136

انسدادِاسلاموفوبیاڈےاور عمران خان


در اصل اسلاموفوبیا (اسلام ہراسی) لفظ ’اسلام‘ اور یونانی لفظ ’’فوبیا‘‘ (یعنی ڈر جانا) کا مجموعہ ہے۔ اکثر غیر مسلموں کو اسلام کے خلاف بھڑکایا جاتا ہے جسکی وجہ سے ان کے دلوں میں اسلام کا خوف داخل ہوتا ہےجسےاسلاموفوبیاکہاجاتاہے۔اسلاموفوبیا (Islamophobia) یعنی اسلام سے دشمنی یا اسلام کا خوف۔ یہ نسبتاً ایک جدید لفظ ہے جو اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے تیار کیا گیا۔ جس کا مفہوم بے جا طرفداری، نسلی امتیاز اور لڑائی کی آگ بھڑکانا طے کیا گیا ہے۔ بہت سارے لوگوں نے اس کی شناخت یہ بھی کرائی ہے کہ یہ لفظ مسلمان یا پھر ان کی شدت پسندی کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ اس اصطلاح کا استعمال 11 ستمبر 2001 کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ڈرامائی حملوں کے بعداس کثرت سےاستعمال ہو اور کیا گیا۔
26 ستمبر 2018ء کو یورپی پارلیمان نے برسلز میں انسدادِ اسلاموفوبیا ٹول کٹ کا اجرا کیا اور مختلف حکومتوں، سماجی تنظیموں، میڈیا اور دیگر قانون بنانے والوں میں تقسیم کیا گیا۔ اس اقدام کا مقصد اسلاموفوبیا سے لڑنا اور اس کے بڑھتے اثرات کو ختم کرنا تھا۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 15 مارچ کو عالمی یوم انسداد اسلاموفوبیا قرار دینے کے لئے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی جانب سے پاکستان کی پیش کردہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی۔اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے کہا کہ اسلاموفوبیا ایک حقیقت ہےاور جنرل اسمبلی کے 193 اراکین نے نشان دہی کی کہ یہ فینومینا بڑھ رہا ہے اور اس کا ازالہ کیا جانا چاہیے۔قرارداد متفقہ طور پر منظور ہونے کے بعد کئی ممالک نے اس کو سراہا لیکن بھارت، فرانس اور یورپی یونین کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا اور کہا کہ دنیا بھر میں مذہبی عدم برداشت موجود ہے لیکن صرف اسلام کو الگ کر کے پیش کیا گیا اور دیگر کو خارج کردیا گیا ہے۔
دریں اثناء وزیر اعظم عمران خان نے سماجی رابطے کی ایک ویب سائٹ پر کہا ہے کہ’’میں آج امتِ مسلمہ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ اسلاموفوبیا کی بڑھتی ہوئی لہر کے خلاف ہماری آواز سنی گئی اور 15 مارچ کو اسلاموفوبیا کے تدارک کے عالمی دن کے طور پر مقرر کرتے ہوئے اقوام متحدہ نے او آئی سی کی ایماء پر پاکستان کی پیش کردہ تاریخی قرارداد منظور کی۔‘‘ اور’’اقوام متحدہ نے بالآخر آج دنیا کو درپیش اسلاموفوبیا، مذہبی آثار و رسومات کی تعظیم، منظم نفرت انگیزی کے انسداد اور مسلمانوں کے خلاف تفریق جیسے بڑے چیلنجز کا اعتراف کیا۔اس تاریخی قرار داد کا نفاذ یقینی بنانا اب اگلا امتحان ہے۔‘‘
کوئی مانے یا نہ مانے یہ سہرا وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے سر جاتا ہے جنہوں نےدنیا کے ہر فورم پر اسلاموفوبیا کے خلاف ایک مضبوط موقف اپنایا اور دنیا کو اس کے مضمرات سے آگاہ کیا ۔پاکستانی سفیر منیر اکرم نے ابتدائی کلمات میں کہا کہ اسلاموفوبیا کے نتائج نفرت انگیز تقریر، امتیاز اور مسلمانوں کے خلاف جرائم ہیں اور یہ دنیا کے کئی خطوں میں پھیل رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ مسلمانوں اور کمیونیٹیز کے ساتھ تفریق، دشمنی اور تشدد جیسے اقدامات ان کے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی اور ان کی مذہبی آزادی اور عقائد کے خلاف ہیں،جسکے نتیجے میں اسلامی دنیا میں شدید تکلیف محسوس کی جارہی ہے۔
قرار داد میں مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر لوگوں پر ہر قسم کے تشدد کے عمل اور عبادت گاہوں، مزاروں سمیت مذہبی مقامات پر اس طرح کے عمل کو سختی سے ناپسند کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ اس قرار داد کا اتفاق رائے سے پاس ہونا قابل تحسین ہے اور ایک طرح سے9/11 (نیویارک میں ٹوئن ٹاور پر حملے) کے بعد دنیا میں بدلتے ہوئے انداز فکر کی غماز ہے اور ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہیں۔
اس دنیا کو جو ایک عالمی گاؤں میں بدل چکی ہے، انسانوں کے رہنے کے قابل بنانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ہمیں یہ بھی احساس ہے کہ کچھ ملکوں اور ممبروں نے اس قرارداد کے اتفاق رائے سے پاس ہونے کے باوجود تحفظ کا بھی اظہار کیا اور اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ دنیا بھر میں مذہبی عدم برداشت موجود ہے لیکن صرف اسلام کو الگ پیش کیا گیا اور دیگر کو نہیں۔اس کے باوجود کہ ہم اسلاموفوبیا کے خلاف متفقہ قرار داد پاس ہونے کی بھرپور ستائش کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جس طرح سے اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا اس میں اس طرح کی قرارداد پاس ہونا ضروری تھا اور ایسا نہیں کہ اسلاموفوبیا کے نتیجے میں جو دل شکنی گزشتہ دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے دنیا بھر میں مسلمانوں کی ہوئی ہے، افغانستان، عراق، لیبیا، یمن اور شام میں انسانی جانوں کی جو پامالی ہم نے دیکھی ہے اس میں اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا تھا کہ عالمی سطح پر اس سے توبہ کی جائے۔
روس کے صدر سے نیوزی لینڈ کی وزیراعظم تک نے اس سلسلے میں جن خیالات کا اظہار کیا اس کے بعد ایسی قرار داد پاس ہونا ناگزیر تھا۔ اب جہاں تک فرانس، یورپی یونین اور ہندوستان کے تحفظات کا معاملہ ہے، اسی طرح کی قرارداد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مشترکہ طور پر تمام مذاہب عالم کے حق میں پاس کی جائے۔ کیوں کہ مذہب کوئی بھی ہو وہ اس کے ماننے والوں کے لئے عقیدت کا مرکز و محور ہوتا ہے۔اس مذہب سے جڑی ہوئی ماورائی قوت/قوتوں، صاحب تقدیس بزرگوں، متبرّک صحیفوں اور مقدس مقامات کی کسی طرح کی توہین کو برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔ ہمارا یہ موقف ایک مسلمان کی حیثیت سے قرآن کریم کی بنیاد پر ہے جو کہ ہمیں وحدتِ الٰہ اور وحدتِ آدمؑ دونوں سے متعارف کراتا ہے اور ساتھ میں یہ بھی کہتا ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں، دوسروں کے خداؤں کو برا مت کہو اور تمہارا دین تمہارے لئے ہے اور میرا دین میرے لئے ہے۔اس لئے ہم اس کو مناسب سمجھتے ہیں کہ مجلس اقوامِ متحدہ کیوں کہ سارے دنیا کے بسنے والوں کی نمائندہ تنظیم ہے اس لئے اسے ایک اور قرار داد اسی طرح کی بقیہ مذاہب کے بارے میں بھی پاس کرنی چاہیے۔ ساتھ ہی دنیا بھر کی حکومتوں کو بھی اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ان کے ہاں بسنے والوں میں کسی کی مذہب کی بنیاد پر توہین اور دل آزاری نہ ہو ۔ انہیں رہنے سہنے، چلنے پھرنے، اپنی پسند کے کاروبار کرنے، کیا کھائیں کیا پئیں، کیا اوڑھیں کیا بچھائیں، اس کی پوری آزادی ہونی چاہیے۔اس سے ان کے ملک میں بھی خیرسگالی اور ہم آہنگی کا ماحول پیدا ہوگا اور وہ اس دنیا اور اس دنیا کے بنانے والے کے سامنے بھی سرخ رو ہوں گے۔
اس موقع پر ہمارے لیے بھی یہ لمحہ فکریہ ہے کہ مسلمان دنیا میں خیرِ امّت بنا کر بھیجے گئے ہیں لیکن کیا وہ واقعی اس کا حق ادا کر رہے ہیں؟یہ ایک سوال ہے جس کا جواب ہمیں دینا ہی چاہیے اور اگر اپنے معاملات اور پالیسیوں میں کوئی تبدیلی لانی ہے تو اس کے لئے ابھی سے کوشش کرنی چاہیے۔ امید ہے کہ مجلس اقوام متحدہ ایک منصفانہ، متوازن اور غیرجانبدار رویہ اپناتے ہوئے دنیا بھر میں لوگوں کی صلاح اور فلاح کے لئے اپنے اثر و نفوذ کو بڑھائے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں