510

خادم ِ اعلیٰ لاہور اور ان کی پڑپوتی


حالیہ کورونا لاک ڈائون سے پہلے وسطی لندن کے ایک پوش ریسٹورنٹ میں میزبان نے میرا تعارف سن رسیدہ ایک خاتون سے کرواتے ہوئے کہا ’ان سے ملیئے یہ بیرونس شریلا فلیڈر ہیں ٹوری پارٹی کی معروف رہنما‘ ہائوس آف لارڈز کی رکن اور ایک بڑا عرصہ تعلیم و تدریس کے شعبہ سے منسلک رہی ہیں‘۔مسٹر ڈیوڈ جونز گذشتہ پندرہ سال سے میرے شناسا ہیں وہ جانتے ہیں کہ میں صحافی ہوں اور میرا آبائی تعلق لاہور سے ہے ، تعارف کرواتے ہوئے ڈیوڈ نے کہا کیا تم جانتے ہو شریلا فلیڈر کے پڑ دادا کا تعلق لاہور سے تھا اور وہ لاہور و پنجاب کے عظیم ترین محسنین میں شمار ہوتے ہیں،ڈیوڈ جونز پاکستان بننے سے پہلے لاہور میں پیدا ہوئے اس لیے انہیں بھی لاہور سے خاص اُنسیت ہے ، جونز نے بتایا کہ شریلا فلیدر سر گنگا رام کی پڑ پوتی ہیں۔ میں یہ سن کر دنگ رہ گیا اور کسی حد تک شرمندہ بھی کہ شریلا فلیدر کو کیا پتا پنجاب یا لاہور کے 95%لوگوں کو تو علم ہی نہیں کہ رائے بہادر سر گنگا رام کون تھے اور پنجاب و خصوصی طور پر لاہور کیلئے ان کی گراں قدر خدمات کیا ہیں اور انہی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں رائے بہادر اور سر کے خطابات کیساتھ ساتھ اس وقت کے بادشاہ انگلستان نے انہیں ملاقات کیلئے بکھنگم پیلس لندن بلایا تھا۔

ماضی کے چند بند دریچے کھولیں تو نظر آئیگا کہ پچھلی حکومت کے خادم اعلیٰ پنجاب شہاز شریف جس ماڈل ٹائون کے مکین تھے سرگنگا رام نے اس کی بنیاد پاکستان بننے سے تقریباً 20سال پہلے رکھی تھی اور لاہر کی پوش آبادی گلبرگ کا منصوبہ بھی سرگنگا رام نے ہی منظور کروایا تھا۔ہمارا المیہ تو یہ ہے کہ ہم اپنے محسنین اور ہیروز کو بھی متعصبانہ انداز میں مذہب ، عقیدے اوررنگ و نسل کے ترازو میں تول کر نفرت کی بھینٹ چڑھا دیتے ہی، اسی لئے قیام پاکستان کے بعد لاہور میں نصب انکا مجسمہ ہٹا دیا گیا لیکن سر گنگا رام بلاشبہ ایک ایسا نام ہے جو پنجاب کا ایک عظیم سپوت ہونے کے ناطے ہمارے آج کے حکمرانوں اور عوام کیلئے قابل تکریم و ستائش ہونا چاہیے کیونکہ گنگا رام اگرچہ حکمران نہیں تھے لیکن انہوں نے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے جو کار ہائے نمایاں انجام دیئے اس پر انہیں آج بھی خراج عقیدت پیش کیا جا نا چاہیے۔رائے بہادر سر گنگا رام ایک انسان دوست شخصیت ، ایک بہترین سول انجینئر اور ایک کاشت کار کے طور پر بھی اپنی مثال آپ تھے وہ لاہور کے قریب قصبہ مانگنا والا میں پیدا ہوئے گورنمنٹ کالج لاہور اور پھر سول انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی ، اُن کے کارنامے پڑھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت کاسارا لاہور ہی سرگنگا رام نے تعمیر کرایا تھا۔مثلاً ایچی سن کالج لاہور کی تعمیر و ڈیزائن لیڈی مینا ر ڈ انڈسٹریل سکول کی تعمیر ، جنرل پوسٹ آفس ،گلبرگ و ماڈل ٹائون کا ڈیزائن ، لاہور میوزیم کا ڈیزائن ، میو ہسپتال کے البرٹ ونگ کی تعمیر ، لیڈی میکیگن گرلز سکول کا ڈیزائن ، راوی روڈ ہائوس فارڈ پیسل پرسنز کی تعمیر ، لیڈی میری نرڈ انڈسٹریل سکول کی تعمیر، رنیالہ خورد پاور ہائوس کی تعمیر اپنے ذاتی خرچ پر کروائی ۔ پٹھانکوٹ سے امر تسر تک ریلوے ٹریک کی تعمیر، اپنے ذاتی خرچ پر تعمیر کیا جانے والا ہائیڈ رولک پلانٹ جیسے ہزاروں میل کے نہری نظام میں بدل کر لاکھوں ایکٹر زمین کو پانی مہیا کیا گیا، انہوںنے حکومت سے 50ہزار ایکٹر زمین لیز پر لی اور صرف تین سال میں 200کلو میٹر کے اس بنجر علاقہ کو سرسبز و شاداب کھیتوں میں بدل دیا ماضی کے منٹگمری اور آج کے ساہیوال کے قریب کا یہ علاقہ آج بھی سر گنگا رام کی کوششوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
سر گنگا رام کا یہ اعزاز بھی ہے کہ وہ جس کالج میں تعلیم حاصل کرتے رہے اسی کالج یعنی گورنمنٹ کالج کا کمسٹری ڈپارٹمنٹ بھی تعمیر کر ایا۔ گنگا رام ٹرسٹ بلڈنگ مال روڈ لاہور کے بعد خدمت انسانی کے جذبہ کے تحت گنگا رام ہسپتال لاہور کا قیام ایک ایسا صدقہ جاریہ ہے جو پنجاب خصوصاً لاہور کے عوام کو گنگا رام کی یاد دلاتا رہے گا ،لیکن افسوس کہ تعصب کی عینک اور تنگ نظری نے ہمیں گنگا رام کو کبھی یاد کرنے دیا نہ بھگت سنگھ کو اور نہ ہی آزادی و انسانیت کے کسی دوسرے محسن کا دن منانے دیا کیونکہ یہ ہمارے مذہب کے نہیں تھے،گذرتے وقت نے ہمارے ہیروز تو بدل دیئے لیکن ہمارے ازبان کی وسعت کی محدود بھی کر دیا، ہم نے اپنے کئی ایک شہروں ، گلیوں اور محلوں کے نام صرف اس لیے تبدیل کر دیئے کہ وہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے نام پر تھے حالانکہ کسی کے نام کی تختی کسی جگہ اس وقت لگائی جاتی ہے جب اس نے کوئی ایسا کام یا خدمت انجام دی ہو جس کا براہ راست تعلق دیگر انسانوں کی بھلائی یا ملکی تعمیر و ترقی کے ساتھ ہو،آج کے ہمارے حکمرانوں کیلئے بھی اس میں ایک سبق ہے کہ اگرچہ سر گنگا رام حکمران و سیاست دان نہیں تھے وہ ’’پی ڈبلیو ڈی ‘‘ کے ملازم تھے انہیں اپنے منصوبوں کیلئے انگریز سر کار سے اجازت لینا پڑتی تھی لیکن ہمارے حکمران تو خود سرکار ہیں۔سرگنگا رام خدمت خلق کا جنون تھا وہ ہر خدمت میں سرخرو رہے انہوں نے لاہور جڑانوالہ ریلوے ٹریک پر گھوڑا ٹرین چلا کر ایک اچھوتا ذریعہ سفر متعارف کروایا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ہمیں اپنے رویوں پر شرمسار ہونا چاہیے کہ بہت سے دیگر قومی ہیروز کی طرح بحثیت قوم ہم نے سر گنگا رام کی بیشمار خدمات کے اعتراف کا رتی برابر بھی حق ادا نہیں کیا کیونکہ مہذب قومیں اور زندہ معاشرے کھلے زمین کیساتھ حقدار کو اس کا حق دینے میں بخل نہیں کرتیں۔کیا اُمید کی جا سکتی ہے کہ ’’ پی ٹی آئی ‘‘کی موجودہ حکومت ماضی کی کوتاہیوں کا ازالہ کرتے ہوئے سر گنگا رام کی لندن میں مقیم پڑپوتی بیرونس شریلا فلیدر کو دورئہ لاہور کی دعوت دے کر ان کے پڑ دادا اولڈ راوینز سر گنگا رام کو خراج عقیدت پیش کر یگی اور ان کے پے پایاں خدمات کو سراہنے کا کوئی اہتمام کرے گی؟جیسے لاہور سے تعلق رکھنے والے لندن کے ایک مستول بزنس مین سلطان حیات نے برطانوی ہائوس آف لارڈز کی رکن شریلا فلیدر کو اپنی سماجی تنظیم ’’لاہور کلب یو کے ‘‘ کی تاحیات پیٹرن انچیف بنا کر سر گنگا رام کی خدمات کا اعتراف کیا ہے !!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں