400

دیکھوں یہ کسی اور کی آنکھیں ہیں کہ مر ی ؟

تنویر قیصر شاہد
مرید حسین میرا ہم جماعت بھی ہے اور بہت پرانا دوست بھی ۔اُس کے والد صاحب بھی ٹیچر تھے اور مرید حسین خود بھی ۔ فرق صرف یہ ہے کہ اُس کے ابا جی پرائمری اسکول کے ٹیچر تھے اور مرید حسین مڈل اسکول میں پڑھاتا ہے ۔ ایف ایس سی فرسٹ ایئر میں میرے یہ دوست اور کلاس فیلو، مرید حسین صاحب نے نظر کی کمزوری، کیمسٹری کی پیچیدگیوں اور میتھ کے پروفیسر کی ڈانٹ ڈپٹ سے تنگ آ کر ایف ایس سی چھوڑ کر ایف اے کرنے کا ارادہ کیا ۔بہت اچھے نمبروں سے ایف اے کیا اور پھر ریگولر بی اے بھی فرسٹ ڈویژن میں پاس کر لیا ۔ اپنے والد صاحب کے ایما پر بی ایڈ کیا۔ تین سال بیکاری کے دھکے کھانے کے بعد بالآخر ایک دور دراز کے سرکاری مڈل اسکول میں ٹیچر کی ملازمت مل گئی ۔ کئی سال بعد میری اُس سے ملاقات ہوئی تو ٹیچر ابن ٹیچر مرید حسین کی حالت خاصی کمزور تھی۔ دو بچے ہو چکے تھے ۔نظر کی کمزوری آخری حدوں میں تھی۔ہم اپنے آبائی شہر کے اُسی کھو کھا ہوٹل میں بیٹھ گئے جہاں کالج کے زمانے میں کبھی کبھار کریم رول کے ساتھ چائے پینے کی عیاشی کرتے تھے ۔کھوکھا اب بھی کالج کی دیوار کے سہارے قائم تھا ۔ برتن بھی ویسے ہی ’’ صاف ستھرے ‘‘ تھے جیسے برسہا برس قبل ہمارے کالج کے دور میں تھے۔ البتہ اُس کا مالک برسوں قبل تہ خاک جا سویا تھا اور اب اُس کا سب سے چھوٹا بیٹا یہ ’’کاروبار‘‘ چلا رہا تھا ۔ میں نے اپنے لاغر اور نہایت دوست سے شرارتاً کہا:’’مرید یا ، توں اجے وی چاء سڑک سٹرک پینا ویں یار ۔ ‘‘وہ کچھ مگر بولا نہیں۔ اُس کی اداسی اور خاموشی مجھے بہت کھلی۔ درد کا مارا بولا : ’’ یار، سکول بہت دور ہے ۔ نظر نہایت کمزور ۔ بچے چھوٹے اور بیوی بیمار ۔ تبادلہ شہر کے قریب نہیں ہوتا ۔ سفارش میری کوئی نہیں ۔‘‘
میرے دل پر گھونسا لگا۔ میں لاہور واپس آیا اور اپنے ایک سیکرٹری تعلیم دوست سے مرید حسین کے تبادلے کیلئے ترلا منت کیا۔کوئی تین ماہ بعد مرید صاحب کا تبادلہ اس کی خواہش کے عین مطابق شہر کے مضافات میں پڑنے والے ایک نزدیکی مڈل اسکول میں ہو گیا ۔ بڑا خوش تھا۔کوئی تین ماہ قبل مرید حسین کی اہلیہ محترمہ کا مجھے فون آیا کہ ان کی نظر تقریباً ختم ہو چکی ہے ، اگر ہو سکے تو اُن کا پتہ کر لیجئے ۔ قصہ لمبا ہے۔مختصر بات یہ ہے کہ اپنے پرانے دوست مرید حسین کو میں لاہور ، راولپنڈی اور ٹیکسلا کے ان سرکاری ہسپتالوں میں لے لے کر خجل خوار ہوتا رہا جہاں سے کچھ رعایت کی ساتھ آنکھوں کا آپریشن یا ایک ضائع شدہ آنکھ دوبارہ مل جائے۔جناب عمران خان کی حکومت نے سرکاری ہسپتالوں کی فیسیں ، ادویات اور آپریشن اتنے مہنگے کر دیئے ہیں کہ غریب بیمار آدمی کی پہنچ سے بہت دُور ہو چکے ہیں۔اس سارے سفر میں مجھے یہ تلخ تجر بہ ایک بار پھر ہوا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں غریب اور بے نوا پاکستانی کیلئے سرکاری ڈاکٹر کی محبت اور تعاون حاصل کرنا تقریباً ناممکن بن چکا ہے ۔ اسلام آباد میں بروئے کار بلند دعوے کرنے والی ایک این جی او کے مالک سے بھی میں نے رابطہ کیا اور مرید حسین کیلئے اعانت چاہی لیکن وہاں سے بھی سوائے لاروں لپاروں کے کچھ نہ مل سکا۔ پھر مجھے پانچ درد مند انسان ملے اور ان کے مالی تعاون سے مرید حسین ایک نجی ہسپتال سے ایک بڑے آپریشن کے بعد دوبارہ ایک آنکھ کی مکمل بینائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔الحمد اللہ ۔ ایک آنکھ بھی اس کے لئے بہت بڑی نعمت ہے مگر یہ کسی کی آنکھ ہے۔عطیہ شدہ آنکھ۔ ایک آنکھ کی نعمت پا کر مرید حسین دنیا جہان کی خوشیوں کے ساتھ گھر پہنچا تو اس نے مجھے احمد فراز کا یہ شعرو ٹس ایپ پر بھیجا:
دیکھوں یہ کسی اور کی آنکھیں ہیں کہ مری ؟
دیکھوں یہ کسی اور کا چہرہ ہے کہ تم ہو؟
لندن سے لاہور آئے اپنے دوست ، عبدالرزاق ساجد، کو راقم نے یہ کہانی تفصیل سے سنائی ۔ دانستہ سنائی کہ وہ ایک خدمت ِ خلق ادارہ (المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ ) کے روح ِرواں ہیں۔پاکستان ، بنگلہ دیس، برما سمیت دنیا کے کئی غریب ممالک میں عسرت زدہ ، مستحق افراد کی آنکھوں کی بیماریوں کے حوالے سے دستگیری کرنے کی عالمی شہرت حاصل کر چکے ہیں۔پاکستان میں وہ اپنے مذکورہ ادارے کے پرچم تلے اب تک ایک لاکھ سے زائد ان غریب افراد میں مکمل علاج کی شکل میں مسرتیں تقسیم کر چکے ہیں جو تنگدستی کے کارن آنکھوں کے امراض سے نجات حاصل کرنے سے قاصر تھے۔مرید حسین کی کہانی سنانے کا واحد مقصد یہ تھا کہ اگر ان کے ادارے کے تحت ان غریب افراد کو جو آنکھوں کی نہایت حساس بیماریوں میں مبتلاہیں، مفت علاج فراہم ہو سکے تو بڑی عظیم خدمت ہو گی۔حکومت نے تو سرکاری ہسپتالوں میں مستحقین کا بھی ہاتھ تھامنے سے صاف انکار کر رکھا ہے ۔بات سن کر عبدالرزاق ساجد صاحب نے کہا : ’’اگر آپ مجھے بروقت مرید حسین کے بارے میں آگاہ کرتے تو یقینا میں ان کی مدد کو فوری پہنچتا۔‘‘گفتگو کے دوران یہ سن کر نہایت مسرت ہوئی کہ لندن سے آئے ہمارے دوست نے اب لاہور میں ایک ایسا ہسپتال تعمیر کر دیا ہے جہاں صرف آنکھوں کے امراض کا جدید اسلوب میں ماڈرن مشینری کے ساتھ علاج ہو گا اور غربیوں کیلئے سارا علاج بھی مفت ہو گا۔اس ہسپتال کا نام ’’ المصطفیٰ آئی ہسپتال ‘‘ رکھا گیا ہے۔المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ انٹرنیشنل کے چیئرمین عبدالرزاق ساجد نے مجھے بتایا۔’’ اللہ کے فضل و کرم سے المصطفیٰ آئی ہسپتال اب آپریشنل ہو چکا ہے ۔ یہ ہسپتال لاہور میں گنگارام ہسپتال کے عقب میںاور سیکنڈری بورڈ آف ایجوکیشن کی عمارت سے متصل واقع ہے ۔ ‘‘
لیکن اتنے بھاری اخراجات اٹھائے گا کون ؟ان سوالوں کے جو حیرت انگیز جوابات عبدالرزاق ساجد نے مجھے بتائے ، راقم اس کی تفصیل لکھنے سے قاصر ہے۔بس اتنا بتانا شائد ضروری ہے کہ اس عظیم کار خیر میں اور ’’ المصطفیٰ آئی ہسپتال ‘‘ کی استواری میں لاہور کی جن مخیر اور درد ِ دل رکھنے والی شخصیات نے بنیادی کردار ادا کیا ہے،ان میں شیخ طارق حمید فضل، شیخ خالدا حمد فضل، شیخ عزیز الرحمن ، شیخ سعد عطا، شیخ احمد عطا کے اسمائے گرامی نمایاں ہیں۔ مجھے یہ مسرت افزا خبر بھی بتائی گئی کہ ’’المصطفیٰ آئی ہسپتال ‘‘ کا باقاعدہ افتتاح آئندہ چند ایام میں کیا جا رہا ہے ۔ اس کی افتتاحی تقریب میں مہمان خصوصی پنجاب کی ایک اہم شخصیت دیرینہ دوست بھی ہیں۔دونوں صاحبان نے بر سہا برس تک برطانوی مسلمانوں کی خدمت بھی کی ہے اور دیارِ فرنگ میں اسلام کا جھنڈا بھی ایک خاص شان سے بلند کئے رکھا ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں