402

دین اسلام میں نماز کی اہمیت


صلوٰۃ (نماز کے لغوی معنی “دعا” کے ہیں۔ قرآن میں فرمانِ اللہ ہے ۔خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
اے پیغمبر! ان لوگوں کے اموال میں سے صدقہ وصول کرلو جس کے ذریعے تم انہیں پاک کردو گے اور ان کے لیے باعثِ برکت بنو گے، اور اُن کے لیے دعا کرو۔ یقینا! تمہاری دعا ان کے لیے سراپا تسکین ہے، اور اللہ ہر بات سنتا اور سب کچھ جانتا ہے
فلسفۂ نماز
اسلامی قوانین اور دساتیر کے مختلف اور متعدد فلسفے اور اسباب ہیں جن کی وجہ سے انہیں وضع کیا گیا ہے۔ ان فلسفوں اور اسباب تک رسائی صرف وحی اور معدن وحی کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ قرآن مجید اور معصومین علیہم السلام کی احادیث میں بعض قوانین اسلامی کے بعض فلسفہ اور اسباب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ انہیں دستورات میں سے ایک نماز ہے جو ساری عبادتوں کا مرکز، مشکلات اور سختیوں میں انسان کے تعادل و توازن کی محافظ، مومن کی معراج، انسان کو برائیوں اور منکرات سے روکنے والی اور دوسرے اعمال کی قبولیت کی ضامن ہے۔ اللہ اس سلسلہ میں ارشاد فرماتے ہیں
اسلامی حق کے علاوہ کہ جو مسلمان اسلام کی وجہ سے ایک دوسرے کی گردن پر رکھتے ہیں ایک دوسرا حق بھی ہے جس کو انسانی حق کھا جاتا ہے جو انسانیت کی بنا پر ایک دوسرے کی گردن پر ہے۔ انہیں انسانی حقوق میں سے ایک حق، دوسروں کی محبت اور نیکیوں اور احسان کا شکر یہ اداکرنا ہے اگر چہ مسلمان نہ ہوں۔ دوسروں کے احسانات اور نیکیاں ہمارے اوپر شکریے کی ذمہ داری کو عائد کرتی ہیں اور یہ حق تمام زبانوں، ذاتوں، ملتوں اور ملکوں میں یکساں اور مساوی ہے۔ لطف اور نیکی جتنی زیادہ اور نیکی کرنے والا جتنا عظیم و بزرگ ہو شکر بھی اتنا ہی زیادہ اور بہتر ہونا چاہیے۔
کیا خدا سے زیادہ کوئی اور ہمارے اوپر حق رکھتا ہے؟ نہیں۔ اس لیے کہ اس کی نعمتیں ہمارے اوپربے شمار ہیں اور خود اس کا وجود بھی عظیم او ر فیاض ہے۔ خدا وند عالم نے ہم کو ایک ذرے سے تخلیق کیا اور جو چیز بھی ہماری ضروریات زندگی میں سے تھی جیسے، نور و روشنی، حرارت، مکان، ہوا، پانی، اعضاء و جوارح، غرائز و قوائے نفسانی، وسیع و عریض کائنات، پودے و نباتات، حیوانات، عقل و ہوش اور عاطفہ و محبت وغیرہ کو ہمارے لیے فراہم کیا۔
ہماری معنوی تربیت کے لیے انبیاء کو بھیجا، نیک بختی اور سعادت کے لیے آئین وضع کیے، حلال و حرام میں فرق واضح کیا۔ ہماری مادی زندگی اور روحانی حیات کو ہر طرح سے دنیاوی اور اخروی سعادت حاصل کرنے اور کمال کی منزل تک پہنچنے کے وسائل فراہم کیے۔ خدا سے زیادہ کس نے ہمارے ساتھ نیکی اور احسان کیا ہے کہ اس سے زیادہ اس حق شکر کی ادائیگی کا لائق اور سزاوار ہو۔ انسانی وظیفہ اور ہماری عقل و وجدان ہمارے اوپر لازم قرار دیتی ہیں کہ ہم اس کی ان نعمتوں کا شکر ادا کریں اور ان نیکیوں کے شکرانہ میں اس کی عبادت کریں اور نماز ادا کریں۔ چونکہ وہ ہمارا خالق ہے، لہذا ہم بھی صرف اسی کی عبادت کریں اور صرف اسی کے بندے رہیں اور مشرق و مغرب کے غلام نہ بنیں۔
نماز خدا کی شکر گزاری ہے اور صاحب وجدان انسان نماز کے واجب ہونے کو درک کرتا ہے۔ جب ایک کتے کو ایک ہڈی کے بدلے میں جو اس کو دی جاتی ہے حق شناسی کرتا ہے اور دم ہلاتا ہے اور اگر چور یا اجنبی آدمی گھر میں داخل ہوتا ہے تو اس پر حملہ کرتا ہے تو اگر انسان پروردگار کی ان تمام نعمتوں سے لاپرواہ اور بے توجہ ہو اور شکر گزار ی کے جذبہ سے جو نماز کی صورت میں جلوہ گر ہوتا ہے بے بہرہ ہو تو کیا ایسا انسان قدردانی اور حق شناسی میں کتے سے پست اور کمتر نہیں ہے؟
قرآن پاک میں فرمایا،ترجمہ:’’ اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے مدد چاہو، بے شک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ (سورۃ البقرہ 153)
جب بھی کوئی پریشانی یا مصیبت سامنے آئے تو مسلمان کو چاہئے کہ وہ اس پر صبر کرے اور نماز کا خاص اہتمام کرکے اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کرے۔حضور اکرمؐ بھی ہر پریشانی کے وقت نماز کی طرف متوجہ ہوتے جیسا کہ حدیث میں ہے: حضرت حذیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ؐ کو جب بھی کوئی اہم معاملہ پیش آتا، آپؐ فوراً نماز کا اہتمام فرماتے۔ (ابو داؤد ومسند ا حمد)۔
نبی اکرم ؐ پانچ فرض نمازوں کے علاوہ نمازِ تہجد، نمازِ اشراق اور نمازِ چاشت کا بھی اہتمام فرماتے اور پھر خاص خاص مواقع پر اپنے رب کے حضور توبہ واستغفار کے لئے نماز ہی کو ذریعہ بناتے۔ سورج گرہن یا چاند گرہن ہوتا تو مسجد تشریف لے جاتے۔ زلزلہ، آندھی یا طوفان حتیٰ کہ تیز ہوا بھی چلتی تو مسجد تشریف لے جاکر نماز میں مشغول ہوجاتے۔ فاقے کی نوبت آتی یا کوئی دوسری پریشانی یا تکلیف پہنچتی تو مسجد تشریف لے جاتے۔ سفر سے واپسی ہوتی تو پہلے مسجد تشریف لے جاکر نماز ادا کرتے۔اس لئے ہمیں بھی چاہئے کہ نماز کا خاص اہتمام کریں۔ اور اگر کوئی پریشانی یا مصیبت آئے تو نمازوں کی ادائیگی اور صبر کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں، یہ چیز شاق وبھاری ہے مگر اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کیلئے مشکل نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمادیا کہ’’ میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم نماز قائم رکھوگے اور زکوٰۃ دیتے رہوگے۔‘‘ (سورۃ المائدہ 12)
(وضاحت) یعنی نماز کی پابندی کرنے سے بندہ اللہ تعالیٰ کے بہت زیادہ قریب ہوجاتاہے جیسا کہ نبی اکرم ؐنے فرمایا ’’بندے کو اللہ تعالیٰ کا سب سے زیادہ قرب سجدے کی حالت میں حاصل ہوتا ہے۔‘‘ غرض اللہ تعالیٰ کے احکام کو بجا لانے، خاص کرنماز کا اہتمام کرنے سے اللہ تعالیٰ بندے کے ساتھ ہوجاتا ہے۔ اسی لئے قرآن پاک میں فرمایا گیا، ترجمہ ’’یقیناًان ایمان والوں نے فلاح (کامیابی) پائی جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں اور جو اپنی نمازوں کی خبر رکھتے ہیں، یہی وہ وارث ہیں جو (جنت) الفردوس کے وارث ہوں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘ (سورۃ المومنون 1۔ 11)
ان آیات میں کامیابی پانے والے مومنین کی 6 صفات بیان کی گئی ہیں: پہلی صفت، خشوع وخضوع کے ساتھ نمازیں ادا کرنا اور آخری صفت نمازوں کی پوری طرح حفاظت کرنا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نماز کا اللہ تعالیٰ کے پاس کیا درجہ ہے اور کس قدر مہتم بالشان چیزہے کہ مومنین کی صفات کو نماز سے شروع کرکے نماز ہی پر ختم فرمایا۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ یہی وہ لوگ ہیں جو جنت کے وارث یعنی حق دار ہوں گے، جنت بھی جنت الفردوس جو جنت کا اعلیٰ حصہ ہے جہاں سے جنت کی نہریں جاری ہوتی ہیں۔ غرض جنت الفردوس کو حاصل کرنے کیلئے نماز کا اہتمام بے حد ضروری ہے۔
ترجمہ: ’’بے شک انسان بڑے کچّے دل والا بنایا گیا ہے جب اسے مصیبت پہنچتی ہے تو ہڑبڑا اٹھتا ہے اور جب راحت ملتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے، مگر وہ نمازی جو اپنی نمازوں کی پابندی کرتے ہیں اور جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ یہی لوگ جنتوں میں عزت والے ہوں گے۔‘‘ (سورۃ المعارج 19۔35)
(وضاحت) ان آیات میں جنتیوں کی8 صفات بیان کی گئی ہیں جن کو نماز سے شروع اور نماز ہی پرختم کیا گیاہے۔ معلوم ہوا کہ نمازاللہ کی نظر میں کس قدر مہتم بالشان عبادت ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں