489

تصویرِعشق و مستی ،مولانا رومی


’’جب میں مر جاؤں، تو میرا مزار زمین پر نہیں، بلکہ لوگوں کے دلوں میں ڈھونڈنا‘‘۔یہ مولانا جلال الدین رومی کی قبر کے کتبے پر لکھی ہوئی عبارت ہے؛ ایک ایسی پیشنگوئی، جو 13 ویں صدی سے اب تک درست ثابت ہوتی رہی ہے۔ میں نے مولانا کے مزار پر حاضری کے وقت واقعی ان کے مزار کو اپنے دل میں دیکھا جس کا نقش اب تا عمر نہ مٹے گا۔ دراصل مجھے خوش قسمتی سے مولانا کے عرس میں شرکت کا موقع ملا تھا جہاں اس موقع پر دنیا بھر لاکھوں لاکھ افراد شرکت کرتے ہیں۔ عرس کے موقع پر صوفی رقص کی محفل میں بھی شرکت کی سعادت ملی جو میرے لیے انتہائی متاثر کن تھی …… کہیں کوئی ہلہ گلہ نہ تھا اور نہ ہی کسی قسم کی بد نظمی …ادب و احترام ایسا کہ لوگ باوضوہو کر محفل میں آتے اور ذکر اللہ کرنے میں مصروف ہو جاتے۔ 17 دسمبر کو عرس کی تقریبات شروع ہوئیں تو سردی کا یہ عالم تھا کہ سارا دن برف باری ہوتی رہی لیکن لوگوں کے ذوق شوق میں ذرہ برابر کمی نہ دیکھنے میں آئی ۔معاً مجھے سلطان العارفین حضرت سلطان باہو کا شعر یاد آگیا کہ
میں قربان تنہاں تھیں باہو ،قبر جنہاں دی جیوے ہو
جی ہاں کچھ لوگ ،جو قبروں میں زندہ ہیں انکی قبور بھی جیتی ہیں …… دنیا میں کتنے نمرود ، فرعون ،ہامان اور شداد جیسے طاقتور بادشاہ حکمران گزرے لیکن ان کا نام و نشان تک مٹ چکا …. لیکن جو اللہ کے ہو گئے اور اس کی مخلوق سے پیار کرتے رہے ان کا ذکر و چرچا ہر آنے والے دن کے ساتھ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے ۔ اسلام بے شک صوفیا نے دنیا بھر میں پھیلایا ورنہ انڈو نیشیا میں کون سا فاتح گیا تھا ؟ صوفیا کا نام ہمیشہ سے زندہ ہے تو اس لیے کہ ان پاکباز ہستیوں نے نفرت کی بجائے محبت کو فروغ دیا جو بھی ان کے پاس آیا مذہب سے بالا تر ہو کر سب کو محبت سے نواز، ان کو پیار دیا اور کوئی شک نہیں اقبال کے اس فرمان میں بھی کہ ’’ محبت فاتح عالم ‘‘ ۔مولانا روم کے متعلق مشہور ھے کہ وہ انسانیت کے صوفی ہیں ، یہی وجہ کے مولانا کے مزار پرہر رنگ ونسل کے لوگ نظر آتےہیں۔
آیئے مولانا کی حیات پرتھوڑی نظر ڈالتے ہیں کہ ان کے علو مرتبت کو دیکھتے ہوئے ان سے اسی عشق و محبت کا کچھ حصہ حاصل کریں جس کے وہ عمر بھر داعی رہے۔ لیکن ٹھہر یے مولانا ہمارےہیں …… ہم تو ان کی تعریف و توصیف کریں گے ہی کیا لطف ہو کہ مولاناکے بارے میں ان کےتاثرات سے استفادہ کیا جائے جنہوں نے اب جاکر مولانا کا کلام دوسری زبانوں میں ترجمہ کر کے پڑھا اور ان کی مدح سرائی میں رطب اللسان ہیں ۔
یہ بات شائد بہت سے لوگوں کے لیے باعث حیرت ہو کہ قرون وسطیٰ کے فارسی صوفی شاعرمولانا جلال الدین محمد رومی کی سرمستی میں ڈوبی شاعری کی لاکھوں کاپیاں گزشتہ برسوں کے دوران امریکہ اور دنیا بھر میںسب سے زیادہ فروخت ہوئیں اور ہو رہی ہیں۔مولانا سنہ 1207ء بمطابق 6 ربیع الاول 604ھ بلخ میں پیدا ہوئے اور آج دنیا بھر میں ان کے پرستاروں کی کوئی کمی نہیں بلکہ انکی تعداد بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔رومی کی سوانح’’ ‘سیکریٹس آف رومی‘‘ کے مصنف بریڈ گوچ کاکہنا ہے کہ ’’ان کی شخصیت صدیوں سے اسی قدر بلند و بالا اور جاذبِ نظر ہے۔‘‘ گوچ مزید کہتے ہیں کہ ‘رومی کی زندگی کا نقشہ 2500 میل پر محیط ہے۔مولانا رومی نے اپنی جائے پیدائش بلخ سے سفر شروع کیا، یہ جگہ اب افغانستان میں ہے۔ وہاں سے ازبکستان کے شہر ثمرقند سے ہوتے ہوئے ایران اور شام گئے جہاں دمشق اور حلب میں انھوں نے اپنی جوانی کے عالم میں تعلیم حاصل کی۔ان کا آخری پڑاؤ ترکی میں قونیہ تھا جہاں رومی نے اپنی زندگی کے آخری 50 سال گزارے۔ آج رومی کے مقبرے پر ہر سال 17 دسمبر کو ان کی وفات کی برسی کے موقع پر درویشوں کی تقریب کے لیے عقیدت مند اور سربراہان مملکت جمع ہوتے ہیں۔
مولانارومی کی زندگی میں سنہ 1244 میں ایک ایسا لمحہ آیا جس نے ان کی زندگی کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ان کی ملاقات ایک آزاد منش صوفی شاہ شمس تبریز سے ہوئی۔گوچ کہتے ہیں: ‘اس وقت 37 سالہ رومی اپنے باپ دادا کے نقش قدم پر روایتی مسلمان مبلغ اور عالم تھے۔ لیکن ان دونوں میں برقی دوستی تین سال تک قائم رہی ….رومی صوفی ہو گئے۔ تین سال بعد شمس غائب ہوگئےاور ممکنہ طور پر رومی کو ہجر کا ایک اہم سبق سکھا دیا۔رومی نے شعر سے اس ہجر کا مقابلہ کیا۔ ‘ان کی تمام تر تصانیف 37 سے 67 سال کی عمر تک کی ہیں۔ اس میں شمس، پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ اور اللہ کے لیے انھوں نے تقریباً 3000 غزلیں(حمد اور نعتیں)لکھیں، دو ہزار رباعیات اور قطعات جبکہ چھ جلدوں میں روحانی رزمیہ مثنوی لکھی۔ان برسوں کے دوران رومی نے شاعری، موسیقی اور رقص کو مذہبی عمل میں شامل کر دیا۔ گوچ کہتے ہیں کہ ‘رومی جب مراقبے میں جاتے یا شعر کہتے تو ایک انداز میں رقص کرتے اور گھوم کر اسے لکھواتے۔ اسے بعد میں ان کی وفات کے بعد پروقار استغراق والے رقص کے طور پر بنایا گیا اور جیسا کہ خود رومی نے اپنی 2351 ویں غزل میں لکھا ہے۔ ‘میں دعائیں کرتا تھا، اب میں شعر، نظم اور گيت پڑھتا ہوں۔
مولانا کی وفات کے سینکڑوں سال بعد بھی اب تک رومی کے کلام کو پڑھا جاتا ہے، اس کا ورد کیا جاتا ہے، اسے موسیقی کے ساتھ گایا جاتا ہے، اور ناولوں، نظموں، موسیقی اور فلموں کے لیے اس سے تحریک حاصل کی جاتی ہے، اس کے تعلق سے یوٹیوب ویڈیوز اور ٹویٹس کے طور پر ان کے قول سامنے آتے ہیں۔ گوچ بھی رومی سیکریٹس کے تحت ٹویٹ کرتے ہیں۔ رومی کا کلام آخر اتنے عرصے تک کیونکر زندہ ہے؟گوچ کہتے ہیں: ‘وہ خوشی اور محبت کے شاعر ہیں۔ ان کا کلام شمس کی جدائی اور محبت اور خالق اور موت کی یاد کے نتیجے میں سامنے آتا ہے۔ رومی کا پیغام تمام طرح کی سرحدوں کو عبور کرتا ہے اور بات چیت کرتا ہے۔ ناروپا یونیورسٹی میں شعریات کی پروفیسر اور شاعرہ اینی والڈ مین کہتی ہیں کہ ‘رومی ہمارے زمانے کے بہت ہی پراسرار اور اشتعال انگیز شاعر اور شخصیت ہیں، کیونکہ جب ہم صوفی روایت کو سمجھنے (اور) وجد و سرمستی اور عقیدت کی نوعیت اور شاعری کی طاقت کو سمجھنے کے لیے نکلتے ہیں تو وہ ہمیں جکڑ لیتے ہیں۔پوئٹس ہاؤس کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور امریکہ میں رومی پر نیشنل لائبریری سیریز کی مشترک سپانسر لی برائیسیٹی کہتی ہیں کہ ‘وقت، جگہ اور ثقافت کی قیود سے باہر رومی کی نظمیں اپنی جاودانی کا ثبوت فراہم کرتی ہیںاور وہ ہمیں ہماری اپنی محبت کو تلاش کرنے اور روزمرہ کی زندگی کی خوشی کو سمجھنے میں ہماری مدد کرتے ہیں۔وہ رومی کے کلام کا موازنہ اس کی ‘گونج اور خوبصورتی کے لحاظ سے شیکسپیئر سے کرتی ہیں۔
رومی کے کلام کو ترجمہ کرکے امریکہ میں روشناس کروا کر نشاۃِ ثانیہ پیدا کرنے والے اور امریکہ میں رومی کو ’بیسٹ سیلنگ‘ کا درجہ دلوانے والے کولمین بارکس بتاتے ہیں کہ رومی کو دوام اس لیے نصیب ہے کیونکہ ‘ان کے تخیل کی حیرت انگیز تازگی ہے اور اس سے پیدا ہوتی ہوئی شدید آرزو ہے، ان کے حس مزاح اور ان کے کھیل میں بھی عقل و دانش مندی کی باتیں پوشیدہ ہوتی ہیں۔سنہ 1976 میں شاعر رابرٹ بلائی نے بارکس کولمین کو کیمبرج کے اے جے آربری کے رومی کے ترجمے کی ایک نقل پیش کی اور کہا: ‘ان اشعار کو پنجروں سے رہا کرنے کی ضرورت ہے۔ بارکس نے انھیں سخت تعلیمی زبان سے نکال کر امریکی طرز کی آزاد نظم کے قالب میں ڈھال دیا۔ تب سے بارکس نے تراجم کی 33 سالوں میں 22 جلدیں تیار کر ڈالیں جن میں ‘دی ایسنشیئل رومی، اے ایئر ود رومی ، رومی: دی بگ ریڈ بک اور رومی کے والد کی روحانی ڈائری، دی ڈراونڈ بک، شامل ہیں اور یہ تمام کتابیں ہارپر ون نے شائع کی ہیں۔ اس کی 20 لاکھ سے زیادہ کاپیاں فروخت ہوئی ہیں اور 23 زبانوں میں ان کا ترجمہ کیا گیا ہے۔
بارکس کا کہنا ہے کہ ‘مجھے لگتا ہے ابھی ایک مضبوط عالمی تحریک چل رہی ہے، ایک ایسا جذبہ بیدار ہے جو فرقہ وارانہ تشدد اور مذہب کی قائم کردہ حدود کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تمام مذاہب کے لوگ 1273 میں رومی کے جنازے میں آئے تھے کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ وہ ہمارے عقیدے کو پختہ کرتے ہیں۔ ان کی اپیل میں یہ ایک طاقتور عنصر ہے۔رٹگرز یونیورسٹی میں قرون وسطیٰ کے تصوف کے سکالر اور رومی کے ایوارڈ یافتہ مترجم جاوید مجددی کہتے ہیں: ‘رومی فارسی شاعروں میں ایک تجرباتی جدت پسند تھے اور وہ ایک صوفی پیر تھے۔ صوفیانہ خیالات کو جرات مند شاعرانہ لباس میں پیش کرنا آج ان کی مقبولیت کی کلید ہے۔
مزارِ مولانا روم ایک میوزیم کی صورت میں موجود ہے جس کا رقبہ 18000 مربع میٹر ہے جو درگاہ حضرت مولانا، مسجد، درویشوں کے کمرے، لائبریری، تبرکات کے کمرے، سماع ہال، مطبخ، وسیع لان، صحن، باغیچہ اور دفاتر پر مشتمل ہے۔ مولانا میوزیم روزانہ صبح 9 بجے سے شام 6 بجے تک بغیر وقفہ کے کھلا ر رہتا ہے اور اس میں داخلے کے لیے ٹکٹ لینا ضروری ہے۔قافلہ سالار عشق حضرت مولانا جلال الدین رومی نے شہر قونیہ (ترکی) کو اپنا دائمی مسکن بنایا جو ترکی کے مشہور تاریخی شہر استنبول سے 665 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ حضرت مولانا رومی فرماتے ہیں کہ قونیہ شہر کو ہم نے مدينة الاولياء کا لقب دے دیا ہے اس شہر میں ولی پیدا ہوتے رہیںگے۔ ترکی کے اسی خوبصورت ودلکش شہر میں حضرت مولانا جلال الدین رومی کا مزار مبارک موجود ہے۔حضرت مولانا جلال الدین رومی کا مزار مبارک خوبصورت ودلکش اور ڈیزائن کے لحاظ سے ایک منفرد مزار مبارک ہے، ظاہری خوبصورتی اور جاہ وجلال کے علاوہ انوار و تجلیات کے بھی کیا کہنے۔ حضرت مولانا روم کے مزار مبارک کے ایک حصہ میں شیشے کی ایک الماری میں حضرت مولانا روم کے تبرکات محفوظ ہیں جن میں حضرت مولانا روم کا لباس مبارک، حضرت مولانا کی جائے نماز، کندھے پر ڈالنے والا رومال، مولانا کی تین ٹوپیاں اور دو عدد جبے سرفہرست ہیں۔ قونیہ میں ان کا مزار آج بھی عقیدت مندوں کا مرکز ہے۔
علامہ محمد اقبال مولانا رومی کو اپنا روحانی پیر مانتے تھے۔ اس کا عکس ان کی نظم ‘پیر و مرید (بالِ جبریل، 1935) میں دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ علامہ اقبال اور مولانا رومی کے درمیان اردو اور فارسی میں لکھا گیا ایک تخیلاتی مکالمہ ہے، اور ایک شعر میں اقبال (مرید) رومی (پیر) کو کہتے ہیں: ‘آپ خدا کے چاہنے والوں کے سردار ہیں؛ مجھے آپ کے الفاظ یاد ہیں
ترک حکومت اقبال کے مولانا سے عشق و عقیدت سے آگاہ ہے چنانچہ اس نے سنہ 65 میں لاہور سے علامہ کی قبر سے تھوڑی سے مٹی لیکر اور مولانا روم کے مزار کے احاطے میں علامہ اقبال کی علامتی قبر بنادی ،محبتوں کے رشتے کبھی ختم نہیں ہوتے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں