسکتا ہے کیونکہ بلدیاتی انتخاب یا جنرل انتخاب کے وقت ہی عوامی پہئیہ مکمل گھمانا سود مند ہوسکتا ہے۔ وہ وقت ہوگا جب لوگ اپنی رائے کا کھل کر اظہار کرنے کے موڈ میں ہوں گے۔ لانگ مارچ میاں صاحب کے بغیر نہ ہوگا لیکن کیا وہ مارچ ہونے دیں گے ہی ملئین ڈالر کا سوال ہے۔ اگر میاں صاحب کو لگتا ہے کہ انکے آنے سے سیاسی ماحول میں تبدیلی آنے کے امکانات زیادہ ہیں تو انکو جیل سے باہر رکھنے اور عدالتوں سے ریلیف لینے کے لئے جدوجہد کرنا پڑے گی-
میاں صاحب کے آنے اور نہ آنے کے قانونی مضمرات کیا ہوں گے ؟ عموماً اپیل کے لئے اپیل کنندہ کو عدالت میں پیش ہونا پڑتا ہے۔غیر موجودگی میں اپیلیں کم ہی چلتی ہیں ری ٹرائیل آرڈر ہوجاتے ہیں اگر قانونی نکات ساؤنڈ ہوں۔ نہ آنے سے کوئی خاص قانونی مسئلہ نہیں پڑتا کیونکہ طبی وجہ بہت ساؤنڈ ہے۔ برطانیہ اور پاکستان میں تحویل ملزمان کا معاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے زبردستی واپسی میں کم از کم دو سال لگ سکتے ہیں۔ قانونی طور پر مکمل ریلیف کے امکانات پچاس فیصد سے کم ہیں۔ سپریم کورٹ بھی ابھی پرو ایکٹو موڈ میں نہیں اور وہ مقتدر طاقتوں کے خلاف جانے سے گریز کرے گی۔ مین سٹریم اینکرز زیادہ تر یوٹیوب پر ہیں ایسے میں لیگل لڑائی کے لئے عوامی پارلیمانی اور بار کی سپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔
آخرکار میاں صاحب کو کیا فیصلہ کرنا چاہئے ؟میرے خیال میں میاں صاحب کو چائے کی پیالی میں طوفان کو قانونی طبی ایڈوائس اور سیاسی پیش بینی سے ڈیل کرنا چاہیے۔میاں صاحب کا پاکستان واپس جانا پہلے طبی کلئیرینس سے مشروط ہونا چاہیے اور دوسرا واپسی پر قانونی ریلیف سے زیادہ سیاسی ریلیف سے مشروط ہو۔ اگر تبدیلی چھ ماہ میں نہیں آرہی تو انتظار کرنا بہتر ہے۔ اگر سیاسی تبدیلی آجاتی ہے تو اپیل آسانی سے ری ٹرائیل کی طرف جاسکتی ہے اور نیب اصلاحات کے نتیجے میں یہ ریفرنسز ختم ہوسکتے ہیں۔ پاؤنڈ آج 220 روپے کا ہے جس طرح حالات جارہے ہیں ایسی تبدیلی کو دھکا بھی لگایا جاسکتا ہے یا انتظار کیا جاسکتا ہے کہ وہ تبدیلی کی ضرورت ملکی سلامتی کی ضرورت بن جائے۔ ایک بات طے ہے کہ یہ انتظام عارضی ہے یہ سٹیٹس کو زیادہ دیر تک چل نہیں سکتا۔ عوامی حمایت یافتہ سیاسی انتظام کو واپس لانا پڑے گا اور اسٹیبلشمنٹ کو ایک دفعہ پھر 2009 کی طرح پردے کے پیچھے جانا پڑے گا۔
بیرسٹر امجد ملک سپریم کورٹ بار اور ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان کے تاحیات رکن اور برطانوی وکلاء کی تنظیم ایسوسی ایشن آف پاکستانی لائیرز کے موجودہ صدر ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں