545

ماں:‎دنیا میں اللہ کی سب سے بڑی نعمت دنیاوی زندگی کا سب سے بڑا‎سہارا جنت جس کے قدموں کے طفیل


ماں ایک ایسی ہستی ہے جس کے پاس سے چلے جانے سے یوں لگتا ہے جیسے دنیا ہی اُجڑ گئی ہے جبکہ پاس ہونے سے ایک طرح کی طمانیت کا احساس ہوتا ہے “ماں ” ایک ایسا لفظ ہے جس کے کہنے سے ادھیڑ عمری میں بھی نوزائیدگی کا تاثر اُبھرتا ہے ۔ خالق کائنات کی بنائی مخلوق اس دنیا میں جو تخلیق کے تمام مراحل کی کنجی ہے ۔

‎ہم میں سے اکثر اس نعمت سے لطف اندوز ہوتے ہیں جبکہ کچھ بچپن میں ہی اس عظیم ہستی کی شفقت سے محروم ہو جاتے ہیں ۔ جن لوگوں کو ماں ملی اور انہوں نے اس کی شفقت کے خزانے کو جی بھر کے حاصل نہ کیا انکی قسمت پر افسوس کے سوا کیا کیا جا سکتا ہے ۔ ماں اس دنیا میں اُولاد کے لیے رحمتوں ، برکتوں اور بہتری کا ایسا خزانہ ہے ، جس کی لازوال محبت اور بے تحاشہ پیار کسی شرط کے بغیر ہی میسر ہے ۔ایسا پیار اور جذبہ میں نے اپنی چھوٹی سی زندگی میں نہ کبھی دیکھا ہے نہ ہی محسوس کیا ہے ۔بچپن سے ہی ذمہ داریوں کا بوجھ اُٹھاتی عورت،ایک بہن بیٹی ، بیوی اور جب ماں بنتی ہے تو مرتے دم تک اس ذمہ داری کو نبھانے میں کوئی کسر نہی چھوڑتی ، اپنی اُولاد کے لیے برے حالات میں بھی اچھائی کے لیے سرکرداں اور ہر اچھے برے وقت میں دعا کے لیے ہاتھ اُٹھانے والی عظیم ہستی ماں ہی ہے، جب تمام دنیاوی راستے تقریبا مسدود ہوجاتے ہیں ۔ ماں ایک ایسا خیال ہے جسے دنیا خالق حقیقی تک پہنچنے یا اس مرحلے میں داخل ہونے کا پہلا زینہ قرار دیا جاسکتا ہے ۔
‎” ماں ” اس لفظ کی عظمت اور اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ مالک حقیقی نے اس کے قدموں تلے دنیا اور آخرت کے اس تحفے کو رکھ دیا ہے جو تمام مومنوں کے لیے اچھے کاموں کے عوض سب سے بڑا انعام ہے یعنی جنت الفردوس حتی کہ بندے سے اپنے لگاؤ کو بھی ماں پیار سے تشبیہ دی ، جب مالک کائنات نے اپنی مخلوق سے 70 ماؤں کے پیار جتنا پیارکرنے کا ارشاد فرمایا ۔ میرے خیال میں ماں اپنے دنیاوی علم ، تخیل ،وجدان اور تخلیق کے مراحل کے تجربے کے باعث اُولاد کے لیے ایک یونیورسٹی کا درجہ رکھتی ہے اور یہیں سے کمال کے وہ مراحل شروع ہوتے ہیں جو بعد میں دنیاوی ، دینی اور عشق مجازی سے لیکر عشق حقیقی تک کے تمام درجات کا راستہ کھولتے ہیں ۔
‎اس بات میں کوئی شک نہی کہ تصوف کی منزلیں طے کرنے ،مالک تک پہنچنے اور عشق رسول کی انتہا اور بلندیوں کو چھونے کے لیے کامل مرشدپاک کا ہونا ایسے ہی ضروری ہے ، جیسے پڑھنے کے لیے اُستاد کا،لیکن ماں اس مرشد پاک کے نہ ہونے پر یا اس وقت تک خدا تعالی کی عنایت سے وہ فریضہ قدرتی طور پر انجام دیتی ہے، جو محسوس بھی نہی ہوتا۔ ماں بیک وقت اُستاد ایک کامل پیر جبکہ کم عمری اور مشکل حالات میں ایک ایسا سہارا ہے جسکا اس دنیا میں کوئی نعم البدل موجود نہی ہے۔
‎اس دنیا میں آپ کا ہر طرح کے رشتوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ باپ دنیا کام کاج اور عزت و شہرت کے حوالے سے اُولاد کی ہر صورت مدد کرتا اور فکرمند رہتا ہے ۔اسے دیکھنے میں بھی ثواب رکھا گیا ہے۔ بیوی اپنے شوہر کی مالی معاملات میں بھی ہاتھ بٹاتی اور اس پر نظر رکھتی ہے۔ بہن بھی بھائیوں پر جان نچھاور کرتی ہیں لیکن صرف ماں ہی ایسی ہستی ہے کہ آپ کہیں بھی ہوں ، جب لوٹیں گے تو سب سے پہلے آپ سے آپ کے کھانے کے بارے میں اس طرح پوچھتی ہے ، جیسے وہ اب بھی ڈیوٹی ادا کر رہی ہو جو اس نے آپ کے پیدا ہوتے وقت آپ کو دودھ پلا کر ادا کی تھی۔ماں تو اولاد کی خوشیوں اور پسند ناپسند کا ہمیشہ خیال رکھتی ہے اور اگر ہوسکے تو اپنے ہاتھ سے اپنے بچوں کو کھانا کھلاتی ہے ، اسی لیے شاعر نے کیا خوب کہا ہے :
‎ ماواں بعد محمد بخشاتے کون کرے رکھوالی
‎پردیس میں ماں کی عدم موجودگی کا احساس آدمی کے اندر جس طرح سرائیت کرجاتا ہے ،اس کے بارے میں صرف اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ اس کے آس پاس ہونے کی خوشبو کی کمی فون کے ذریعے اسکی آواز سے تو پوری نہی ہو سکتی ، لیکن یہ خیال بہرحال حاوی رہتا ہے کہ ماں ہے اور وہ دعائیں کرتی ہے ، لیکن ماں کیا سوچتی ہے ، اس پردیسی اُولاد کے بارے میں ، یہ میرے خیال میں ہماری عقل سے بالاتر بات ہے۔
‎اگر آپ کی ماں زندہ ہے تو آج ہی اس کے قدموں میں لوٹ پوٹ ہو جائیں کیونکہ پتہ نہی وہ کل ہو نہ ہو ۔ اس کے سامنے بڑے بڑے جوان ڈھیر ہوجاتے ہیں اور اسکی دعا کی طاقت سے اس کا اس بے بڑا ثبوت کیا ہو گا کہ خدائے بزرگ وبرتر نے حضرت موسی کلیم اللہ کو ماں کے مرنے کے بعد خبردار کیا کہ اب دھیان کرنا، پیچھے دعائیں کرنے والی ماں موجود نہی ہے ، جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اللہ تعالی ماں کی دعا اور اس کی اُولاد کے پیچھے موجودگی کو انتہائی احسن درجہ دیتے ہیں ۔ ایک ماں ہی تو ہے جس کے دل میں اپنی اُولاد کو ایک نظر دیکھنے کی خواہش ہر وقت موجود رہتی ہے اور جس کی خاطر لوگ ہزاروں میل کی مسافت طے کر کے اپنے وطن جاتے ہیں اور جیسے ہی لوٹتے ہیں ، یہ محسوس کرتے ہیں کہ ماں باپ کو ملنے کے بعد جیسے ایک عظیم فریضہ سرانجام دیا ہو۔ اپنی اُولاد کی منتظر ماں کچھ نہی مانگتی ، یہی اس مضمون کا حاصل ہے کہ وہ کچھ نہ لینے والی ماں جاتے جاتے بھی دعاؤں کا ایک انمول خزانہ آپ کو سونپ جاتی ہے جو آپ کی تامرگ حفاظت کرتا ہے، آپ کی ہلکی سی مسکان اور پیار سے کی ہوئی ایک ذرا سی بات ماں کو خوش کرنے کے لیے کافی ہے اور اگر وہ اس دنیا سے چلی جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے ، جیسے :
‎جھیڑی ہتھیں چھاواں کردی سی اوہ چھاں نہ رہی
‎ ✓ مل جائیں پیار نال کہندی سی اوہ ماں نہ رہی
‎بیرسٹر امجد ملک برطانیہ میں انسانی حقوق کے وکیل ہیں اور اپنی والدہ سے بے انتہا عقیدت رکھتے ہیں ۔ یہ کالم تمام ماؤں کے نام ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں